پاکستانی نژاد کینیڈین سائنسدان انقلابی دماغی چپ جلد انسانوں پر آزمائیں گے
ڈاکٹر نوید سید 20 سال کی کاوشوں کے بعد رواں سال چپ کا انسانوں پرتجربہ کریں گے۔
پاکستانی نژاد کینیڈین سائنسدان نے مصنوعی دماغی چپ بنا لی ہے جس کا تجربہ اسی سال انسانوں پر کیا جارہا ہے۔
فرض کریں آپ کو لاعلاج دماغی بیماری کا سامنا ہے اور آپ کی زندگی بچانے کے لیے آپ کے دماغ میں مصنوعی سیمی کنڈکٹر چپ لگا دی جائے تو آپ کیسا محسوس کریں گے, یقیناً بہت خوش ہوں گے اب ایساکچھ ممکن ہونے کو ہے اور وہ بھی ایک پاکستانی نژاد کینیڈین سائنسدان ڈاکٹرنوید سیدکی کاوشوں سے۔
مسلسل دو دہائیوں کی ڈیزائننگ، تحقیق، ری ڈیزائننگ اور لاتعداد تجربات کے بعد دو طرفہ کام کرنے والی دماغی برقی چپ اب انسانوں پر آزمائش کے لیے تیار ہے۔ سب سے پہلے یہ بایونِک چپ مرگی کے ایسے مریضوں پر آزمائی جائے گی جو ہمارے پاس موجود کسی بھی دوا سے ٹھیک نہیں ہوتا۔
پاکستانی نژاد امریکی سائنسداں، ڈاکٹر نوید امام سید دماغ پڑھنے اور اس سے رابطہ کرنے والی دوطرفہ انقلابی چپ کے بانی ہیں اور یہ حساس ترین چپ پہلی مرتبہ کئی طریقوں سے مرگی میں مبتلا لاعلاج مریضوں کے لیے استعمال کی جائے گی۔
دماغی سگنل اور مرگی کا مرض
ہم ایک عرصے سے جانتے ہیں کہ دماغ میں غیرضروری اور غیرمعمولی برقی سگنلوں کی بوچھاڑ مرگی سمیت کئی امراض کی وجہ ہوتی ہے۔ اگر انسانی دماغ کو پھیلا کر ایک بڑے ہال کی صورت دیدی جائے اور اس میں آپ پیشانی کا سامنے کی جانب سے قدم رکھیں تو آپ کو لاتعداد برقی جھماکے ایک جگہ سے دوسری اور بقیہ جسم تک جاتے نظر آئیں گے۔ اگر ہم حرکت کریں تو دماغ کے اوپری حصے میں بجلی کے کوندے چمکتے ہیں اور اگر ہم کسی خوشگوار لمحے کو یاد کریں تو دماغ کے نچلے حصے میں چمک پیدا ہوگی۔ یہ سب دماغی سگنل کہلاتےہیں جو بدن کے پٹھوں اور عضلات تک جاکر کیمیائی سگنلوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ سگنل خاص دماغی خلیات سے نکلتے ہیں جنہیں نیورون کہا جاتا ہے ۔ ایک صحت مند دماغ میں 100 ارب سے زائد نیورون پائے جاتے ہیں۔
روایتی طور پر لاعلاج مِرگی کے مرض میں دماغی سرجن اپنے بہترین اندازے کے مطابق دماغ کے اس مقام کا اندازہ لگاتے ہیں جہاں سگنلوں کا شور پیدا ہورہا ہوتا ہے۔ پھر ان خلیات اور ٹشوز (بافتوں) کو نکالا جاتا ہے تاہم اکثر اوقات متاثرہ حصے کے ساتھ دماغ کے صحتمند حصے بھی نکل آتے ہیں۔ لیکن اس مہنگے، پیچیدہ اور تکلیف دہ آپریشن کے باوجود بھی ، چار یا پانچ سال میں مرض دوبارہ لوٹ آتا ہے۔
دوہری بایونِک چپ ان تین اہم ترین چپس میں سے ایک ہے جنہیں برسوں کی محنت کے بعد ڈاکٹر نوید نے تیار کیا ہے۔ یہ انتہائی وضاحت سے مرگی کے دوروں کی شناخت کرسکتی ہے۔ ایک جانب تو یہ مرگی کے دورے کو پہلے ہی بھانپ سکے گی اور جسم سے لٹکے بیک پیک یا آلے کو وائرلیس سگنل بھیجے گی۔ اس سے قبل اس کام کے لیے تیس فٹ طویل تار دماغ سے لگایا جاتا تھا!
اس چپ کا ایک اور ہم پہلو یہ ہے کہ یہ میگنیٹک ریزونینس (ایم آر) آلات سے مطابقت رکھتی ہے ۔ یعنی سرجن اور معالجین اس چپ کی نشاندہی پر دماغ میں مرگی کے دورے کی وجہ بننے والے متام کی انتہائی درستگی سے شناخت کرسکتے ہیں۔ اس طرح جراحی میں آسانی ہوگی ۔ توقع ہے کہ یہ تجربات اس سال کے وسط تک یونیورسٹی آف کیلگری میں انجام دیئے جائیں گے۔
' انسانی آزمائش کے دوران یہ اہم چپ پہلے سے ہی مرگی کے دورے سے خبردار کردے گی اور اس کا پیغام مریض کو مل سکے گا کہ وہ چل رہا ہو یا کار ڈرائیونگ کررہا تو وہ پرسکون رہے یا ٹھہرجائے۔ اس کے علاوہ چپ ایک آلے کے ذریعے ہسپتال کو ایس ایم ایس بھیجے گی اور آپ کے عزیزوں کو بھی مطلع کرسکے گی،' ڈاکٹر نوید نے ایکسپریس کو بتایا۔
اگلے مرحلے میں یہ چپ مزید حیرت انگیز کام کرے گی۔ جیسے ہی چپ دماغ میں مرگی والی سرگرمی نوٹ کرے گی تو اسے منسوخ کرنے کے لیے منفی سگنل خارج کرے گی جس سے دماغ سگنلوں کا شور اور پھیلاؤ کم ہوجائے گا اور مرض کی شدت میں کمی ممکن ہوسکے گی۔
یہ چپ دماغ کے لیے نقصاندہ نہیں اور دماغ کے اندر تھری ڈی ماڈل کی تشکیل کرتے ہوئے متاثرہ حصے اور ٹشو کی نشاندہی کرتی ہے۔
پیچ کلیمپ چپ ، ایک اور کارنامہ
ڈاکٹر نوید سید نے حال ہی میں ایک 'پیچ کلیمپ ٹیکنالوجی کی طرز پر کام کرنے والی چپ' بھی تیار کی ہے۔ جس پر آئن چینل کی طرز پر 90 سے زائد دوائیں ٹیسٹ کی جاسکتی ہیں۔ یعنی دماغ کے متاثرہ حصے کے خلیات لے کر اس پر ایک وقت میں درجنوں دوائیں ڈال کر ان کی افادیت نوٹ کی جاسکتی ہے اور یوں مریض کے لیے مؤثر ترین دوا یا کسی سائیڈ افیکٹس والی دوا کی شناخت ممکن ہوجائے گی۔ اس طرح ہر مریض کے لیے اس کی خاص دماغی کیفیت کے لیے دوا بنائی جاسکے گی۔
سائبورگ گھونگھے سے بایونِک چپ تک
ڈاکٹر نوید سید نہ صرف دوطرفہ رابطے کی نیوروچپ کے بانی ہیں بلکہ وہ دماغ سے برقی آلات منسلک کرنے اور اس پورے عمل کو انتہائی گہرائی سے سمجھنے والے ایک بصیرت افروز ماہربھی ہیں۔ اس سفر میں انہیں دوعشروں سے زائد کا عرصہ لگا اور انہوں نے کئی اہم طریقوں اور ٹیکنالوجی پر کام کیا ہے۔
تجربہ گاہوں میں ان کے گروہ نے کئی پہلوؤں پر تفصیلی تحقیق، مشاہدات کئے ہیں۔ کئی طرح کے سادہ اور پیچیدہ جانوروں اور یہاں تک کہ انسانی لاشوں پر تجربات کئے ہیں اور ان سب مراحل سے گزرنے کے بعد ہی اب جدید ترین چپ کو انسانوں پر آزمایا جائے گا۔
بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ ڈاکٹر نوید نیوروسائنس کی نئے افق کے بانی بھی ہیں۔ مثلاً ایک ٹشو کلچر ڈش میں انہوں نے سانس لیتا (بریدنگ) سرکٹ تیار کیا تھا اور یہ اس وقت دنیا میں اول ترین کاوش تھی جسے ممتاز سائنسی جریدے 'سائنس' میں جگہ دی گئی تھی۔ اس طرح عین جانوروں میں سانس لینے کا پورا عمل کسی تجربہ گاہی ڈش میں دیکھا گیا ۔
وہ دنیا کے پہلے ماہر ہیں جنہوں نے ایک واحد دماغی خلیہ گھونگھوں میں کامیابی سے منتقل کیا تھا۔ اسی بنا پر ان کے تحقیقی گروپ کو امریکا میں منعقدہ نیوروسائنس کے اہم اجلاس میں ' اس عشرے دماغی اختراعت کرنے والے سب سے اہم تحقیقی گروہ ' قرار دیا گیا ہے۔
جلد ہی ڈاکٹر نوید پر انکشاف ہوا کہ دماغ یا اس کے ایک خلیے سے برقی چپ جوڑنے کے لیے پوری الیکٹرانکس میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ اپنے تجربات اور عشروں کی محنت سے انہوں نے دوطرفہ چپ بنانے کا درست ترین 'نسخہ' معلوم کرلیا۔ ' اب کیمیائی اور برقی انجینیئرنگ سے انہوں نے چپ کا اندرونی ماحول اس طرح بنایا ہے کہ نامیاتی نیورون اسے بے کار ٹکڑا نہیں سمجھتا بلکہ اپنے ہی ماحول کا ایک حصہ گردانتے ہوئے اس (چپ) سے خوشی خوشی رابطہ کرتا ہے۔' ڈاکٹر نوید نے بتایا۔
2004 میں اس کارنامے کو ٹائم میگزین سے ڈسکوری چینل سمیت عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ دی گئی۔ یہ پہلی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے چِپ دماغی خلیات کو سنتی ہے اور اس کے بدلے اپنا پیغام بھی دیتی ہے۔ برین چپ پر موجود باریک کیپیسٹر نیورون کو تحریک دیتے ہیں جبکہ نیچے رکھے ٹرانسسٹر ان کے سگنل پڑھ لیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ چپ اپنی ہدایت بھی خلیات تک پہنچاسکتی ہے۔
جملہ حقوق 'غیرمحفوظ' ہیں
نرم خو اور درویش صفت ڈاکٹر نوید سید نے ابتدائی تعلیم اور ماسٹرز کی ڈگری کراچی سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ کینیڈا منتقل ہوگئے اور اپنے علم سے وابستہ 130 سے زائد اعلیٰ ترین معیار کے تحقیقی مقالہ جات لکھے جو نیچر، نیورون اور سائنس جیسے ممتاز جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی ایجادات اور اختراعات کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔
حیرت انگیز طور پر ان کی درجنوں ایجادات ، ٹیکنالوجی اور دیگراختراعات میں سے انہوں نے صرف چند کی ہی پیٹنٹ (حقِ ملکیت) حاصل کی ہیں۔ وہ اس عمل کو دیگر ماہرین کے لیے کسی رکاوٹ کے بغیر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ دیگر لوگ اس پر کام کریں اور آگے بڑھیں۔ ان کے مطابق ایجادات کے طریقہ کار کے نقل کی پابندی سے تحقیق میں جمود آجاتا ہے اور دماغی علوم کی جانب لوگوں کی آمد بہت کم ہے۔
' میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کی خدمت ہی طب کا اصل مقصد ہونا چاہیئے۔ کسی چہرے پر مسکراہٹ لوٹانا یا کسی کو دوبارہ چلنے کے قابل بنانا ہی تحقیق کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔
اعزازات اور انعامات
ڈاکٹرنوید سید کو ان کے غیرمعمولی کام پر دنیا بھر سے اعلیٰ ترین انعامات اور اعزازات ملے ہیں ۔ سال 2017 میں انہیں حکومتِ پاکستان نے 'تمغہ امتیاز' سے نوازا اور اسی سال انہیں کینیڈا سے 'سینیٹ آف دی کینیڈا 150 میڈل' دیا گیا ۔ کینیڈا کی سینیٹ کی جانب سے سماجی خدمات انجام دینے والوں کو یہ اعلیٰ ترین اعزاز دیا جاتا ہے اور وہ اسے حاصل کرنے والے پہلے مسلمان سائنسداں بھی ہیں۔
اس کے علاوہ انہیں ایلفرڈ پی سلون فیلوشپ (امریکا) پارکر بی فرانسس فیلوشپ (امریکا)، کینیڈیئن ریسرچ انویسٹی گیٹر ایوارڈ، رائل کالج آف فزیشن کی فیلوشپ، اور دیگر غیرمعمولی انعام و اعزازت عطا کئے گئے ہیں۔
فرض کریں آپ کو لاعلاج دماغی بیماری کا سامنا ہے اور آپ کی زندگی بچانے کے لیے آپ کے دماغ میں مصنوعی سیمی کنڈکٹر چپ لگا دی جائے تو آپ کیسا محسوس کریں گے, یقیناً بہت خوش ہوں گے اب ایساکچھ ممکن ہونے کو ہے اور وہ بھی ایک پاکستانی نژاد کینیڈین سائنسدان ڈاکٹرنوید سیدکی کاوشوں سے۔
مسلسل دو دہائیوں کی ڈیزائننگ، تحقیق، ری ڈیزائننگ اور لاتعداد تجربات کے بعد دو طرفہ کام کرنے والی دماغی برقی چپ اب انسانوں پر آزمائش کے لیے تیار ہے۔ سب سے پہلے یہ بایونِک چپ مرگی کے ایسے مریضوں پر آزمائی جائے گی جو ہمارے پاس موجود کسی بھی دوا سے ٹھیک نہیں ہوتا۔
پاکستانی نژاد امریکی سائنسداں، ڈاکٹر نوید امام سید دماغ پڑھنے اور اس سے رابطہ کرنے والی دوطرفہ انقلابی چپ کے بانی ہیں اور یہ حساس ترین چپ پہلی مرتبہ کئی طریقوں سے مرگی میں مبتلا لاعلاج مریضوں کے لیے استعمال کی جائے گی۔
دماغی سگنل اور مرگی کا مرض
ہم ایک عرصے سے جانتے ہیں کہ دماغ میں غیرضروری اور غیرمعمولی برقی سگنلوں کی بوچھاڑ مرگی سمیت کئی امراض کی وجہ ہوتی ہے۔ اگر انسانی دماغ کو پھیلا کر ایک بڑے ہال کی صورت دیدی جائے اور اس میں آپ پیشانی کا سامنے کی جانب سے قدم رکھیں تو آپ کو لاتعداد برقی جھماکے ایک جگہ سے دوسری اور بقیہ جسم تک جاتے نظر آئیں گے۔ اگر ہم حرکت کریں تو دماغ کے اوپری حصے میں بجلی کے کوندے چمکتے ہیں اور اگر ہم کسی خوشگوار لمحے کو یاد کریں تو دماغ کے نچلے حصے میں چمک پیدا ہوگی۔ یہ سب دماغی سگنل کہلاتےہیں جو بدن کے پٹھوں اور عضلات تک جاکر کیمیائی سگنلوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ سگنل خاص دماغی خلیات سے نکلتے ہیں جنہیں نیورون کہا جاتا ہے ۔ ایک صحت مند دماغ میں 100 ارب سے زائد نیورون پائے جاتے ہیں۔
روایتی طور پر لاعلاج مِرگی کے مرض میں دماغی سرجن اپنے بہترین اندازے کے مطابق دماغ کے اس مقام کا اندازہ لگاتے ہیں جہاں سگنلوں کا شور پیدا ہورہا ہوتا ہے۔ پھر ان خلیات اور ٹشوز (بافتوں) کو نکالا جاتا ہے تاہم اکثر اوقات متاثرہ حصے کے ساتھ دماغ کے صحتمند حصے بھی نکل آتے ہیں۔ لیکن اس مہنگے، پیچیدہ اور تکلیف دہ آپریشن کے باوجود بھی ، چار یا پانچ سال میں مرض دوبارہ لوٹ آتا ہے۔
دوہری بایونِک چپ ان تین اہم ترین چپس میں سے ایک ہے جنہیں برسوں کی محنت کے بعد ڈاکٹر نوید نے تیار کیا ہے۔ یہ انتہائی وضاحت سے مرگی کے دوروں کی شناخت کرسکتی ہے۔ ایک جانب تو یہ مرگی کے دورے کو پہلے ہی بھانپ سکے گی اور جسم سے لٹکے بیک پیک یا آلے کو وائرلیس سگنل بھیجے گی۔ اس سے قبل اس کام کے لیے تیس فٹ طویل تار دماغ سے لگایا جاتا تھا!
اس چپ کا ایک اور ہم پہلو یہ ہے کہ یہ میگنیٹک ریزونینس (ایم آر) آلات سے مطابقت رکھتی ہے ۔ یعنی سرجن اور معالجین اس چپ کی نشاندہی پر دماغ میں مرگی کے دورے کی وجہ بننے والے متام کی انتہائی درستگی سے شناخت کرسکتے ہیں۔ اس طرح جراحی میں آسانی ہوگی ۔ توقع ہے کہ یہ تجربات اس سال کے وسط تک یونیورسٹی آف کیلگری میں انجام دیئے جائیں گے۔
' انسانی آزمائش کے دوران یہ اہم چپ پہلے سے ہی مرگی کے دورے سے خبردار کردے گی اور اس کا پیغام مریض کو مل سکے گا کہ وہ چل رہا ہو یا کار ڈرائیونگ کررہا تو وہ پرسکون رہے یا ٹھہرجائے۔ اس کے علاوہ چپ ایک آلے کے ذریعے ہسپتال کو ایس ایم ایس بھیجے گی اور آپ کے عزیزوں کو بھی مطلع کرسکے گی،' ڈاکٹر نوید نے ایکسپریس کو بتایا۔
اگلے مرحلے میں یہ چپ مزید حیرت انگیز کام کرے گی۔ جیسے ہی چپ دماغ میں مرگی والی سرگرمی نوٹ کرے گی تو اسے منسوخ کرنے کے لیے منفی سگنل خارج کرے گی جس سے دماغ سگنلوں کا شور اور پھیلاؤ کم ہوجائے گا اور مرض کی شدت میں کمی ممکن ہوسکے گی۔
یہ چپ دماغ کے لیے نقصاندہ نہیں اور دماغ کے اندر تھری ڈی ماڈل کی تشکیل کرتے ہوئے متاثرہ حصے اور ٹشو کی نشاندہی کرتی ہے۔
پیچ کلیمپ چپ ، ایک اور کارنامہ
ڈاکٹر نوید سید نے حال ہی میں ایک 'پیچ کلیمپ ٹیکنالوجی کی طرز پر کام کرنے والی چپ' بھی تیار کی ہے۔ جس پر آئن چینل کی طرز پر 90 سے زائد دوائیں ٹیسٹ کی جاسکتی ہیں۔ یعنی دماغ کے متاثرہ حصے کے خلیات لے کر اس پر ایک وقت میں درجنوں دوائیں ڈال کر ان کی افادیت نوٹ کی جاسکتی ہے اور یوں مریض کے لیے مؤثر ترین دوا یا کسی سائیڈ افیکٹس والی دوا کی شناخت ممکن ہوجائے گی۔ اس طرح ہر مریض کے لیے اس کی خاص دماغی کیفیت کے لیے دوا بنائی جاسکے گی۔
سائبورگ گھونگھے سے بایونِک چپ تک
ڈاکٹر نوید سید نہ صرف دوطرفہ رابطے کی نیوروچپ کے بانی ہیں بلکہ وہ دماغ سے برقی آلات منسلک کرنے اور اس پورے عمل کو انتہائی گہرائی سے سمجھنے والے ایک بصیرت افروز ماہربھی ہیں۔ اس سفر میں انہیں دوعشروں سے زائد کا عرصہ لگا اور انہوں نے کئی اہم طریقوں اور ٹیکنالوجی پر کام کیا ہے۔
تجربہ گاہوں میں ان کے گروہ نے کئی پہلوؤں پر تفصیلی تحقیق، مشاہدات کئے ہیں۔ کئی طرح کے سادہ اور پیچیدہ جانوروں اور یہاں تک کہ انسانی لاشوں پر تجربات کئے ہیں اور ان سب مراحل سے گزرنے کے بعد ہی اب جدید ترین چپ کو انسانوں پر آزمایا جائے گا۔
بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ ڈاکٹر نوید نیوروسائنس کی نئے افق کے بانی بھی ہیں۔ مثلاً ایک ٹشو کلچر ڈش میں انہوں نے سانس لیتا (بریدنگ) سرکٹ تیار کیا تھا اور یہ اس وقت دنیا میں اول ترین کاوش تھی جسے ممتاز سائنسی جریدے 'سائنس' میں جگہ دی گئی تھی۔ اس طرح عین جانوروں میں سانس لینے کا پورا عمل کسی تجربہ گاہی ڈش میں دیکھا گیا ۔
وہ دنیا کے پہلے ماہر ہیں جنہوں نے ایک واحد دماغی خلیہ گھونگھوں میں کامیابی سے منتقل کیا تھا۔ اسی بنا پر ان کے تحقیقی گروپ کو امریکا میں منعقدہ نیوروسائنس کے اہم اجلاس میں ' اس عشرے دماغی اختراعت کرنے والے سب سے اہم تحقیقی گروہ ' قرار دیا گیا ہے۔
جلد ہی ڈاکٹر نوید پر انکشاف ہوا کہ دماغ یا اس کے ایک خلیے سے برقی چپ جوڑنے کے لیے پوری الیکٹرانکس میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ اپنے تجربات اور عشروں کی محنت سے انہوں نے دوطرفہ چپ بنانے کا درست ترین 'نسخہ' معلوم کرلیا۔ ' اب کیمیائی اور برقی انجینیئرنگ سے انہوں نے چپ کا اندرونی ماحول اس طرح بنایا ہے کہ نامیاتی نیورون اسے بے کار ٹکڑا نہیں سمجھتا بلکہ اپنے ہی ماحول کا ایک حصہ گردانتے ہوئے اس (چپ) سے خوشی خوشی رابطہ کرتا ہے۔' ڈاکٹر نوید نے بتایا۔
2004 میں اس کارنامے کو ٹائم میگزین سے ڈسکوری چینل سمیت عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ دی گئی۔ یہ پہلی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے چِپ دماغی خلیات کو سنتی ہے اور اس کے بدلے اپنا پیغام بھی دیتی ہے۔ برین چپ پر موجود باریک کیپیسٹر نیورون کو تحریک دیتے ہیں جبکہ نیچے رکھے ٹرانسسٹر ان کے سگنل پڑھ لیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ چپ اپنی ہدایت بھی خلیات تک پہنچاسکتی ہے۔
جملہ حقوق 'غیرمحفوظ' ہیں
نرم خو اور درویش صفت ڈاکٹر نوید سید نے ابتدائی تعلیم اور ماسٹرز کی ڈگری کراچی سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ کینیڈا منتقل ہوگئے اور اپنے علم سے وابستہ 130 سے زائد اعلیٰ ترین معیار کے تحقیقی مقالہ جات لکھے جو نیچر، نیورون اور سائنس جیسے ممتاز جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی ایجادات اور اختراعات کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔
حیرت انگیز طور پر ان کی درجنوں ایجادات ، ٹیکنالوجی اور دیگراختراعات میں سے انہوں نے صرف چند کی ہی پیٹنٹ (حقِ ملکیت) حاصل کی ہیں۔ وہ اس عمل کو دیگر ماہرین کے لیے کسی رکاوٹ کے بغیر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ دیگر لوگ اس پر کام کریں اور آگے بڑھیں۔ ان کے مطابق ایجادات کے طریقہ کار کے نقل کی پابندی سے تحقیق میں جمود آجاتا ہے اور دماغی علوم کی جانب لوگوں کی آمد بہت کم ہے۔
' میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کی خدمت ہی طب کا اصل مقصد ہونا چاہیئے۔ کسی چہرے پر مسکراہٹ لوٹانا یا کسی کو دوبارہ چلنے کے قابل بنانا ہی تحقیق کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔
اعزازات اور انعامات
ڈاکٹرنوید سید کو ان کے غیرمعمولی کام پر دنیا بھر سے اعلیٰ ترین انعامات اور اعزازات ملے ہیں ۔ سال 2017 میں انہیں حکومتِ پاکستان نے 'تمغہ امتیاز' سے نوازا اور اسی سال انہیں کینیڈا سے 'سینیٹ آف دی کینیڈا 150 میڈل' دیا گیا ۔ کینیڈا کی سینیٹ کی جانب سے سماجی خدمات انجام دینے والوں کو یہ اعلیٰ ترین اعزاز دیا جاتا ہے اور وہ اسے حاصل کرنے والے پہلے مسلمان سائنسداں بھی ہیں۔
اس کے علاوہ انہیں ایلفرڈ پی سلون فیلوشپ (امریکا) پارکر بی فرانسس فیلوشپ (امریکا)، کینیڈیئن ریسرچ انویسٹی گیٹر ایوارڈ، رائل کالج آف فزیشن کی فیلوشپ، اور دیگر غیرمعمولی انعام و اعزازت عطا کئے گئے ہیں۔