بادشاہ اور فقیر

اشرافیہ کے ملک پاکستان کو تبدیل کر کے عام آدمی کا ملک بنانا موجودہ دور کے سلطان کی ذمے داری ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

پرانے کاغذات کا پلندہ میرے سامنے پڑا ہے اور میں ان میں سے فالتو کاغذات کو تلف کر رہا ہوں۔ ہم پرانے زمانے کے لوگوں کی ایک عادت ہے کہ ہر ایک چیز کو ضروری سمجھ کر رکھ لیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے بعد میں کسی وقت کام آ جائے۔ اس عادت کی وجہ سے کاغذات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جب بھی ان کو از سر نو ترتیب دیا جائے تو ان میں سے کئی ایک تحریریں اس وقت تک اپنی افادیت کھو چکی ہوتی ہیں، اس لیے ان کو ضایع کر دیا جاتا ہے ۔ انھی پرانے کاغذات میں سے مجھے ایک بادشاہ اور ایک فقیر کے درمیان فارسی زبان میں مکالمے کی ایک تحریر ملی ہے جو قارئین کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہو گی۔

ایک بادشاہ اپنے محل کے بالا خانے میں رات کے کسی طربناک لمحے میں پکار اٹھا خوشی اور لطف کے اس لمحے سے بڑھ کر میرے لیے اور کوئی وقت نہیں ہے ۔ شاہی محل کے نیچے ایک فقیر لیٹا ہوا تھا اس زمانے میں آج کا پروٹوکول نہیں ہوا کرتا تھا فقیر نے بادشاہ کا یہ جملہ مستانہ سن کر صدا لگائی کیا خوشی کے اس لمحے میں تمہیں میرا بھی کوئی غم اور کوئی فکر نہیں ہے ۔ بادشاہ کو فقیر کا یہ برجستہ جملہ بہت پسند آیا اور بولا لائو دامن آگے بڑھائو کہ انعام و کرام سے بھر دوں ۔ جواب میں فقیر بولا دامن کہاں سے پھیلائوں کہ تن پر کپڑے ہی نہیں ہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ بادشاہ اور فقیر کا یہ مکالمہ فارسی زبان میں ہے مگر افسوس کہ فارسی آپ نہیں سمجھتے اور شاعری میں کر نہیں سکتا کہ اسے شاعرانہ انداز میں پیش کر سکوں مگر مفہوم آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔

آج ہمارے آپ کے زمانے میں بادشاہ کو صدر یا وزیر اعظم کہا جاتا ہے اور درویش اور فقیر وہی درویش اور فقیر ہے جو ہمیشہ رہا ہے، بے لباس اور بے مروت۔ جان کی امان پا کر منہ پھٹ بن جاتا ہے یا پھر جان سے گزر جاتا ہے اور ایک فقیر جان سے گزرے یا نہ گزرے فرق کیا پڑتا ہے۔ اناج کا دشمن بنیادی ضروریات کی مہنگائی کے اس زمانے میں دوسری دنیا میں چلا بھی جائے تو کس کے سر پر جوں رینگتی ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ اس جہاں سے بے لباس اور بے خوراک ہی گزر جائے اور کسی قبرستان میں ڈھائی گز زمین بے شک ضایع کر دے ۔ قرآن کی زبان میں یہ خاک افتادگان ضعیف ترین لوگ ۔۔۔ مستضعفین فی الارض۔۔۔ خدا اور رسول کو بے حد عزیز ہیں لیکن حکمرانوں کے لیے یہ ماحول کی پلوشن اور گندگی ہیں۔ مدت ہوئی میں لاہور میں ایک محکمہ کے اعلیٰ افسر کے دفتر میں کسی کام سے گیا تو وہاں ایک بہت ہی غیر معمولی حد تک چوڑی میز پڑی ہوئی تھی اس کے ایک طرف دور وہ افسر بیٹھے تھے جن سے مجھے ملنا تھا۔ یہ میز دیکھ کر مجھے کام تو بھول گیا اور میز کی بات شروع ہو گئی۔

وہ افسر جو پڑھے لکھے بھی تھے مجھے بتانے لگے کہ یہ میز برطانوی عہد کی باقیات میں سے ہے۔ مقامی لوگوں کے منہ سے بو آتی تھی اور ان کے کپڑوں سے بھی اس لیے صاحب ان سے ملاقات کے وقت ایک ہی میز پر مگر اتنی دور بیٹھتا تھا کہ دیہی ملاقاتی کی پلوشن اس تک نہیں پہنچتی تھی ۔ آج جب بھی ہمارا کوئی لیڈر کسی سیاسی مجبوری کے تحت عوام سے اخباری زبان میں گھل مل جاتا ہے یعنی جپھیاں ڈالتا ہے اور گرمجوشی سے ہاتھ ملاتا ہے تو اس ناگوار سیاسی عمل سے فارغ ہوتے ہی سیدھا غسل خانے میں جاتا ہے اور یہ عوامی غلاظت اتار کر باہر نکلتا ہے۔


بات بادشاہ اور فقیر کی ہو رہی تھی کہ پیچ میں یہ عوامی پلوشن آگئی ۔ بادشاہ اور فقیر کے ذکر پر ایک فقیر منش اور فقیر صفت شاعر کا ایک شعر یاد آ گیا ہے جو اس حکایت کا شاعرانہ ترجمہ ہے اس سے میری شاعرانی بے بسی بھی دور ہو گئی ہے جس کا میں رونا رو رہا تھا ۔ ساغر صدیقی نے بھی کسی بادشاہ کے محل کے نیچے بیٹھ کر یہ شعر کہا تھا ...

جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

موجودہ دورکے سلطان تو عمران خان ہی ہیں جنہوں نے اس قوم کی توقعات کو اتنی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے جہاں سے وہ اب نیچے اترنے کو تیار نہیں جب کہ حکومتی کارپردازوں کا یہ خیال ہے کہ شروع میں مشکلات ہیں جب کہ یہی مشکلات بعد میں شہد اور دودھ کی نہروں میں تبدیل ہو جائیں گی۔ یہ بات درست ہے کہ ہر آسانی سے پہلے مشکل ضرور ہے لیکن ہم اب مشکلات سے تنگ آ چکے ہیں اور اس امید پر زندہ ہیں کہ ہماری مشکلات ختم ہونے والی ہیں اور اچھے دن آنے والے ہیں جن کا خواب دکھایا گیا تھا اور دکھایا جا رہا ہے ۔

اشرافیہ کے ملک پاکستان کو تبدیل کر کے عام آدمی کا ملک بنانا موجودہ دور کے سلطان کی ذمے داری ہے۔ انھیں لوگوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ ان کی حکومت ایماندار ہے اور عوام کی خدمت کرنا چاہ رہی ہے جب وہ ایک ایماندار اور عوام دوست حکومت کے قیام میں کامیاب ہو جائیں گے تب ہی لوگ صدقہ اور خیرات کے ساتھ ٹیکس بھی حکومتی خزانے میں جمع کرائیں گے ۔ پاکستان کی جمہوری حکومتیں چونکہ عوام میں اپنا ایماندارنہ اور عوام دوست تاثر قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں اس لیے لوگ حکومت کو ٹیکس دینے کی بجائے صدقہ ، خیرات دینا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ عمران خان کو عوام دوست اور منصفانہ حکومت کی مضبوط بنیاد رکھنا ہو گی تب جا کر کہیں ان کا ریاست مدینہ والی حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔
Load Next Story