کراچی کا بلدیاتی و انتظامی نظام
پیپلز پارٹی کا سیاسی مفاد موجودہ سندھ برقرار رہنے میں ہے اور اندرون سندھ کے لوگ اور رہنما کبھی ایسا نہیں چاہیں گے۔
کراچی، ضلع نظام سے قبل بھی ایک ضلع تھا جس کی آبادی بڑھنے کے ساتھ اضلاع کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اضلاع کی تعداد میں زیادہ اضافہ پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں ہوا ۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں مسلسل تیسری حکومت ہے جس نے چند سال قبل ملیر اورکورنگی اضلاع بنائے جو پہلے ضلع شرقی کا حصہ تھے اور ضلع شرقی کراچی کا سب سے بڑا ضلع تھا اور اب ضلع وسطی کراچی کا سب سے بڑا ضلع ہے۔
گزشتہ دنوں میں ایک نیوز ایجنسی نے کراچی کے دو ڈویژن اور 9 ضلع بنائے جانے کی خبر دی جس پر فوری ردعمل پی ایس پی کا آیا اور ایم کیو ایم بعد میں جاگی اور اس کے وزیر کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو میں حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور دھمکی دی کہ اگر کراچی کو تقسیم کرکے دو میئر بنائے گئے تو پھر سندھ کے بھی دو وزیر اعلیٰ ہوسکتے ہیں ۔
ایم کیو ایم گزشتہ کئی سالوں سے سندھ میں دو حصوں میں تقسیم کی باتیں کرتی رہی ہے اور جب تک وہ سندھ حکومت میں رہی اس نے سنجیدگی سے کبھی سندھ کی دو حصوں میں تقسیم کا مطالبہ نہیں کیا ۔ اس نے ہمیشہ کبھی مخصوص حالات، احتجاج یا ناراضگی کے باعث دباؤ ڈالنے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا اور کبھی سندھ اسمبلی میں ایسی کوئی قرارداد پیش نہیں کی کیونکہ آئینی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ جب تک کوئی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے مزید صوبے کی منظوری نہ دے بات آگے پارلیمنٹ تک نہیں جا سکتی اور کوئی نیا صوبہ بن ہی نہیں سکتا۔
پیپلز پارٹی سالوں سے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتی آرہی ہے مگرکامیاب نہ ہوسکی ۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی پنجاب حکومت میں جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے کی بحالی کی قرارداد منظور کرا رکھی ہے۔ 2018 کے انتخابات کے موقعے پر تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب صوبہ کا نعرہ لگا کر مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا مگر آٹھواں ماہ شروع ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کی وفاقی اور پنجاب حکومت نے عملی طور پرکچھ بھی نہیں کیا اور صرف جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے قیام ہی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب کی تقسیم پر تیار ہے مگر پی ٹی آئی اپنا وعدہ بھول چکی ہے کیونکہ ایسی صورت میں تخت لاہور دو حصوں میں تقسیم ہونے سے پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پی ٹی آئی ایسا کبھی نہیں چاہے گی اور پنجاب کی تقسیم ایک خواب ہی رہے گا۔
پیپلز پارٹی کا سیاسی مفاد موجودہ سندھ برقرار رہنے میں ہے اور اندرون سندھ کے لوگ اور رہنما کبھی ایسا نہیں چاہیں گے اور کراچی میں قائم صوبائی دارالحکومت گھوٹکی اور کشمور جیسے دور دراز علاقوں سے دور ہونے کے باوجود صوبائی دارالحکومت کراچی ہی میں رہے گا اور کوئی بھی وفاقی حکومت بھی سندھ کی تقسیم نہیں چاہے گی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی جیسی قومی جماعتیں سندھ کی تقسیم کی حامی نہیں اور صرف ایم کیو ایم سندھ کی تقسیم کی محض باتیں ہی کرتی ہے اور آگے چل کر پی ایس پی اور ایم کیو ایم حقیقی اس کی ہم نوا ہوسکتی ہیں جس کی حقیقی وجوہات بھی موجود ہیں ۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی پریس کانفرنس کا فوری جواب سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے دیا کہ سندھ حکومت کا مزید اضلاع بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور ایم کیو ایم اپنے لسانی مفاد کے لیے ایسے مطالبے کرتی رہتی ہے۔ ایم کیو ایم کے کراچی کے میئر وسیم اختر نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کے موجودہ 6 اضلاع ختم کرکے کراچی کو صرف ایک ضلع بنایا جائے اور کراچی میں بااختیار ایسی شہری حکومت قائم کی جائے جس کا میئر مالی اور انتظامی طور پر بااختیار ہو جس کے بعد ہی کراچی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
کراچی ملک کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ملک چلتا ہے، مفاد پرستوں اور بدعنوانوں کے خاندان پلتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی ہر حکومت میں اندرون سندھ مالی اور انتظامی ترقی ہوئی۔ بھٹو صاحب کے دور میں اندرون سندھ لاڑکانہ کو ڈویژن ، شکارپور اور بدین کو ضلع کا درجہ دیا گیا تھا مگر ان کے دور میں ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے اور بلدیاتی اداروں کو سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے چلایا گیا۔
پیپلز پارٹی کے بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں میں کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے جب کہ ارباب غلام رحیم کی وزارت اعلیٰ میں سندھ میں ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہٰ یار، کشمور، نوشہرو فیروز،گھوٹکی، قمبر شہداد کوٹ کو ضلع بنایا گیا تھا جنھیں قائم علی شاہ نے ختم کرانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے تھے کیونکہ اندرون سندھ سخت ردعمل ہوتا جس کے بعد عوامی سہولت کے لیے نوابشاہ اور میرپورخاص اور بعد میں ٹھٹھہ اور سجاول کو بھی ضلع بناکر ڈویژن کا درجہ دیا گیا۔ اندرون سندھ کے لوگوں کی سہولتوں کا تو پی پی حکومت نے مکمل خیال رکھا جب کہ کراچی میں بھی شہری اور دیہی کی تفریق پیدا کرائی۔ سندھ میں دیہی اور شہری تقسیم کوٹہ سسٹم نافذ کرکے پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں ممکن بنائی گئی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کے بہترین اور بااختیار ضلع حکومتوں کے نظام کو ختم کرکے دیگر صوبوں کی طرح پیپلز پارٹی نے بھی 1979 کا جنرل ضیا کا بلدیاتی نظام تو بحال کیا مگر منتخب بلدیاتی عہدیداروں کو معمولی اختیار دے کرکمشنری نظام کے ماتحت اور سندھ حکومت کا محتاج بنادیا۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے کراچی کو ایک مستحکم شہری حکومت نہیں دی گئی۔ کراچی کے شہری علاقوں کی بلدیہ عظمیٰ اور 6 ڈی ایم سیز کے منتخب یوسی چیئرمینوں کے اداروں کو یونین کمیٹی اور دیہی علاقوں پر مشتمل جو 67 فیصد بتائی جاتی ہے کو بلدیہ عظمیٰ سے الگ رکھ کر ضلع کونسل کراچی بنائی گئی جس کی یوسیز یونین کونسل کہلاتی ہیں۔
سٹی حکومت میں کراچی ایک بااختیار شہری حکومت پر مشتمل تھا جس کے 18 ٹاؤن اور 178 یونین کونسلیں تھیں۔ پی پی حکومت میں ضلع کونسل بااختیار اور بلدیہ عظمیٰ اور ڈی ایم سیز برائے نام اختیارات رکھتی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ لاہور کی طرح میٹروپولیٹن اور میئر کراچی لارڈ میئر نہیں کہلاتا ۔ 6 ڈی ایم سی میونسپل کارپوریشن ہونے کے باوجود ان کے سربراہ میئر نہیں چیئرمین کہلاتے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کراچی کا صرف ایک ڈپٹی میئر ہے جب کہ پنجاب میں یہ تعداد زیادہ ہے۔ کراچی کا موجودہ بلدیاتی نظام بے اختیار، یوسیز ناکام ہیں جن سے کراچی کے مسائل حل ہوئے نہ عوام مطمئن ہیں البتہ مسائل بہت بڑھے ہیں۔
گزشتہ دنوں میں ایک نیوز ایجنسی نے کراچی کے دو ڈویژن اور 9 ضلع بنائے جانے کی خبر دی جس پر فوری ردعمل پی ایس پی کا آیا اور ایم کیو ایم بعد میں جاگی اور اس کے وزیر کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو میں حکومت کے خلاف احتجاج کیا اور دھمکی دی کہ اگر کراچی کو تقسیم کرکے دو میئر بنائے گئے تو پھر سندھ کے بھی دو وزیر اعلیٰ ہوسکتے ہیں ۔
ایم کیو ایم گزشتہ کئی سالوں سے سندھ میں دو حصوں میں تقسیم کی باتیں کرتی رہی ہے اور جب تک وہ سندھ حکومت میں رہی اس نے سنجیدگی سے کبھی سندھ کی دو حصوں میں تقسیم کا مطالبہ نہیں کیا ۔ اس نے ہمیشہ کبھی مخصوص حالات، احتجاج یا ناراضگی کے باعث دباؤ ڈالنے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا اور کبھی سندھ اسمبلی میں ایسی کوئی قرارداد پیش نہیں کی کیونکہ آئینی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ جب تک کوئی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے مزید صوبے کی منظوری نہ دے بات آگے پارلیمنٹ تک نہیں جا سکتی اور کوئی نیا صوبہ بن ہی نہیں سکتا۔
پیپلز پارٹی سالوں سے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتی آرہی ہے مگرکامیاب نہ ہوسکی ۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی پنجاب حکومت میں جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے کی بحالی کی قرارداد منظور کرا رکھی ہے۔ 2018 کے انتخابات کے موقعے پر تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب صوبہ کا نعرہ لگا کر مسلم لیگ (ن) کے متعدد رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا مگر آٹھواں ماہ شروع ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کی وفاقی اور پنجاب حکومت نے عملی طور پرکچھ بھی نہیں کیا اور صرف جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے قیام ہی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب کی تقسیم پر تیار ہے مگر پی ٹی آئی اپنا وعدہ بھول چکی ہے کیونکہ ایسی صورت میں تخت لاہور دو حصوں میں تقسیم ہونے سے پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور پی ٹی آئی ایسا کبھی نہیں چاہے گی اور پنجاب کی تقسیم ایک خواب ہی رہے گا۔
پیپلز پارٹی کا سیاسی مفاد موجودہ سندھ برقرار رہنے میں ہے اور اندرون سندھ کے لوگ اور رہنما کبھی ایسا نہیں چاہیں گے اور کراچی میں قائم صوبائی دارالحکومت گھوٹکی اور کشمور جیسے دور دراز علاقوں سے دور ہونے کے باوجود صوبائی دارالحکومت کراچی ہی میں رہے گا اور کوئی بھی وفاقی حکومت بھی سندھ کی تقسیم نہیں چاہے گی۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی جیسی قومی جماعتیں سندھ کی تقسیم کی حامی نہیں اور صرف ایم کیو ایم سندھ کی تقسیم کی محض باتیں ہی کرتی ہے اور آگے چل کر پی ایس پی اور ایم کیو ایم حقیقی اس کی ہم نوا ہوسکتی ہیں جس کی حقیقی وجوہات بھی موجود ہیں ۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی پریس کانفرنس کا فوری جواب سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے دیا کہ سندھ حکومت کا مزید اضلاع بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور ایم کیو ایم اپنے لسانی مفاد کے لیے ایسے مطالبے کرتی رہتی ہے۔ ایم کیو ایم کے کراچی کے میئر وسیم اختر نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کے موجودہ 6 اضلاع ختم کرکے کراچی کو صرف ایک ضلع بنایا جائے اور کراچی میں بااختیار ایسی شہری حکومت قائم کی جائے جس کا میئر مالی اور انتظامی طور پر بااختیار ہو جس کے بعد ہی کراچی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
کراچی ملک کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ملک چلتا ہے، مفاد پرستوں اور بدعنوانوں کے خاندان پلتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی ہر حکومت میں اندرون سندھ مالی اور انتظامی ترقی ہوئی۔ بھٹو صاحب کے دور میں اندرون سندھ لاڑکانہ کو ڈویژن ، شکارپور اور بدین کو ضلع کا درجہ دیا گیا تھا مگر ان کے دور میں ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے گئے اور بلدیاتی اداروں کو سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے چلایا گیا۔
پیپلز پارٹی کے بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں میں کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے جب کہ ارباب غلام رحیم کی وزارت اعلیٰ میں سندھ میں ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہٰ یار، کشمور، نوشہرو فیروز،گھوٹکی، قمبر شہداد کوٹ کو ضلع بنایا گیا تھا جنھیں قائم علی شاہ نے ختم کرانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے تھے کیونکہ اندرون سندھ سخت ردعمل ہوتا جس کے بعد عوامی سہولت کے لیے نوابشاہ اور میرپورخاص اور بعد میں ٹھٹھہ اور سجاول کو بھی ضلع بناکر ڈویژن کا درجہ دیا گیا۔ اندرون سندھ کے لوگوں کی سہولتوں کا تو پی پی حکومت نے مکمل خیال رکھا جب کہ کراچی میں بھی شہری اور دیہی کی تفریق پیدا کرائی۔ سندھ میں دیہی اور شہری تقسیم کوٹہ سسٹم نافذ کرکے پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں ممکن بنائی گئی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کے بہترین اور بااختیار ضلع حکومتوں کے نظام کو ختم کرکے دیگر صوبوں کی طرح پیپلز پارٹی نے بھی 1979 کا جنرل ضیا کا بلدیاتی نظام تو بحال کیا مگر منتخب بلدیاتی عہدیداروں کو معمولی اختیار دے کرکمشنری نظام کے ماتحت اور سندھ حکومت کا محتاج بنادیا۔ ڈھائی کروڑ آبادی کے کراچی کو ایک مستحکم شہری حکومت نہیں دی گئی۔ کراچی کے شہری علاقوں کی بلدیہ عظمیٰ اور 6 ڈی ایم سیز کے منتخب یوسی چیئرمینوں کے اداروں کو یونین کمیٹی اور دیہی علاقوں پر مشتمل جو 67 فیصد بتائی جاتی ہے کو بلدیہ عظمیٰ سے الگ رکھ کر ضلع کونسل کراچی بنائی گئی جس کی یوسیز یونین کونسل کہلاتی ہیں۔
سٹی حکومت میں کراچی ایک بااختیار شہری حکومت پر مشتمل تھا جس کے 18 ٹاؤن اور 178 یونین کونسلیں تھیں۔ پی پی حکومت میں ضلع کونسل بااختیار اور بلدیہ عظمیٰ اور ڈی ایم سیز برائے نام اختیارات رکھتی ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ لاہور کی طرح میٹروپولیٹن اور میئر کراچی لارڈ میئر نہیں کہلاتا ۔ 6 ڈی ایم سی میونسپل کارپوریشن ہونے کے باوجود ان کے سربراہ میئر نہیں چیئرمین کہلاتے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کراچی کا صرف ایک ڈپٹی میئر ہے جب کہ پنجاب میں یہ تعداد زیادہ ہے۔ کراچی کا موجودہ بلدیاتی نظام بے اختیار، یوسیز ناکام ہیں جن سے کراچی کے مسائل حل ہوئے نہ عوام مطمئن ہیں البتہ مسائل بہت بڑھے ہیں۔