پانی سب کےلیے
ہمارے ملک میں ایک بڑی تعداد ایسے نفوس کی بھی ہے جن کی زندگی کا بڑا اور واحد مقصد پینے کےلیے صاف پانی کی تلاش ہے
''وہی ہے جس نے تمہا رے لیے آسمان کی جانب سے پانی اتارا جسے تم پیتے ہو اوراس میں سے (کچھ) شجرکاری کا ہے (جس سے نبا تات، سبزی اور چرا گاہیں اگتی ہیں)جن سے تم اپنے مویشی چراتے ہو۔'' (النحل 10)
پانی قدرت کا ایک انمول تحفہ اور ہماری زندگی کا انتہائی اہم جزو ہے۔ پانی ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کی قدر ان سے پوچھیں جو اس کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ جنھیں پانی کے حصول کےلیے میلوں کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے۔ بہت سے مقامات پر میلوں فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی جو پانی ملتا ہے وہ گدلا ہونے کے باعث پینے کے قابل نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اسے پینے پر مجبور ہیں۔
ہمیں اکیسویں صدی میں داخل ہوئے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ بیت چکا۔ ہر شخص دولت کے حصول اور زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسائشوں سے پرسکون بنانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ لیکن ایسے میں ہمارے ہی ملک میں ایک بڑی تعداد ایسے نفوس کی بھی ہے جن کی زندگی کا بڑا اور واحد مقصد پینے کےلیے صاف پانی کی تلاش ہے اور اسی میں ان کی زندگی کی بقا ہے۔ گویا پانی زندگی ہے اور صاف پانی محفوظ زندگی۔
آج ویسے تو پوری دنیا پانی کی قلت کی وجہ سے پریشان ہے لیکن پاکستان میں صورت حال زیادہ سنگین ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ پاکستان میں پانی کی آلودگی بہت سی بیماریوں کو جنم دے رہی ہے۔ آلودہ پانی پینے سے پاکستان میں ہر سال کم و بیش 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہر پانچ میں سے چار امراض پانی سے لگنے والی بیماریوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ جن میں سے اسہال بچوں میں اموات کا سب سے بڑا باعث ہے۔ اس کے علاوہ آلودہ پانی سے سانس کی بیماریاں، آنتوں کی سوزش، اسہال، جلدی امراض، غدود کا بڑھنا، ٹی بی، ہیپاٹائٹس اے جیسے مہلک امراض بڑھتے جارہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ''اُسی پانی کو پیتے ہیں، جسے پینے سے دم نکلے''۔
ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو پانی کے حوالے سے درپیش مسائل کو حل کرنے کےلیے ہنگامی طور پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہی صورت حال رہی تو 2040 تک پاکستان دنیا بھر میں پانی کے بحران سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں 23 ویں نمبر پر آجائے گا۔ اس وقت ملکی معیشت کا ایک بڑا حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہورہا ہے۔ جس کے علاج معالجے، ادویات کی برآمد اور افرادی قوت کے متاثر ہونے کے باعث پاکستان کی معیشت کو ہر سال 1 ارب 30 کروڑ ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ پاکستان میں پانی کے معیار پر نظر رکھنے اور اس کا جائزہ لینے کے پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اداروں کا کمزور انتظام، لیبارٹریز میں سامان کی کمی اور اس حوالے سے موثر قانون سازی کے فقدان نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنادیا ہے۔ حکومتی بے حسی تو اپنی جگہ، لوگوں کی اس مسئلے کی سنگینی کے بارے لاعلمی زیادہ تشویشناک ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن چونکہ انسانی خدمت کا ادارہ ہے اور صاف پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے الخدمت نے اس سنگین مسئلے کو کسی حد تک کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ آلودہ پانی اور اُس سے ہونے والے نقصانات کے پیش نظر الخدمت فاؤنڈیشن ملک بھر میں آلودہ پانی کے نقصانات اور صاف پانی کی اہمیت کے حوالے سے آگہی مہم کے ساتھ ساتھ صاف پانی کے منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ جس میں شہری علاقوں میں جدید واٹر فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب، تھرپارکر، اندرون سندھ ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں کنویں کھدوانے اور کمیونٹی ہینڈ پمپ لگانے کا کام، آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں ''گریویٹی فلو واٹر اسکیم'' اور بلوچستان میں کاریز کے ذریعے بھی پینے کے صاف پانی کی فراہمی جاری ہے۔ عام آبادیوں کے ساتھ ساتھ الخدمت فاؤنڈیشن جیلوں اور اسکولوں میں صاف پانی کے منصوبوں پر کام کررہی ہے، جس کا مقصد ہمارے معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے طبقے قیدیوں اور قوم کا مستقبل طلبا و طالبات کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاسکے۔
الخدمت فاؤنڈیشن ملک کے شہری اور دیہی علاقوں کی ضروریات کے مطابق صاف پانی کے نئے منصوبے شروع کررہی ہے، جس کے ساتھ ساتھ پانی کو آلودگی سے بچانے اور صحت کے لیے اس کے مضر اثرات سے لوگوں کو آگاہی کا کام بھی سر انجام دیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ہر سال کی طرح امسال بھی اقوام متحدہ کے بینر تلے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 22 مارچ پانی کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ اِس موقع پر ''پانی... سب کےلیے'' کے عنوان کے تحت ملک بھر میں آگاہی واک اور تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ جس کا مقصد عوام کو احساس دلانا ہے کہ صاف پانی کا حصول آپ کی ضرورت بھی ہے اور بنیادی حق بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں پانی کو ضائع اور آلودہ ہونے سے بچانے، آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریوں، نقصانات اور اس کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی بھی فراہم کرنا تھا۔
پانی سے زندگی کی بقا ہے اور اسی پر ہمارے آنے والے کل کا انحصار ہے۔ پانی کے ذرائع، اس کے معیار اور اس کے صحت پر اثرات سے آگاہی وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پانی کی مینجمنٹ کا مؤثر نظام بنانے، واٹر سیکیورٹی سسٹم بنانے، نہری نظام کو پختہ بنانے، اس کے ضیاع کو روکنے کےلیے ''رین گن'' اور ''ڈرپ واٹرنظام'' متعارف کروانے، شہروں، دیہاتوں میں زیرِ زمین پانی کے ذخیروں کو دوبارہ بھرنے، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب، کھارے سمندری پانی کو میٹھا بنانے کےلیے پلانٹس کی تنصیب، اور اس مقصد کے لیے نیک نیتی سے کام کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون اور ہر جگہ کے ماحول کی مناسبت سے سالانہ تسلسل کے ساتھ اربوں درخت لگانے کی مہم کا فوری آغاز اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اب بھی اس حوالے سے اقدامات نہ کیے گئے تو ہمارے لیے اپنے وجود کو بحیثیت قوم برقرار رکھنا شاید ممکن نہ رہے۔
پیارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ پانی پلانا بہترین صدقہ ہے۔ ''صاف پانی: محفوظ زندگی'' ایک پیغام اور اعلان ہے جو دعوت دیتا ہے کہ نہ صرف خود پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اِسے آلودہ ہونے سے بچائیں، اِس کا صحیح استعمال کریں بلکہ دوسروں کو بھی اِس دعوت میں شریک کریں اورخاص طور پر ہمارے وہ ہم وطن جن تک یہ بنیادی ضرورت نہیں پہنچی ، اُن تک اِس نعمت کو پہنچانے کا انتظام بھی کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پانی قدرت کا ایک انمول تحفہ اور ہماری زندگی کا انتہائی اہم جزو ہے۔ پانی ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کی قدر ان سے پوچھیں جو اس کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ جنھیں پانی کے حصول کےلیے میلوں کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے۔ بہت سے مقامات پر میلوں فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی جو پانی ملتا ہے وہ گدلا ہونے کے باعث پینے کے قابل نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود یہ لوگ اسے پینے پر مجبور ہیں۔
ہمیں اکیسویں صدی میں داخل ہوئے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ بیت چکا۔ ہر شخص دولت کے حصول اور زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسائشوں سے پرسکون بنانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ لیکن ایسے میں ہمارے ہی ملک میں ایک بڑی تعداد ایسے نفوس کی بھی ہے جن کی زندگی کا بڑا اور واحد مقصد پینے کےلیے صاف پانی کی تلاش ہے اور اسی میں ان کی زندگی کی بقا ہے۔ گویا پانی زندگی ہے اور صاف پانی محفوظ زندگی۔
آج ویسے تو پوری دنیا پانی کی قلت کی وجہ سے پریشان ہے لیکن پاکستان میں صورت حال زیادہ سنگین ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ پاکستان میں پانی کی آلودگی بہت سی بیماریوں کو جنم دے رہی ہے۔ آلودہ پانی پینے سے پاکستان میں ہر سال کم و بیش 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ہر پانچ میں سے چار امراض پانی سے لگنے والی بیماریوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ جن میں سے اسہال بچوں میں اموات کا سب سے بڑا باعث ہے۔ اس کے علاوہ آلودہ پانی سے سانس کی بیماریاں، آنتوں کی سوزش، اسہال، جلدی امراض، غدود کا بڑھنا، ٹی بی، ہیپاٹائٹس اے جیسے مہلک امراض بڑھتے جارہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ''اُسی پانی کو پیتے ہیں، جسے پینے سے دم نکلے''۔
ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو پانی کے حوالے سے درپیش مسائل کو حل کرنے کےلیے ہنگامی طور پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہی صورت حال رہی تو 2040 تک پاکستان دنیا بھر میں پانی کے بحران سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں 23 ویں نمبر پر آجائے گا۔ اس وقت ملکی معیشت کا ایک بڑا حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہورہا ہے۔ جس کے علاج معالجے، ادویات کی برآمد اور افرادی قوت کے متاثر ہونے کے باعث پاکستان کی معیشت کو ہر سال 1 ارب 30 کروڑ ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ پاکستان میں پانی کے معیار پر نظر رکھنے اور اس کا جائزہ لینے کے پروگرام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اداروں کا کمزور انتظام، لیبارٹریز میں سامان کی کمی اور اس حوالے سے موثر قانون سازی کے فقدان نے اس مسئلے کو مزید گمبھیر بنادیا ہے۔ حکومتی بے حسی تو اپنی جگہ، لوگوں کی اس مسئلے کی سنگینی کے بارے لاعلمی زیادہ تشویشناک ہے۔
الخدمت فاؤنڈیشن چونکہ انسانی خدمت کا ادارہ ہے اور صاف پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے الخدمت نے اس سنگین مسئلے کو کسی حد تک کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ آلودہ پانی اور اُس سے ہونے والے نقصانات کے پیش نظر الخدمت فاؤنڈیشن ملک بھر میں آلودہ پانی کے نقصانات اور صاف پانی کی اہمیت کے حوالے سے آگہی مہم کے ساتھ ساتھ صاف پانی کے منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ جس میں شہری علاقوں میں جدید واٹر فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب، تھرپارکر، اندرون سندھ ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں کنویں کھدوانے اور کمیونٹی ہینڈ پمپ لگانے کا کام، آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں ''گریویٹی فلو واٹر اسکیم'' اور بلوچستان میں کاریز کے ذریعے بھی پینے کے صاف پانی کی فراہمی جاری ہے۔ عام آبادیوں کے ساتھ ساتھ الخدمت فاؤنڈیشن جیلوں اور اسکولوں میں صاف پانی کے منصوبوں پر کام کررہی ہے، جس کا مقصد ہمارے معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے طبقے قیدیوں اور قوم کا مستقبل طلبا و طالبات کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاسکے۔
الخدمت فاؤنڈیشن ملک کے شہری اور دیہی علاقوں کی ضروریات کے مطابق صاف پانی کے نئے منصوبے شروع کررہی ہے، جس کے ساتھ ساتھ پانی کو آلودگی سے بچانے اور صحت کے لیے اس کے مضر اثرات سے لوگوں کو آگاہی کا کام بھی سر انجام دیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ہر سال کی طرح امسال بھی اقوام متحدہ کے بینر تلے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 22 مارچ پانی کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ اِس موقع پر ''پانی... سب کےلیے'' کے عنوان کے تحت ملک بھر میں آگاہی واک اور تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ جس کا مقصد عوام کو احساس دلانا ہے کہ صاف پانی کا حصول آپ کی ضرورت بھی ہے اور بنیادی حق بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں پانی کو ضائع اور آلودہ ہونے سے بچانے، آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریوں، نقصانات اور اس کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی بھی فراہم کرنا تھا۔
پانی سے زندگی کی بقا ہے اور اسی پر ہمارے آنے والے کل کا انحصار ہے۔ پانی کے ذرائع، اس کے معیار اور اس کے صحت پر اثرات سے آگاہی وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پانی کی مینجمنٹ کا مؤثر نظام بنانے، واٹر سیکیورٹی سسٹم بنانے، نہری نظام کو پختہ بنانے، اس کے ضیاع کو روکنے کےلیے ''رین گن'' اور ''ڈرپ واٹرنظام'' متعارف کروانے، شہروں، دیہاتوں میں زیرِ زمین پانی کے ذخیروں کو دوبارہ بھرنے، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب، کھارے سمندری پانی کو میٹھا بنانے کےلیے پلانٹس کی تنصیب، اور اس مقصد کے لیے نیک نیتی سے کام کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون اور ہر جگہ کے ماحول کی مناسبت سے سالانہ تسلسل کے ساتھ اربوں درخت لگانے کی مہم کا فوری آغاز اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر اب بھی اس حوالے سے اقدامات نہ کیے گئے تو ہمارے لیے اپنے وجود کو بحیثیت قوم برقرار رکھنا شاید ممکن نہ رہے۔
پیارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ پانی پلانا بہترین صدقہ ہے۔ ''صاف پانی: محفوظ زندگی'' ایک پیغام اور اعلان ہے جو دعوت دیتا ہے کہ نہ صرف خود پانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اِسے آلودہ ہونے سے بچائیں، اِس کا صحیح استعمال کریں بلکہ دوسروں کو بھی اِس دعوت میں شریک کریں اورخاص طور پر ہمارے وہ ہم وطن جن تک یہ بنیادی ضرورت نہیں پہنچی ، اُن تک اِس نعمت کو پہنچانے کا انتظام بھی کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔