1452ملائیشیا کی خاص باتیں
ملک کی معیشت نیشنلائیزیشن نے تباہ کردی، لسانی تعصب میرٹ ٹھہرا۔ اب ہم انھیں حسرت سے دیکھتے ہیں۔
اگر آپ نئے نئے کسی ملک میں وارد ہوئے ہیں اور اس ملک کی سماجی اور معاشی حالت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو آپکو کچھ زیادہ پاپڑ بیلنے کی ضرورت نہیں، نہ ہی آپکو کئی کئی کلو وزنی معاشیات پہ رپورٹیں ہضم کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی سماجیات کے مضمون میں لشٹم پشٹم پی ایچ ڈی کرنے کی۔
آپ تو بس محض دو کام کیجیے۔ نمبر ایک تو یہ کہ کسی بھی مصروف سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر ٹریفک کی صورتحال کا جائزہ لیجیے اور نمبر دو وہاں کے کسی بھی اوسط ریسٹورنٹ میں شکم سیری کر ڈالیے۔ اگر ٹریفک شور شرابے، افراتفری، بدنظمی کے بغیر ہوگا تو اس ملک کے معاشرے کی سماجی حالت اچھی خاصی ہوگی اور اگر اس ملک میں فی کس اوسط آمدنی کے لحاظ سے آپ نے مناسب پیسوں میں صاف ستھرا اچھا کھانا کھا لیا تو وہاں کی معاشی حالت بھی بہتر جانیے۔ ہم اسی کسوٹی کو لے کر ملائیشیا آتے ہیں۔
آپ ملائیشیا میں کہیں بھی مثلاً کوالالمپور شہر ہی کی کسی بھی سڑک کے کنارے کھڑے ہو جائیے آپ کو ٹریفک میں نظم و ضبط نظر آئیگا، غلط سمت سے آنے کا وہاں موٹر سائیکل والا بھی نہیں سوچ سکتا۔ لوگ بلاوجہ بار بار اپنی لین بدلتے بھی نظر نہیں آئینگے، ادھر آپ پاکستان میں گاڑیاں دوڑاتے ڈرائیوروں سے پوچھئے تو ان میں سے اکثر کو یہی نہیں پتہ ہوگا کہ سڑکوں پہ بنی لین کا کیا مقصد ہے؟ ملائیشیا میں لوگ آپکو اپنی اپنی لین میں صبر و سکون سے مقررہ رفتار میں گاڑیاں چلاتے ملیں گے۔ ہارن بجانے کا رواج تقریباً عنقا ہے۔
آپ ملائیشیا کا معاشرہ دیکھ لیں سماجی اور شعوری طور پرہ وہ ہم سے کوسوں آگے ملیں گے۔ ملک میں تقریباً 68 فیصد مالے، 23 فیصد چینی اور 7 فیصد ہندوستانی نسلوں کے لوگ ہیں، 61 فیصد لوگ مسلمان، تقریباً 20 فیصد بودھ، 9 فیصد عیسائی اور 6 فیصد ہندو ہیں تاہم لوگ ایک قوم کے طور پہ رہتے ہیں، ملک میں ہر مذہب کا تہوار منایا جاتا ہے اور ہر مذہب کے تہوار پہ ایک ہی جتنی سرکاری چھٹیاں ملتی ہیں، ایسا نہیں کہ یہ لوگ مذہبی، لسانی اور ثقافتی مسائل سے مبرا ہیں تاہم ان لوگوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل کو بات چیت، رواداری اور دانش مندانہ منصوبہ بندی سے حل کرنا سیکھ لیا ہے جسکا بہت بڑا کریڈٹ 16 جولائی 1981ء کو پہلی بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے اور ملائیشیا کو ایشین ٹائیگر بنانیوالے مہاتیر محمد کو جاتا ہے۔
چلیے ہم اب واپس ملائیشیا کی سڑکوں پر آتے ہیں۔ آپکو وہاں ٹریفک جام میں بھی گاڑیاں ایک دوسرے سے چار پانچ فٹ کے فاصلے پہ کھڑی ملیں گی۔ ادھر ہمارے ہاں تو ٹریفک سگنل پہ بھی گاڑیاں بالکل ایک دوسرے سے ملا کر کھڑی کی جاتی ہیں، یہی حال قطاروں کا ہے، اگر کہیں بھولے بھٹکے سے لوگوں کو قطار میں لگنا بھی پڑے تو بالکل ایک دوسرے سے چپک کر کھڑے ہوتے ہیں حالانکہ آپ اگر اگلے آدمی کے کندھوں پہ بھی چڑھ جائیں تو بھی آپکی باری اگلے آدمی کے بعد آئیگی یہ صرف بے صبری ہی نہیں بلکہ لالچ اور ہوس کی بیماری ہے جو ہمارے سروں پہ سوار پرویز مشرفوں، زرداریوں، شریفوں سے ہوتی ہوئی اب معاشرے کے انگ انگ میں رچ بس گئی ہے۔مگر ادھر کوالالمپور میں آپکو کبھی کبھار ٹریفک جام میں کچھ لوگ بے ساختہ ہارن بجاتے ہوئے بھی مل جائینگے ان میں سے کچھ وہ ہونگے جو جنوبی ایشیا سے ملازمتوں کے لیے آئے ہوئے ہیں اور کچھ مقامی بھی۔ نچلے درجے پہ ایئرپورٹ امیگریشن سے لے کر پولیس تک میں کرپشن نظر آتی ہے گو اس بڑے پیمانے پہ نہیں جو ہمارا حال ہے۔
ملائیشیا میں یہ کرپشن سابق وزیر اعظم نجیب رزاق کے نو سالہ اقتدار کا نتیجہ ہے۔ نجیب رزاق کی ملائیشیا میں 3 اپریل 2009ء سے 10 مئی 2018ء نو سالوں کی حکومت کو آپ ملائیشیا میں پاکستان کی طرح کی زرداری و شریف حکومتوں کی ہی ایک شکل سمجھ لیجیے، اس کرپٹ سیاستدان نے نہ صرف خود کرپشن کی بلکہ اپنے خاندان، ساتھیوں سب ہی کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دیدی۔ نجیب رزاق اب زیر حراست ہے اور کرپشن مقدمات کا سامنا کر رہا ہے تاہم نہ ہی وہ آئے روز نت نئی بیماریاں لاحق ہونے کا واویلا مچا کر بیرون ملک اپنے علاج کا مطالبہ کرتا ہے اور نہ ہی اس کے تحقیقاتی اداروں کے سامنے پیش ہونے کے وقت اس کے سو ڈیڑھ سو کارکنوں کا ''سمندر'' امڈ آتا ہے جو وہاں کی پولیس پہ ٹی وی چینلز کی حوصلہ افزائی کے ساتھ حملہ کر دے۔
یہ لیجیے یہ ایک اور فرق سامنے آیا ہمارے سامنے ملائیشیا اور پاکستان کا۔ ملائیشیا میں وی آئی پی ہوتے ہیں تاہم نہ ہی ان کے لیے ٹریفک بند ہوتا ہے نہ ان کے ہمراہ سرکاری و نجی اہلکار اور غنڈے بدمعاش ہوتے ہیں جو لوگوں کو گالیاں بکیں اور ان پہ ہتھیار تانیں۔ تھوڑی بہت کرپشن کے باوجود ملائیشیا میں قانون کی عملداری کا یہ حال ہے کہ آپکو کہیں کوئی پولیس والا نظر نہیں آتا۔ اگر کہیں کوئی ایک دو ٹریفک پولیس کے کبھی اہلکار جو نظر آجائیں تو وہ بھی بندوقوں کے بغیر ہی نظر آئینگے۔ اکثر بلڈنگوں میں آپکو نجی گارڈز نظر آئینگے مگر وہ بھی مسلح نہیں ہوتے۔ ادھر اپنے ہاں شادی بارات پہ ہی ''خوشی کی فائرنگ'' میں دو چار لوگوں کا مارا جانا ایک عام سی بات ہے۔ امن و امان کی حالت اچھی ہے تاہم پیسے، پرس وغیرہ چھیننے کی وارداتیں ہوجاتی ہیں خصوصاً رات گئے۔
بچوں کے اغوا کی وارداتیں ہمارے مقابلے میں تو شاذ ہی سننے میں آتی ہیں تاہم والدین پبلک مقامات پہ بچوں کی حفاظت کے لیے بڑے چوکنا رہتے ہیں۔ مشرق بعید اور خلیجی ممالک کی طرح ملائیشیا میں بھی مقامی لوگ ''گوروں'' سے بہت مرعوب دکھائی دیتے ہیں اور انھیں وی آئی پی درجہ دیتے ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم بہت کم ہیں۔ ملائیشین خاندانوں میں مرد اور عورت دونوں کام کرتے ہیں۔ تنہا عورتیں رات گئے تک اپنی مرضی کے لباس میں گھومتی ہیں کسی جگہ بھی انھیں ہراساں نہیں کیا جاتا۔ مقامی مالے خواتین بچپن سے ہی اسکارف باندھتی ہیں جب کہ بہت سی دوسری خواتین چھوٹے بڑے اسکرٹس سے لے کر نیکر تک پہنتی ہیں۔ مجال ہے کہ جو کوئی دیکھتا، فقرے کستا، اشارے کرتا، تنگ کرتا نظر آ جائے۔ تقریباً ہر مسجد میں خواتین کے لیے الگ نماز ادا کرنے کی جگہ ہے۔
وہیں بڑے بڑے گاؤن بھی موجود ہوتے ہیں، جن خواتین کا لباس ناکافی ہو وہ یہ گاؤن پہن کر نماز ادا کرلیتی ہیں۔ ملائیشیا کی تمام مساجد میں جمعہ کا خطبہ اور تقریر ایک ہی پڑھا جاتا ہے جو ہر جمعے کے لیے حکومت کی طرف سے آتا ہے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کی حد مقرر ہے اور صرف اذان کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ نماز کے دوران ان کی آواز اتنی ہوتی ہے کہ بس مسجد کے اندر سنائی دے۔ شراب، نائٹ کلب عام ہیں تاہم جھوٹ، بے ایمانی، دھوکہ دہی، قتل و غارتگری، کاروکاری، چوری ڈاکے، زیادتی، تیزاب گردی، قبضہ گیری، چائنا کٹنگ، منشیات وغیرہ کی قلت ہے۔ صفائی کا ہر کوئی بہت خیال رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے ملائیشیا میں بھی پلاسٹک کی تھیلیاں عام ہیں بالکل ایسے جیسے ڈینگی مچھر۔ آپکو شہر میں کئی کئی جگہ دھواں اٹھتا دکھائی دیگا جو دراصل ڈینگی مچھر سے بچنے کے لیے اسپرے کیا جا رہا ہوگا جسے لوگ ''فاگنگ'' کہتے ہیں۔
مہاتیر محمد کے ایک بار پھر وزیر اعظم بننے کے بعد ملائیشیا میں امید کے نئے جذبے نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ ملائیشیا اب پھر سے تیزی سے ترقی کرنے لگے گا۔ کالم کا دامن تنگ ہے ورنہ ملائیشیا کی بہت سی خاص باتیں ہیں جو اسے خاص بناتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب وہ ہمیں اور ہماری ترقی کو حسرت سے دیکھا کرتے تھے پھر بھنگڑوں اور نعروں کے رسیا پنجاب کے عوام نے ''روٹی کپڑا مکان'' کے نعروں پہ ملک دو ٹکڑے کروا دیا، ملک کی معیشت نیشنلائیزیشن نے تباہ کردی، لسانی تعصب میرٹ ٹھہرا۔ اب ہم انھیں حسرت سے دیکھتے ہیں۔
آپ تو بس محض دو کام کیجیے۔ نمبر ایک تو یہ کہ کسی بھی مصروف سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر ٹریفک کی صورتحال کا جائزہ لیجیے اور نمبر دو وہاں کے کسی بھی اوسط ریسٹورنٹ میں شکم سیری کر ڈالیے۔ اگر ٹریفک شور شرابے، افراتفری، بدنظمی کے بغیر ہوگا تو اس ملک کے معاشرے کی سماجی حالت اچھی خاصی ہوگی اور اگر اس ملک میں فی کس اوسط آمدنی کے لحاظ سے آپ نے مناسب پیسوں میں صاف ستھرا اچھا کھانا کھا لیا تو وہاں کی معاشی حالت بھی بہتر جانیے۔ ہم اسی کسوٹی کو لے کر ملائیشیا آتے ہیں۔
آپ ملائیشیا میں کہیں بھی مثلاً کوالالمپور شہر ہی کی کسی بھی سڑک کے کنارے کھڑے ہو جائیے آپ کو ٹریفک میں نظم و ضبط نظر آئیگا، غلط سمت سے آنے کا وہاں موٹر سائیکل والا بھی نہیں سوچ سکتا۔ لوگ بلاوجہ بار بار اپنی لین بدلتے بھی نظر نہیں آئینگے، ادھر آپ پاکستان میں گاڑیاں دوڑاتے ڈرائیوروں سے پوچھئے تو ان میں سے اکثر کو یہی نہیں پتہ ہوگا کہ سڑکوں پہ بنی لین کا کیا مقصد ہے؟ ملائیشیا میں لوگ آپکو اپنی اپنی لین میں صبر و سکون سے مقررہ رفتار میں گاڑیاں چلاتے ملیں گے۔ ہارن بجانے کا رواج تقریباً عنقا ہے۔
آپ ملائیشیا کا معاشرہ دیکھ لیں سماجی اور شعوری طور پرہ وہ ہم سے کوسوں آگے ملیں گے۔ ملک میں تقریباً 68 فیصد مالے، 23 فیصد چینی اور 7 فیصد ہندوستانی نسلوں کے لوگ ہیں، 61 فیصد لوگ مسلمان، تقریباً 20 فیصد بودھ، 9 فیصد عیسائی اور 6 فیصد ہندو ہیں تاہم لوگ ایک قوم کے طور پہ رہتے ہیں، ملک میں ہر مذہب کا تہوار منایا جاتا ہے اور ہر مذہب کے تہوار پہ ایک ہی جتنی سرکاری چھٹیاں ملتی ہیں، ایسا نہیں کہ یہ لوگ مذہبی، لسانی اور ثقافتی مسائل سے مبرا ہیں تاہم ان لوگوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل کو بات چیت، رواداری اور دانش مندانہ منصوبہ بندی سے حل کرنا سیکھ لیا ہے جسکا بہت بڑا کریڈٹ 16 جولائی 1981ء کو پہلی بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے والے اور ملائیشیا کو ایشین ٹائیگر بنانیوالے مہاتیر محمد کو جاتا ہے۔
چلیے ہم اب واپس ملائیشیا کی سڑکوں پر آتے ہیں۔ آپکو وہاں ٹریفک جام میں بھی گاڑیاں ایک دوسرے سے چار پانچ فٹ کے فاصلے پہ کھڑی ملیں گی۔ ادھر ہمارے ہاں تو ٹریفک سگنل پہ بھی گاڑیاں بالکل ایک دوسرے سے ملا کر کھڑی کی جاتی ہیں، یہی حال قطاروں کا ہے، اگر کہیں بھولے بھٹکے سے لوگوں کو قطار میں لگنا بھی پڑے تو بالکل ایک دوسرے سے چپک کر کھڑے ہوتے ہیں حالانکہ آپ اگر اگلے آدمی کے کندھوں پہ بھی چڑھ جائیں تو بھی آپکی باری اگلے آدمی کے بعد آئیگی یہ صرف بے صبری ہی نہیں بلکہ لالچ اور ہوس کی بیماری ہے جو ہمارے سروں پہ سوار پرویز مشرفوں، زرداریوں، شریفوں سے ہوتی ہوئی اب معاشرے کے انگ انگ میں رچ بس گئی ہے۔مگر ادھر کوالالمپور میں آپکو کبھی کبھار ٹریفک جام میں کچھ لوگ بے ساختہ ہارن بجاتے ہوئے بھی مل جائینگے ان میں سے کچھ وہ ہونگے جو جنوبی ایشیا سے ملازمتوں کے لیے آئے ہوئے ہیں اور کچھ مقامی بھی۔ نچلے درجے پہ ایئرپورٹ امیگریشن سے لے کر پولیس تک میں کرپشن نظر آتی ہے گو اس بڑے پیمانے پہ نہیں جو ہمارا حال ہے۔
ملائیشیا میں یہ کرپشن سابق وزیر اعظم نجیب رزاق کے نو سالہ اقتدار کا نتیجہ ہے۔ نجیب رزاق کی ملائیشیا میں 3 اپریل 2009ء سے 10 مئی 2018ء نو سالوں کی حکومت کو آپ ملائیشیا میں پاکستان کی طرح کی زرداری و شریف حکومتوں کی ہی ایک شکل سمجھ لیجیے، اس کرپٹ سیاستدان نے نہ صرف خود کرپشن کی بلکہ اپنے خاندان، ساتھیوں سب ہی کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دیدی۔ نجیب رزاق اب زیر حراست ہے اور کرپشن مقدمات کا سامنا کر رہا ہے تاہم نہ ہی وہ آئے روز نت نئی بیماریاں لاحق ہونے کا واویلا مچا کر بیرون ملک اپنے علاج کا مطالبہ کرتا ہے اور نہ ہی اس کے تحقیقاتی اداروں کے سامنے پیش ہونے کے وقت اس کے سو ڈیڑھ سو کارکنوں کا ''سمندر'' امڈ آتا ہے جو وہاں کی پولیس پہ ٹی وی چینلز کی حوصلہ افزائی کے ساتھ حملہ کر دے۔
یہ لیجیے یہ ایک اور فرق سامنے آیا ہمارے سامنے ملائیشیا اور پاکستان کا۔ ملائیشیا میں وی آئی پی ہوتے ہیں تاہم نہ ہی ان کے لیے ٹریفک بند ہوتا ہے نہ ان کے ہمراہ سرکاری و نجی اہلکار اور غنڈے بدمعاش ہوتے ہیں جو لوگوں کو گالیاں بکیں اور ان پہ ہتھیار تانیں۔ تھوڑی بہت کرپشن کے باوجود ملائیشیا میں قانون کی عملداری کا یہ حال ہے کہ آپکو کہیں کوئی پولیس والا نظر نہیں آتا۔ اگر کہیں کوئی ایک دو ٹریفک پولیس کے کبھی اہلکار جو نظر آجائیں تو وہ بھی بندوقوں کے بغیر ہی نظر آئینگے۔ اکثر بلڈنگوں میں آپکو نجی گارڈز نظر آئینگے مگر وہ بھی مسلح نہیں ہوتے۔ ادھر اپنے ہاں شادی بارات پہ ہی ''خوشی کی فائرنگ'' میں دو چار لوگوں کا مارا جانا ایک عام سی بات ہے۔ امن و امان کی حالت اچھی ہے تاہم پیسے، پرس وغیرہ چھیننے کی وارداتیں ہوجاتی ہیں خصوصاً رات گئے۔
بچوں کے اغوا کی وارداتیں ہمارے مقابلے میں تو شاذ ہی سننے میں آتی ہیں تاہم والدین پبلک مقامات پہ بچوں کی حفاظت کے لیے بڑے چوکنا رہتے ہیں۔ مشرق بعید اور خلیجی ممالک کی طرح ملائیشیا میں بھی مقامی لوگ ''گوروں'' سے بہت مرعوب دکھائی دیتے ہیں اور انھیں وی آئی پی درجہ دیتے ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم بہت کم ہیں۔ ملائیشین خاندانوں میں مرد اور عورت دونوں کام کرتے ہیں۔ تنہا عورتیں رات گئے تک اپنی مرضی کے لباس میں گھومتی ہیں کسی جگہ بھی انھیں ہراساں نہیں کیا جاتا۔ مقامی مالے خواتین بچپن سے ہی اسکارف باندھتی ہیں جب کہ بہت سی دوسری خواتین چھوٹے بڑے اسکرٹس سے لے کر نیکر تک پہنتی ہیں۔ مجال ہے کہ جو کوئی دیکھتا، فقرے کستا، اشارے کرتا، تنگ کرتا نظر آ جائے۔ تقریباً ہر مسجد میں خواتین کے لیے الگ نماز ادا کرنے کی جگہ ہے۔
وہیں بڑے بڑے گاؤن بھی موجود ہوتے ہیں، جن خواتین کا لباس ناکافی ہو وہ یہ گاؤن پہن کر نماز ادا کرلیتی ہیں۔ ملائیشیا کی تمام مساجد میں جمعہ کا خطبہ اور تقریر ایک ہی پڑھا جاتا ہے جو ہر جمعے کے لیے حکومت کی طرف سے آتا ہے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کی حد مقرر ہے اور صرف اذان کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ نماز کے دوران ان کی آواز اتنی ہوتی ہے کہ بس مسجد کے اندر سنائی دے۔ شراب، نائٹ کلب عام ہیں تاہم جھوٹ، بے ایمانی، دھوکہ دہی، قتل و غارتگری، کاروکاری، چوری ڈاکے، زیادتی، تیزاب گردی، قبضہ گیری، چائنا کٹنگ، منشیات وغیرہ کی قلت ہے۔ صفائی کا ہر کوئی بہت خیال رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے ملائیشیا میں بھی پلاسٹک کی تھیلیاں عام ہیں بالکل ایسے جیسے ڈینگی مچھر۔ آپکو شہر میں کئی کئی جگہ دھواں اٹھتا دکھائی دیگا جو دراصل ڈینگی مچھر سے بچنے کے لیے اسپرے کیا جا رہا ہوگا جسے لوگ ''فاگنگ'' کہتے ہیں۔
مہاتیر محمد کے ایک بار پھر وزیر اعظم بننے کے بعد ملائیشیا میں امید کے نئے جذبے نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ ملائیشیا اب پھر سے تیزی سے ترقی کرنے لگے گا۔ کالم کا دامن تنگ ہے ورنہ ملائیشیا کی بہت سی خاص باتیں ہیں جو اسے خاص بناتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب وہ ہمیں اور ہماری ترقی کو حسرت سے دیکھا کرتے تھے پھر بھنگڑوں اور نعروں کے رسیا پنجاب کے عوام نے ''روٹی کپڑا مکان'' کے نعروں پہ ملک دو ٹکڑے کروا دیا، ملک کی معیشت نیشنلائیزیشن نے تباہ کردی، لسانی تعصب میرٹ ٹھہرا۔ اب ہم انھیں حسرت سے دیکھتے ہیں۔