منشیات فروش تعلیمی اداروں میں سرگرم نوجوانوں میں نشے کا استعمال بڑھنے لگا
آئس اورکرسٹل گردوں و جگرکے لیے انتہائی مہلک ہے،زیادہ مقدارمیں استعمال کرنے سے موت واقع ہوجاتی ہے
LARKANA:
تعلیمی اداروں میں منشیات فروشوں کے منظم گروہ سرگرم ہوگئے ہیں جس کے باعث نوجوانوں میں منشیات کااستعمال تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔
منشیات فروش نوجوانوں کوہیروئن سے بھی زیادہ خطرناک آئس اورکرسٹل جیسے نشہ آورکیمیکل کا عادی بنا رہے ہیں جو اعصابی امراض کے ساتھ گردوں اورجگر کے لیے بھی انتہائی مہلک ہے۔
آئس اورکرسٹل زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے موت واقع ہوسکتی ہے ،والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں جن گھروں میں والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے کاماحول ہوتاہے اور وہ بچوں کواچھی تربیت نہیں دے پاتے ایسے گھروں کے بچوں میں نشہ کی جانب راغب ہونے کا زیادہ امکانات ہوتے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں طلبہ گروپ کی شکل میں نشہ آوراشیا استعمال کرتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں منشیات فروخت کرنے کے لیے کارندے طلبہ کوہی استعمال کرتے ہیں جو پہلے خود نشہ کے عادی ہوتے ہیں اور بعد میں دوسرے طلبہ کو یہ لت لگاکر اپنی طلب پوری کرنے کے لیے دوسروں کو نشہ فروخت کرنے لگتے ہیں،ایسے طلبہ منشیات فروشوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔
کھلاڑی اور باڈی بلڈر نشے کی جانب کم راغب ہوتے ہیں
ڈاکٹر طارق خان کے مطابق نوجوانوں کو بچپن سے ہی بامقصد زندگی گزارنے کی تربیت دی جائے جن لوگوں کی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا ہے وہ اپنی توانائیاں اس مقصد کو حاصل کرنے پر خرچ کرتے ہیں اسی طرح نوجوانوں میں صحت مند سرگرمیوں کا فروغ بہت ضروری ہے۔
کھیلوں سے وابستہ نوجوان اور باڈی بلڈر کم ہی نشہ کی جانب راغب ہوتے ہیں کیونکہ کھیل کے لیے فٹنس اور مستعد ذہن اور جسم درکار ہوتا ہے ،بدقسمتی سے کراچی میں کھیل کے میدانوں اورکئی پارکوں پر قبضہ کرلیا گیا ہے جبکہ رہے سہے میدان اور پارک ویران ہونے کی وجہ سے صحت مند سرگرمیوں کا مرکز بننے کے بجائے منشیات فروشوں اور استعمال کرنے والوں کی آماجگاہ بن گئے۔
تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں نوجوانوں کی فلاح کے دعوے تو کرتی ہیں لیکن انھیں صحت مند طرز زندگی کے لیے اچھا ماحول فراہم کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا، زیادہ تر غریب نوجوان نشہ کا خرچ پوراکرنے کے لیے چھوٹے موٹے جرائم سے شروعات کرتے ہیں اور آگے چل کراسٹریٹ کرائم اور بڑے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں،اس لیے معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے بھی منشیات کی حوصلہ شکنی ناگزیر ہے۔
والدین کے جھگڑوںسے بچے تنہائی کاشکارہوکرنشہ کرنا شروع کردیتے ہیں
ماہرین کے مطابق سگریٹ نوشی منشیات کے استعمال کی پہلی سیڑھی ہے اسی طرح شیشہ کا استعمال بھی منشیات کی جانب راغب کرتا ہے موبائل فون نے نشہ کا حصول آسان بنادیا ہے اور اب منشیات کے عادی نوجوانوں کو گھروں پر ہی نشہ سپلائی کیا جاتا ہے، اب نشہ ایک فیشن بن گیا ہے نئی نسل تجسس کی وجہ سے نت نئے نشوں کی جانب راغب ہورہی ہے،تحقیق کے مطابق ماں باپ کے درمیان تلخیاں ، علیحدگی کا شکار گھرانوں کے بچے تنہائی کا شکار ہوکر نشے کی جانب راغب ہوتے ہیں ایسے نوجوان جنھیں گھر میں توجہ نہیں ملتی وہ گھر سے باہر پناہ تلاش کرتے ہیں اور بد قسمتی سے ایسے عناصر کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں جو انھیں نشے کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔
افغان جنگ کے بعد ہیروئنملک بھر میں پھیل گئی
ڈاکٹر طارق خان کے مطابق 80کی دہائی سے قبل تک چرس، گا نجھا، کچی شراب جیسے نشے عام تھے اور یہ لت غریب اور لوئر مڈل کلاس تک محدود تھی امیرطبقے میں اس طرح کے نشہ کی وباعام نہ تھی تاہم افغانستان میں روس کی جنگ کے دوران کراچی سے پشاور تک ہیروئن کی وبا پھیل گئی۔ ڈاکٹر طارق خان نے اس دور کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا اور منشیات کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لیے اساتذہ کی سرپرستی میں یونیورسٹی کے طلبہ پر مشتمل کراچی یونیورسٹی ویلفیئر آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی اس مہم کے تحت نشے کی ابتدایعنی سگریٹ نوشی کے خلاف شعور اجاگر کیا اس دوران طلبہ نے فنڈ اکھٹا کرکے نشے کی عادت میں مبتلا افراد کا علاج بھی کرایا، ڈاکٹر طارق خان نے تعلیم مکمل کرکے 1995میں اینٹی نارکوٹکس ویلفیئر آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی جس کے تحت اپنے وسائل اور دوستوں کی مدد سے نشے کے عادی افراد کے علاج کے لیے ایک چھوٹا ہسپتال بھی کھولا تاہم وسائل نہ ہونے کی وجہ سے چند سال بعد بند کرنا پڑا ۔
ڈاکٹر طارق نے منشیات کے موضوع پرمنفردکتاب لکھی
ڈاکٹرطارق خان نے اپنی زندگی کے 30سال نشے کے خلاف شعور بیدارکرنے اور اس لعنت کا شکار افراد کی بحالی کی جدوجہد میں گزار دیے، کراچی کے ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے میں آنکھ کھولنے والے ڈاکٹر طارق پاکستان میں منشیات کے سماجی اثرات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں جبکہ اس موضوع پر ان کی 10سالہ تحقیق کا نچوڑ ایک کتاب بھی پاکستان میں منشیات کے موضوع پر لکھی جانے والی پہلی منفرد کتاب ہے، ڈاکٹر طارق خان منشیات کی تباہ کاریوں کے بارے میں اپنا پیغام لاکھوں افراد تک پہنچاچکے ہیں اور نشے کی عادت میں مبتلا ہزاروں افراد کی بحالی کے عمل میں بھی شامل رہے، ڈاکٹر طارق کی 30سالہ خدمات کے سفر میں کبھی ملکی سطح پر پذیرائی نہیں ملی تاہم عالمی سطح پر ان کی خدمات کااعتراف کیاگیا۔
تعلیمی اداروں میں منشیات فروشوں کے منظم گروہ سرگرم ہوگئے ہیں جس کے باعث نوجوانوں میں منشیات کااستعمال تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔
منشیات فروش نوجوانوں کوہیروئن سے بھی زیادہ خطرناک آئس اورکرسٹل جیسے نشہ آورکیمیکل کا عادی بنا رہے ہیں جو اعصابی امراض کے ساتھ گردوں اورجگر کے لیے بھی انتہائی مہلک ہے۔
آئس اورکرسٹل زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے موت واقع ہوسکتی ہے ،والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں جن گھروں میں والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے کاماحول ہوتاہے اور وہ بچوں کواچھی تربیت نہیں دے پاتے ایسے گھروں کے بچوں میں نشہ کی جانب راغب ہونے کا زیادہ امکانات ہوتے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں طلبہ گروپ کی شکل میں نشہ آوراشیا استعمال کرتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں منشیات فروخت کرنے کے لیے کارندے طلبہ کوہی استعمال کرتے ہیں جو پہلے خود نشہ کے عادی ہوتے ہیں اور بعد میں دوسرے طلبہ کو یہ لت لگاکر اپنی طلب پوری کرنے کے لیے دوسروں کو نشہ فروخت کرنے لگتے ہیں،ایسے طلبہ منشیات فروشوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔
کھلاڑی اور باڈی بلڈر نشے کی جانب کم راغب ہوتے ہیں
ڈاکٹر طارق خان کے مطابق نوجوانوں کو بچپن سے ہی بامقصد زندگی گزارنے کی تربیت دی جائے جن لوگوں کی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا ہے وہ اپنی توانائیاں اس مقصد کو حاصل کرنے پر خرچ کرتے ہیں اسی طرح نوجوانوں میں صحت مند سرگرمیوں کا فروغ بہت ضروری ہے۔
کھیلوں سے وابستہ نوجوان اور باڈی بلڈر کم ہی نشہ کی جانب راغب ہوتے ہیں کیونکہ کھیل کے لیے فٹنس اور مستعد ذہن اور جسم درکار ہوتا ہے ،بدقسمتی سے کراچی میں کھیل کے میدانوں اورکئی پارکوں پر قبضہ کرلیا گیا ہے جبکہ رہے سہے میدان اور پارک ویران ہونے کی وجہ سے صحت مند سرگرمیوں کا مرکز بننے کے بجائے منشیات فروشوں اور استعمال کرنے والوں کی آماجگاہ بن گئے۔
تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں نوجوانوں کی فلاح کے دعوے تو کرتی ہیں لیکن انھیں صحت مند طرز زندگی کے لیے اچھا ماحول فراہم کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا، زیادہ تر غریب نوجوان نشہ کا خرچ پوراکرنے کے لیے چھوٹے موٹے جرائم سے شروعات کرتے ہیں اور آگے چل کراسٹریٹ کرائم اور بڑے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں،اس لیے معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے بھی منشیات کی حوصلہ شکنی ناگزیر ہے۔
والدین کے جھگڑوںسے بچے تنہائی کاشکارہوکرنشہ کرنا شروع کردیتے ہیں
ماہرین کے مطابق سگریٹ نوشی منشیات کے استعمال کی پہلی سیڑھی ہے اسی طرح شیشہ کا استعمال بھی منشیات کی جانب راغب کرتا ہے موبائل فون نے نشہ کا حصول آسان بنادیا ہے اور اب منشیات کے عادی نوجوانوں کو گھروں پر ہی نشہ سپلائی کیا جاتا ہے، اب نشہ ایک فیشن بن گیا ہے نئی نسل تجسس کی وجہ سے نت نئے نشوں کی جانب راغب ہورہی ہے،تحقیق کے مطابق ماں باپ کے درمیان تلخیاں ، علیحدگی کا شکار گھرانوں کے بچے تنہائی کا شکار ہوکر نشے کی جانب راغب ہوتے ہیں ایسے نوجوان جنھیں گھر میں توجہ نہیں ملتی وہ گھر سے باہر پناہ تلاش کرتے ہیں اور بد قسمتی سے ایسے عناصر کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں جو انھیں نشے کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔
افغان جنگ کے بعد ہیروئنملک بھر میں پھیل گئی
ڈاکٹر طارق خان کے مطابق 80کی دہائی سے قبل تک چرس، گا نجھا، کچی شراب جیسے نشے عام تھے اور یہ لت غریب اور لوئر مڈل کلاس تک محدود تھی امیرطبقے میں اس طرح کے نشہ کی وباعام نہ تھی تاہم افغانستان میں روس کی جنگ کے دوران کراچی سے پشاور تک ہیروئن کی وبا پھیل گئی۔ ڈاکٹر طارق خان نے اس دور کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا اور منشیات کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لیے اساتذہ کی سرپرستی میں یونیورسٹی کے طلبہ پر مشتمل کراچی یونیورسٹی ویلفیئر آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی اس مہم کے تحت نشے کی ابتدایعنی سگریٹ نوشی کے خلاف شعور اجاگر کیا اس دوران طلبہ نے فنڈ اکھٹا کرکے نشے کی عادت میں مبتلا افراد کا علاج بھی کرایا، ڈاکٹر طارق خان نے تعلیم مکمل کرکے 1995میں اینٹی نارکوٹکس ویلفیئر آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی جس کے تحت اپنے وسائل اور دوستوں کی مدد سے نشے کے عادی افراد کے علاج کے لیے ایک چھوٹا ہسپتال بھی کھولا تاہم وسائل نہ ہونے کی وجہ سے چند سال بعد بند کرنا پڑا ۔
ڈاکٹر طارق نے منشیات کے موضوع پرمنفردکتاب لکھی
ڈاکٹرطارق خان نے اپنی زندگی کے 30سال نشے کے خلاف شعور بیدارکرنے اور اس لعنت کا شکار افراد کی بحالی کی جدوجہد میں گزار دیے، کراچی کے ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے میں آنکھ کھولنے والے ڈاکٹر طارق پاکستان میں منشیات کے سماجی اثرات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں جبکہ اس موضوع پر ان کی 10سالہ تحقیق کا نچوڑ ایک کتاب بھی پاکستان میں منشیات کے موضوع پر لکھی جانے والی پہلی منفرد کتاب ہے، ڈاکٹر طارق خان منشیات کی تباہ کاریوں کے بارے میں اپنا پیغام لاکھوں افراد تک پہنچاچکے ہیں اور نشے کی عادت میں مبتلا ہزاروں افراد کی بحالی کے عمل میں بھی شامل رہے، ڈاکٹر طارق کی 30سالہ خدمات کے سفر میں کبھی ملکی سطح پر پذیرائی نہیں ملی تاہم عالمی سطح پر ان کی خدمات کااعتراف کیاگیا۔