پیوٹن کی پالیسی سے امریکا مخالف رجحانات بڑھے ہیں باراک اوباما
امریکا اور روس کے باہمی تعلقات میں بہتری لانے کے جس عمل کا آغاز کیا تھا اس پرنظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اوباما
MADRID:
امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کے بارے میں کہا ہے کہ جب سے انھوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے روس کی خارجہ پالیسی میں امریکا مخالف رجحانات میں شدت آئی ہے۔
شاید امریکی صدرکی جانب سے روسی صدر پرکی جانے والی یہ شدید ترین تنقید ہے۔ امریکا اور روس کے باہمی تعلقات میں بہتری آنے کے سلسلے میں اوباما کی ناامیدی یہیں تک محدود نہیں ہے۔ امریکی صدر نے کچھ عرصہ قبل بھی واشنگٹن اور ماسکو کے باہمی تعلقات میں ڈیڈ لاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ انھوں نے " ایک نئے آغاز" کے نام سے اپنے پہلے صدارتی دورمیں امریکا اور روس کے باہمی تعلقات میں بہتری لانے کے جس عمل کا آغاز کیا تھا اس پرنظر ثانی کی ضرورت ہے۔
امریکی صدرکے یہ بیانات روس کی جانب سے اسنوڈن کوایک سال کے لیے پناہ دینے کے اعلان کے خلاف رد عمل کے طور پرسامنے آئے ہیں۔ دونوں ممالک نے گزشتہ چاربرسوں میں عالمی سطح پرباہمی تعاون کے سلسلے میں کوئی مثالی اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا سکتا ہے کہ امریکا" ایک نئے آغاز" کی پالیسی کا صرف نعرہ ہی لگاتا ہے اسے عملی جامہ نہیں پہناتا اور اس نعرے کا مقصد امریکا کی ڈیموکریٹ حکومت کوامن پسند ظاہرکرنا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کے بارے میں کہا ہے کہ جب سے انھوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے روس کی خارجہ پالیسی میں امریکا مخالف رجحانات میں شدت آئی ہے۔
شاید امریکی صدرکی جانب سے روسی صدر پرکی جانے والی یہ شدید ترین تنقید ہے۔ امریکا اور روس کے باہمی تعلقات میں بہتری آنے کے سلسلے میں اوباما کی ناامیدی یہیں تک محدود نہیں ہے۔ امریکی صدر نے کچھ عرصہ قبل بھی واشنگٹن اور ماسکو کے باہمی تعلقات میں ڈیڈ لاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ انھوں نے " ایک نئے آغاز" کے نام سے اپنے پہلے صدارتی دورمیں امریکا اور روس کے باہمی تعلقات میں بہتری لانے کے جس عمل کا آغاز کیا تھا اس پرنظر ثانی کی ضرورت ہے۔
امریکی صدرکے یہ بیانات روس کی جانب سے اسنوڈن کوایک سال کے لیے پناہ دینے کے اعلان کے خلاف رد عمل کے طور پرسامنے آئے ہیں۔ دونوں ممالک نے گزشتہ چاربرسوں میں عالمی سطح پرباہمی تعاون کے سلسلے میں کوئی مثالی اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا سکتا ہے کہ امریکا" ایک نئے آغاز" کی پالیسی کا صرف نعرہ ہی لگاتا ہے اسے عملی جامہ نہیں پہناتا اور اس نعرے کا مقصد امریکا کی ڈیموکریٹ حکومت کوامن پسند ظاہرکرنا ہے۔