غیر ذمے دارانہ سیاست کا فروغ
ٹی وی چینلز کے پاس اب سیاسی رہنماؤں کی ہر تقریر کا ثبوت موجود ہوتا ہے
پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ایک متنازعہ بیان پر آج کل میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا پر کڑی تنقید جاری ہے۔ جس کے بعد انھوں نے اپنا متنازعہ بیان تو واپس نہیں لیا بلکہ ان کی پارٹی کے رہنما اپنے چیئرمین کے بیان کے دفاع میں مصروف ہیں اور اپنے چیئرمین کے بیان کو کوئی بھی غلط قرار دے رہا ہے نہ غیر ذمے دارانہ، کیونکہ ایسا کرنا پی پی رہنماؤں ہی کی نہیں بلکہ ہر سیاسی پارٹی کے رہنما کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنے رہنما کے غیر ذمے دارانہ اور متنازعہ بیان کا ہر صورت دفاع کریں۔
دو سال قبل ایم کیو ایم کے رہنما اپنے بانی کے غیر ذمے دارانہ بیان اور تقاریرکی تائید اور دفاع پر مجبور ہوا کرتے تھے کیونکہ مصطفیٰ کمال کے بقول ان کے سابق قائد زیادہ چڑھا لینے کے بعد غیر ذمے دارانہ باتیں کرتے تھے ۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی یہ مجبوری ہوتی تھی کہ وہ اپنے قائد کی صفائی پیش کرتے رہیں کہ ایسا نہیں ویسا تھا یا قائد یہ حقائق بتانا چاہتے تھے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا، ان کی باتیں غلط رپورٹ کی گئی ہیں۔ کسی اصول پرست اور باضمیر رہنما کو بھی اپنے سربراہ کے بیان کی مخالفت کی کبھی جرأت نہیں ہوتی ۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کوئی سیاسی رہنما ایسی غیر ذمے دارانہ اور متنازعہ باتوں پر اپنی پارٹی چھوڑ گیا ہو۔ یہ تبدیلی کبھی ضمیر یا اصول پر نہیں بلکہ سیاسی مفاد کے لیے ضرور آتی ہے جس کے بدلے میں دوسری پارٹی سے مفادات ملنے کی امید ہو ۔ آج کی حکمران جماعت تحریک انصاف بھی ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جس میں ماضی کی حکمران تین جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) اور اسٹیبلشمنٹ کے قریبی ساتھی وافر مقدار میں نمایاں ہیں۔
ایسے رہنماؤں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کی جماعتوں اور اپنے سابق رہنماؤں پر تنقید سے گریز کریں اور اپنی سیاسی مفاداتی وفاداری کے بعد خاموش رہیں اور اپنے لیے اچھے وقت کا انتظار کریں۔
ایسے خاموش سیاست کرنے والوں کی اسمبلیوں میں بھی کمی نہیں ہے اور وہ اب کسی بھی جماعت میں ہوں اسمبلیوں میں اکثر خاموش رہتے ہیں اور اسمبلیوں میں ان کا کام ہمیشہ خاموش رہنا اور ڈیسک بجانا اور اپنے قائد کی تعریفوں تک محدود رہتا ہے اور اسی مصلحت کے تحت وہ بھی دوسروں کی تنقید سے محفوظ رہتے ہیں۔ پہلے دور میں میڈیا کے پاس جدید ٹیکنالوجی کی کمی تھی اور تقاریر ہاتھ سے لکھے جانے کے علاوہ ریکارڈ بھی کرلی جاتی تھی ،ان کی آواز بطور ثبوت اس وقت پیش کی جاتی تھی جب وہ اپنے کہے گئے الفاظ سے منحرف ہوجاتے تھے۔ اس وقت رہنما اپنے بیانات اور تقاریر کی تردید میں کہہ دیتے تھے کہ یہ میری نہیں کسی اور کی آواز ہے اور مجھے غلط ملوث کیا جا رہا ہے یا میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں تھا وغیرہ، وغیرہ۔
ٹی وی چینلز کے پاس اب سیاسی رہنماؤں کی ہر تقریر کا ثبوت موجود ہوتا ہے جس کی تردید نہیں کی جاسکتی مگر پھر بھی بعض رہنما اپنے ہی واضح ثبوت کو نہیں مانتے اور غلطی نہیں مانتے اور اب یہ کہہ جاتے ہیں کہ میں کسی وجہ سے ٹینشن میں تھا یا جذباتی ہوگیا تھا ۔
الیکٹرانک میڈیا سے قبل بعض سیاستدانوں کی ایسی شکایات بھی حقیقت تھیں کہ میڈیا کے بعض لوگ ان سے ایسی باتیں منسوب کردیا کرتے جو انھوں نے نہیں کہی ہوتی تھیں مگر بعد میں ان کے نہ کہے جانے والے بیانات ساری عمر ان کے گلے پڑے رہتے تھے اور ان کی لاکھ تردید کے باوجود ان کے مخالفین ان کی تردید تسلیم اور قبول نہیں کرتے تھے۔ اپنے مخالف کی درست بات تسلیم نہ کرنا ویسے بھی ہماری سیاست کا وطیرہ رہا ہے اور اپنے مخالفین کی جائز بات بھی تسلیم نہیں کی جاتی اور اپنے مخالفین پر بغیر ثبوت اور سنی سنائی غیر حقیقی باتوں پر الزامات لگا دیے جاتے ہیں ۔ ثبوت نہ ہونے پر بھی الزامات واپس نہیں لیے جاتے جس پر مجبور ہوکر متاثرہ فریق کو پہلے میڈیا میں بیان دینا پڑتا ہے کہ مخالف رہنما میڈیا ہی کے ذریعے غلط الزام لگانے پر معافی مانگے وگرنہ عدالتی کارروائی کے لیے تیار رہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے میاں شہباز شریف پر کوئی الزام لگایا تھا جس کی تردید نہ ہونے پر شہباز شریف نے ایک سال قبل عمران خان کے خلاف عدالتی کارروائی کی تھی جس کا ایک سال میں جواب تک داخل نہیں کیا جارہا اور تاخیر پہ تاخیر کی پالیسی پر عمل کرکے عدالتی معاملے کو بھی طول دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی وفاقی وزیر مراد سعید کو غلط الزام پر نوٹس دیا ہے جب کہ شوبز کے دو فنکاروں نے بھی ایک دوسرے کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کر رکھی ہے مگر کئی ماہ کی عدالتی کارروائی جاری رہنے کا بھی کوئی نوٹس نہیں نکلا۔ پاکستان میں غلط الزامات پر سیاستدان میڈیا میں آنے کے بعد میڈیا پر ہی جواب دے دیتے ہیں اور مخالف کی تردید نہ ہونے پر خاموش رہ جاتے ہیں اور قانونی کارروائی سے گریز کرتے ہیں کیونکہ قانونی کارروائی کا بھی مہینوں کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
غیر ممالک کی طرح اگر پاکستان میں بھی ڈی فیمیشن کیسز پر عدالتی فیصلے جلد ہونے لگیں اور غلط الزام پر جرمانے یا سزا ملنے لگے تو دوسروں کی ہتک روکی جاسکتی ہے اور غیر ذمے دارانہ بیانات کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے مگر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے سیاست میں الزام تراشی کرتے وقت قومی مفاد بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے جس سے نقصان دہ بیانات سیاست کی نذر ہوجاتے اور ذمے دار لوگ سیاسی مفاد کے لیے ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس کا فائدہ ہمارا دشمن بھارت اٹھا لیتا ہے مگر اپنی سیاست کے لیے گمراہ کن اور بے بنیاد الزامات سے پرہیز نہیں کیا جاتا۔
غیر ذمے دارانہ بیان پر برطرفی کے بعد سابق وزیر اطلاعات پنجاب فیاض چوہان کی وزارت جانے سے بعض وزیر تو محتاط نظر آرہے ہیں مگر سیاستدانوں نے لگتا ہے کہ کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اگر غلط بیانوں پر کسی سیاستدان کو عدالتی سزا مل جاتی تو غیر ذمے دارانہ بیانات بند ہوسکتے تھے۔
دو سال قبل ایم کیو ایم کے رہنما اپنے بانی کے غیر ذمے دارانہ بیان اور تقاریرکی تائید اور دفاع پر مجبور ہوا کرتے تھے کیونکہ مصطفیٰ کمال کے بقول ان کے سابق قائد زیادہ چڑھا لینے کے بعد غیر ذمے دارانہ باتیں کرتے تھے ۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی یہ مجبوری ہوتی تھی کہ وہ اپنے قائد کی صفائی پیش کرتے رہیں کہ ایسا نہیں ویسا تھا یا قائد یہ حقائق بتانا چاہتے تھے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا، ان کی باتیں غلط رپورٹ کی گئی ہیں۔ کسی اصول پرست اور باضمیر رہنما کو بھی اپنے سربراہ کے بیان کی مخالفت کی کبھی جرأت نہیں ہوتی ۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کوئی سیاسی رہنما ایسی غیر ذمے دارانہ اور متنازعہ باتوں پر اپنی پارٹی چھوڑ گیا ہو۔ یہ تبدیلی کبھی ضمیر یا اصول پر نہیں بلکہ سیاسی مفاد کے لیے ضرور آتی ہے جس کے بدلے میں دوسری پارٹی سے مفادات ملنے کی امید ہو ۔ آج کی حکمران جماعت تحریک انصاف بھی ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جس میں ماضی کی حکمران تین جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) اور اسٹیبلشمنٹ کے قریبی ساتھی وافر مقدار میں نمایاں ہیں۔
ایسے رہنماؤں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کی جماعتوں اور اپنے سابق رہنماؤں پر تنقید سے گریز کریں اور اپنی سیاسی مفاداتی وفاداری کے بعد خاموش رہیں اور اپنے لیے اچھے وقت کا انتظار کریں۔
ایسے خاموش سیاست کرنے والوں کی اسمبلیوں میں بھی کمی نہیں ہے اور وہ اب کسی بھی جماعت میں ہوں اسمبلیوں میں اکثر خاموش رہتے ہیں اور اسمبلیوں میں ان کا کام ہمیشہ خاموش رہنا اور ڈیسک بجانا اور اپنے قائد کی تعریفوں تک محدود رہتا ہے اور اسی مصلحت کے تحت وہ بھی دوسروں کی تنقید سے محفوظ رہتے ہیں۔ پہلے دور میں میڈیا کے پاس جدید ٹیکنالوجی کی کمی تھی اور تقاریر ہاتھ سے لکھے جانے کے علاوہ ریکارڈ بھی کرلی جاتی تھی ،ان کی آواز بطور ثبوت اس وقت پیش کی جاتی تھی جب وہ اپنے کہے گئے الفاظ سے منحرف ہوجاتے تھے۔ اس وقت رہنما اپنے بیانات اور تقاریر کی تردید میں کہہ دیتے تھے کہ یہ میری نہیں کسی اور کی آواز ہے اور مجھے غلط ملوث کیا جا رہا ہے یا میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں تھا وغیرہ، وغیرہ۔
ٹی وی چینلز کے پاس اب سیاسی رہنماؤں کی ہر تقریر کا ثبوت موجود ہوتا ہے جس کی تردید نہیں کی جاسکتی مگر پھر بھی بعض رہنما اپنے ہی واضح ثبوت کو نہیں مانتے اور غلطی نہیں مانتے اور اب یہ کہہ جاتے ہیں کہ میں کسی وجہ سے ٹینشن میں تھا یا جذباتی ہوگیا تھا ۔
الیکٹرانک میڈیا سے قبل بعض سیاستدانوں کی ایسی شکایات بھی حقیقت تھیں کہ میڈیا کے بعض لوگ ان سے ایسی باتیں منسوب کردیا کرتے جو انھوں نے نہیں کہی ہوتی تھیں مگر بعد میں ان کے نہ کہے جانے والے بیانات ساری عمر ان کے گلے پڑے رہتے تھے اور ان کی لاکھ تردید کے باوجود ان کے مخالفین ان کی تردید تسلیم اور قبول نہیں کرتے تھے۔ اپنے مخالف کی درست بات تسلیم نہ کرنا ویسے بھی ہماری سیاست کا وطیرہ رہا ہے اور اپنے مخالفین کی جائز بات بھی تسلیم نہیں کی جاتی اور اپنے مخالفین پر بغیر ثبوت اور سنی سنائی غیر حقیقی باتوں پر الزامات لگا دیے جاتے ہیں ۔ ثبوت نہ ہونے پر بھی الزامات واپس نہیں لیے جاتے جس پر مجبور ہوکر متاثرہ فریق کو پہلے میڈیا میں بیان دینا پڑتا ہے کہ مخالف رہنما میڈیا ہی کے ذریعے غلط الزام لگانے پر معافی مانگے وگرنہ عدالتی کارروائی کے لیے تیار رہے۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے میاں شہباز شریف پر کوئی الزام لگایا تھا جس کی تردید نہ ہونے پر شہباز شریف نے ایک سال قبل عمران خان کے خلاف عدالتی کارروائی کی تھی جس کا ایک سال میں جواب تک داخل نہیں کیا جارہا اور تاخیر پہ تاخیر کی پالیسی پر عمل کرکے عدالتی معاملے کو بھی طول دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی وفاقی وزیر مراد سعید کو غلط الزام پر نوٹس دیا ہے جب کہ شوبز کے دو فنکاروں نے بھی ایک دوسرے کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کر رکھی ہے مگر کئی ماہ کی عدالتی کارروائی جاری رہنے کا بھی کوئی نوٹس نہیں نکلا۔ پاکستان میں غلط الزامات پر سیاستدان میڈیا میں آنے کے بعد میڈیا پر ہی جواب دے دیتے ہیں اور مخالف کی تردید نہ ہونے پر خاموش رہ جاتے ہیں اور قانونی کارروائی سے گریز کرتے ہیں کیونکہ قانونی کارروائی کا بھی مہینوں کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
غیر ممالک کی طرح اگر پاکستان میں بھی ڈی فیمیشن کیسز پر عدالتی فیصلے جلد ہونے لگیں اور غلط الزام پر جرمانے یا سزا ملنے لگے تو دوسروں کی ہتک روکی جاسکتی ہے اور غیر ذمے دارانہ بیانات کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے مگر ایسا نہ ہونے کی وجہ سے سیاست میں الزام تراشی کرتے وقت قومی مفاد بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے جس سے نقصان دہ بیانات سیاست کی نذر ہوجاتے اور ذمے دار لوگ سیاسی مفاد کے لیے ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس کا فائدہ ہمارا دشمن بھارت اٹھا لیتا ہے مگر اپنی سیاست کے لیے گمراہ کن اور بے بنیاد الزامات سے پرہیز نہیں کیا جاتا۔
غیر ذمے دارانہ بیان پر برطرفی کے بعد سابق وزیر اطلاعات پنجاب فیاض چوہان کی وزارت جانے سے بعض وزیر تو محتاط نظر آرہے ہیں مگر سیاستدانوں نے لگتا ہے کہ کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اگر غلط بیانوں پر کسی سیاستدان کو عدالتی سزا مل جاتی تو غیر ذمے دارانہ بیانات بند ہوسکتے تھے۔