بھارتی ریٹائرڈجنرل کا اعتراف شکست
آج کے دور میں جنگ کے مختلف محاذ ہیں۔ ایک جنگ سرحدوں پر لڑی جاتی ہے
بھارت کے لیفٹنٹ جنرل (ر) عطاء حسنین نے برطانوی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے خطاب میں تسلیم کیا ہے کہ ہائبرڈ جنگ میں پاکستان کے آئی ایس پی آر نے بھارت کو شکست دے دی ہے۔ اپنے خطاب میں انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ معلومات کی رسائی کی پاک بھارت جنگ میں آئی ایس پی آر نے بھارت کو شکست فاش دی ہے۔ بھارتی جنرل نے برملا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان نے بھارت کو سکھا یا ہے معلومات کی فراہمی کیا ہوتی ہے۔
بھارتی جنرل مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے کورکمانڈر رہے ہیں۔ انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آپریشن کی قیادت کی ہے۔ ان کی قیادت میں بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کیے ہیں۔ ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ انھوں نے لائن آف کنٹرول پر جنگ جاری رکھی ہے۔ وہ گرم سرحدوں کے داعی ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ اطلاعات کی جنگ میں آئی ایس پی آر نے بھارت اور اس کی فوج کو مکمل طور پر شکست دے دی ہے۔ پاکستان اطلاعات کی جنگ میں مکمل طور پر جیت چکا ہے۔ اگر کسی نے سکھایا ہے کہ اطلاعات اور معلومات سے کیسے کھیلنا ہے تو وہ آئی ایس پی آر ہی ہے۔
بھارتی جنرل نے اعتراف کیا ہے کہ آئی ایس پی آر کمال مہارت سے کشمیریوں کے دل کی آواز بن گیا ہے۔ بھارتی جنرل نے تسلیم کیا ہے کہ کشمیر میں میڈیا کی جنگ ہم ہار گئے ہیں۔
آج کے دور میں جنگ کے مختلف محاذ ہیں۔ ایک جنگ سرحدوں پر لڑی جاتی ہے۔ ایک جنگ معاشی محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ لیکن ایک جنگ میڈیا کے محاذ پر بھی لڑی جاتی ہے۔ آپ سرحدوں پر جیتی ہوئی جنگ میڈیا میں ہار سکتے ہیں۔ اور میڈیا پر جیتی ہوئی جنگ معاشی محاذ پر ہار سکتے ہیں۔ تمام محاذ جنگ پر یکساں جیت ہی مکمل جیت بن سکتی ہے۔ ایک محاذ پر مضبوطی اور دوسرے پر کمزوری جیتی ہوئی جنگ کو ہار میں بدل سکتا ہے۔ اس لیے کسی ایک محاذ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ اگلی جنگیں محاذ جنگ سے پہلے میڈیا کے محاذ پر لڑی جائیں گی۔ یہ ہائبرڈ جنگ کا دور ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لوگوں کی ذہن سازی کا دور ہے۔ دشمن کو اس کی سرزمین پر ہرانے کے لیے ہائبرڈ جنگ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اسی لیے بھارتی جنرل نے کہا ہے کہ روایتی جنگ کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ یہ ہائبرڈ جنگ کا دور ہے۔ اور ہائبرڈ جنگ میں میڈیا بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔
پاکستان کے آئی ایس پی آر نے بلا شبہ ایک چومکھی لڑائی لڑ ی ہے۔ ایک طرف انھیں بھارت کے بیانیہ کو شکست دینی ہے۔ دوسری طرف انھیں ملک کے اندر دشمن کی حامی قوتوں کو شکست دینی ہے۔ دہشتگردوں کے بیانیہ کو شکست دینی ہے۔ بھارت نے پاکستان کے اندر ایسے دھڑے بھی پیدا کر لیے ہوئے ہیں جو پاک سرزمین کے اندر بیٹھ کر بھارت کی زبان بولتے ہیں۔ جو دشمن کے بیانیہ کو آگے بڑھانے کی بات کرتے ہیں۔ سول ملٹری تعلقات کی بنیاد پر فوج کے خلاف پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ ترقی پسند اور جمہوریت پسند ہونے کا سرٹیفکیٹ لینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ بھارت کی زبان بولیں۔ ایسے ماحول میں کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ بیرونی قوتوں اور کھلے دشمن کے ساتھ لڑنا تو آسان ہے لیکن ملک کے اندر بیٹھے دشمن کے ساتھیوں سے لڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آئی ایس پی آر نے دونوں محاذوں پر جیت کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں اور آج دشمن اپنی شکست بر ملا تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔
بھارتی جنرل نے صرف بھارت کی اطلاعات کے میدان میں شکست ہی نہیں تسلیم کی ہے بلکہ اپنے خطاب میں یہ بھی کہا ہے کہ امریکا کو بھی آئی ایس پی آر سے اطلاعات کی فراہمی اور ہائبرڈ جنگ جیتنے کا فن سیکھنا چاہیے۔ ان کا موقف ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکا جیتی ہوئی جنگ اطلاعات کے محاذ پر ہار گیا ہے۔ عسکری برتری کے باوجود میڈیا کی جنگ امریکا نے ہاری ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بھارتی جنرل کی جانب سے اعتراف شکست پاکستان کے لیے جیت کا جشن ہے۔ ہمیں اپنے آئی ایس پی آر پر فخر ہونا چاہیے۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ بھارت کو اطلاعات کے محاذ پر آئی ایس پی آر سے شکست کیوں ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بھارت کا موقف جھوٹ پر مبنی ہے۔ بھارتی جنرل نے اعتراف کیا ہے کہ سوشل میڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں اطلاعات کی جنگ کو نئی جہت دی ہے۔ سوشل میڈیا نے وہاں کے نوجوان کی سوچ بدل دی ہے۔ اس کا رویہ بدل دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے وہاں مقامی مجاہدین کے جنازوں کا ماحو ل بدل دیا ہے۔ جنازوں کے ماحو ل نے آزادی کی جنگ کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔لوگ جذباتی ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے مقبوضۃ کشمیر میں آزادی کی جنگ کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔
بھارتی جنرل کے اعتراف شکست نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ اقوام عالم میں پاکستان کا نام بلند کیا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ آئی ایس پی آر نے میڈیا اطلاعات اور ہائبرڈ جنگ میں دشمن کو شکست دی ہے۔ لیکن یہ اعتراف شکست صرف ایک بھارتی جنر ل کا نہیں ہے بلکہ مارچ میں ہی بھارتی فوج اور حکومت نے آئی ایس پی آر کی طرز پر ونگ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت کی حکومت اور بھارت کی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ حال ہی میں پاک بھارت کشیدگی میں آئی ایس پی آر کی میڈیا حکمت عملی نے انھیں شکست دے دی ہے۔ مودی کی جھوٹی سرجیکل اسٹرائیک کا پردہ بھی آئی ایس پی آر نے فاش کیا۔ ابھی نندن کے معاملہ پر بھی بھارت کو آئی ایس پی آر نے شکست دی ۔ پاکستان کی جانب سے جواب پر بھی آئی ایس پی آر نے بھارت کے میڈیا کو شکست دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام معرکوں میں جیت پر آئی ایس پی آر کی پوری ٹیم اور اس کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور خصوصی داد کے مستحق ہیں۔
پاکستان میں وہ قوتیں جو آئی ایس پی آر کے فعال کردار پر تنقید کرتے ہیں۔ جن کے خیال میں اس قدر فعال آئی ایس پی آر کی ضرورت نہیں وہ بھارتی جنرل کا اعتراف شکست سمجھ لیں۔ وہ بھارت کی حکومت کی جانب سے بھارتی فوج میں ایسا میڈیا ونگ قائم کرنے کا فیصلہ دیکھ لیں۔ ہمیں سیاسی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئی ایس پی آر کو ایک قومی اثاثہ ماننا چاہیے۔ جس طرح ہماری ایٹمی صلاحیت کی ضامن ہے۔ اسی طرح میڈیا کے محاذ پر آئی ایس پی آر ہمارے دفاع کا ضامن ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بھارتی جنرل مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے کورکمانڈر رہے ہیں۔ انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آپریشن کی قیادت کی ہے۔ ان کی قیادت میں بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کیے ہیں۔ ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ انھوں نے لائن آف کنٹرول پر جنگ جاری رکھی ہے۔ وہ گرم سرحدوں کے داعی ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ اطلاعات کی جنگ میں آئی ایس پی آر نے بھارت اور اس کی فوج کو مکمل طور پر شکست دے دی ہے۔ پاکستان اطلاعات کی جنگ میں مکمل طور پر جیت چکا ہے۔ اگر کسی نے سکھایا ہے کہ اطلاعات اور معلومات سے کیسے کھیلنا ہے تو وہ آئی ایس پی آر ہی ہے۔
بھارتی جنرل نے اعتراف کیا ہے کہ آئی ایس پی آر کمال مہارت سے کشمیریوں کے دل کی آواز بن گیا ہے۔ بھارتی جنرل نے تسلیم کیا ہے کہ کشمیر میں میڈیا کی جنگ ہم ہار گئے ہیں۔
آج کے دور میں جنگ کے مختلف محاذ ہیں۔ ایک جنگ سرحدوں پر لڑی جاتی ہے۔ ایک جنگ معاشی محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ لیکن ایک جنگ میڈیا کے محاذ پر بھی لڑی جاتی ہے۔ آپ سرحدوں پر جیتی ہوئی جنگ میڈیا میں ہار سکتے ہیں۔ اور میڈیا پر جیتی ہوئی جنگ معاشی محاذ پر ہار سکتے ہیں۔ تمام محاذ جنگ پر یکساں جیت ہی مکمل جیت بن سکتی ہے۔ ایک محاذ پر مضبوطی اور دوسرے پر کمزوری جیتی ہوئی جنگ کو ہار میں بدل سکتا ہے۔ اس لیے کسی ایک محاذ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے کہا جا رہا ہے کہ اگلی جنگیں محاذ جنگ سے پہلے میڈیا کے محاذ پر لڑی جائیں گی۔ یہ ہائبرڈ جنگ کا دور ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لوگوں کی ذہن سازی کا دور ہے۔ دشمن کو اس کی سرزمین پر ہرانے کے لیے ہائبرڈ جنگ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اسی لیے بھارتی جنرل نے کہا ہے کہ روایتی جنگ کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ یہ ہائبرڈ جنگ کا دور ہے۔ اور ہائبرڈ جنگ میں میڈیا بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔
پاکستان کے آئی ایس پی آر نے بلا شبہ ایک چومکھی لڑائی لڑ ی ہے۔ ایک طرف انھیں بھارت کے بیانیہ کو شکست دینی ہے۔ دوسری طرف انھیں ملک کے اندر دشمن کی حامی قوتوں کو شکست دینی ہے۔ دہشتگردوں کے بیانیہ کو شکست دینی ہے۔ بھارت نے پاکستان کے اندر ایسے دھڑے بھی پیدا کر لیے ہوئے ہیں جو پاک سرزمین کے اندر بیٹھ کر بھارت کی زبان بولتے ہیں۔ جو دشمن کے بیانیہ کو آگے بڑھانے کی بات کرتے ہیں۔ سول ملٹری تعلقات کی بنیاد پر فوج کے خلاف پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ ترقی پسند اور جمہوریت پسند ہونے کا سرٹیفکیٹ لینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ بھارت کی زبان بولیں۔ ایسے ماحول میں کام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ بیرونی قوتوں اور کھلے دشمن کے ساتھ لڑنا تو آسان ہے لیکن ملک کے اندر بیٹھے دشمن کے ساتھیوں سے لڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آئی ایس پی آر نے دونوں محاذوں پر جیت کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں اور آج دشمن اپنی شکست بر ملا تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔
بھارتی جنرل نے صرف بھارت کی اطلاعات کے میدان میں شکست ہی نہیں تسلیم کی ہے بلکہ اپنے خطاب میں یہ بھی کہا ہے کہ امریکا کو بھی آئی ایس پی آر سے اطلاعات کی فراہمی اور ہائبرڈ جنگ جیتنے کا فن سیکھنا چاہیے۔ ان کا موقف ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکا جیتی ہوئی جنگ اطلاعات کے محاذ پر ہار گیا ہے۔ عسکری برتری کے باوجود میڈیا کی جنگ امریکا نے ہاری ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بھارتی جنرل کی جانب سے اعتراف شکست پاکستان کے لیے جیت کا جشن ہے۔ ہمیں اپنے آئی ایس پی آر پر فخر ہونا چاہیے۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ بھارت کو اطلاعات کے محاذ پر آئی ایس پی آر سے شکست کیوں ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بھارت کا موقف جھوٹ پر مبنی ہے۔ بھارتی جنرل نے اعتراف کیا ہے کہ سوشل میڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں اطلاعات کی جنگ کو نئی جہت دی ہے۔ سوشل میڈیا نے وہاں کے نوجوان کی سوچ بدل دی ہے۔ اس کا رویہ بدل دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے وہاں مقامی مجاہدین کے جنازوں کا ماحو ل بدل دیا ہے۔ جنازوں کے ماحو ل نے آزادی کی جنگ کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔لوگ جذباتی ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے مقبوضۃ کشمیر میں آزادی کی جنگ کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔
بھارتی جنرل کے اعتراف شکست نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ اقوام عالم میں پاکستان کا نام بلند کیا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ آئی ایس پی آر نے میڈیا اطلاعات اور ہائبرڈ جنگ میں دشمن کو شکست دی ہے۔ لیکن یہ اعتراف شکست صرف ایک بھارتی جنر ل کا نہیں ہے بلکہ مارچ میں ہی بھارتی فوج اور حکومت نے آئی ایس پی آر کی طرز پر ونگ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت کی حکومت اور بھارت کی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ حال ہی میں پاک بھارت کشیدگی میں آئی ایس پی آر کی میڈیا حکمت عملی نے انھیں شکست دے دی ہے۔ مودی کی جھوٹی سرجیکل اسٹرائیک کا پردہ بھی آئی ایس پی آر نے فاش کیا۔ ابھی نندن کے معاملہ پر بھی بھارت کو آئی ایس پی آر نے شکست دی ۔ پاکستان کی جانب سے جواب پر بھی آئی ایس پی آر نے بھارت کے میڈیا کو شکست دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام معرکوں میں جیت پر آئی ایس پی آر کی پوری ٹیم اور اس کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور خصوصی داد کے مستحق ہیں۔
پاکستان میں وہ قوتیں جو آئی ایس پی آر کے فعال کردار پر تنقید کرتے ہیں۔ جن کے خیال میں اس قدر فعال آئی ایس پی آر کی ضرورت نہیں وہ بھارتی جنرل کا اعتراف شکست سمجھ لیں۔ وہ بھارت کی حکومت کی جانب سے بھارتی فوج میں ایسا میڈیا ونگ قائم کرنے کا فیصلہ دیکھ لیں۔ ہمیں سیاسی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئی ایس پی آر کو ایک قومی اثاثہ ماننا چاہیے۔ جس طرح ہماری ایٹمی صلاحیت کی ضامن ہے۔ اسی طرح میڈیا کے محاذ پر آئی ایس پی آر ہمارے دفاع کا ضامن ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔