شاگردوں سے خوفزدہ استاد
بھاولپور میں قتل ہونے والے استاد سے تو کلمہ سننے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔
نظیراکبر آبادی اگر آج ہمارے درمیان موجود ہوتے توکیا کمالات دکھاتے، عوامی شاعر تھے،اس لیے کراچی پریس کلب کا پھیرا لگاتے تو ہوسکتا ہے کہ دو چار ڈنڈوں سے ان کی بھی تواضع ہوتی، آنسوگیس سے آنکھیں لال ہوتیں اور لاہورکا رخ کرتے تو پروفیسرز اور لیکچرز ایسوسی ایشن کا دھرنا دیکھتے، جن کی فریاد پر دھرنوں کے شہنشاہ کان دھرنے کو تیار نہیں ۔ ایسے میں وہ ہمیں برسات کی بہاروں کا احوال سنانے کی بجائے ، یہ گنگناتے کہ کیا کیا لگاہے یارو ، تعلیم کا تماشہ ، جی کھول کر استاد کی ٹھکائی ۔ وہ جس دورکے پروردہ تھے ، وہاں استاد کی تعظیم و تکریم ، باپ سے زیادہ تھی ، اپنے بچے کو استاد کے سپرد کرتے ہوئے،گھرکے بڑے یہ کہتے تھے کہ چمڑی آپ کی ہڈیاں ہماری ۔
نظیر تو یہ تماشہ دیکھ کر حق دق رہ جاتے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کریں ۔ جہاں پولیس ، استادوں کو ڈنڈے مار رہی ہو، ان پر آزادانہ آنسوگیس کا استعمال کررہی ہو انھیں گرفتارکرکے حوالات لے جارہی ہو ، وہاں استاد کا احترام کیسے اور کیوں کر ہو ۔ وہاں بہاولپور کا شاگرد اپنے استاد سے اختلافِ رائے پر چھرے مارکرکیوں نہ قتل کردے اور کراچی میں کسی ایسے استاد کو گولیوں سے کیوں نہ چھلنی کردیا جائے جو اپنے شاگردوں کو جدید تعلیم دیتا تھا اور نئے خیالات سے روشناس کراتا تھا ۔ایسے ایک نہیں کئی واقعات ہیں جن میں استاد قتل کیے گئے اور ان کے قاتل آج بھی آزاد پھرتے ہیں ۔
میرا خیال ہے وہ زمانہ جلد آنے والا ہے جب استادوں کو شاگردوں سے اس نوعیت کی ضمانت درکار ہوگی کہ آپ کے مرشدین اور آپ کی طبع نازک پر اگر ہماری کوئی بات ناگوارِ خاطر گزرے تو ہمیں سزا ضرور دیں لیکن اس طرح کہ ہماری جان نہ جائے ۔ ہمارے بھی گھر والے ہوتے ہیں ، ہم جان سے گزر جائیں تو وہ آخر کس طرح گزر بسر کریں گے ۔
ان دنوں دنیا بھر میں مختلف دن منائے جاتے ہیں، ان ہی میں سے ایک '' استاد کا دن '' بھی ہے۔ اس موقع پر چار سطریں نظر سے گزریں جو آپ کی نذر ہیں :
آپ سے ہی سیکھا،آپ سے ہی جانا
آپ کو ہم نے گُرو ہے مانا
سیکھا ہے سب کچھ آپ سے ہم نے
کلام کا مطلب آپ سے ہی جانا
اور وہ استاد معظم جو اپنے پیچھے کوئی کتاب چھوڑکر نہیں گیا ، جسے اپنے شاگردوں کو گمراہ کرنے کے جرم میں زہرکا پیالہ پینا پڑا ، اس نے کہا تھا کہ میں کسی کوکچھ نہیں سکھا سکتا ، میں بس انھیں سوچنے کی راہ پر ڈال سکتا ہوں ۔
سوچنے کی راہ عام طور پر لوگوں کے لیے ایک خطرناک راستہ ہوتی ہے، اسی راہ پر چل کر خرد افروزی کے جواہر ہاتھ آتے ہیں اور یہی راہ نوجوانوں کو نئی منزلیں سرکرنے کی ترغیب دیتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے یہاں سوچنے اور سوال کرنے کے راستے بند کردیے گئے ہیں اور اسی لیے ہم علمی، اقتصادی اور سماجی طور پر ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو ہمیں غیروں کے سامنے کشکول اٹھانے پر مجبورکردیتی ہے ۔ یہ ایک ناخوشگوار صورتحال ہے ، ہم اس کے اسباب سمجھنے کی بجائے اور اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی بجائے ان لوگوں پر طیش میں آجاتے ہیں جو ہمیں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے روشن راستے کی طرف لے جاتے ہیں ۔ ہم ان پر بہتان باندھتے ہیں،انھیں غدار اور غیروں کا ایجنٹ کہتے ہیں ۔
اس وقت ہمارے بیشتر تعلیمی اداروں میں اساتذہ خوف وہراس میں مبتلا ہیں ۔ وہ اپنے شاگردوں سے خوفزدہ ہیں ۔ ان میں سے بیشتر خاموش رہنے یا متنازعہ معاملات پرگفتگو سے گریز کرتے ہیں، وہ جو اس کی ہمت کرتے ہیں انھیں دن دہاڑے قتل کردیا جاتا ہے اور ان کے قاتل اس پر نازکرتے ہیں۔
ایک چینی کہاوت ہے، اگر تم ایک سال کے لیے کوئی منصوبہ بنا رہے ہو تو چاول کاشت کرو، اگر تم دس سال کا کوئی منصوبہ بنارہے ہو تو پھل دار پیڑ لگاؤ اور اگر تم زندگی بھرکے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو تو نوجوانوں کو تعلیم دو ۔ تعلیم کا باغ سدا بہار ہوتا ہے اور وہ آیندہ نسلوں کو بھی سوچنے پر اُکساتا ہے۔ان کے وجود میں حکمت و دانائی کے چراغ جلاتا ہے ۔
ہم نے صوفیا کے تذکروں میں کیسے کیسے شاگردوں کا احوال پڑھا ہے اور یہ جانا ہے کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ کیسا محترم اور کتنا بیش قیمت ہے ۔ شاگرد جو اپنے استاد کی خدمت میں زندگی بسرکردیتے تھے ۔ ہماری نظر سے مہاتما بدھ کے چیلوں کے قصے گزرے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ کہیں کہ یہ سب گزرے ہوئے زمانوں کی باتیں ہیں،آج کی مادہ پرست دنیا میں استاد اور شاگرد کا رشتہ وہ نہیں رہا جو پہلے کبھی تھا۔ان خیالات کو رکھنے والوں سے کہنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ مغربی درس گاہوں میں استاد اور شاگرد کے رشتے پر نظرکریں تو شاید ان کی سمجھ میں آئے کہ آج بھی دنیا میں وہ شاگرد موجود ہیں جو اپنے استاد کو اپنا ہیرو مانتے ہیں ۔ اس موقعے پر اشفاق احمد کی ایک کہانی ''گڈریا '' یاد آتی ہے ۔ میرے خیال میں اشفاق صاحب نے اس سے بڑی کہانی نہیں لکھی ۔ استاد اور شاگرد کے رشتے پر ایک انمول کہانی ۔
ایک ہندو بوڑھا جو اردو ، فارسی اور عربی میں طاق ہے ، مسلمان بچہ اس کے گھر جاتا ہے تو وہ اس سے الحمد اور قرآن کی دوسری آیتیں سنتا ہے ۔ اس سے اصرارکرتا ہے کہ وہ فارسی اور عربی بھی پڑھے لیکن وہ گستاخی سے کہتا ہے کہ مجھے فارسی اور عربی نہیں پڑھنی لیکن وہ استاد جو ''داؤجی'' کہلاتا ہے ، اسے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی کے لفظ یاد کراتا ہے ۔ وہ لڑکا امتحان میں فیل ہوجاتا ہے تو باپ اسے ''داؤجی'' کے سپرد کردیتا ہے ۔ اب اسے داؤجی کے گھر رہنا ہے اور آدھی آدھی رات تک اردو ، فارسی اور عربی کی گرامر یاد کرنا ہے ۔ لڑکا زار زار روتا ہے لیکن داؤ جی تو داؤ جی ہیں ۔ وہ اسے باغ کی سیر کو لے جاتے ہیں تو وہاں بھی کس پیٹرکو فارسی میں کیا کہتے ہیں اور عربی میں اس کا نام کیا ہے ۔
غرض ہر سانس سیکھنے سکھانے اور پڑھنے پڑھانے کے لیے وقف ہوجاتی ہے ۔ اس میں ریاضی اور جیومیٹری اور جغرافیہ سب ہی شامل ہے ۔ یہ ایک ایسے ہندو استاد کی کہانی ہے جو اپنے مسلمان شاگرد کوکبھی قرآن کی آیتیں یاد کراتا ہے اور کبھی فارسی کی حکایتیں ۔ اس نے اپنی بیٹی کو گلستان بوستان ختم کرائی ہے اور ہر بات پر الحمد اللہ اور سبحان اللہ کہتا ہے ۔ لڑکے کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا لیکن وہ داؤجی کے سکھائے ہوئے سبق یاد کرنے پر مجبور ہے ۔ داؤجی اپنے مسلمان استاد کا ذکر جس رقعت اور محبت سے کرتے ہیں ، وہ پڑھنے کی چیز ہے ۔ ہندو داؤجی وہ تمام باتیں جانتے ہیں جن سے قصبے کے بیشتر مسلمان ناواقف ہیں اور پھر فسادات کی وبا اس قصبے کا بھی رخ کرتی ہے جس میں داؤجی رہتے ہیں ۔
مسواک بنانے والی درانتی سے ان کی بودی (چٹیا) کاٹ دی جاتی ہے جو ان کی ماں کو بہت پیاری تھی اور اسی لیے انھیں جان سے زیادہ عزیز تھی ۔ پھر قصبے کے جاہل اور غنڈے ان سے کلمہ سنانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں ''کون سا کلمہ سناؤں '' اس سوال پر بلوائی انھیں ٹھڈے مارتے ہیں اورکہتے ہیں ''ابے کلمہ بھی کوئی پانچ سات ہوتے ہیں ؟'' ۔ تب داؤجی انھیں پہلا کلمہ سناتے ہیں اور تب بلوائیوں میں سے ایک داؤجی کو اپنی لاٹھی تھماتے ہوئے کہتا ہے کہ چل بکریاں تیرا انتظار کر رہی ہیں ۔
شاگرد یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے لیکن اس کی جسارت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے استاد کو بچانے کے لیے کچھ کرے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ ننگے سر داؤجی بکریوں کے پیچھے یوں چلے جیسے لمبے بالوں والا فرید اچھل رہا ہو ۔
بھاولپور میں قتل ہونے والے استاد سے تو کلمہ سننے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ ان کی کاکلیں بھی نہیں چھٹی ہوئی تھیں کہ انھیں ''فریدا'' (حضرت فرید گنج شکر) سمجھا جاتا ، انھیں تو بس قتل ہونا تھا ۔ اپنے ایک شاگرد کے ہاتھوں جو خود کو عقلِ کُل سمجھتا تھا اور جسے یقین تھا کہ وہ دین کا محافظ ہے۔
نظیر تو یہ تماشہ دیکھ کر حق دق رہ جاتے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کریں ۔ جہاں پولیس ، استادوں کو ڈنڈے مار رہی ہو، ان پر آزادانہ آنسوگیس کا استعمال کررہی ہو انھیں گرفتارکرکے حوالات لے جارہی ہو ، وہاں استاد کا احترام کیسے اور کیوں کر ہو ۔ وہاں بہاولپور کا شاگرد اپنے استاد سے اختلافِ رائے پر چھرے مارکرکیوں نہ قتل کردے اور کراچی میں کسی ایسے استاد کو گولیوں سے کیوں نہ چھلنی کردیا جائے جو اپنے شاگردوں کو جدید تعلیم دیتا تھا اور نئے خیالات سے روشناس کراتا تھا ۔ایسے ایک نہیں کئی واقعات ہیں جن میں استاد قتل کیے گئے اور ان کے قاتل آج بھی آزاد پھرتے ہیں ۔
میرا خیال ہے وہ زمانہ جلد آنے والا ہے جب استادوں کو شاگردوں سے اس نوعیت کی ضمانت درکار ہوگی کہ آپ کے مرشدین اور آپ کی طبع نازک پر اگر ہماری کوئی بات ناگوارِ خاطر گزرے تو ہمیں سزا ضرور دیں لیکن اس طرح کہ ہماری جان نہ جائے ۔ ہمارے بھی گھر والے ہوتے ہیں ، ہم جان سے گزر جائیں تو وہ آخر کس طرح گزر بسر کریں گے ۔
ان دنوں دنیا بھر میں مختلف دن منائے جاتے ہیں، ان ہی میں سے ایک '' استاد کا دن '' بھی ہے۔ اس موقع پر چار سطریں نظر سے گزریں جو آپ کی نذر ہیں :
آپ سے ہی سیکھا،آپ سے ہی جانا
آپ کو ہم نے گُرو ہے مانا
سیکھا ہے سب کچھ آپ سے ہم نے
کلام کا مطلب آپ سے ہی جانا
اور وہ استاد معظم جو اپنے پیچھے کوئی کتاب چھوڑکر نہیں گیا ، جسے اپنے شاگردوں کو گمراہ کرنے کے جرم میں زہرکا پیالہ پینا پڑا ، اس نے کہا تھا کہ میں کسی کوکچھ نہیں سکھا سکتا ، میں بس انھیں سوچنے کی راہ پر ڈال سکتا ہوں ۔
سوچنے کی راہ عام طور پر لوگوں کے لیے ایک خطرناک راستہ ہوتی ہے، اسی راہ پر چل کر خرد افروزی کے جواہر ہاتھ آتے ہیں اور یہی راہ نوجوانوں کو نئی منزلیں سرکرنے کی ترغیب دیتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے یہاں سوچنے اور سوال کرنے کے راستے بند کردیے گئے ہیں اور اسی لیے ہم علمی، اقتصادی اور سماجی طور پر ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو ہمیں غیروں کے سامنے کشکول اٹھانے پر مجبورکردیتی ہے ۔ یہ ایک ناخوشگوار صورتحال ہے ، ہم اس کے اسباب سمجھنے کی بجائے اور اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی بجائے ان لوگوں پر طیش میں آجاتے ہیں جو ہمیں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے روشن راستے کی طرف لے جاتے ہیں ۔ ہم ان پر بہتان باندھتے ہیں،انھیں غدار اور غیروں کا ایجنٹ کہتے ہیں ۔
اس وقت ہمارے بیشتر تعلیمی اداروں میں اساتذہ خوف وہراس میں مبتلا ہیں ۔ وہ اپنے شاگردوں سے خوفزدہ ہیں ۔ ان میں سے بیشتر خاموش رہنے یا متنازعہ معاملات پرگفتگو سے گریز کرتے ہیں، وہ جو اس کی ہمت کرتے ہیں انھیں دن دہاڑے قتل کردیا جاتا ہے اور ان کے قاتل اس پر نازکرتے ہیں۔
ایک چینی کہاوت ہے، اگر تم ایک سال کے لیے کوئی منصوبہ بنا رہے ہو تو چاول کاشت کرو، اگر تم دس سال کا کوئی منصوبہ بنارہے ہو تو پھل دار پیڑ لگاؤ اور اگر تم زندگی بھرکے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو تو نوجوانوں کو تعلیم دو ۔ تعلیم کا باغ سدا بہار ہوتا ہے اور وہ آیندہ نسلوں کو بھی سوچنے پر اُکساتا ہے۔ان کے وجود میں حکمت و دانائی کے چراغ جلاتا ہے ۔
ہم نے صوفیا کے تذکروں میں کیسے کیسے شاگردوں کا احوال پڑھا ہے اور یہ جانا ہے کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ کیسا محترم اور کتنا بیش قیمت ہے ۔ شاگرد جو اپنے استاد کی خدمت میں زندگی بسرکردیتے تھے ۔ ہماری نظر سے مہاتما بدھ کے چیلوں کے قصے گزرے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ کہیں کہ یہ سب گزرے ہوئے زمانوں کی باتیں ہیں،آج کی مادہ پرست دنیا میں استاد اور شاگرد کا رشتہ وہ نہیں رہا جو پہلے کبھی تھا۔ان خیالات کو رکھنے والوں سے کہنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ مغربی درس گاہوں میں استاد اور شاگرد کے رشتے پر نظرکریں تو شاید ان کی سمجھ میں آئے کہ آج بھی دنیا میں وہ شاگرد موجود ہیں جو اپنے استاد کو اپنا ہیرو مانتے ہیں ۔ اس موقعے پر اشفاق احمد کی ایک کہانی ''گڈریا '' یاد آتی ہے ۔ میرے خیال میں اشفاق صاحب نے اس سے بڑی کہانی نہیں لکھی ۔ استاد اور شاگرد کے رشتے پر ایک انمول کہانی ۔
ایک ہندو بوڑھا جو اردو ، فارسی اور عربی میں طاق ہے ، مسلمان بچہ اس کے گھر جاتا ہے تو وہ اس سے الحمد اور قرآن کی دوسری آیتیں سنتا ہے ۔ اس سے اصرارکرتا ہے کہ وہ فارسی اور عربی بھی پڑھے لیکن وہ گستاخی سے کہتا ہے کہ مجھے فارسی اور عربی نہیں پڑھنی لیکن وہ استاد جو ''داؤجی'' کہلاتا ہے ، اسے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی کے لفظ یاد کراتا ہے ۔ وہ لڑکا امتحان میں فیل ہوجاتا ہے تو باپ اسے ''داؤجی'' کے سپرد کردیتا ہے ۔ اب اسے داؤجی کے گھر رہنا ہے اور آدھی آدھی رات تک اردو ، فارسی اور عربی کی گرامر یاد کرنا ہے ۔ لڑکا زار زار روتا ہے لیکن داؤ جی تو داؤ جی ہیں ۔ وہ اسے باغ کی سیر کو لے جاتے ہیں تو وہاں بھی کس پیٹرکو فارسی میں کیا کہتے ہیں اور عربی میں اس کا نام کیا ہے ۔
غرض ہر سانس سیکھنے سکھانے اور پڑھنے پڑھانے کے لیے وقف ہوجاتی ہے ۔ اس میں ریاضی اور جیومیٹری اور جغرافیہ سب ہی شامل ہے ۔ یہ ایک ایسے ہندو استاد کی کہانی ہے جو اپنے مسلمان شاگرد کوکبھی قرآن کی آیتیں یاد کراتا ہے اور کبھی فارسی کی حکایتیں ۔ اس نے اپنی بیٹی کو گلستان بوستان ختم کرائی ہے اور ہر بات پر الحمد اللہ اور سبحان اللہ کہتا ہے ۔ لڑکے کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا لیکن وہ داؤجی کے سکھائے ہوئے سبق یاد کرنے پر مجبور ہے ۔ داؤجی اپنے مسلمان استاد کا ذکر جس رقعت اور محبت سے کرتے ہیں ، وہ پڑھنے کی چیز ہے ۔ ہندو داؤجی وہ تمام باتیں جانتے ہیں جن سے قصبے کے بیشتر مسلمان ناواقف ہیں اور پھر فسادات کی وبا اس قصبے کا بھی رخ کرتی ہے جس میں داؤجی رہتے ہیں ۔
مسواک بنانے والی درانتی سے ان کی بودی (چٹیا) کاٹ دی جاتی ہے جو ان کی ماں کو بہت پیاری تھی اور اسی لیے انھیں جان سے زیادہ عزیز تھی ۔ پھر قصبے کے جاہل اور غنڈے ان سے کلمہ سنانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں ''کون سا کلمہ سناؤں '' اس سوال پر بلوائی انھیں ٹھڈے مارتے ہیں اورکہتے ہیں ''ابے کلمہ بھی کوئی پانچ سات ہوتے ہیں ؟'' ۔ تب داؤجی انھیں پہلا کلمہ سناتے ہیں اور تب بلوائیوں میں سے ایک داؤجی کو اپنی لاٹھی تھماتے ہوئے کہتا ہے کہ چل بکریاں تیرا انتظار کر رہی ہیں ۔
شاگرد یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے لیکن اس کی جسارت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے استاد کو بچانے کے لیے کچھ کرے ۔ وہ دیکھتا ہے کہ ننگے سر داؤجی بکریوں کے پیچھے یوں چلے جیسے لمبے بالوں والا فرید اچھل رہا ہو ۔
بھاولپور میں قتل ہونے والے استاد سے تو کلمہ سننے کی زحمت بھی نہیں کی گئی۔ ان کی کاکلیں بھی نہیں چھٹی ہوئی تھیں کہ انھیں ''فریدا'' (حضرت فرید گنج شکر) سمجھا جاتا ، انھیں تو بس قتل ہونا تھا ۔ اپنے ایک شاگرد کے ہاتھوں جو خود کو عقلِ کُل سمجھتا تھا اور جسے یقین تھا کہ وہ دین کا محافظ ہے۔