سبزیوں سے سُر نکلے موسیقی کی دنیا میں حیرت انگیز انقلاب

اب کدو، لوکی، گاجر، کھیرے کو بھی آلات موسیقی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

اب کدو، لوکی، گاجر، کھیرے کو بھی آلات موسیقی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ فوٹو: فائل

The Vegetable Orchestra ایک میوزیکل گروپ ہے، جس کا تعلق ویانا سے ہے جسے Das erste Wiener Gemüseorchester بھی کہا جاتا ہے، یہ پہلا ویانا ویجیٹیبل آرکسٹرا یا ویانا ویجیٹیبل آرکسٹرا ہے جس کے میوزیکل گروپ میں تمام آلات موسیقی مکمل طور پر تازہ سبزیوں سے تیار کیے گئے ہیں۔

یہ دنیا کے سب سے اہم اور نادر اقسام کے آلات موسیقی ہیں جو موسیقی کی دنیا میں بڑے انوکھے انداز سے اپنے فن کی ترجمانی کررہے ہیں اور ان انوکھے آلات کی کارکردگی دیکھ کر ایک دنیا حیران ہورہی ہے۔

اس گروپ کی داغ بیل 1998 میں ڈالی گئی تھی اور یہ پورا گروپ دس میوزیشییئنز پر مشتمل ہے جن میں ایک خانساماں اور ایک ساؤنڈ ٹیکنیشیئن قابل ذکر ہے۔ اس طائفے کے دیگر ارکان مختلف فنی شعبوں میں متحرک ہیں مثال کے طور پر ان میں تربیت یافتہ میوزیشیئنز بھی ہیں، زبردست شاعر بھی، مجسمہ ساز بھی ہیں، میڈیا آرٹسٹ بھی، ڈیزائنرز بھی اور آرکیٹیکٹ بھی اور ان سبھی نے اس انوکھے تصور پر خوب جم کر کام کیا ہے اور مسلسل کررہے ہیں اور اپنے نادر پراجیکٹ کو ساری دنیا سے متعارف کرار ہے ہیں۔

ان لوگوں کی بین المضامین اپروچ یہ ہے کہ یہ نہ صرف اپنے کام پر مسلسل ریسرچ کرکے اسے مزید اپ ڈیٹ کررہے ہیں اور اس میں انوکھی ایجادات بھی متعارف کرا رہے ہیں۔ گویا انہوں نے ویجی ٹیبل میوزک کو مزید ترقی دے کر اسے بام عروج پر لے جانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے اور شب و روز اس کی ترقی کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس گروپ کی خواہش یہ ہے کہ وہ ایک ایسا بلند آہنگ صوتی تجربہ کرنا چاہتے ہیں جو انسان کی تمام حسوں کے لیے قابل قبول بھی ہو اور باعث تفریح و سکون بھی ہو۔

ان کے سبزیوں سے تیار کردہ آلات موسیقی ان کی اپنی ایجاد ہیں جن میں کیرٹ یعنی گاجر ریکارڈر، بینگن کے پودے سے تیار کردہ کلیپرز، zucchini یا کھیرے کی ایک قسم سے تیار کردہ ترم یا بگل اور ایسی ہی بہت سی سبزیاں شامل ہیں جو آواز کو بڑھانے کے لیے خصوصی مائیکروفونز کے ساتھ استعمال کی جاتی ہیں۔

اب یہ دیکھیں کہ یہ سبزیاں آلات موسیقی تیار کرنے کے لیے کس طرح استعمال ہوتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں ہر پروگرام شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے موجود تازہ ترین سبزیوں کو چھیلا جاتا ہے، پھر تمام 90پاؤنڈ سبزیوں کو ایک سوپ کی شکل میں پکایا جاتا ہے۔

The Vegetable Orchestra نے اپنے اس انوکھے اور حیران کن کام کی تین سی ڈیاں ریلیز کی ہیں: Gemise (1999), Automate (2003) and Onionoise (2010). ۔ انہوں نے یورپ، ریاست ہائے متحدہ امریکا، چین اور سنگاپور میں بھی اپنی فنی مہارت کے مظاہرے کرکے شائقین سے خوب داد وصول کی ہے، ان کی ہر ملک میں خوب پذیرائی ہوئی ہے۔ یہ انوکھا اور حیران کن طائفہ درج ذیل ارکان پر مشتمل ہے: Christina Bauer, Juergen Berlakovich, Nikolaus Gansterer, Susanna Gartmayer, Barbara Kaiser, Matthias Meinharter, Jörg Piringer, Richard Repey, Marie Steinauer, Ingrid Schlögl, Ulrich Troyer, اور Tamara Wilhelm.اب ہم اس گروپ کی پرفارمنس کا ایک آنکھوں دیکھا منظر پیش کررہے ہیں، تاکہ ہمارے قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ یہ کام کس طرح کیا جارہا ہے اور جس وقت یہ گروپ پرفارم کرتا ہے تو کیسا منظر سامنے ہوتا ہے۔

ابھی شو ٹائم میں تین گھنٹے باقی ہیں اور آرکسٹرا کے ارکان ایک ہزار سال قدیم Benedictine monastery کے باغ میں اسٹیج پر بیٹھے ہیں۔ یہ جرمنی کے شہر کولون کا ایک منظر ہے۔ سیاہ لبادوں میں ملبوس میوزیشیئنز نے اپنے صوتی آلات اٹھائے، اپنے ہونٹ بھینچے اور Igor Stravinsky کے The Rite of Spring کا پہلا افتتاحی پیسیج چھیڑ دیا۔ اسی وقت ایک ٹیکنیشین نے بے ڈھنگے پن سے انہیں کاٹ دیا۔ گاجر سے تیار کردہ بانسریوں کی دھنیں اتنی توانا اور مستحکم تھیں کہ وہ ٹیکنیشین کند وائلن کو سن نہیں سکا۔


وہ کھیرے سے شروع کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پوری دنیا میں گذشتہ 21 برسوں کے دوران لگ بھگ تین سو شوز میں ایک اور بار بھی ایسا ہوا کہ ویانا کے ویجیٹیبل آرکسٹرا شوز نے خوب کام کیا ہے اور گذشتہ اکیس برسوں کے دوران یہ گروپ دنیا بھر میں مکمل طور پر پُرہجوم شوز میں کلاسیکل بندگوبھی سے لے کر ٹیکنو شلجم تک سے تیار کردہ آلات موسیقی کے ذریعے انوکھی دھنیں چھیڑ کر خوب داد پاچکا ہے۔ یہ صوتی اور آہنگی خوبیوں سے مالامال ہیں۔

اس آرکسٹرا نے ایک کام یاب 'Krautfunding' یعنی جڑی بوٹیوں کی فنڈنگ کے بعد حال ہی میں اپنا چوتھا البم جاری کردیا ہے، اور اس نے ساری دنیا کو یہ بتادیا ہے کہ آپ اپنی خوراک اور غذا کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق خوب بجا بھی سکتے ہیں۔ سوسن گارٹ میئر جو گاجر اور مولی سے تیار کردہ بانسری بجاتی ہے اور اس کے ساتھ دوسری کھائی جانے والی سبزیوں کو بھی بجانے کے ہنر سے واقف ہے۔ اس نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا:''سبزی کے کوئی سے بھی دو پیس ایک جیسے نہیں ہوتے، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مگر ہم اس سے اپنا کام بڑی خوبی اور مہارت سے انجام دے لیتے ہیں۔''

دوسرے روایتی آلات موسیقی کے برعکس سبزیوں سے تیار کردہ موسیقی کے آلات جلدی خراب ہوسکتے ہیں، جب کہ روایتی موسیقی کے آلات تو صدیوں تک بھی خراب نہیں ہوتے، اس لیے ہر بار جب بھی ویجیٹیبل یا سبزیوں سے تیار کردہ موسیقی کے آلات ایک بار بجالیے جاتے ہیں تو اس استعمال کے بعد وہ مکمل طور پر ناکارہ ہوجاتے ہیں اور انہیں دوبارہ تیار کرنا پڑتا ہے۔

ہر شو کی صبح کو آرٹسٹوں، ناول نگاروں، آرکیٹیکٹس اور ڈیزائنرز کو اپنی شاپنگ لسٹ کے ساتھ مقامی سبزی مارکیٹ کا رخ کرنا پڑتا ہے جہاں پہنچ کر وہ بہت احتیاط کے ساتھ ان سبزیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ لوکی اور کدو کو زمین پر زور زور سے مارکر اس کی طاقت اور پختگی کو چیک کرتے ہیں، یہ اجوائن کو بھی اچھی طرح چیک کرتے ہیں اور پیاز کے چھلکوں کو بھی اتار اتار کر چیک کرتے ہیں اور ان میں سے تازہ اور اچھی چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ پھر یہ موسیقار انہیں بہت مہارت کے ساتھ چھیلتے ہیں، ان کی ٹکڑے کرتے ہیں اور ان کے اندر سے تازہ گودے کو ڈرل کرکے نکالتے ہیں تاکہ ان کی مدد سے تازہ آلات موسیقی تیار کیے جاسکیں۔ ایک بار جب سبزیوں کو چھیل لیا جاتا ہے اور ان کے ٹکڑے کرلیے جاتے ہیں تو یہ سبزیاں صرف چھ گھنٹے تک ہی چل سکتی ہیں اور سبزیوں کے جو حصے موسیقار استعمال نہیں کرتے، اس سب کو شو ختم ہونے کے بعد ابال کر اس کا سوپ بنالیا جاتا ہے اور وہاں موجود مہمانوں اور حاضرین کی خدمت میں پیش کردیا جاتا ہے۔

جب یہ گروپ اپنی پسند کی تازہ سبزیاں مارکیٹ سے خرید کر لاتا ہے تو آتے ہی تمام میوزیشیئنز چاقو چھریاں اور برقی ڈرلز لے کر اپنے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں اور تمام گاجروں اور کھیروں کا گودا اندر سے برقی ڈرلز کی مدد سے نکال لیتے ہیں اور پھر لوکی بانسری کی شکل اختیار کرلیتی ہے، بعض تازہ سبزیوں کے ٹکڑوں سے بگل بنالیے جاتے ہیں اور شلجم سے بونو اور ڈرم بنالیے جاتے ہیں۔ ہر میوزیشیئن ہر شو کے لیے 8سے 25 آلات تیار کرتا ہے اور پھر ان تازہ سبزیوں سے تیار کردہ آلات موسیقی کی مدد سے ہر طرف موسیقی کا گویا سیلاب آجاتا ہے جس سن کر وہاں موجود شائقین بھی جھوم اٹھتے ہیں۔

اس گروپ کے بانی ممبر Matthias Meinharter کا کہنا ہے کہ یہ سب ایک مذاق یا لطیفے کے طور پر شروع ہوا تھا۔ میں نے اور میرے تین ساتھیوں نے ویانا کی یونی ورسٹی میں ایک آرٹ فیسٹیول میں پرفارمنس کے لیے اس خیال پر کام شروع کیا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ کوئی انوکھا اور بالکل نیا کام کریں۔ پھر ہم نے سوچا کہ سب سے مشکل کام کس چیز سے موسیقی بجانا ہے تو پھر ہمارے ذہن میں تازہ سبزیوں کا خیال آیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ہر شو کے لیے تازہ سبزیوں کی مدد سے آرکسٹرا کے آلات بنانے میں دو گھنٹے لگتے ہیں اور پچاس کلوگرام تازہ سبزیاں درکار ہوتی ہیں۔ اکیس سال پہلے ہمارے آرکسٹر نے لندن کے رایل البرٹ ہال میں پرفارم کیا، پھر شنگھائی آرٹ سینٹر میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا جس کے بعد ہمیں یوکرائن کے اولیگر مینشن میں مدعو کیا گیا اور ہماری خوب پذیرائی بھی ہوئی۔

یہ گروپ اب گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی فہرست میں بھی جگہ بناچکا ہے جہاں اسے 'Most concerts by a vegetable orchestra' نامی کیٹیگری میں جگہ ملی ہے۔

گروپ کے رکن Gartmayer کا کہنا ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مزاحیہ کام کرتے ہیں اور شاید یہ کام مے خانوں کے لیے مخصوص ہے، مگر جب انہوں نے ہماری پرفارمنس دیکھی تو حیران رہ گئے، انہوں نے تازہ سبزیوں کا صوتی جادو پہلی بار دیکھا تو ان کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔

اب تک اس آرکسٹرا نے تازہ سبزیوں کی مدد سے لگ بھگ 150 آلات موسیقی ایجاد کیے ہیں۔ اس گروپ نے یہ عہد کررکھا ہے کہ وہ تازہ سبزیوں سے تیار کردہ آلات موسیقی کی مدد سے موسیقی کی پوری دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیں گے۔
Load Next Story