دہشت گردی کے خلاف ابہام سے پاک پالیسی کی ضرورت

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں جو کنفیوژن پایا جاتا ہے‘ وہ عوامی سطح سے لے...

کالعدم تحریک پاکستان فاٹا سے آپریٹ کر رہی ہے لیکن پاکستان کے دوسرے صوبوں خصوصاً کراچی اور پنجاب میں اس کا نیٹ ورک متحرک ہے۔ فوٹو: رائٹرز

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں جو کنفیوژن پایا جاتا ہے' وہ عوامی سطح سے لے کر پالیسی سازی کی سطح تک موجود ہے۔ پاکستان کے موثر اور طاقتور حلقے اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں ہے اور ہم پر مسلط کی گئی ہے' البتہ حالات کی سنگینی نے اس سوچ میں اتنی تبدیلی پیدا کردی ہے کہ گویہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی لیکن اب یہ ہماری بقا کی جنگ بن گئی ہے۔ اس تبدیل شدہ سوچ کا اظہارگزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کوئٹہ میں امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں تھی' اسے ہم پر مسلط کیا گیا' اب یہ جنگ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے' اس سے چھٹکارے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرنا ہو گا۔ 13سال کا گند صاف کرنے میں وقت لگے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں آج جو قتل و غارت ہو رہی ہے جسے دہشت گردی کا نام دیا جا رہا ہے' یہ محض 13 سال پرانا مسئلہ نہیں ہے' اس کی جڑیں تیس بتیس برس پہلے بوئی گئیں تھیں جب وطن عزیز کو دنیا بھر کے مجاہدین کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا تھا' اس وقت مقصد افغانستان میں سوویت یونین کی افواج کو شکست دینا تھا اور اسٹیبلشمنٹ نے اس جنگ کو ہماری جنگ قرار دیا تھا۔ یہ جنگ ختم ہو گئی۔کون جیتا' کون ہارا' یہ تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ کا ہر طالب علم نتائج تک پہنچ سکتا ہے۔ دنیا بھر کے جو جنگجو پاکستان یا افغانستان میں موجودرہے' وہ یقینی طورپر ان دونوں ملکوں کا مسئلہ بن گئے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے اینڈ پر یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ وہ ان جنگجوؤں کے مسئلے کا کوئی حل نکالنے میں ناکام رہی۔


مختلف قومیتوں، ثقافتوں اور نظریات کے حامل یہ لوگ ایک نہ ایک دن پاکستان کے لیے مصیبت بننا تھے اور بالآخر بن گئے۔ جسے ہم آج دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیتے ہیں' یہ انھی جنگجوؤں کے تعاقب میں افغانستان سے ہوتی ہوئی پاکستان میں پہنچ گئی۔ پاکستان کے بااثر اور طاقتور طبقے اگر بہت پہلے حقائق کا ادراک کر لیتے تو آج یہ تباہ کن حالات پیدا نہ ہوتے۔بہرحال جو ہونا وہ ہوچکا، اب سب کو مل کر اس عذاب سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ سیاست میں اختلاف اپنی جگہ لیکن دہشت گردی سیاست نہیں ہے' اس پر ہر حکومت کو یکساں پالیسی اختیار کرنی پڑے گی اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی اسی پالیسی کے ساتھ چلنا ہو گا' یہ امر خوش آئند ہے کہ اعلیٰ سطح پر یہ ادراک کر لیا گیا ہے کہ اب یہ جنگ ہماری بقا کی جنگ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت اس عفریت سے نمٹنے کے لیے یکسو ہے اور وہ ابہام کا شکار نہیں ہے۔آج یہ جنگ بہت پیچیدہ ہو چکی ہے۔ اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے بھی اس جانب اشارہ کیا ہے کہ چاروں صوبوں میں دہشت گردوں کے الگ الگ گروپس ہیں۔ پاکستان میں کثیر الجہتی اور کثیر المقاصد دہشت گردی ہو رہی ہے۔

کالعدم تحریک پاکستان فاٹا سے آپریٹ کر رہی ہے لیکن پاکستان کے دوسرے صوبوں خصوصاً کراچی اور پنجاب میں اس کا نیٹ ورک متحرک ہے دیگر کالعدم مذہبی تنظیمیں بھی کسی نہ کسی سطح پر اس سے ہم آہنگ ہو سکتی ہیں۔ بلوچستان میں جو گروپ کام کر رہے ہیں' اس کے سیاسی مقاصد ٹی ٹی پی یا اس کی ذیلی تنظیموں سے مختلف ہیں۔ بلوچستان میں فرقہ پرست بھی متحرک ہیں اور قوم پرست بھی' افغانستان میں نیٹو فورسز سے برسر پیکار گروپس بھی فاٹا میں اپنے اثرات رکھتے ہیں' یوں دیکھا جائے تو صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرنا ہو گا۔

پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں میں رابطہ کار بڑھانا' پولیس کو جدید تربیت اور ہتھیار فراہم کرنا' ایک اچھا انتظامی عمل ہو گا لیکن اصل کام یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول مذہبی قیادت کواس ایک نکتے پر متفق ہونا ہو گا کہ دہشت گردی خواہ کسی بھی شکل میں ہو' وہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ ملک میں فتنہ و فساد پھیلانے والے گروہ کسی بھی نظریے کے پرچارک کیوں نہ ہوں' وہ ہمدردی یا کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ہیں' جب تک ملک کے پالیسی ساز' سیاسی و مذہبی لیڈر شپ اور اہل علم نظریاتی ابہام اور کنفیوژن کو ختم کرکے واضح اور غیر مبہم سوچ کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے' دہشت گردی ختم نہیں ہو گی جو بڑھتے بڑھتے وطن عزیز کے لیے انتہائی خطر ناک ثابت ہو سکتی ہے۔
Load Next Story