جاپان کو پاکستانی آم کی پہلی برآمد 600 کلو آم بھیج دیا گیا
ویپر ہاٹ ٹریٹمنٹ کی محدود گنجائش کے سبب 1600سے 1700کلو آم ہی برآمد کیا جاسکے گا
جاپان کو اب تک 600 کلو گرام آم ایکسپورٹ کیا جاچکا ہے، ویپر ہاٹ ٹریٹمنٹ کی محدود گنجائش کے سبب اس سال 1600سے 1700کلو گرام آم ہی ایکسپورٹ کیا جاسکے گا۔
ٹیکسٹائل کے شعبے سے شہرت حاصل کرنے والے ایک پاکستانی گروپ نے بھی ہارٹی کلچر انڈسٹری بالخصوص پھلوں کی برآمدات میں نفع دیکھتے ہوئے آم کی برآمدات شروع کردی ہیں۔ اس گروپ کے تحت اب تک جاپان کو 2کنسائنمنٹس ایکسپورٹ کی جاچکی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ محدود گنجائش کے پلانٹ سے 4گھنٹے میں پچاس کلو آم پراسیس کیا جاتا ہے اور 12گھنٹے کے دوران تین بیج پراسیس کیے جانے پر بھی 80کلو گرام آم کو جاپانی معیار کے مطابق بنایا جاتا ہے، اس محدود گنجائش کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے پراسیس کی لاگت اور فریٹ مہنگا پڑنے کی وجہ سے منافع کی شرح انتہائی محدود ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ جاپان کو آم 4 ڈالر فی کلو گرام قیمت پر ایکسپورٹ کیا جارہا ہے جبکہ ایک کلو آم کی پراسیسنگ پر 70روپے، 160روپے فی کلو فریٹ سمیت پیکنگ، ٹرانسپورٹ اور ایکسپورٹ پراسیجرز پر مجموعی طور پر 350روپے کلو کی لاگت کا سامنا ہے۔
ادھر ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاپانی قرنطینہ ماہرین کو تاخیر سے بلائے جانے کے سبب سندھڑی کا سیزن نکل چکا ہے اور اب صرف چونسا آم ہی جاپان کو ایکسپورٹ کیا جارہا ہے جس میں موسمی چونسا اور سفید چونسا شامل ہیں اگرچہ دونوں اقسام کے چونسہ آم جاپانی معیار پر پورے اترتے ہوئے جاپان ایکسپورٹ کیے گئے تاہم سفید چونسے کو زیادہ کامیابی ملنے کی توقع ہے۔ جاپان کو آم ایکسپورٹ کرنے والے ایکسپورٹرز نے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پر زور دیا تھا کہ جاپانی ماہر کو 25مئی تک پاکستان بلایا جائے تاکہ سندھڑی آم بھی جاپان بھیجا جاسکے تاہم جاپانی ماہرین کو جون کے آخر میں پاکستان بلایا گیا جس کے سبب سندھڑی آم ایکسپورٹ نہ کیا جاسکا جسے جاپان میں زیادہ پذیرائی ملنے کی توقع کی جارہی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ گلوبل گیپ سرٹیفائڈ پاکستانی فارمز بھی جاپانی معیار پر پورا نہیں اترسکتے، پاکستانی آم کا ذائقہ جاپانی معیار کے مطابق ہے تاہم جاپانی منڈی میں جگہ بنانے، آم کے معیار اور شکل کو جاپانی معیار کے مطابق بنانے کے لیے فارم کی سطح پر بڑے پیمانے پر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کی ضرورت ہوگی۔
ٹیکسٹائل کے شعبے سے شہرت حاصل کرنے والے ایک پاکستانی گروپ نے بھی ہارٹی کلچر انڈسٹری بالخصوص پھلوں کی برآمدات میں نفع دیکھتے ہوئے آم کی برآمدات شروع کردی ہیں۔ اس گروپ کے تحت اب تک جاپان کو 2کنسائنمنٹس ایکسپورٹ کی جاچکی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ محدود گنجائش کے پلانٹ سے 4گھنٹے میں پچاس کلو آم پراسیس کیا جاتا ہے اور 12گھنٹے کے دوران تین بیج پراسیس کیے جانے پر بھی 80کلو گرام آم کو جاپانی معیار کے مطابق بنایا جاتا ہے، اس محدود گنجائش کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے پراسیس کی لاگت اور فریٹ مہنگا پڑنے کی وجہ سے منافع کی شرح انتہائی محدود ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ جاپان کو آم 4 ڈالر فی کلو گرام قیمت پر ایکسپورٹ کیا جارہا ہے جبکہ ایک کلو آم کی پراسیسنگ پر 70روپے، 160روپے فی کلو فریٹ سمیت پیکنگ، ٹرانسپورٹ اور ایکسپورٹ پراسیجرز پر مجموعی طور پر 350روپے کلو کی لاگت کا سامنا ہے۔
ادھر ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاپانی قرنطینہ ماہرین کو تاخیر سے بلائے جانے کے سبب سندھڑی کا سیزن نکل چکا ہے اور اب صرف چونسا آم ہی جاپان کو ایکسپورٹ کیا جارہا ہے جس میں موسمی چونسا اور سفید چونسا شامل ہیں اگرچہ دونوں اقسام کے چونسہ آم جاپانی معیار پر پورے اترتے ہوئے جاپان ایکسپورٹ کیے گئے تاہم سفید چونسے کو زیادہ کامیابی ملنے کی توقع ہے۔ جاپان کو آم ایکسپورٹ کرنے والے ایکسپورٹرز نے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پر زور دیا تھا کہ جاپانی ماہر کو 25مئی تک پاکستان بلایا جائے تاکہ سندھڑی آم بھی جاپان بھیجا جاسکے تاہم جاپانی ماہرین کو جون کے آخر میں پاکستان بلایا گیا جس کے سبب سندھڑی آم ایکسپورٹ نہ کیا جاسکا جسے جاپان میں زیادہ پذیرائی ملنے کی توقع کی جارہی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ گلوبل گیپ سرٹیفائڈ پاکستانی فارمز بھی جاپانی معیار پر پورا نہیں اترسکتے، پاکستانی آم کا ذائقہ جاپانی معیار کے مطابق ہے تاہم جاپانی منڈی میں جگہ بنانے، آم کے معیار اور شکل کو جاپانی معیار کے مطابق بنانے کے لیے فارم کی سطح پر بڑے پیمانے پر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کی ضرورت ہوگی۔