شرح سود 1075 فیصد کر دی گئی بجلی گیس کے نرخ اور روپے کی قدر میں کمی
معاشی استحکام کے لیے حکومتی اقدامات کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے افراط زر کے دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی ریٹ میں مزید 50 بیسس پوائنٹس اضافہ کردیا ہے جس کے بعد بنیادی پالیسی ریٹ (شرح سود) 10.75فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کا اجلاس جمعے کو منعقد ہوا جس میں توازان ادائیگی کی صورتحال، مالیاتی خسارہ، افراط زر کے دباؤ، زرعی اور صنعتی پیداوار سمیت دیگر معاشی اشاریو ں پر غور کیا گیا۔ جس کے بعد مانیٹر ی پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں اضافے کا اعلان کیا۔ اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی بیان میں مہنگائی کے عوامل کی نشاندہی کی جن میں بجلی وگیس کے نرخ، خوردنی اشیاکی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی سرفہرست ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق معاشی استحکام کے لیے حکومتی اقدامات کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔ جنوری فروری کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔ دوست ممالک سے رقوم کی آمد سے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملی ہے اور بیرونی محاذ پر اس پیش رفت نے مالی منڈیوں میں استحکام کو بہتر بنایا۔ غیریقینی کیفیت کو کم کیا اور کاروباری اعتماد میں بہتری آئی ہے تاہم جاری کھاتے کا خسارہ کم ہونے کے باوجود ابھی تک بلند ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق فصلوں کے تازہ ترین دستیاب تخمینوں سے شعبہ زراعت کی ناقص کارکردگی کی عکاسی ہورہی ہے اور بڑی صنعتوں کی پیداوار میں بھی کمی کا رجحان ہے۔
اسٹیٹ بینک نے کہا کہ فروری میں مہنگائی کی رفتار جون 2014 کے بعد بلند ترین سطح پر ہے۔اسٹیٹ بینک نے معاشی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے رواں مالی سال مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 3.5فیصد تک محدود رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق محاصل کی وصولی میں کمی اور امن و امان سے متعلق بڑھتے ہوئے اخراجات کے بوجھ کی وجہ سے مالی سال 2019 کا مالیاتی خسارہ بھی ہدف سے تجاوز کرجائے گا۔ مرکزی بینک نے معاشی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مربوط اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مانیٹری پالیسی بیان میں مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں اضافے کا رجحان برقرار ہے، مالیاتی خسارے کی سطح بلند ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونے کے باوجود بلند ہے۔
مانیٹری پالیسی میں کہا گیا ہے کہ جولائی تا فروری مالی سال2019 میں اوسط عمومی مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت 6.5 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ پچھلے برس کی اسی مدت میں 3.8 فیصد تھی۔ اس دوران سال بہ سال مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت میں خاصا اضافہ ہوا جو جنوری 2019ء میں7.2 فیصد اور فروری 2019میں 8.2 فیصد تک جاپہنچی جو جون 2014سے اب تک مہنگائی میں بلند ترین ضافہ ہے۔
مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ اگر تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا تو یہ کمی مزید نمایاں ہوتی۔ ڈالر کی قدر میں برآمدات اس مدت کے دوران یکساں رہیں تاہم حجم کے لحاظ سے نمایاں بہتری آئی ہے۔اگرچہ جاری کھاتے کا خسارہ مالکاری کے حوالے سے ابھی تک ہمت آزما ہے تاہم اس کی کمی زر ِمبادلہ کی مارکیٹ میں کچھ استحکام کی شکل میں نمودار ہوئی ہے۔
بیرونی توازن میں بہتری کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر مبنی سرکاری رقوم کی آمد میں اضافے کی بنا پر اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری آئی ہے اور 25 مارچ 2019ء کو بڑھ کر 10.7 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ اگرچہ ذخائر ابھی تک معیاری سطح کفایت (تین مہینے کی درآمدات کے مساوی) سے کم ہیں تاہم بیرونی محاذ پر حالیہ بہتری نے کاروباری اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔
یکم جولائی سے 15 مارچ 2019 کے دوران حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 3.3 ٹریلین روپے قرض لیا اور جدولی بینکوں کے 2.2 ٹریلین روپے کے قرضے (نقد بنیاد پر)واپس کیے۔ اس سے بینکوں کو مارکیٹ کی شرح سود پر دباؤ ڈالے بغیر نجی شعبے کے قرضے کی طلب پورا کرنے میں سہولت ملی اور یہ قرضے 9.2 فیصد بڑھ گئے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کا اجلاس جمعے کو منعقد ہوا جس میں توازان ادائیگی کی صورتحال، مالیاتی خسارہ، افراط زر کے دباؤ، زرعی اور صنعتی پیداوار سمیت دیگر معاشی اشاریو ں پر غور کیا گیا۔ جس کے بعد مانیٹر ی پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں اضافے کا اعلان کیا۔ اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی بیان میں مہنگائی کے عوامل کی نشاندہی کی جن میں بجلی وگیس کے نرخ، خوردنی اشیاکی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی سرفہرست ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق معاشی استحکام کے لیے حکومتی اقدامات کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔ جنوری فروری کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔ دوست ممالک سے رقوم کی آمد سے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملی ہے اور بیرونی محاذ پر اس پیش رفت نے مالی منڈیوں میں استحکام کو بہتر بنایا۔ غیریقینی کیفیت کو کم کیا اور کاروباری اعتماد میں بہتری آئی ہے تاہم جاری کھاتے کا خسارہ کم ہونے کے باوجود ابھی تک بلند ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق فصلوں کے تازہ ترین دستیاب تخمینوں سے شعبہ زراعت کی ناقص کارکردگی کی عکاسی ہورہی ہے اور بڑی صنعتوں کی پیداوار میں بھی کمی کا رجحان ہے۔
اسٹیٹ بینک نے کہا کہ فروری میں مہنگائی کی رفتار جون 2014 کے بعد بلند ترین سطح پر ہے۔اسٹیٹ بینک نے معاشی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے رواں مالی سال مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 3.5فیصد تک محدود رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق محاصل کی وصولی میں کمی اور امن و امان سے متعلق بڑھتے ہوئے اخراجات کے بوجھ کی وجہ سے مالی سال 2019 کا مالیاتی خسارہ بھی ہدف سے تجاوز کرجائے گا۔ مرکزی بینک نے معاشی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مربوط اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مانیٹری پالیسی بیان میں مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں اضافے کا رجحان برقرار ہے، مالیاتی خسارے کی سطح بلند ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونے کے باوجود بلند ہے۔
مانیٹری پالیسی میں کہا گیا ہے کہ جولائی تا فروری مالی سال2019 میں اوسط عمومی مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت 6.5 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ پچھلے برس کی اسی مدت میں 3.8 فیصد تھی۔ اس دوران سال بہ سال مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت میں خاصا اضافہ ہوا جو جنوری 2019ء میں7.2 فیصد اور فروری 2019میں 8.2 فیصد تک جاپہنچی جو جون 2014سے اب تک مہنگائی میں بلند ترین ضافہ ہے۔
مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ اگر تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا تو یہ کمی مزید نمایاں ہوتی۔ ڈالر کی قدر میں برآمدات اس مدت کے دوران یکساں رہیں تاہم حجم کے لحاظ سے نمایاں بہتری آئی ہے۔اگرچہ جاری کھاتے کا خسارہ مالکاری کے حوالے سے ابھی تک ہمت آزما ہے تاہم اس کی کمی زر ِمبادلہ کی مارکیٹ میں کچھ استحکام کی شکل میں نمودار ہوئی ہے۔
بیرونی توازن میں بہتری کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر مبنی سرکاری رقوم کی آمد میں اضافے کی بنا پر اسٹیٹ بینک کے زر ِمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری آئی ہے اور 25 مارچ 2019ء کو بڑھ کر 10.7 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ اگرچہ ذخائر ابھی تک معیاری سطح کفایت (تین مہینے کی درآمدات کے مساوی) سے کم ہیں تاہم بیرونی محاذ پر حالیہ بہتری نے کاروباری اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔
یکم جولائی سے 15 مارچ 2019 کے دوران حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 3.3 ٹریلین روپے قرض لیا اور جدولی بینکوں کے 2.2 ٹریلین روپے کے قرضے (نقد بنیاد پر)واپس کیے۔ اس سے بینکوں کو مارکیٹ کی شرح سود پر دباؤ ڈالے بغیر نجی شعبے کے قرضے کی طلب پورا کرنے میں سہولت ملی اور یہ قرضے 9.2 فیصد بڑھ گئے۔