انصاف کا منتظرہوں…

وفاق و صوبوں میں ملازمتوں کے لیے میرٹ کو عام کرنا چاہیے۔

سید شیر علی شاہ

کوئی پاکستانی جب دیس چھوڑ کر پردیس میں بس جاتا ہے تو سب یہی سمجھتے ہیں کہ اب اس بندہ بے دام پر امریکی درختوں پر لٹکے ڈالروں کی بارش ہوگی اور ذرا سی کوشش سے ڈھیر سارے ڈالر وہ اپنے دامن میں بھر سکتا ہے، عیش سے زندگی بسر کرسکتا ہے، اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکتا ہے۔ مگر بھائی گڈو نے جو میرے گپ شپ کے ساتھی ہیںکہا کہ ایسا نہیں ہے! دراصل ہماری نئی نسل جو اقتصادی اور سماجی حالات سے گھبرا کر بیرون ملک جانے کے خواب دیکھتی ہے تو اسے اس اندوہناک منظر نامے کا کوئی ادراک نہیں ہوتا کہ وطن میں اگر بے قدری، سماجی انتشار، سیاسی طوائف الملوکی اور معاشی عدم مساوات سے سماج جہنم بنا ہوا ہے توانکل سام بھی ہر ایک پراس قدر مہربان نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس پر گل پھینکتا جائے۔

لیکن امریکی معاشرہ انسانی زندگی کے مسلمہ معیار کے تناظر میں ہر محنت کش کی محنت کا ریکارڈ رکھتا ہے، وہ محنت میں عظمت کا پجاری ہے۔ آپ شوق سے امریکا آجائیں اور اپنی دنیا آپ پیدا کریں اگر زندوں میں ہیں لیکن اس یقین کے ساتھ آپ جمہوریت، مساوات اور مواقعے کی اس دنیا میں قدم رکھیں کہ اﷲ ان ہی لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنی اور دوسروں کی مدد کرتے ہیں، انسانیت کی قدروں کا احترام کرتے ہیں، جھوٹ، مکر و فریب، دغابازی، جعل سازی اور منافقت سے کام نہیں لیتے۔ مجھے امریکا آئے کئی برس بیت گئے، میرا انداز فکر یہی رہا کہ وطن کی محبت اور اس سے لگائو، لواحقین، دوست اور قریبی عزیزوں کی رفاقت سب آنکھوں پر، مگر میں نے اس اجنبی معاشرے کے خمیر میں قانون کا احترام، انسان دوستی اور انتھک محنت کے تسلسل آمیز نتائج کی شاندار آبیاری دیکھی ہے۔

یہاں ایک ہی اصول ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ جی لگا کر حق حلال کی روٹی کمائو۔ جو پاکستانی امریکی معاشرے اور کلچر سے محتاط انداز میں ہم آہنگ ہوئے ہیں ان کا وژن اور ورلڈ ویو تنگ نظری سے نجات حاصل کرچکا ہے۔ آدمی کنویں کا مینڈک نہیں رہتا۔ دنیا کو منطق، عالمی حقائق، نظریاتی اساس، اپنے مذہبی اور دینی شعور، اسلام کی حقیقی تعلیم کی روشنی میں اور منافقت اور دروغ گوئی سے پاک زندگی بسر کرنے کی جستجو میں رہتا ہے اور جو لوگ کلچر کی تاریکیوں میں گم ہوجاتے ہیں وہ دیدہ عبرت نگاہ بن جاتے ہیں۔ ان پر ماسوائے ترس کھانے کے کوئی کر بھی کیا سکتا ہے۔ پردیس میں ذمے داری کا احساس پیدا نہ ہو، بھائی بہنوں کے دکھ سکھ یاد نہ ہوں اور اپنے پیاروں سے جذباتی لگائو کی شمع مدھم پڑ جائے تو ایسے نوجوان راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔ میں اکثر یہ شعر گنگناتا ہوں۔

پہلے انسان بنو پھر تم مسلمان بنو
چھوڑو تم دنگا فساد رب کے طلبگار بنو

میرے اپنے وطن کا درد انگیز اور خودکش حملوں، مار کٹائی، بوری بند لاشوں، اغوا برائے تاوان، تشدد، فائرنگ، بھتہ خوری سے آراستہ سیناریو مجھے راتوں کو دکھی کرتا ہے۔ کام سے فارغ ہوکر دنیا بھر کی خبریں سنتے اور اسکرین پر واقعات کی تصویریں دیکھتے ہوئے ایک عجیب سا وحشت ناک احساس ہوتا ہے۔ کیا ہوئے وطن میں وہ بے خوفی، مروت، اور بانکپن کے دن، وہ امن و محبت کے لمحے، سب خاک بسر ہوگئے، خواب و خیال ہوچکے۔ ہم امریکی ریاست نیو ڈکوٹا کے جس علاقے میں سکونت پذیر ہیں وہاں سے ممتاز شاعر ن م دانش اور کئی پاکستانیوں اور غیر ملکی دوستوں سے گپ شپ ہوتی ہے۔

دیگر ذرایع سے بھی اطلاعات ملتی ہیں۔ اپ ڈیٹ ہوتا رہتا ہوں، مگر حقیقت میں اپنے دیس میں قتل وغارت گری اور دہشت گردی کی خبریں ہم گھر والوں کو رلاتی ہیں۔ میں سوچتا رہتا ہوں کہ پاکستان کو وہ بے لوث، کرپشن سے پاک، ایثار پسند اور یا سیدی یا مرشدی قیادت کیوں نصیب نہیں ہوتی جو سب کچھ بھلا کر خدمت عوام کرے۔ غربت، بیروزگاری اور جھوٹ و لالچ کا راستہ روکے۔ قانون کی حکمرانی قائم ہو اور سب کو اپنے مقدر کا کھانا، گھر اور کپڑا ملے۔ سماجی انصاف مہیا کیے بغیر کون سا معاشرہ جی سکے گا۔


اس لیے وفاق و صوبوں میں ملازمتوں کے لیے میرٹ کو عام کرنا چاہیے۔ ارباب اختیار کرپشن کا خاتمہ کریں، اپنی فضول خرچیاں ترک کریں۔ عوام دوست پالیسیاں بنائیں۔ ایک ایٹمی ملک کو بجلی، پانی اور بیروزگاری و غربت کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا چاہیے، ایٹمی توانائی سے معاشی ترقی ہونی چاہیے۔ حکمراں عوام کے دکھوں کا مداوا کریں تو کیوں انسانی قدروں سے مرصع اور سیاسی کشیدگی، محاذ آرائی، الزام تراشی کی جگہ اتحاد و اتفاق اور اخوت و محبت کا چلن عام نہ ہو۔ سیاسی قیادت کو خدا ترسی اختیار کرنی چاہیے۔ معاشی سکون ہر اہل وطن کا حق بنے اور کوئی بھکاری بن کر سڑکوں پر بھیک نہ مانگے۔

مملکت خداداد اسی وقت قوموں کی صف میں مثالی جگہ بنا پائے گی اور حقیقی معنوں میں آزاد و فلاحی مملکت کہلائے گی جب ملکی قیادت قومی خود مختاری، وقار کی سر بلندی اور داخلی انتشار کے خاتمے کے لیے مغرب اور امریکا میں پھیلے ہوئے اس گمبھیر و منفی تاثر کو عملی طور پر غلط ثابت کردے کہ پاکستان کو تھری ایز AAA اﷲ، امریکا اور آرمی چلارہے ہیں۔

65 برس کا عرصہ ایک قومی ریاست کی تشکیل، ارتقا، توسیع، ترقی اور تنوع اور اقتصادی و تہذیبی استحکام کے ضمن میں کم نہیں ہے۔ اس مدت میں تو تیسری دنیا کے کئی ملک ترقی کی مثالیں قائم کرچکے ہیں۔ کوریا، جاپان اور ملائیشیا کی ایشین ٹائیگر حکومتوں نے وہ کام کر دکھائے کہ ہمارے لیے ان کی تقلید کرنا مشکل نہیں۔ جب ہم اسی معاشرے کا کبھی حصہ تھے تو سماجی ناانصافی، جبر و تشدد اور قانون شکنی کے واقعات ہوتے ضرور تھے مگر اس کی شدت اور نوعیت اتنی بہیمانہ، ہولناک اور لرزہ خیز نہیں ہوا کرتی تھی جو آ ج ہے۔ جو حساسیت کے مارے ہوئے ہمارے بزرگ ہیں وہ اکثر سوال کرتے ہوں گے کہ کیا پاکستان کے قیام کا مقصد یہی تھا کہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں۔

رشوت، حرام خوری، بھتہ خوری، ظلم و زیادتی اور قتل و غارت گری سے اپنا کاروبار سیاست چلائیں۔ میری تربیت خاص طور پر سید امید علی شاہ، سید شیر شاہ، سید صالح شاہ کی ریاستی حدود میں اس وقت ہوئی جب کراچی مائی کلاچی کی ایک پرامن بستی ہوا کرتی تھی۔ شیر شاہ اسٹیٹ کی زمینی ملکیت کا مقدمہ پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک عہد ساز واقعہ ہے۔ چھ عشروں پر محیط اس مقدمے کے فیصلے کا مجھے اور میرے اہل خانہ کو آج بھی انتظار ہے۔ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا مداح ہوں، ان کے سوموٹو نوٹس کا منتظر ہوں، پرامید ہوں کہ کبھی نہ کبھی تو ہمیں بھی انصاف ملنے کی کوئی امید نظر آئے گی۔ امید پر تو دنیا قائم ہے۔ میں اﷲ توکل کا بندہ ہوں، اس لیے امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ مگر

درد دل لکھوں کب تک جاکے ان کو دکھلائوں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

خدا گواہ! وطن سے آنے والی خبریں اور دلگداز اطلاعات دل کو صدمات سے دوچار کرتی ہیں۔ سیاسی کشیدگی، معاشی ابتری، بجلی، پانی، امن وامان کی مخدوش صورتحال کا سن کراس وقت طبیعت غمناک ہوجاتی ہے۔ خدا کرے پاکستان شاد و آباد ہو۔
Load Next Story