تھے تو آبا ہی ہمارے وہ مگر تم کیا ہو
تقسیم برصغیر سے قبل کا واقعہ ہے ۔ لاہور کے مال روڈ پر دو خاکروب جن کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا ، جھاڑو دے۔۔۔
تقسیم برصغیر سے قبل کا واقعہ ہے ۔ لاہور کے مال روڈ پر دو خاکروب جن کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا ، جھاڑو دے رہے تھے۔ دونوں آپس میں چچا بھتیجے بھی تھے ۔ اسی اثنا میں مال روڈ سے مسلمانوں کا ایک جلوس گزرا ، تحریک پاکستان اپنی عروج پر تھی ۔ جلوس کے شرکاء بڑے جوش و خروش سے نعرے لگا رہے تھے '' بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان ''۔
جلوس گزر جانے کے بعد خاکروب بھتیجے نے اپنے چچا سے پوچھا ''ایہہ کیہہ کیندے پئے نیں''؟ ( یہ کیا کہہ رہے تھے؟) چچا نے بتایا ''ایہہ آزادی مانگدے پئے نے'' ( یہ آزادی مانگ رہے ہیں) بھتیجے نے پوچھا ''تے فیر''؟ (تو پھر؟) چچا نے گردن اکڑا کر جواب دیا '' فیر کیہہ؟ اسیں دیندے ای نیں'' (ہم انھیں آزادی دیتے ہی نہیں ہیں)۔ برصغیر پر قابض انگریز بھی عیسائی مذہب کے پیروکار تھے، اسی مذہب کے حوالے سے وہ خاکروب ہندوستانی چچا اپنے آپ کو ان لوگوں میں شمار کرتے تھے جو سات سمندر پار سے آکر برصغیر پر قابض ہوگئے تھے اور چچا کو یہ خوش فہمی بھی تھی کہ وہ ہندوستانیوں کو اس وقت آزادی عطا کریں گے جب ان کا دل چاہے گا، فی الحال وہ برصغیر کا قبضہ چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے تھے۔
ایسی ہی خوش فہمی کا شکار ہم پاکستان کے مسلمان بھی ہیں اور ایک امت مسلمہ کا تصور پیش کرتے کرتے ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیگر قومیتوں کے مسلمان بھی ہمارے اس امت مسلمہ کے تصور سے متفق بھی ہیں یا نہیں؟ نبی پاک ﷺ نے تو ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک ہی امت اور تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی ہی قرار دیا تھا۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کر عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا تھا '' تم میں سے افضل ترین انسان وہ ہے جو متقی ہے''۔ لیکن کیا ہم مسلمان اس پر عمل کرتے ہیں۔کیا عرب قومیت سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہمیں اس قابل بھی سمجھتے ہیں یا نہیں؟ امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے جس طرح ہم مرے جاتے ہیں اور یہ غلط بھی نہیں ہے، کیا دیگر قومیتوں کے مسلمان بھی اسی نقطہ نظر سے سوچتے ہیں یا نہیں؟ عرب معاشرے میں پہلے بھی افریقہ کے زرخرید حبشی غلام موجود تھے، حضرت بلال حبشی ؓ اس کی ایک بہترین مثال ہیں ۔
اسلام نے گورے اور کالے کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا اور انھیں یکساں حقوق کا حقدار ٹھہرایا ۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں گو اسلامی ریاست دس ہزار مربع میل تک پھیل گئی اور روم اور فارس جیسی مضبوط سلطنتیں پرچم اسلام کے سامنے سرنگوں ہوگئیں، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ خود عرب قوم میں قبائلی عصبیتیں انگڑائی لے کر بیدار ہوگئیں۔ بنو امیہ اور بنو عباس کی چپقلش تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔
تاریخ بڑی بے رحم لیکن ہمیشہ سچی ہوتی ہے، یہ ماضی کے لمحات کو جوں کا توں قید کرلیتی ہے۔ اس کی تردید نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اس میں ترمیم کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ہر لمحہ جو گزر جاتا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور ماضی کو کسی بھی صورت بدلا نہیں جاسکتا۔ آپ عقل و تدبیر کے ذریعے اپنے حال اور مستقبل کو تبدیل ضرور کرسکتے ہیں لیکن ماضی میں تبدیلی ناممکن ہے ۔ ماضی کے ظہور پذیر ہونے میں دیر سویر تو ہوسکتی ہے، لیکن وقت کا مورخ ہر تاریخ سے پردہ ضرور اٹھا دیتا ہے یوں ماضی سے فرار نا ممکن بنا دیتا ہے۔
علامہ اقبال نے ایک متحدہ امت مسلمہ کا خواب دیکھا ، لیکن نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی سر زمین پر بسنے والے مسلمان کل بھی مذہب پر قومیت کو ترجیح دیتے تھے اور آج بھی ان کا یہی حال ہے۔ قومیت، زبان، ثقافت، تہذیب و تمدن اور کسی بھی علاقے کے جغرافیائی حالات کے علاوہ علاقے کی آب و ہوا اور رسم و رواج کی اہمیت بذات خود ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی یہ مملکت پاکستان بھی چند علاقوں میں اپنے شہریوں سے مساوی سلوک نہ کر سکی۔ بنو امیہ کے دور خلافت میں بصرہ کے گورنر حجاج بن یوسف کے جواں سال بھتیجے محمد بن قاسم نے برصغیر کی سرزمین پر سندھ کو فتح کر لیا۔ اس طرح اسلام برصغیر میں متعارف ہوا۔
اس کے علاوہ عرب ، ایران ، افغانستان اور دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے اولیاء حضرات نے برصغیر میں تبلیغ اسلام کے ذریعے لاکھوں انسانوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ لیکن اول وآخر ہم قومیت کے اعتبار سے رہے اور کہلائے تو ہندوستانی ہی، وہی ہندستانی جن پر ہر دوسری قوم حملہ آور ہوتی رہی اور ہم ہمیشہ مفتوح ہی کہلائے کبھی فاتح نہیں رہے۔ آریاؤں اور دراوڑوں سے لے کر سکندراعظم تک، مغلوں سے لے کر نادر شاہ درانی تک اور پھر پرتگیزی، ولندیزی اور فرانسیسیوں سے لے کر انگریزوں تک نے ہماری سرزمین پر ''طبع آزمائی'' فرمائی اور ہم نے سب کے سامنے سر تسلیم خم کردیا۔ دراصل ہندوستان، ہندوؤں کا ملک تھا اور اب بھی ہے۔ ہندو بنیادی طور پر ایک بزدل قوم ہے۔
ہندو مذہب کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ نقطہ آشکار ہوتا ہے کہ ہندو قوم ہر طاقتور کے سامنے اپنا سر جھکا دیتی ہے نا صرف سر جھکا دیتی ہے بلکہ اس طاقتور کو دیوتا مان کر اس کی پوجا بھی شروع کردیتی ہے مثلاً سورج، ہاتھی، سانپ، لنگور اور ہر وہ شے جو طاقتور ہے آج بھی اس قوم کی بھگوان بنی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب، افغان اور ترک مسلمان، ہندوستانی مسلمانوں کو کسی شمار قطار میں گنتے ہی نہیں ہیں۔ شہاب الدین غوری افغانستان کے علاقے غور سے آیا تھا اور دہلی کو فتح کرنے کے بعد اپنے غلام قطب الدین ایبک کو ہندوستان کی حکومت سونپ کر چلا گیا تھا۔
اس سے قبل محمود غزنوی افغانستان کے شہر غزنی سے ہندوستان پر حملہ آور ہوتا رہا، لیکن ہندوستان کے مفتوحہ علاقوں سے دولت لوٹنے کے علاوہ اس نے یہاں پر کبھی کسی اسلامی مملکت کے قیام میں دلچسپی نہیں لی۔ خود بابر افغانستان سے چل کر ہندوستان آیا اور یہاں کے مقامی حکمران ابراہیم لودھی کو جو خود بھی مسلمان تھا، شکست دے کر تخت دہلی پر قابض ہوا اور مغل خاندان کی بنیاد رکھی اس خاندان کی حکومت کو تقریباً سوا تین سو برس بعد انگریزوں نے ختم کر کے اسے برٹش راج کا حصہ بنا لیا، ماسوائے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کوئی بھی ہندوستانی حکمران ان غیر ملکی مسلم یا غیر مسلم حملہ آوروں کے آگے مزاحمت نہیں کرسکا اور رنجیت سنگھ بھی مسلمان نہیں بلکہ سکھ تھا۔ ہندوستانی قومیت کا حامل ہونے کے باوجود محض مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے اسے ہم نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ہم خود کو اسلام کے زمانہ عروج میںاسی طرح حصے دار سمجھتے ہیںجیسے وہ خاکروب عیسائی خود کو ہندوستان پر قابض انگریزوں کے ہم پلہ سمجھتا تھا۔ جب کہ عربوں اور ترکوں کا تاثر ہمارے بارے میں معذرت کے ساتھ یہ ہے کہ '' تھے تو آباء ہی ''ہمارے'' وہ مگر تم کیا ہو''؟ اس کا واحد علاج یہی ہے کہ داخلی طور پر ہم خود کو منوائیں۔ پہلے ہم ایک مضبوط پاکستانی مسلمان بنیں پھر امت مسلمہ کی بات کریں، ورنہ ہم نہ تین میں شمار ہوں گے اور نہ ہی تیرہ میں۔
جلوس گزر جانے کے بعد خاکروب بھتیجے نے اپنے چچا سے پوچھا ''ایہہ کیہہ کیندے پئے نیں''؟ ( یہ کیا کہہ رہے تھے؟) چچا نے بتایا ''ایہہ آزادی مانگدے پئے نے'' ( یہ آزادی مانگ رہے ہیں) بھتیجے نے پوچھا ''تے فیر''؟ (تو پھر؟) چچا نے گردن اکڑا کر جواب دیا '' فیر کیہہ؟ اسیں دیندے ای نیں'' (ہم انھیں آزادی دیتے ہی نہیں ہیں)۔ برصغیر پر قابض انگریز بھی عیسائی مذہب کے پیروکار تھے، اسی مذہب کے حوالے سے وہ خاکروب ہندوستانی چچا اپنے آپ کو ان لوگوں میں شمار کرتے تھے جو سات سمندر پار سے آکر برصغیر پر قابض ہوگئے تھے اور چچا کو یہ خوش فہمی بھی تھی کہ وہ ہندوستانیوں کو اس وقت آزادی عطا کریں گے جب ان کا دل چاہے گا، فی الحال وہ برصغیر کا قبضہ چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے تھے۔
ایسی ہی خوش فہمی کا شکار ہم پاکستان کے مسلمان بھی ہیں اور ایک امت مسلمہ کا تصور پیش کرتے کرتے ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیگر قومیتوں کے مسلمان بھی ہمارے اس امت مسلمہ کے تصور سے متفق بھی ہیں یا نہیں؟ نبی پاک ﷺ نے تو ساری دنیا کے مسلمانوں کو ایک ہی امت اور تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی ہی قرار دیا تھا۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کر عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا تھا '' تم میں سے افضل ترین انسان وہ ہے جو متقی ہے''۔ لیکن کیا ہم مسلمان اس پر عمل کرتے ہیں۔کیا عرب قومیت سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہمیں اس قابل بھی سمجھتے ہیں یا نہیں؟ امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے جس طرح ہم مرے جاتے ہیں اور یہ غلط بھی نہیں ہے، کیا دیگر قومیتوں کے مسلمان بھی اسی نقطہ نظر سے سوچتے ہیں یا نہیں؟ عرب معاشرے میں پہلے بھی افریقہ کے زرخرید حبشی غلام موجود تھے، حضرت بلال حبشی ؓ اس کی ایک بہترین مثال ہیں ۔
اسلام نے گورے اور کالے کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا اور انھیں یکساں حقوق کا حقدار ٹھہرایا ۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں گو اسلامی ریاست دس ہزار مربع میل تک پھیل گئی اور روم اور فارس جیسی مضبوط سلطنتیں پرچم اسلام کے سامنے سرنگوں ہوگئیں، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ خود عرب قوم میں قبائلی عصبیتیں انگڑائی لے کر بیدار ہوگئیں۔ بنو امیہ اور بنو عباس کی چپقلش تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔
تاریخ بڑی بے رحم لیکن ہمیشہ سچی ہوتی ہے، یہ ماضی کے لمحات کو جوں کا توں قید کرلیتی ہے۔ اس کی تردید نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اس میں ترمیم کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ہر لمحہ جو گزر جاتا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور ماضی کو کسی بھی صورت بدلا نہیں جاسکتا۔ آپ عقل و تدبیر کے ذریعے اپنے حال اور مستقبل کو تبدیل ضرور کرسکتے ہیں لیکن ماضی میں تبدیلی ناممکن ہے ۔ ماضی کے ظہور پذیر ہونے میں دیر سویر تو ہوسکتی ہے، لیکن وقت کا مورخ ہر تاریخ سے پردہ ضرور اٹھا دیتا ہے یوں ماضی سے فرار نا ممکن بنا دیتا ہے۔
علامہ اقبال نے ایک متحدہ امت مسلمہ کا خواب دیکھا ، لیکن نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی سر زمین پر بسنے والے مسلمان کل بھی مذہب پر قومیت کو ترجیح دیتے تھے اور آج بھی ان کا یہی حال ہے۔ قومیت، زبان، ثقافت، تہذیب و تمدن اور کسی بھی علاقے کے جغرافیائی حالات کے علاوہ علاقے کی آب و ہوا اور رسم و رواج کی اہمیت بذات خود ایک بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی یہ مملکت پاکستان بھی چند علاقوں میں اپنے شہریوں سے مساوی سلوک نہ کر سکی۔ بنو امیہ کے دور خلافت میں بصرہ کے گورنر حجاج بن یوسف کے جواں سال بھتیجے محمد بن قاسم نے برصغیر کی سرزمین پر سندھ کو فتح کر لیا۔ اس طرح اسلام برصغیر میں متعارف ہوا۔
اس کے علاوہ عرب ، ایران ، افغانستان اور دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے اولیاء حضرات نے برصغیر میں تبلیغ اسلام کے ذریعے لاکھوں انسانوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ لیکن اول وآخر ہم قومیت کے اعتبار سے رہے اور کہلائے تو ہندوستانی ہی، وہی ہندستانی جن پر ہر دوسری قوم حملہ آور ہوتی رہی اور ہم ہمیشہ مفتوح ہی کہلائے کبھی فاتح نہیں رہے۔ آریاؤں اور دراوڑوں سے لے کر سکندراعظم تک، مغلوں سے لے کر نادر شاہ درانی تک اور پھر پرتگیزی، ولندیزی اور فرانسیسیوں سے لے کر انگریزوں تک نے ہماری سرزمین پر ''طبع آزمائی'' فرمائی اور ہم نے سب کے سامنے سر تسلیم خم کردیا۔ دراصل ہندوستان، ہندوؤں کا ملک تھا اور اب بھی ہے۔ ہندو بنیادی طور پر ایک بزدل قوم ہے۔
ہندو مذہب کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ نقطہ آشکار ہوتا ہے کہ ہندو قوم ہر طاقتور کے سامنے اپنا سر جھکا دیتی ہے نا صرف سر جھکا دیتی ہے بلکہ اس طاقتور کو دیوتا مان کر اس کی پوجا بھی شروع کردیتی ہے مثلاً سورج، ہاتھی، سانپ، لنگور اور ہر وہ شے جو طاقتور ہے آج بھی اس قوم کی بھگوان بنی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب، افغان اور ترک مسلمان، ہندوستانی مسلمانوں کو کسی شمار قطار میں گنتے ہی نہیں ہیں۔ شہاب الدین غوری افغانستان کے علاقے غور سے آیا تھا اور دہلی کو فتح کرنے کے بعد اپنے غلام قطب الدین ایبک کو ہندوستان کی حکومت سونپ کر چلا گیا تھا۔
اس سے قبل محمود غزنوی افغانستان کے شہر غزنی سے ہندوستان پر حملہ آور ہوتا رہا، لیکن ہندوستان کے مفتوحہ علاقوں سے دولت لوٹنے کے علاوہ اس نے یہاں پر کبھی کسی اسلامی مملکت کے قیام میں دلچسپی نہیں لی۔ خود بابر افغانستان سے چل کر ہندوستان آیا اور یہاں کے مقامی حکمران ابراہیم لودھی کو جو خود بھی مسلمان تھا، شکست دے کر تخت دہلی پر قابض ہوا اور مغل خاندان کی بنیاد رکھی اس خاندان کی حکومت کو تقریباً سوا تین سو برس بعد انگریزوں نے ختم کر کے اسے برٹش راج کا حصہ بنا لیا، ماسوائے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کوئی بھی ہندوستانی حکمران ان غیر ملکی مسلم یا غیر مسلم حملہ آوروں کے آگے مزاحمت نہیں کرسکا اور رنجیت سنگھ بھی مسلمان نہیں بلکہ سکھ تھا۔ ہندوستانی قومیت کا حامل ہونے کے باوجود محض مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے اسے ہم نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ہم خود کو اسلام کے زمانہ عروج میںاسی طرح حصے دار سمجھتے ہیںجیسے وہ خاکروب عیسائی خود کو ہندوستان پر قابض انگریزوں کے ہم پلہ سمجھتا تھا۔ جب کہ عربوں اور ترکوں کا تاثر ہمارے بارے میں معذرت کے ساتھ یہ ہے کہ '' تھے تو آباء ہی ''ہمارے'' وہ مگر تم کیا ہو''؟ اس کا واحد علاج یہی ہے کہ داخلی طور پر ہم خود کو منوائیں۔ پہلے ہم ایک مضبوط پاکستانی مسلمان بنیں پھر امت مسلمہ کی بات کریں، ورنہ ہم نہ تین میں شمار ہوں گے اور نہ ہی تیرہ میں۔