معاشی آسودگی ٹھوس اقدامات کی ضرورت
روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخ بغیرکسی میکنزم کے بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے متوسط اورغریب طبقہ سخت پریشانی میں مبتلا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس سال فروری میں مہنگائی میں اضافے کی شرح جون 2014ء کے بعد بلند ترین سطح پر رہی۔ سعودی عرب اور چین کی جانب سے رقوم کی آمد کے سبب زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کم ہوا۔
بیرونی محاذ پر اس پیش رفت نے مالی منڈیوں میں استحکام کو بہتر بنایا، 2019ء کے پہلے دو ماہ کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں 22 اعشاریہ 7 فیصد نمایاں کمی آئی جو 8 ارب 80 کروڑ ڈالر رہا جب کہ گزشتہ برس اسی مدت میں 11 ارب 40 کروڑ ڈالر خسارہ تھا۔ تاہم جاری کھاتے کا خسارہ کم ہونے کے باوجود ابھی تک بلند ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی رپورٹ اس بات کا عندیہ ہے کہ معاشی پالیسیاں نتیجہ خیزیوں کی ابھی تک راہ تک رہی ہیں، ملکی معیشت کو کوئی بریک تھرو ایسا نہیں ملا جس سے شہریوں کو ماضی اور حال کی معیشت کے مابین تقابل کرنے میں آسانی ہو، غریب طبقہ برملا یہ کہہ سکے کہ کل سے آج کچھ بہتر ہے۔ بلکہ صورت حال اس قدر الجھاؤ کا شکار ہے کہ کسی معاشی فیصلے یا اعلان و اقدام کی اعتباریت باقی نہیں رہی، ابھی گیس کی اضافی بلنگ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے صارفین سے لی گئی رقوم کا سختی سے نوٹس لیا اور اس کی واپسی کے لیے واضح ہدایت جاری کی، لیکن وزارتی حلقوں نے ابہام پیدا کیا کہ ایسا فیصلہ نہیں ہوا۔
مثلاً آئی ایم ایف سے نرم شرائط اور قومی مفاد میں مذاکرات کے لیے وزیرخزانہ اسد عمر معاشیات اور مائیکرو اکنامکس کی ہر منطق سے عوام کو باور کراتے رہے کہ آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر کوئی پیکیج نہیں لیا جائے گا، تاہم ادھر آئی ایم کا وفد ملک سے روانہ ہوا ادھر عوام پر پٹرولیم بم پھینک دیا گیا، نیز بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ضمن میں عوام کو پہلے سے خبردار بھی کیا جا رہا ہے، ایک ممتاز تجارتی شخصیت نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لیے تیار ہے۔
ایک دن قبل وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ ہونے ہی والا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ آئی ایم ایف کے اجلاس کے بعد ہو گا جو اپریل کے تیسرے ہفتے میں ہونا ہے۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف نے بھی منی لانڈرنگ اور دیگرسیکیورٹی اقدامات اور کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر کارروائیوں کے بارے میں عدم اطمینان ظاہر کیا۔ حقیقت میں ملکی معیشت کے استحکام اور مہنگائی ، بیروزگاری، مختلف مدات میں کثیر جہتی خسارے کے گرداب سے نکلنے کے لیے بڑے ہی سخت اور جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔
معاشی آسودگی ہنوز سوالیہ نشان ہے، کوئی شے سستی نہیں، گوشت، آٹا، دالیں، مچھلی، سبزیاں اور مصالحے، دودھ ، دہی، لسی، دوائیں، بسوں کوچز اور دیگر ٹرانسپورٹ کرایے عام آدمی کی استطاعت سے دور ہیں۔ وزیر خزانہ سے منسوب اس بیان نے تو عام آدمی کی نیندیں اڑا دی تھیں کہ آیندہ چند ماہ میں اتنی مہنگائی ہوگی عوام کی چیخیں نکل جائیں گی ، مہنگائی کی شرح ہوشربا ہے جب کہ عام آدمی تک حکومتی اقتصادی حکمت عملی کے ثمرات یا مہنگائی کی روک تھام کے لیے موثر اقدمات حقیقت سے زیادہ فیصلہ جاتی خلفشار کا پینڈورا کھولے ہوئے ہیں۔
روز مرہ استعمال کی اشیاء کے نرخ بغیر کسی میکنزم کے بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقہ سخت پریشانی میں مبتلا ہے۔ بادی النظر میں حکومت غربت کے خاتمہ، نوجوانوں اور خواتین کے روزگار اور قرضہ جاتی اسکیموں کے علاوہ رہائشی سہولتوں کے لیے پالیساں بنا رہی ہے مگر یہ طویل المدتی منصوبے ہیں،اس کے اثرات خاصی دیر کے بعد ظاہر ہوں گے۔ عام آدمی ڈے ٹو ڈے معاشی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مارکیٹ سے سستی اور ارزاں اشیائے صرف کے لیے طلب و رسد کے مسرت آمیز میکنزم کو سامنے دیکھنا چاہتا ہے۔ سیدھی سادی بات یہ ہے کہ اسے ناشتہ، دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے بھوک، تنگدستی اور مہنگائی کے آسیب سے نجات چاہیے۔
ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مالیاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں شرح سود 50 بیسز پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ 10.75 فیصد مقرر کر دی ہے، نئی شرح سود کا اطلاق یکم اپریل سے ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق بجلی اور گیس، خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی مہنگائی کے بنیادی اسباب ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ' فعال زری انتظام کے باوجود توانائی کی بلند قیمتوں اور شرح مبادلہ میں کمی کی وجہ سے خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مہنگائی میں اضافے کے لے دباؤ ڈالتی رہیں گی اور اس کے نتیجے میں رواں سال مہنگائی ساڑھے 6 سے ساڑھے 7 فیصد کے درمیان رہے گی۔
یوں دیکھا جائے تو مہنگائی کے مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔ رواں مالی سال جولائی سے فروری تک جاری کھاتے کے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری آئی ہے جو 25 مارچ کو 10 ارب 70 کروڑ ڈالرتھے۔ تاہم رپورٹ میں رواں مالی سال بھی مالیاتی خسارہ ہدف سے تجاوز کر جانے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ' اب تک مالیاتی خسارے کا خاصا حصہ اسٹیٹ بینک سے قرض لے کر پورا کیا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف زری پالیسی کی ترسیل میں پیچیدگیاں ہوں گی بلکہ اس کا اثر بھی کم ہو گا۔
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ آیندہ چند ماہ میں معیشت کیا کروٹ لے گی۔ روز افزوں مہنگائی کے سدباب کے لیے حکومت کی معاشی ٹیم کے پاس جو آپشنز ہیں وہ ملکی اقتصادیات کے استحکام کا پتہ دیں، کہیں ایسا نہ ہو مہنگائی سے عوام کے بلبلانے کی نوبت آ جائے۔
بیرونی محاذ پر اس پیش رفت نے مالی منڈیوں میں استحکام کو بہتر بنایا، 2019ء کے پہلے دو ماہ کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں 22 اعشاریہ 7 فیصد نمایاں کمی آئی جو 8 ارب 80 کروڑ ڈالر رہا جب کہ گزشتہ برس اسی مدت میں 11 ارب 40 کروڑ ڈالر خسارہ تھا۔ تاہم جاری کھاتے کا خسارہ کم ہونے کے باوجود ابھی تک بلند ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی رپورٹ اس بات کا عندیہ ہے کہ معاشی پالیسیاں نتیجہ خیزیوں کی ابھی تک راہ تک رہی ہیں، ملکی معیشت کو کوئی بریک تھرو ایسا نہیں ملا جس سے شہریوں کو ماضی اور حال کی معیشت کے مابین تقابل کرنے میں آسانی ہو، غریب طبقہ برملا یہ کہہ سکے کہ کل سے آج کچھ بہتر ہے۔ بلکہ صورت حال اس قدر الجھاؤ کا شکار ہے کہ کسی معاشی فیصلے یا اعلان و اقدام کی اعتباریت باقی نہیں رہی، ابھی گیس کی اضافی بلنگ کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے صارفین سے لی گئی رقوم کا سختی سے نوٹس لیا اور اس کی واپسی کے لیے واضح ہدایت جاری کی، لیکن وزارتی حلقوں نے ابہام پیدا کیا کہ ایسا فیصلہ نہیں ہوا۔
مثلاً آئی ایم ایف سے نرم شرائط اور قومی مفاد میں مذاکرات کے لیے وزیرخزانہ اسد عمر معاشیات اور مائیکرو اکنامکس کی ہر منطق سے عوام کو باور کراتے رہے کہ آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر کوئی پیکیج نہیں لیا جائے گا، تاہم ادھر آئی ایم کا وفد ملک سے روانہ ہوا ادھر عوام پر پٹرولیم بم پھینک دیا گیا، نیز بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ضمن میں عوام کو پہلے سے خبردار بھی کیا جا رہا ہے، ایک ممتاز تجارتی شخصیت نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لیے تیار ہے۔
ایک دن قبل وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ ہونے ہی والا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ آئی ایم ایف کے اجلاس کے بعد ہو گا جو اپریل کے تیسرے ہفتے میں ہونا ہے۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف نے بھی منی لانڈرنگ اور دیگرسیکیورٹی اقدامات اور کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر کارروائیوں کے بارے میں عدم اطمینان ظاہر کیا۔ حقیقت میں ملکی معیشت کے استحکام اور مہنگائی ، بیروزگاری، مختلف مدات میں کثیر جہتی خسارے کے گرداب سے نکلنے کے لیے بڑے ہی سخت اور جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔
معاشی آسودگی ہنوز سوالیہ نشان ہے، کوئی شے سستی نہیں، گوشت، آٹا، دالیں، مچھلی، سبزیاں اور مصالحے، دودھ ، دہی، لسی، دوائیں، بسوں کوچز اور دیگر ٹرانسپورٹ کرایے عام آدمی کی استطاعت سے دور ہیں۔ وزیر خزانہ سے منسوب اس بیان نے تو عام آدمی کی نیندیں اڑا دی تھیں کہ آیندہ چند ماہ میں اتنی مہنگائی ہوگی عوام کی چیخیں نکل جائیں گی ، مہنگائی کی شرح ہوشربا ہے جب کہ عام آدمی تک حکومتی اقتصادی حکمت عملی کے ثمرات یا مہنگائی کی روک تھام کے لیے موثر اقدمات حقیقت سے زیادہ فیصلہ جاتی خلفشار کا پینڈورا کھولے ہوئے ہیں۔
روز مرہ استعمال کی اشیاء کے نرخ بغیر کسی میکنزم کے بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقہ سخت پریشانی میں مبتلا ہے۔ بادی النظر میں حکومت غربت کے خاتمہ، نوجوانوں اور خواتین کے روزگار اور قرضہ جاتی اسکیموں کے علاوہ رہائشی سہولتوں کے لیے پالیساں بنا رہی ہے مگر یہ طویل المدتی منصوبے ہیں،اس کے اثرات خاصی دیر کے بعد ظاہر ہوں گے۔ عام آدمی ڈے ٹو ڈے معاشی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مارکیٹ سے سستی اور ارزاں اشیائے صرف کے لیے طلب و رسد کے مسرت آمیز میکنزم کو سامنے دیکھنا چاہتا ہے۔ سیدھی سادی بات یہ ہے کہ اسے ناشتہ، دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے بھوک، تنگدستی اور مہنگائی کے آسیب سے نجات چاہیے۔
ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مالیاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں شرح سود 50 بیسز پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ 10.75 فیصد مقرر کر دی ہے، نئی شرح سود کا اطلاق یکم اپریل سے ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق بجلی اور گیس، خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی مہنگائی کے بنیادی اسباب ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ' فعال زری انتظام کے باوجود توانائی کی بلند قیمتوں اور شرح مبادلہ میں کمی کی وجہ سے خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مہنگائی میں اضافے کے لے دباؤ ڈالتی رہیں گی اور اس کے نتیجے میں رواں سال مہنگائی ساڑھے 6 سے ساڑھے 7 فیصد کے درمیان رہے گی۔
یوں دیکھا جائے تو مہنگائی کے مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔ رواں مالی سال جولائی سے فروری تک جاری کھاتے کے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری آئی ہے جو 25 مارچ کو 10 ارب 70 کروڑ ڈالرتھے۔ تاہم رپورٹ میں رواں مالی سال بھی مالیاتی خسارہ ہدف سے تجاوز کر جانے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ' اب تک مالیاتی خسارے کا خاصا حصہ اسٹیٹ بینک سے قرض لے کر پورا کیا ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف زری پالیسی کی ترسیل میں پیچیدگیاں ہوں گی بلکہ اس کا اثر بھی کم ہو گا۔
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ آیندہ چند ماہ میں معیشت کیا کروٹ لے گی۔ روز افزوں مہنگائی کے سدباب کے لیے حکومت کی معاشی ٹیم کے پاس جو آپشنز ہیں وہ ملکی اقتصادیات کے استحکام کا پتہ دیں، کہیں ایسا نہ ہو مہنگائی سے عوام کے بلبلانے کی نوبت آ جائے۔