اقلیتیں اور پاکستان کا امیج
مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف قانون سازی نہ کرنا افسوس ناک ہے
رینا اور روینا کا باپ ڈھرکی پولیس اسٹیشن کے سامنے خود کو پیٹرول چھڑک کر ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈھرکی تھانہ کے قریب موجود ہجوم اس کی جان بچالیتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس صورتحال کا نوٹس لیا ہے۔ سندھ اور پنجاب کی پولیس اغواء کرنے والوں کو تلاش کر رہی ہے۔ 6 افراد گرفتار ہو چکے۔ رینا اور روینا کی وڈیو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ اس وڈیو میں دونوں بہنیں مسلمان ہونے کا اعلان کر رہی ہیں۔ حبس بے جا کی درخواست لاہور ہائی کورٹ بہاولپور میں دائر ہو گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمسن لڑکیوں کو سرکاری نگرانی میں دے دیا ہے۔ لڑکیوں کے بھائی کا کہنا ہے کہ دونوں کا شناختی کارڈ نہیں بنا، ان کے پاس ان بہنوں کا بی فارم موجود ہے۔ لڑکی کے بھائی نے الزام لگایا ہے کہ علاقے کے وڈیرے ملزمان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ بھارت نے اس معاملے کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو ہندو لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیلی کی صورتحال پر اعتراض ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ بھارت اپنی اقلیتوں کی پست حالت پر توجہ دے۔ تحریک انصاف کی حکومت غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گی۔ تحریک انصاف کے رہنما رمیش کمار کہتے ہیں کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف قانون سازی نہ کرنا افسوس ناک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کے زیادہ تر واقعات سندھ میں ہوتے ہیں۔ ہندو برادری کے متحرک کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایک ماہ میں جبری مذہب تبدیلی کے 35 واقعات ہو چکے ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے ایک سابق رکن اسمبلی ملوث ہیں جن کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سندھ میں کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون موجود ہے۔ پنجاب میں ایسا کوئی قانون نہیں۔ اس بناء پر کم سن لڑکیوں کی شادی پنجاب میں کرائی گئی ہے۔ ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی اور زبردستی شادیوں کا مسئلہ خاصا قدیم ہے۔ سندھ کے علاوہ سرائیکی وسیب میں، بھارت کی سرحد تک پھیلے ہوئے ریگستان میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہندو خاندانوں کی شکایت ہے کہ ان کی بچیوں کو اغواء کر کے زبردستی مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔
پھر ان کی شادیاں کرائی جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ لڑکیاں باندیاں بن جاتی ہیں۔ اپنے اور اپنے خاندان والوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے وہ واپس نہیں جا سکتیں۔ سندھ میں گزشتہ دو عشروں سے یہ معاملہ بار بار اٹھتا رہا ہے۔ ذرایع ابلاغ پر خبریں شایع ہوتی ہیں۔پولیس مقدمات درج کرتی ہے۔ لڑکیاں عدالتوں میں پیش کی جاتی ہیں۔ وہ اپنے شوہروں کے ساتھ جانے کا اعلان کرتی ہیں اور یہ معاملہ دب جاتا ہے مگر پھر کسی اور بچی کا کیس سامنے آجاتا ہے اور شور مچتا ہے۔ سندھ کے دانشوروں، سول سوسائٹی کے ارکان اور باشعور صحافیوں نے اس انسانی مسئلے کے خلاف بھرپور مہم چلائی ہے جس کی بناء پر پیپلز پارٹی نے اپنے ایک سابق رکن اسمبلی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے سے انکار کیا۔ پھر اس نے 2018 کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف شمولیت کی کوشش کی مگر جب دانشوروں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے مہم چلائی تو یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
سندھ میں پیپلز پارٹی میں غیر مسلم شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے خاصی خواہش پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تین نشستوں پر ہندو امیدواروں کو نامزد کیا گیا اور تھر سے تعلق رکھنے والے ایک اقلیتی کارکن کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا۔ پیپلز پارٹی سندھ کی قیادت نے محسوس کیا کہ مذہب کی جبری تبدیلی اور زبردستی شادیوں کی روک تھام کے لیے جامع قانون سازی کی جائے، یوں سندھ اسمبلی نے زبرستی تبدیلی مذہب اور ایسی شادیوں پر پابندی کا قانون منظور کیا۔ سندھ اسمبلی نے کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کا بل بھی منظور کیا تھا۔
یہ غیر مسلم شہریوں کی شکایات کے ازالہ کے لیے پہلی جامع قانون سازی تھی۔ پھر مگر بعض رجعت پسندؤں نے اس قانون کے خلاف مہم شروع کر دی اور اقلیتوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں میں شامل جماعتیں بھی اس بل کی مخالفت میں سامنے آئیں۔ مگر سب سے زیادہ عجیب بات یہ تھی کہ سندھ پیپلز پارٹی میں موجود ایک مختصر گروہ اس قانون کی منظوری کے خلاف تھا۔ تحریک انصاف جو دعویٰ کر رہی ہے کہ اس مسئلے کا دائمی حل تلاش کرے گی اس کی قیادت نے خاموشی کا راستہ اختیار کیا ہوا تھا۔
یوں ایک بہترین قانون سازی کا معاملہ آخری مرحلہ پر منسوخ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے اندر سے کسی رہنما نے اس پر آواز نہ اٹھائی۔ اب تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی اور زبردستی تبدیلی مذہب کے خلاف دو قوانین کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ تمام جماعتوں کو ان قوانین کی حمایت کرنی چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی ہندو لڑکا کیوں تبدیلی مذہب پر تیار نہیں ہوتا؟ یہ معاملہ کم سن لڑکیوں تک ہی کیوں محدود ہے؟ ہندو پنچائت والے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (J.I.T) تشکیل دے جو غیر جانبداری سے اس معاملے کی تحقیقات کرے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ لکھا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس اہم فیصلہ کی بنیاد پر پارلیمنٹ قانون سازی کرتی مگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلہ کو نظر انداز کر دیا۔ ابھی رینا اور روینا کا مقدمہ سامنے آیا ہے۔
چند سال قبل ڈاکٹر رینکل کماری کے معاملہ پر قومی اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پر خوب چرچا ہوا مگر برسر اقتدار حکومتیں ان مسائل کے دائمی حل کے لیے قانون سازی کی اہمیت کو محسوس نہ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کی بناء پر پاکستان سے سوالات اٹھائے گئے۔ اب اس مقدمہ میں معزز عدالت کوئی بھی فیصلہ دے، اس مسئلے کا دائمی حل ایک مربوط قانون سازی ہے۔ قانون کے ذریعے ہی اقلیتوں سمیت ہر شہری کو تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔ یوں پاکستان کا دنیا بھر میں گرتا ہوا امیج بہتر ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمسن لڑکیوں کو سرکاری نگرانی میں دے دیا ہے۔ لڑکیوں کے بھائی کا کہنا ہے کہ دونوں کا شناختی کارڈ نہیں بنا، ان کے پاس ان بہنوں کا بی فارم موجود ہے۔ لڑکی کے بھائی نے الزام لگایا ہے کہ علاقے کے وڈیرے ملزمان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ بھارت نے اس معاملے کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو ہندو لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیلی کی صورتحال پر اعتراض ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ بھارت اپنی اقلیتوں کی پست حالت پر توجہ دے۔ تحریک انصاف کی حکومت غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گی۔ تحریک انصاف کے رہنما رمیش کمار کہتے ہیں کہ مذہب کی جبری تبدیلی کے خلاف قانون سازی نہ کرنا افسوس ناک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کے زیادہ تر واقعات سندھ میں ہوتے ہیں۔ ہندو برادری کے متحرک کارکنوں کا کہنا ہے کہ ایک ماہ میں جبری مذہب تبدیلی کے 35 واقعات ہو چکے ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے ایک سابق رکن اسمبلی ملوث ہیں جن کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سندھ میں کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون موجود ہے۔ پنجاب میں ایسا کوئی قانون نہیں۔ اس بناء پر کم سن لڑکیوں کی شادی پنجاب میں کرائی گئی ہے۔ ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی اور زبردستی شادیوں کا مسئلہ خاصا قدیم ہے۔ سندھ کے علاوہ سرائیکی وسیب میں، بھارت کی سرحد تک پھیلے ہوئے ریگستان میں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہندو خاندانوں کی شکایت ہے کہ ان کی بچیوں کو اغواء کر کے زبردستی مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔
پھر ان کی شادیاں کرائی جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ لڑکیاں باندیاں بن جاتی ہیں۔ اپنے اور اپنے خاندان والوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے وہ واپس نہیں جا سکتیں۔ سندھ میں گزشتہ دو عشروں سے یہ معاملہ بار بار اٹھتا رہا ہے۔ ذرایع ابلاغ پر خبریں شایع ہوتی ہیں۔پولیس مقدمات درج کرتی ہے۔ لڑکیاں عدالتوں میں پیش کی جاتی ہیں۔ وہ اپنے شوہروں کے ساتھ جانے کا اعلان کرتی ہیں اور یہ معاملہ دب جاتا ہے مگر پھر کسی اور بچی کا کیس سامنے آجاتا ہے اور شور مچتا ہے۔ سندھ کے دانشوروں، سول سوسائٹی کے ارکان اور باشعور صحافیوں نے اس انسانی مسئلے کے خلاف بھرپور مہم چلائی ہے جس کی بناء پر پیپلز پارٹی نے اپنے ایک سابق رکن اسمبلی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے سے انکار کیا۔ پھر اس نے 2018 کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف شمولیت کی کوشش کی مگر جب دانشوروں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے مہم چلائی تو یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
سندھ میں پیپلز پارٹی میں غیر مسلم شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے خاصی خواہش پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تین نشستوں پر ہندو امیدواروں کو نامزد کیا گیا اور تھر سے تعلق رکھنے والے ایک اقلیتی کارکن کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا گیا۔ پیپلز پارٹی سندھ کی قیادت نے محسوس کیا کہ مذہب کی جبری تبدیلی اور زبردستی شادیوں کی روک تھام کے لیے جامع قانون سازی کی جائے، یوں سندھ اسمبلی نے زبرستی تبدیلی مذہب اور ایسی شادیوں پر پابندی کا قانون منظور کیا۔ سندھ اسمبلی نے کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کا بل بھی منظور کیا تھا۔
یہ غیر مسلم شہریوں کی شکایات کے ازالہ کے لیے پہلی جامع قانون سازی تھی۔ پھر مگر بعض رجعت پسندؤں نے اس قانون کے خلاف مہم شروع کر دی اور اقلیتوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں میں شامل جماعتیں بھی اس بل کی مخالفت میں سامنے آئیں۔ مگر سب سے زیادہ عجیب بات یہ تھی کہ سندھ پیپلز پارٹی میں موجود ایک مختصر گروہ اس قانون کی منظوری کے خلاف تھا۔ تحریک انصاف جو دعویٰ کر رہی ہے کہ اس مسئلے کا دائمی حل تلاش کرے گی اس کی قیادت نے خاموشی کا راستہ اختیار کیا ہوا تھا۔
یوں ایک بہترین قانون سازی کا معاملہ آخری مرحلہ پر منسوخ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے اندر سے کسی رہنما نے اس پر آواز نہ اٹھائی۔ اب تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی اور زبردستی تبدیلی مذہب کے خلاف دو قوانین کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ تمام جماعتوں کو ان قوانین کی حمایت کرنی چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی ہندو لڑکا کیوں تبدیلی مذہب پر تیار نہیں ہوتا؟ یہ معاملہ کم سن لڑکیوں تک ہی کیوں محدود ہے؟ ہندو پنچائت والے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (J.I.T) تشکیل دے جو غیر جانبداری سے اس معاملے کی تحقیقات کرے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ لکھا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس اہم فیصلہ کی بنیاد پر پارلیمنٹ قانون سازی کرتی مگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلہ کو نظر انداز کر دیا۔ ابھی رینا اور روینا کا مقدمہ سامنے آیا ہے۔
چند سال قبل ڈاکٹر رینکل کماری کے معاملہ پر قومی اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پر خوب چرچا ہوا مگر برسر اقتدار حکومتیں ان مسائل کے دائمی حل کے لیے قانون سازی کی اہمیت کو محسوس نہ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کی بناء پر پاکستان سے سوالات اٹھائے گئے۔ اب اس مقدمہ میں معزز عدالت کوئی بھی فیصلہ دے، اس مسئلے کا دائمی حل ایک مربوط قانون سازی ہے۔ قانون کے ذریعے ہی اقلیتوں سمیت ہر شہری کو تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔ یوں پاکستان کا دنیا بھر میں گرتا ہوا امیج بہتر ہو سکتا ہے۔