مدینہ کی ریاست

کوئی کتنا ہی اسلامی بھائی چارے کا راگ الاپے، لیکن یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ ہم مختلف قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں

تحریک پاکستان کا مشہور نعرہ تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الاللہ‘‘۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان شاید دنیا میں وہ واحد اسلامی ملک ہے جہاں بسنے والے عوام اور ان پر حکومت کرنے والے حکمران چاہے کتنے ہی بے عمل مسلمان کیوں نہ ہوں سب اسلام کی عظمت رفتہ اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کچھ کر گزرنے کے زبانی دعوے ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ہمارے موجودہ حکمرانوں کا پاکستان کو 'مدینه کی ریاست' بنانے کے دعوے ہیں۔

ہمارے ملک کی بدقسمتی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اس پر جو بھی حکمران مسلط ہوا وہ یا تو آکسفورڈ سے آدھا پونا تعلیم یافتہ تھا یا اس کی پوری زندگی ہی یورپ یا امریکا میں گزری ہوتی ہے۔ مگر ان تمام حکمرانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستانی عوام کو اسلام کے نام پر بہت آسانی سے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

موجودہ وزیراعظم اپنے وقت کے پلے بوائے مشہور تھے۔ پھر الله نے انہیں ہدایت عطا فرمائی اور انہیں پاکستان کی سیاست میں آنے کا خیال آگیا۔ الله نے مزید مہربانی فرما کر انہیں اس ملک کی حکومت بھی عطا فرما دی۔ اب وہ پاکستان کو 'مدینه کی ریاست' میں تبدیل کرنے کا عزم ظاہر کررہے ہیں۔

لیکن شاید وہ زمینی حقائق سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ آج ہمارے ملک کی جو حالت ہے وہ قبل از اسلام کے دور جاہلیت کی تصویر پیش کررہی ہے۔ ہر شخص اپنے قبیلے اور اپنی قومیت کو اپنی پہچان سمجھتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے۔ اس پر ستم بالائے ستم کہ یہی حکومت ایک اور صوبہ قومیت کی بنیاد پر بنانے جارہی ہے، ایک نیا سرائیکی صوبہ۔ یعنی پاکستانی عوام کو مزید تقسیم کردیا گیا۔ اب سرائیکی بھی پاکستان میں سرکاری طور پر مزید ایک تسلیم شدہ قومیت ہوگئی ہے۔

اس سے پہلے سرحد میں رہنے والے عوام سے زیادہ وہاں کے سیاستدانوں نے ایک تحریک چلا رکھی تھی کہ سرحد کا نام بدل کر اسے قومیت کی بنیاد پر رکھا جائے۔ وہ نام آخرکار تبدیل کرکے پختونخوا رکھا جانا تھا لیکن کچھ نیم مولویوں نے اس میں خیبر کا اضافہ بھی کروادیا۔ یہاں میں نیم مولویوں کا لفظ اس لیے استمعال کررہا ہوں کہ اس اضافے کو کروانے والوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ خیبر الله اور اس کے رسول کے بدترین دشمنوں کا سب سے مضبوط قلع تھا۔ انہوں نے تو اپنی جانب سے اس میں کچھ اسلامی ٹچ دیا تھا۔

کوئی ہمارے ملک میں کتنا ہی اسلامی بھائی چارے کا راگ الاپے، لیکن یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ ہم مختلف قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایسی آوازیں ہم اکثر اپنے ایوانوں میں سنتے رہتے ہیں کہ میں پنجابی پہلے ہوں بعد میں مسلمان ہوں یا میں پختون پہلے ہوں بعد میں پاکستانی ہوں۔

اگر قومیت کی ہی بنیاد پر صوبے بنانے ہیں تو ایک اور قومیت بھی اپنی محرومیوں اور ناانصافی کا رونا دہائیوں سے رو رہی ہے۔ وہ ہے مہاجر قومیت۔ مہاجر اگر الگ صوبے کی بات کرتے ہیں تو خون کی ندیاں بہانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے جو اس ملک کو مکمل تباہی کی طرف لے جائے گا۔

ہمارے مدبر اور اہل علم حضرات یہ بات بتاتے نہیں تھکتے کہ دین کی بنیاد پر ابتدائے اسلام کے بعد کی جانے والی سب سے بڑی ہجرت برصغیر میں کی گئی۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ دین کی ہجرت ثانی کا مدینہ پاکستان ہے۔ تحریک پاکستان کا مشہور نعرہ تھا۔

''پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الاللہ''

اس وقت نہ کوئی پنجابی تھا، نہ سندھی، نہ کوئی پختون تھا، نہ بلوچی۔ ہجرت کے مدتوں بعد تک یہاں کوئی مہاجر بھی نہیں تھا۔


قائداعظم کی وفات کے بعد حکومت ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی جنہوں نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خاطر اس ملک کو قومیتوں میں تقسیم کردیا۔

اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ اسلام کے نام پر ملک حاصل کرنے کے بعد اور دین کے لیے اتنی بڑی ہجرت کے وہ مقاصد کیوں حاصل نہ ہوسکے جس کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہجرت کے بعد حضور اکرمؐ نے ایک کام اور بھی کیا تھا، جسے آج مواخات کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک مہاجر کو ایک انصاری کا بھائی بنایا تھا۔ انصاری مسلمانوں نے ایثار و قربانی کی مثال قائم کرتے ہوئے اپنا آدھا مال اپنے مہاجر بھائیوں کو پیش کردیا تھا۔ یہاں تک کہ جس انصاری کی دو بیویاں تھیں اس نے اپنے مہاجر بھائی کو پیشکش کی کہ میں اپنی ایک بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں تم اس سے شادی کرلو۔

اب نہ تو وہ قرون اولیٰ کے مسلمان ہیں، نہ ہی ایسی کسی قربانی کی آج کے مسلمان سے امید رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر ہم مسلمان ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ اسوۂ حسنہ ہی ہمارے لیے بہترین حل پیش کرتا ہے تو ہمیں آج کے دور کے حالات کے تحت حل ڈھونڈنا ہوگا۔

ہم ہر دور میں کوٹہ سسٹم کو ہی اپنے مسائل کا حل سمجھتے رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ جب ہم کسی کوٹہ سسٹم کو نافذ کرتے ہیں تو ہم اپنی قوم کے مختلف طبقوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرتے ہیں۔ ہم انہیں یہ باور کرواتے ہیں کہ اپنی قومیت سے چمٹے رہنے کے بے شمار فوائد ہیں، لہٰذا قومیت سے جڑے رہنے میں ہی ان کا فائدہ ہے۔ محنت، ذہانت اور تعلیم سب ثانوی چیزیں ہیں، جن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ہمارے ملک سے جس طرح ٹیلنٹ اور صلاحیت کا انخلا جاری ہے، اس سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ اگر ہم ہر حال میں کوٹہ سسٹم کو ہی اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں تو اسی کوٹہ سسٹم کو ہم اپنے ملک اور قوم کی بہتری کے لیے اسوۂ حسنہ کے مطابق کیوں نہ نافذ کریں، جس سے آج بھی ہمارے اکثر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

پڑھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ ہم کیسے کوٹہ سسٹم کو اسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔

اس کے لیے کسی غیر معمولی بصیرت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو ایک قوم بنانا چاہتے ہیں اور تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنانا چاہتے ہیں، جیسا کہ مدینه کی ریاست میں بن گئے تھے تو کیا ہم ایک ایسے کوٹہ کا اعلان نہیں کرسکتے جو دو قومیتوں کے افراد کے درمیان شادی کی صورت میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے ریاست کی طرف سے مفت تعلیم، صحت اور روزگار کو یقینی بناتا ہو۔ جو اس بات کی ضمانت دیتا ہو کہ ایسے بچوں کے لیے ترجیحی طور پر سرکاری ملازمتوں کا حصول ممکن بنایا جائے گا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کی سیٹیں مخصوص کی جائیں گی۔ ہر صورت انہیں مفت طبی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ قومیتیں ایک دوسرے کے قریب آئیں گی۔ قریب آنے کی وجه سے انہیں ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ ایک دوسرے سے نفرت میں کمی آئے گی۔

اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ بیٹیاں جو اپنے گھروں میں بیٹھی ہوئی بوڑھی ہورہی ہیں، جس کی ایک وجہ قومیت اور برادری بھی ہے، اس سسٹم میں ایک دراڑ پڑے گی۔ لوگ اپنی قومیت اور برادری سے نکل کر بھی رشتے کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے۔ آج بیٹیوں کی شادی ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس مسئلے کے حل کی صورت پیدا ہوگی۔

ہدایت دینا تو الله کا کام ہے، بندہ تو صرف کوشش کرسکتا ہے۔ الله ہم سب کو سمجھ اور بصیرت عطا فرمائے۔ (آمین)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story