قانون کیوں توڑے جاتے ہیں
قانون کیوں بنائے جاتے ہیں، قانون کیوں توڑے جاتے ہیں؟ یہ سوال ہر ملک ہر معاشرے میں اہل علم اہل فکر کے ذہنوں میں ۔۔۔
قانون کیوں بنائے جاتے ہیں، قانون کیوں توڑے جاتے ہیں؟ یہ سوال ہر ملک ہر معاشرے میں اہل علم اہل فکر کے ذہنوں میں موجود ہوتا ہے اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے بجائے عموماً یہ فلسفہ پیش کیا جاتا ہے کہ معاشروں کی اجتماعی بھلائی کے لیے قانون کی بالادستی ضروری ہے۔ آج کل ہمارے سر سے پیر تک بگڑے ہوئے معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے خواص کی طرف سے جو حل یا فارمولا پیش کیا جارہا ہے وہ بھی ''قانون کی برتری قانون کی حکمرانی'' کا ہے۔ ہماری نوآزاد عدلیہ اور نیم آزاد حکمران طبقات بھی سارے مسائل کا حل ''قانون کی حکمرانی'' ہی میں بتا رہے ہیں۔ دنیا صدیوں بلکہ ہزاروں برسوں تک بادشاہی نظام کے زیر سایہ رہی جس میں قانون اور انصاف کتابوں میں نہیں ہوتا تھا بلکہ بادشاہوں کی زبان پر ہوتا تھا، بادشاہوں کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون اور انصاف ہوتا تھا اور انصاف کی متلاشی رعایا کی قسمت بادشاہوں کی مرضی اور موڈ سے وابستہ ہوتی تھی۔
ہزاروں سال پر محیط جب اس شخصی اور خاندانی حکمرانی کا دور ختم ہوا اور اہل فکر اہل دانش نے انسانی معاشروں کو جمہوری نظام عطا کیا تو قانون بادشاہوں کی جیب سے نکل کر قانون ساز اداروں کی تحویل میں آگیا۔ جمہوری معاشروں کی ترقی اور تہذیب قانون کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی سے مشروط ہوگئی لیکن اس جمہوری اور ترقی یافتہ دنیا کا المیہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر روز قانون بنائے جاتے ہیں اور قانون توڑے جاتے ہیں حالانکہ قانون کے تحفظ کے لیے اربوں کھربوں کے خرچ سے ایک بھاری ریاستی مشنری کھڑی کی جاتی ہے جس میں انتظامیہ عدلیہ فوج پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے مختلف ادارے شامل ہوتے ہیں۔ لیکن قانون بنانے سے زیادہ قانون توڑنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم قانون بنانے اور قانون توڑنے کے عمل کا جائزہ لیں ایک نظر اس بات پر ڈالتے ہیں کہ قانون کون بناتے ہیں، قانون بنانے والوں کو قانون بنانے کا اختیار کون دیتے ہیں، کس طرح دیتے ہیں اور یہ اختیار دینے والے کون لوگ ہوتے ہیں اور یہ اختیار کیوں دیا جاتا ہے؟ بدقسمتی سے اس اہم ترین سوال پر غور کرنے کی اور اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
جمہوری معاشروں میں ملک کو چلانے قانون اور انصاف سمیت قومی اداروں کے حقوق و فرائض کا تعین کرنے اور انھیں ایک گائیڈ لائن فراہم کرنے کے لیے ایک دستور یا آئین بنایا جاتا ہے اور یہ آئین یا دستور اس قدر مقدس ہوتا ہے کہ اس کا احترام ملک کے ہر شہری پر لازم ہوتا ہے اور اسی آئین کے تحت ایک معینہ مدت کے بعد ہر جمہوری ملک میں انتخابات کرائے جاتے ہیں۔ ملک میں موجود سیاسی جماعتیں انتخابات میں اپنے نمائندے کھڑے کرتی ہیں اور عوام کے سامنے ایک انتخابی منشور پیش کیا جاتا ہے کہ اگر عوام نے انھیں حکومت بنانے کا اختیار دیا تو وہ اپنے منشور پر عملدرآمد کریں گے۔ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو قانون سازی کا اختیار اس لیے دیتے ہیں کہ وہ ایسے قوانین بنائیں جو ملک اور معاشرے کی اجتماعی بھلائی میں معاون ثابت ہوں۔ ملک اور معاشرے کی اجتماعی بھلائی کی شرط اول غریب اور مفلوک الحال عوام کو زندگی کی بہتر سہولتیں مہیا کرنا ہوتا ہے۔ جن میں جان و مال کا تحفظ بہتر غذا بہتر طبی سہولتیں بہتر تعلیم روزگار اور کاروبار کے مواقع ملک میں امن و امان کمزوروں کو طاقتورں کے ظلم سے بچانا جرائم کا سدباب کرنا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں عوام انتخابات میں ہر پارٹی کا منشور دیکھتے ہیں اور ہر پارٹی کی طرف سے نامزد کیے جانے والے امیدوار کی سماجی اور سیاسی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں لیکن پسماندہ ملکوں جن میں پاکستان بھی شامل ہے عوام کو نہ آئین کا پتہ ہوتا ہے، نہ قانون کا، نہ سیاسی جماعتوں کے منشور کا، ایسے ملکوں کے عوام عیار سیاسی جماعتوں کے دلکش انتخابی نعروں، ذات برادری وغیرہ کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں لیکن وہ جن امیدواروں کے لیے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں ان کا تعلق عموماً ایلیٹ کلاس سے ہوتا ہے جن کا مقصد قانون ساز اداروں میں پہنچ کر اپنے طبقات کے اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کرنا ہوتا ہے اور ان کی توجہ کا مرکز کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھا کرنا ملک کے اندر ملک کے باہر اربوں روپوں کی جائیداد بنانا اور کرپشن کی اربوں کی دولت کو محفوظ غیر ملکی بینکوں میں جمع کرنا ہوتا ہے۔ ان فرائض کی بجاآوری میں ان کے ذہن سے وہ تمام انتخابی وعدے نکل جاتے ہیں جو وہ اپنی انتخابی مہموں کے دوران عوام سے کرتے ہیں، غریب حیرت سے یہ مناظر دیکھتا رہتا ہے۔
قانون بنانے کے مقاصد کے مختصر ذکر کے بعد اب ذرا آئیے قانون توڑنے کی طرف۔ اس حوالے سے ایک بڑی مثال کرپشن کی ہے۔ کرپشن کا ارتکاب ایک بڑی قانون شکنی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کرپشن دو طرح کی ہوتی ہے ایک وہ جس کا مقصد دولت کے انبار لگانا ہوتا ہے، دوسری وہ کرپشن جو غریب طبقات اپنی چھوٹی چھوٹی ان ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے کرتے ہیں جو قانونی اور جائز طریقے سے پوری نہیں ہوسکتیں مثلاً ایک کلرک، چپراسی، سپاہی، اہلکار سو دو سو کی رشوت لیتا ہے، دکاندار سبزی، گوشت، دودھ، دہی اور عام استعمال کی اشیا مہنگے داموں پر فروخت کرکے کرپشن کا ارتکاب کرتا ہے۔
سیاسی اشرافیہ حکمراں طبقات اربوں کھربوں کی کرپشن کرتے ہیں اربوں کے ٹھیکے لیتے ہیں، ہزاروں ملازمتوں کے کڑے لے کر ایک ایک ملازمت 5 سے 50 لاکھ میں بیچتے ہیں، سیکڑوں ایکڑ زمینیں اربوں روپوں کے قیمتی پلاٹ، کھربوں روپوں کے بینکوں کے قرض لے کر ہڑپ کرجاتے ہیں، بیرونی ملکوں سے تجارت اور سول اور فوجی ضرورتوں کے سودے کرتے ہیں اور ان سودوں میں اربوں ڈالر کی رشوت یا کک بیک لیتے ہیں۔ اول تو یہ مہربان پکڑے نہیں جاتے کہ قانون بنانے والوں سے لے کر قانون نافذ کرنے والوں تک ان کے زیر اثر ہوتے ہیں اور اگر کبھی کسی دباؤ کے تحت پکڑے جاتے ہیں تو ان کی سہولت کے لیے ''پلی بارگین'' کا قانون موجود ہوتا ہے جس کے تحت وہ کرپشن کے اربوں روپوں کی رقم آسان قسطوں میں ادا کرکے گنگا نہالیتے ہیں۔
اس کے برخلاف چھوٹی چھوٹی سو سو، ہزار ہزار کی رشوت سو سو، ہزار ہزار کی منافع خوری کے مرتکب غریب طبقات کو ہزاروں کے جرمانے ہوتے ہیں، سزائیں دی جاتی ہیں۔ غریب طبقات کو یہ حق حاصل ہے کہ انھیں رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا گھر ہو، بجلی گیس کی سہولت ہو، روزگار کے مواقع ہوں، تعلیم، علاج کی سہولتیں ہوں لیکن یہ طبقات ان سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں، جب انھیں رہنے کے لیے گھر نہیں ملتا تو وہ رشوت دے کر کسی جگہ پر قبضہ کرلیتے ہیں، اگر انھیں نوکری نہیں ملتی تو وہ اپنا سب کچھ بیچ کر قرض لے کر نوکری خریدتے ہیں، اگر ان کی آمدنی یا تنخواہ اتنی نہیں ہوتی کہ وہ گیس بجلی کا بل ادا کرسکیں تو وہ گیس بجلی کی چوری کرتے ہیں، اگر انھیں اسکولوں کالجوں میں داخلے نہیں ملتے تو رشوت دے کر داخلے حاصل کرتے ہیں۔
اگر ان کے گھروں میں روٹی نہیں ہوتی تو وہ روٹی حاصل کرنے کے لیے چوری کرتے ہیں۔ ان کی ہر قانون شکنی کا تعلق عموماً اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے سے ہوتا ہے لیکن ان کی ہر قانون شکنی کے خلاف قانون حرکت میں آجاتا ہے۔ یہاں ایک مثال پیش ہے ایک بے گھر انسان گھر بنانے کے لیے ایک لاکھ کا قرض لیتا ہے اور دو لاکھ سے زیادہ ادا کرنے کے باوجود اس کا گھر نیلام کردیا جاتا ہے کہ سود ملاکر ایک لاکھ چار لاکھ میں بدل جاتا ہے اور ایک ایلیٹ کا شہزادہ یا شہزادی فرضی جائیداد پر بینکوں سے کروڑوں اربوں کے قرض لے کر ہضم کرجاتے ہیں لیکن ان قانون شکنیوں کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آتا۔
توقیر صادق 82 ارب کی کرپشن کرتا ہے تو اسے حکمراں ملک سے باہر فرار کروادیتے ہیں، ایک مڈل کلاس بینک سے کار لون لے کر کار خریدتا ہے تو بینک کے غنڈہ اسکواڈ اس کے گھر پر پہنچ کر بروقت قسط ادا نہ کرنے پر اس کو ذلیل کرتے ہیں۔ عدالتوں میں کھربوں کے بینک نادہندگان کے کیس برسوں سے زیر سماعت ہیں کوئی ریکوری ہوتی ہے نہ فیصلہ ہوتا ہے۔ ایلیٹ کے بینک اکاؤنٹس میں غیب سے کروڑوں روپے آجاتے ہیں انھیں خبر ہی نہیں ہوتی۔
یہ مذاق جب تک بند نہیں ہوگا قانون اور انصاف کا یہ امتیازی استعمال ختم نہیں ہوگا، قانون بنتے رہیں گے قانون توڑے جاتے رہیں گے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ قانون بنانے کا اختیار دینے والے قانون کے امتیازی استعمال سے تنگ آکر التحریر اور تقسیم اسکوائر پر لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں اور قانون بنانے والوں کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں۔ ہمارے ملک میں عوام نے ڈاکوؤں کو پکڑ کر خود سزائیں دینے کا آغاز کردیا ہے، یہ سلسلہ اب چھوٹے ڈاکوؤں سے بڑے ڈاکوؤں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کیا یہ قانون توڑنا ہوگا یا قانون کا بلاامتیاز نفاذ کی کوشش کا حصہ ہوگا؟
ہزاروں سال پر محیط جب اس شخصی اور خاندانی حکمرانی کا دور ختم ہوا اور اہل فکر اہل دانش نے انسانی معاشروں کو جمہوری نظام عطا کیا تو قانون بادشاہوں کی جیب سے نکل کر قانون ساز اداروں کی تحویل میں آگیا۔ جمہوری معاشروں کی ترقی اور تہذیب قانون کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی سے مشروط ہوگئی لیکن اس جمہوری اور ترقی یافتہ دنیا کا المیہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر روز قانون بنائے جاتے ہیں اور قانون توڑے جاتے ہیں حالانکہ قانون کے تحفظ کے لیے اربوں کھربوں کے خرچ سے ایک بھاری ریاستی مشنری کھڑی کی جاتی ہے جس میں انتظامیہ عدلیہ فوج پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے مختلف ادارے شامل ہوتے ہیں۔ لیکن قانون بنانے سے زیادہ قانون توڑنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم قانون بنانے اور قانون توڑنے کے عمل کا جائزہ لیں ایک نظر اس بات پر ڈالتے ہیں کہ قانون کون بناتے ہیں، قانون بنانے والوں کو قانون بنانے کا اختیار کون دیتے ہیں، کس طرح دیتے ہیں اور یہ اختیار دینے والے کون لوگ ہوتے ہیں اور یہ اختیار کیوں دیا جاتا ہے؟ بدقسمتی سے اس اہم ترین سوال پر غور کرنے کی اور اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
جمہوری معاشروں میں ملک کو چلانے قانون اور انصاف سمیت قومی اداروں کے حقوق و فرائض کا تعین کرنے اور انھیں ایک گائیڈ لائن فراہم کرنے کے لیے ایک دستور یا آئین بنایا جاتا ہے اور یہ آئین یا دستور اس قدر مقدس ہوتا ہے کہ اس کا احترام ملک کے ہر شہری پر لازم ہوتا ہے اور اسی آئین کے تحت ایک معینہ مدت کے بعد ہر جمہوری ملک میں انتخابات کرائے جاتے ہیں۔ ملک میں موجود سیاسی جماعتیں انتخابات میں اپنے نمائندے کھڑے کرتی ہیں اور عوام کے سامنے ایک انتخابی منشور پیش کیا جاتا ہے کہ اگر عوام نے انھیں حکومت بنانے کا اختیار دیا تو وہ اپنے منشور پر عملدرآمد کریں گے۔ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو قانون سازی کا اختیار اس لیے دیتے ہیں کہ وہ ایسے قوانین بنائیں جو ملک اور معاشرے کی اجتماعی بھلائی میں معاون ثابت ہوں۔ ملک اور معاشرے کی اجتماعی بھلائی کی شرط اول غریب اور مفلوک الحال عوام کو زندگی کی بہتر سہولتیں مہیا کرنا ہوتا ہے۔ جن میں جان و مال کا تحفظ بہتر غذا بہتر طبی سہولتیں بہتر تعلیم روزگار اور کاروبار کے مواقع ملک میں امن و امان کمزوروں کو طاقتورں کے ظلم سے بچانا جرائم کا سدباب کرنا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں عوام انتخابات میں ہر پارٹی کا منشور دیکھتے ہیں اور ہر پارٹی کی طرف سے نامزد کیے جانے والے امیدوار کی سماجی اور سیاسی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں لیکن پسماندہ ملکوں جن میں پاکستان بھی شامل ہے عوام کو نہ آئین کا پتہ ہوتا ہے، نہ قانون کا، نہ سیاسی جماعتوں کے منشور کا، ایسے ملکوں کے عوام عیار سیاسی جماعتوں کے دلکش انتخابی نعروں، ذات برادری وغیرہ کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں لیکن وہ جن امیدواروں کے لیے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں ان کا تعلق عموماً ایلیٹ کلاس سے ہوتا ہے جن کا مقصد قانون ساز اداروں میں پہنچ کر اپنے طبقات کے اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کرنا ہوتا ہے اور ان کی توجہ کا مرکز کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھا کرنا ملک کے اندر ملک کے باہر اربوں روپوں کی جائیداد بنانا اور کرپشن کی اربوں کی دولت کو محفوظ غیر ملکی بینکوں میں جمع کرنا ہوتا ہے۔ ان فرائض کی بجاآوری میں ان کے ذہن سے وہ تمام انتخابی وعدے نکل جاتے ہیں جو وہ اپنی انتخابی مہموں کے دوران عوام سے کرتے ہیں، غریب حیرت سے یہ مناظر دیکھتا رہتا ہے۔
قانون بنانے کے مقاصد کے مختصر ذکر کے بعد اب ذرا آئیے قانون توڑنے کی طرف۔ اس حوالے سے ایک بڑی مثال کرپشن کی ہے۔ کرپشن کا ارتکاب ایک بڑی قانون شکنی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کرپشن دو طرح کی ہوتی ہے ایک وہ جس کا مقصد دولت کے انبار لگانا ہوتا ہے، دوسری وہ کرپشن جو غریب طبقات اپنی چھوٹی چھوٹی ان ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے کرتے ہیں جو قانونی اور جائز طریقے سے پوری نہیں ہوسکتیں مثلاً ایک کلرک، چپراسی، سپاہی، اہلکار سو دو سو کی رشوت لیتا ہے، دکاندار سبزی، گوشت، دودھ، دہی اور عام استعمال کی اشیا مہنگے داموں پر فروخت کرکے کرپشن کا ارتکاب کرتا ہے۔
سیاسی اشرافیہ حکمراں طبقات اربوں کھربوں کی کرپشن کرتے ہیں اربوں کے ٹھیکے لیتے ہیں، ہزاروں ملازمتوں کے کڑے لے کر ایک ایک ملازمت 5 سے 50 لاکھ میں بیچتے ہیں، سیکڑوں ایکڑ زمینیں اربوں روپوں کے قیمتی پلاٹ، کھربوں روپوں کے بینکوں کے قرض لے کر ہڑپ کرجاتے ہیں، بیرونی ملکوں سے تجارت اور سول اور فوجی ضرورتوں کے سودے کرتے ہیں اور ان سودوں میں اربوں ڈالر کی رشوت یا کک بیک لیتے ہیں۔ اول تو یہ مہربان پکڑے نہیں جاتے کہ قانون بنانے والوں سے لے کر قانون نافذ کرنے والوں تک ان کے زیر اثر ہوتے ہیں اور اگر کبھی کسی دباؤ کے تحت پکڑے جاتے ہیں تو ان کی سہولت کے لیے ''پلی بارگین'' کا قانون موجود ہوتا ہے جس کے تحت وہ کرپشن کے اربوں روپوں کی رقم آسان قسطوں میں ادا کرکے گنگا نہالیتے ہیں۔
اس کے برخلاف چھوٹی چھوٹی سو سو، ہزار ہزار کی رشوت سو سو، ہزار ہزار کی منافع خوری کے مرتکب غریب طبقات کو ہزاروں کے جرمانے ہوتے ہیں، سزائیں دی جاتی ہیں۔ غریب طبقات کو یہ حق حاصل ہے کہ انھیں رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا گھر ہو، بجلی گیس کی سہولت ہو، روزگار کے مواقع ہوں، تعلیم، علاج کی سہولتیں ہوں لیکن یہ طبقات ان سہولتوں سے محروم ہوتے ہیں، جب انھیں رہنے کے لیے گھر نہیں ملتا تو وہ رشوت دے کر کسی جگہ پر قبضہ کرلیتے ہیں، اگر انھیں نوکری نہیں ملتی تو وہ اپنا سب کچھ بیچ کر قرض لے کر نوکری خریدتے ہیں، اگر ان کی آمدنی یا تنخواہ اتنی نہیں ہوتی کہ وہ گیس بجلی کا بل ادا کرسکیں تو وہ گیس بجلی کی چوری کرتے ہیں، اگر انھیں اسکولوں کالجوں میں داخلے نہیں ملتے تو رشوت دے کر داخلے حاصل کرتے ہیں۔
اگر ان کے گھروں میں روٹی نہیں ہوتی تو وہ روٹی حاصل کرنے کے لیے چوری کرتے ہیں۔ ان کی ہر قانون شکنی کا تعلق عموماً اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے سے ہوتا ہے لیکن ان کی ہر قانون شکنی کے خلاف قانون حرکت میں آجاتا ہے۔ یہاں ایک مثال پیش ہے ایک بے گھر انسان گھر بنانے کے لیے ایک لاکھ کا قرض لیتا ہے اور دو لاکھ سے زیادہ ادا کرنے کے باوجود اس کا گھر نیلام کردیا جاتا ہے کہ سود ملاکر ایک لاکھ چار لاکھ میں بدل جاتا ہے اور ایک ایلیٹ کا شہزادہ یا شہزادی فرضی جائیداد پر بینکوں سے کروڑوں اربوں کے قرض لے کر ہضم کرجاتے ہیں لیکن ان قانون شکنیوں کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آتا۔
توقیر صادق 82 ارب کی کرپشن کرتا ہے تو اسے حکمراں ملک سے باہر فرار کروادیتے ہیں، ایک مڈل کلاس بینک سے کار لون لے کر کار خریدتا ہے تو بینک کے غنڈہ اسکواڈ اس کے گھر پر پہنچ کر بروقت قسط ادا نہ کرنے پر اس کو ذلیل کرتے ہیں۔ عدالتوں میں کھربوں کے بینک نادہندگان کے کیس برسوں سے زیر سماعت ہیں کوئی ریکوری ہوتی ہے نہ فیصلہ ہوتا ہے۔ ایلیٹ کے بینک اکاؤنٹس میں غیب سے کروڑوں روپے آجاتے ہیں انھیں خبر ہی نہیں ہوتی۔
یہ مذاق جب تک بند نہیں ہوگا قانون اور انصاف کا یہ امتیازی استعمال ختم نہیں ہوگا، قانون بنتے رہیں گے قانون توڑے جاتے رہیں گے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ قانون بنانے کا اختیار دینے والے قانون کے امتیازی استعمال سے تنگ آکر التحریر اور تقسیم اسکوائر پر لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں اور قانون بنانے والوں کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں۔ ہمارے ملک میں عوام نے ڈاکوؤں کو پکڑ کر خود سزائیں دینے کا آغاز کردیا ہے، یہ سلسلہ اب چھوٹے ڈاکوؤں سے بڑے ڈاکوؤں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کیا یہ قانون توڑنا ہوگا یا قانون کا بلاامتیاز نفاذ کی کوشش کا حصہ ہوگا؟