تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر
آج پھر مختلف ممالک میں مساجد پر حملوں میں بے شمار نمازی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔
کچھ تحریریں حالات کے تناظر میں ایسی سامنے آتی ہیں جو دل کو بھلی لگتی ہیں اور سوچ وفکرکے در وا ہوتے ہیں ایسے ہی چند جملے سوشل میڈیا پر پڑھنے کو ملے آپ بھی پڑھیے ''ادھر مسلمان اپنے بچوں کو شیکسپیئر اور مسٹر چپس پڑھاتے رہے ادھر دشمن کا بچہ 1683 کی جنگ ویانہ کا بدلہ لینے پہنچ گیا افسوس یہ ہے کہ مسلمان کا بچہ یہ تک نہیں جانتا کہ خلافت عثمانیہ کیا تھی، عثمانیہ افواج نے کیوں ویانہ کا محاصرہ کیا تھا، بعدازاں ویانہ ہاتھ سے نکل جانے سے خلافت عثمانیہ کو کیسے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔''
اور ہماری قوم اور قوم کے بچے تاریخ سے ناواقف، مسلمانوں کے کارناموں سے بے خبر جذبہ جہاد کی اہمیت اور مقاصد سے ناآشنا اس کی اہم ترین وجہ نصاب سے وہ کتابیں اور اوراق نکال دیے گئے جو مسلمانوں کے شاندار ماضی اور عزم و استقلال کی داستان کی نمائندگی کرتے تھے، اسلامی تشخص، دینی حمیت، قومی غیرت کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکالا گیا اور اس کی جگہ بے حیائی کو اس قدر عام کیا گیا کہ آج کا نوجوان مغربی چالوں کا اسیر ہوگیا ۔ ایسے ہی معاشرے کے لیے علامہ نے کہا تھا:
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ہماری فیشن ایبل اور ماڈرن خواتین کو نیوزی لینڈکی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ وہ سوگ کے اجتماع میں سیاہ لباس پہنے سر پر دوپٹہ اوڑھے اسلامی لباس کا پرچار کر رہی تھیں گویا مسلمانوں سے یکجہتی اور ان کے غم میں شریک ہونے کی ایک بہترین اور سنہری مثال تھی۔ برینٹن ٹیرنٹ کا کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ اور پچاس نمازیوں کو شہید کرنا ساتویں صلیبی جنگ کی ابتدا تھی اور اس کی بنیاد میں صدر بش کا کلیدی کردار نمایاں ہے۔ ان صلیبی جنگوں کا آغاز اس روز ہوا جب غداروں نے حضرت عیسیٰ کو صلیب پر چڑھایا، اقتدار کی ہوس نے انھیں اندھا کردیا اور بے شمار مذہبی لوگوں کا خون بہایا گیا۔ فلسطین اور شام کی حدود میں یہ جنگیں لڑی گئیں جب کہ فلسطین اور بیت المقدس کا شہر حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتح ہوگیا تھا۔
تینوں مذاہب مسلمان عیسائی یہودیوں کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ بیت المقدس ان کے دائرہ اختیار میں آجائے اسی حوالے سے ان جنگوں کی ابتدا ہوئی اور مقدس مقام متعدد بار جنگوں کا اکھاڑہ بنا۔ صلیبی جنگوں کے حوالے سے نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے جذبہ جہاد کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کی ساری زندگی عیسائیوں سے لڑتے اور فتوحات حاصل کرتے ہوئے گزری۔ حالات کچھ ایسے بدلے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا عیسائیوں کے مدمقابل آنا ضروری ہوگیا۔
شام کے حالات بے حد خراب ہوچکے تھے صلیبیوں کا زور گھٹانے اور ان کی بے جا ظالمانہ روش کو ختم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ صلاح الدین کو مدد کے لیے پکارا جائے، اتالیکی حکومت کے قیام سے پہلے شام پر صلیبیوں کا غلبہ تھا اور انھوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا تھا ، عماد الدین زنگی اور نورالدین محمود جیسے مجاہدین آگے بڑھ کر انھیں زوال سے دوچار نہ کرتے تو شام ہاتھ سے نکل سکتا تھا ان دونوں باپ بیٹے نے ان کا زور توڑا۔ ابھی یہ مہم جاری ہی تھی کہ نورالدین نے موت کو لبیک کہا ان حالات میں جب کہ اقتدار کی کشمکش زوروں پر تھی اور بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں تھا اور شام میں ان کی کئی حکومتیں اپنا کام کر رہی تھیں اور سارا یورپ ان کے ساتھ تھا مکمل طور پر انھیں پشت پناہی حاصل تھی۔
شام کی حالت ایسی ہو رہی تھی کہ صلاح الدین کو اپنا حق ادا کرنا ضروری ہوگیا اگر وہ ایسا نہ کرتا تو وہ سلطنت جس کے استحکام کے لیے نورالدین اور ان کے والد عماد الدین زنگی نے جانفشانی سے کام کیا تھا وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی، اقتدار کی ہوس نے دوست دشمن کی پہچان ختم کردی اور قریبی لوگوں میں پھوٹ پڑگئی تھی جس طرح شام کے امرا نے خود مختاری اختیار کرلی تھی اور ایسی ہی حالت دمشق کی تھی جہاں فرنگیوں کو راضی کرنے کے لیے ان سے صلح کرلی تھی اور یہ بات مجاہد اسلام غازی صلاح الدین کو بالکل پسند نہ تھی سلطان کا اصل مقصد حیات مقامات مقدسہ کی حفاظت اور ارض شام کو صلیبیوں سے پاک کرنا تھا، لیکن حالات کے سبب بعض فرنگی فرمانرواؤں سے وقتی مصالحت ہوگئی تھی، گویا یہ ایک عہد تھا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بے شمار مواقعوں پر کفار اپنی بات سے پھر گئے اور عہد شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں، یہاں بھی ایجی نالڈ نے بدعہدی کی اور صلح کے زمانے میں بھی اس کا بہترین مشغلہ مسلمان قافلوں کو لوٹنا تھا۔
انگریز مورخ کے بیان کے مطابق 1186 میں مسلمان تاجروں کے ایک قافلے کو لوٹ کر اہل قافلہ کو گرفتار کرلیا ان لوگوں نے اپنی رہائی کے لیے کہا تو اس نیان کا مذاق اڑایا۔ جب سلطان صلاح الدین کے کان تک یہ بات پہنچی تو سلطان نے قسم کھا لی کہ اس صلح شکن کافر کو خدا نے چاہا تو اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا۔ سلطان نے بہت جلد نہ صرف اپنا عہد پورا کیا بلکہ یروشلم کی مسیحی سلطنت کو ہی ختم کردیا۔
صلیبیوں نے فیصلہ کن جنگ کے لیے ممالک محروسہ میں جہاد کی عام مبادی کرادی عیسائی اور مسلمانوں کے درمیان تاریخی اور فیصلہ کن جنگ ہوئی جس میں مسلمانوں کو شاندار فتح نصیب ہوئی، ابن تاثیر کا بیان ہے کہ اس جنگ میں اتنے صلیبی قتل و گرفتار ہوئے کہ مقتولین کے انبار کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ پوری فوج قتل ہوگئی ہے اور قیدیوں کی تعداد سے اندازہ ہوتا تھا کہ پوری فوج زندہ گرفتارکرلی گئی ہے۔
ابو شامہ نے اس جنگ کے بارے میں لکھا ہے کہ فلسطین کے تمام عیسائی مسلمانوں کے پہرے میں تھے، معمولی سپاہی جو زندہ بچ گئے تھے وہ اس وقت قید میں تھے ایک مسلمان سپاہی تیس تیس عیسائیوں کو خیمے کی رسی میں باندھ کر ہنکاتا تھا ۔ جنگ کے اختتام کے بعد معزز قیدی سلطان کی خدمت میں پیش کیے گئے ان ہارے ہوئے اور عہد شکن جنگجوؤں کے ساتھ سلطان کا سلوک قابل تعریف تھا، یروشلم کے بادشاہ کو اس نے اپنے پہلو میںجگہ دی اور دوسروں کے مراتب کا بھی خیال رکھا۔ گائی نے ایجی نالڈ کو بچانے کی ترکیب کی اور ٹھنڈا پانی مانگا اس نے تھوڑا سا پانی پی کر ایجی نالڈ کو دے کر اس روایت کے مطابق بچانے کی کوشش کی ۔
عرب میں دستور تھا کہ جو قیدی مہمان نوازی کے طور پر کچھ کھا پی لیتا تھا وہ مامون ہوجاتا تھا اس کی چال ناکام ہوگئی اس لیے کہ سلطان نے پانی نہیں دیا تھا اس لیے جان بخشی کی ذمے داری بھی نہیں تھی چنانچہ سب قیدیوں کو کھانے کے لیے رخصت کردیا، گائی اور ایجی نالڈ کو روک لیا اسلامی اصول کے تحت اس کے سامنے اسلام جیسے امن پسند مذہب کو رکھا اس کے انکار کے بعد سلطان نے اپنے ہاتھوں سے اس کا سر قلم کرکے اپنی قسم پوری کردی، بے شک توہین رسالت کرنے والوں کا یہی انجام ہونا چاہیے۔
آج پھر مختلف ممالک میں مساجد پر حملوں میں بے شمار نمازی جام شہادت نوش کرچکے ہیں، عیسائی حملہ آور ماضی کی عبرت ناک شکست کا بدلہ لے رہے ہیں حملہ آور ٹیرنٹ کے اسلحہ پر مسلم عیسائی جنگوں کی تاریخیں درج تھیں۔ ان دنوں پھر سلطان صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی کی ضرورت ہے لیکن حالات اس کے برعکس ہیں علامہ اقبال نے ایسے ہی بے عمل اور لادین لوگوں کے لیے کہا ہے جو نام کے مسلمان ہیں:
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی' مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
اور ہماری قوم اور قوم کے بچے تاریخ سے ناواقف، مسلمانوں کے کارناموں سے بے خبر جذبہ جہاد کی اہمیت اور مقاصد سے ناآشنا اس کی اہم ترین وجہ نصاب سے وہ کتابیں اور اوراق نکال دیے گئے جو مسلمانوں کے شاندار ماضی اور عزم و استقلال کی داستان کی نمائندگی کرتے تھے، اسلامی تشخص، دینی حمیت، قومی غیرت کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکالا گیا اور اس کی جگہ بے حیائی کو اس قدر عام کیا گیا کہ آج کا نوجوان مغربی چالوں کا اسیر ہوگیا ۔ ایسے ہی معاشرے کے لیے علامہ نے کہا تھا:
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ہماری فیشن ایبل اور ماڈرن خواتین کو نیوزی لینڈکی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ وہ سوگ کے اجتماع میں سیاہ لباس پہنے سر پر دوپٹہ اوڑھے اسلامی لباس کا پرچار کر رہی تھیں گویا مسلمانوں سے یکجہتی اور ان کے غم میں شریک ہونے کی ایک بہترین اور سنہری مثال تھی۔ برینٹن ٹیرنٹ کا کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ اور پچاس نمازیوں کو شہید کرنا ساتویں صلیبی جنگ کی ابتدا تھی اور اس کی بنیاد میں صدر بش کا کلیدی کردار نمایاں ہے۔ ان صلیبی جنگوں کا آغاز اس روز ہوا جب غداروں نے حضرت عیسیٰ کو صلیب پر چڑھایا، اقتدار کی ہوس نے انھیں اندھا کردیا اور بے شمار مذہبی لوگوں کا خون بہایا گیا۔ فلسطین اور شام کی حدود میں یہ جنگیں لڑی گئیں جب کہ فلسطین اور بیت المقدس کا شہر حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتح ہوگیا تھا۔
تینوں مذاہب مسلمان عیسائی یہودیوں کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ بیت المقدس ان کے دائرہ اختیار میں آجائے اسی حوالے سے ان جنگوں کی ابتدا ہوئی اور مقدس مقام متعدد بار جنگوں کا اکھاڑہ بنا۔ صلیبی جنگوں کے حوالے سے نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے جذبہ جہاد کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کی ساری زندگی عیسائیوں سے لڑتے اور فتوحات حاصل کرتے ہوئے گزری۔ حالات کچھ ایسے بدلے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا عیسائیوں کے مدمقابل آنا ضروری ہوگیا۔
شام کے حالات بے حد خراب ہوچکے تھے صلیبیوں کا زور گھٹانے اور ان کی بے جا ظالمانہ روش کو ختم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ صلاح الدین کو مدد کے لیے پکارا جائے، اتالیکی حکومت کے قیام سے پہلے شام پر صلیبیوں کا غلبہ تھا اور انھوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا تھا ، عماد الدین زنگی اور نورالدین محمود جیسے مجاہدین آگے بڑھ کر انھیں زوال سے دوچار نہ کرتے تو شام ہاتھ سے نکل سکتا تھا ان دونوں باپ بیٹے نے ان کا زور توڑا۔ ابھی یہ مہم جاری ہی تھی کہ نورالدین نے موت کو لبیک کہا ان حالات میں جب کہ اقتدار کی کشمکش زوروں پر تھی اور بیت المقدس عیسائیوں کے قبضے میں تھا اور شام میں ان کی کئی حکومتیں اپنا کام کر رہی تھیں اور سارا یورپ ان کے ساتھ تھا مکمل طور پر انھیں پشت پناہی حاصل تھی۔
شام کی حالت ایسی ہو رہی تھی کہ صلاح الدین کو اپنا حق ادا کرنا ضروری ہوگیا اگر وہ ایسا نہ کرتا تو وہ سلطنت جس کے استحکام کے لیے نورالدین اور ان کے والد عماد الدین زنگی نے جانفشانی سے کام کیا تھا وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی، اقتدار کی ہوس نے دوست دشمن کی پہچان ختم کردی اور قریبی لوگوں میں پھوٹ پڑگئی تھی جس طرح شام کے امرا نے خود مختاری اختیار کرلی تھی اور ایسی ہی حالت دمشق کی تھی جہاں فرنگیوں کو راضی کرنے کے لیے ان سے صلح کرلی تھی اور یہ بات مجاہد اسلام غازی صلاح الدین کو بالکل پسند نہ تھی سلطان کا اصل مقصد حیات مقامات مقدسہ کی حفاظت اور ارض شام کو صلیبیوں سے پاک کرنا تھا، لیکن حالات کے سبب بعض فرنگی فرمانرواؤں سے وقتی مصالحت ہوگئی تھی، گویا یہ ایک عہد تھا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بے شمار مواقعوں پر کفار اپنی بات سے پھر گئے اور عہد شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں، یہاں بھی ایجی نالڈ نے بدعہدی کی اور صلح کے زمانے میں بھی اس کا بہترین مشغلہ مسلمان قافلوں کو لوٹنا تھا۔
انگریز مورخ کے بیان کے مطابق 1186 میں مسلمان تاجروں کے ایک قافلے کو لوٹ کر اہل قافلہ کو گرفتار کرلیا ان لوگوں نے اپنی رہائی کے لیے کہا تو اس نیان کا مذاق اڑایا۔ جب سلطان صلاح الدین کے کان تک یہ بات پہنچی تو سلطان نے قسم کھا لی کہ اس صلح شکن کافر کو خدا نے چاہا تو اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا۔ سلطان نے بہت جلد نہ صرف اپنا عہد پورا کیا بلکہ یروشلم کی مسیحی سلطنت کو ہی ختم کردیا۔
صلیبیوں نے فیصلہ کن جنگ کے لیے ممالک محروسہ میں جہاد کی عام مبادی کرادی عیسائی اور مسلمانوں کے درمیان تاریخی اور فیصلہ کن جنگ ہوئی جس میں مسلمانوں کو شاندار فتح نصیب ہوئی، ابن تاثیر کا بیان ہے کہ اس جنگ میں اتنے صلیبی قتل و گرفتار ہوئے کہ مقتولین کے انبار کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ پوری فوج قتل ہوگئی ہے اور قیدیوں کی تعداد سے اندازہ ہوتا تھا کہ پوری فوج زندہ گرفتارکرلی گئی ہے۔
ابو شامہ نے اس جنگ کے بارے میں لکھا ہے کہ فلسطین کے تمام عیسائی مسلمانوں کے پہرے میں تھے، معمولی سپاہی جو زندہ بچ گئے تھے وہ اس وقت قید میں تھے ایک مسلمان سپاہی تیس تیس عیسائیوں کو خیمے کی رسی میں باندھ کر ہنکاتا تھا ۔ جنگ کے اختتام کے بعد معزز قیدی سلطان کی خدمت میں پیش کیے گئے ان ہارے ہوئے اور عہد شکن جنگجوؤں کے ساتھ سلطان کا سلوک قابل تعریف تھا، یروشلم کے بادشاہ کو اس نے اپنے پہلو میںجگہ دی اور دوسروں کے مراتب کا بھی خیال رکھا۔ گائی نے ایجی نالڈ کو بچانے کی ترکیب کی اور ٹھنڈا پانی مانگا اس نے تھوڑا سا پانی پی کر ایجی نالڈ کو دے کر اس روایت کے مطابق بچانے کی کوشش کی ۔
عرب میں دستور تھا کہ جو قیدی مہمان نوازی کے طور پر کچھ کھا پی لیتا تھا وہ مامون ہوجاتا تھا اس کی چال ناکام ہوگئی اس لیے کہ سلطان نے پانی نہیں دیا تھا اس لیے جان بخشی کی ذمے داری بھی نہیں تھی چنانچہ سب قیدیوں کو کھانے کے لیے رخصت کردیا، گائی اور ایجی نالڈ کو روک لیا اسلامی اصول کے تحت اس کے سامنے اسلام جیسے امن پسند مذہب کو رکھا اس کے انکار کے بعد سلطان نے اپنے ہاتھوں سے اس کا سر قلم کرکے اپنی قسم پوری کردی، بے شک توہین رسالت کرنے والوں کا یہی انجام ہونا چاہیے۔
آج پھر مختلف ممالک میں مساجد پر حملوں میں بے شمار نمازی جام شہادت نوش کرچکے ہیں، عیسائی حملہ آور ماضی کی عبرت ناک شکست کا بدلہ لے رہے ہیں حملہ آور ٹیرنٹ کے اسلحہ پر مسلم عیسائی جنگوں کی تاریخیں درج تھیں۔ ان دنوں پھر سلطان صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی کی ضرورت ہے لیکن حالات اس کے برعکس ہیں علامہ اقبال نے ایسے ہی بے عمل اور لادین لوگوں کے لیے کہا ہے جو نام کے مسلمان ہیں:
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی' مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو