14 کے ہندسہ کی بیسویں صدی کی تاریخ میں اہمیت
14 اگست 1947ء کو برصغیر سے سلطنت برطانیہ کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا
ISLAMABAD:
14 کے ہندسہ کو ہماری تاریخ میں ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔
یہ ہندسہ 20ویں صدی کی تاریخ میں چار مرتبہ خاص مقام حاصل کر پایا ہے۔ 1913 سے 1921 تک امریکی صدر رہنے والے وڈرو ولسن نے پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پرجواپنی مشہور زمانہ تقریر میں 14 نکات پیش کیے تھے۔ ان میں ایک نکتہ جو محکوم قوموں کے رہنماؤں کو بھی بوجوہ پسند آیا ،قوموں کی خودمختاری سے متعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 30 نومبر 1919 کو بیرون موچی دروازہ میاں فضل حسین کی زیرصدارت جلسہ ہوا تو اس میں علامہ اقبال نے جو قرارداد پیش کی اس میں ولسن کے 14 نکات کے حوالہ سے قومی خودمختاری کا ذکر نمایاں تھا۔ 14 کے ہندسہ کوتاریخ میں دوسری بار اہمیت قائداعظم محمد علی جناح کے 14 نکات کے ذریعے ملی جو نہرو رپورٹ کے مقابلہ میں آئے تھے۔
14 کے ہندسہ کو تیسرا مقام اس وقت ملا جب امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ نے وزیراعظم برطانیہ ونسنٹ چرچل کو بلوایا اور 14 اگست 1941 کو مشہو رزمانہ ''اٹلانٹک چارٹر'' پر دستخط لیے۔ یہ دوسری جنگ عظیم سے برآمد ہونے والا وہ ''عہدنامہ'' تھا جس نے امریکا کو سب سے بڑی سیاسی قوت قرار دے دیا۔ اس عہدنامہ میں بھی اہم ترین بات یہ تھی کہ ہمیں قوموں کی آزادی کا احترام کرنا چاہیے۔ اس شق کے تناظر میں امریکا نے برطانیہ اور فرانس کو نوآبادیات خالی کروانے کا حکم دے ڈالا تو پھر ہماری سیاست بھی نئے دور میں داخل ہو گئی۔ 14 کے ہندسہ کاچوتھا مقام خاص تو آج کا دن یعنی 14 اگست ہے کہ جب 14 اگست1947 صبح 9 بجے ملکہ برطانیہ کے نمائندے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو قائداعظم محمد علی جناح کو پاکستان کا خودمختار سربراہ تسلیم کرنا پڑا۔
قوموں کی خودمختاری ایک ایسا سوال تھا جو بادشاہتوں کے ٹوٹنے کے بعد بننے والی قومی ریاستوں پر مشتمل دنیا خصوصاً 20ویں صدی کے پہلے نصف میں الجھن اختیار کرتا چلا گیا تھا۔ نوآبادیات کی موجودگی میں قوموں کی خودمختاری کا نعرہ مذاق لگتا تھا کہ یہی وہ بات تھی جسے پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد سے امریکی خارجہ پالیسی میں مقام خاص حاصل رہا۔ امریکیوں کے لیے اس امر کو سمجھنا اس لیے آسان تھا کیونکہ امریکا میں ریاستوں نے مل کر جدوجہد کرتے ہوئے وفاق بنایا تھا اور امریکی آئین میں وفاقی وحدتوں یعنی صوبوں کو مقام خاص حاصل تھا۔ تفاخر میں ڈوبی سلطنت برطانیہ اس فرق کو سمجھنے سے قاصر رہی مگر ایسے انگریز دانشوروں کی کمی نہیں تھی جنہوں نے اس بارے میں بروقت انتباہ کر دیا تھا۔ یوں 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشہ پر دو نئے ممالک پاکستان اور بھارت کا اضافہ ہی نہ ہوا تھا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی نوآبادی سے سلطنت برطانیہ کو دستبردار ہونا پڑا تھا۔
دنیا کی سب سے بڑی نوآبادیات کا خاتمہ یقینا ایک تاریخی واقعہ تھا مگر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتیں بوجوہ اس مشترکہ خوشی کو مل جل کرمنانے سے تاحال قاصر ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب انگریز انڈیا سے جا ہی رہے تھے تو انہوں نے اسے منقسم کرنا کیوں ضروری خیال کیا؟ کچھ لوگ اسے انگریزوں کی پالیسی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں اورکانگرسی ذہن کے دانشور توقیام پاکستان کو انگریزوں کا تحفہ کہہ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ تھی کہ 1849 کے بعد سے ''ایک قومی نظریہ'' انگریزی پالیسی کا طرہ امتیاز رہا تھا۔ نئے عدالتی و انتظامی بندوبست اور افسرشاہی کے ذریعے مختلف قوموں کو زبردستی ملا کر ''انڈیا'' بنا دیا گیا تھا۔ اس میں وہی خطے شامل تھے جہاں انگریز کی عملداری تھی جس میں برما بھی تھا اور سمندر پار عدن بھی۔
'' ایک قومی نظریہ'' انگریز پالیسی سازوں کو تو بوجوہ وارا کھاتا تھا مگر بعدازاں کانگرسی رہنماؤں نے بھی اسے قبول کیا۔ ''ایک قومی نظریہ'' کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ اس کی موجودگی میں برصغیر میں رہنے والے پنجابیوں، بنگالیوں، کشمیریوں، سندھیوں، تاملوں وغیرہ کی نفی ہوتی تھی۔ یوں ''ایک قومی نظریہ'' قومیتی، لسانی اور مذہبی تنوع کو تسلیم نہ کرنے کا استعارہ بنا تو اس ٹکراؤ کے بطن سے دو قومی نظریے کا ظہور ہوا۔ تاہم علاقہ اقبال جیسے عبقری نے تو 1930 کے خطبہ الٰہ آباد میں کہہ دیا تھا کہ یہ معرکہ مسلم اکثریتی صوبوں ہی میں لڑا اور جیتا جائے گا، یہ دعویٰ 17 سال بعد حقیقت بنا۔
بانیٔ پاکستان کی انگریز صحافی سے تصورِپاکستان کے بارے میں دوٹوک گفت گو
''ایک قومی نظریہ'' کی حقیقت کو جاننے کے لیے ہم یہاں قائداعظم محمد علی جناح کے ایک انٹرویو کا ترجمہ دے رہے ہیں جسے ایک انگریز مصنف، صحافی، ڈراما نویس اور ماہر موسیقی بیورولے نکولس نے لیا تھا۔ یہ انٹرویو 1943 کے تلاطم خیز سیاسی ماحول میں لیا گیا تھا اور اسے 1944 میں لندن سے چھپنے والی مشہور انگریزی کتاب "Verdict on India" میں چھاپا گیا۔
نکولس کی کتاب تو انٹرنیٹ پر بھی مفت ''ڈاؤن لوڈ'' کی جا سکتی ہے مگر مجھے اس کا پتہ ممتاز صحافی ظفراقبال مرزا (قلمی نام لہوری) کی زبانی معلوم ہوا تھا۔ آپ اس کو پڑھیں تو آپ کو بھی ''ایک قومی نظریہ'' کی حقیقت کے بارے میں آگاہی ہو گی۔ انٹرویو پڑھتے ہوئے یہ بات خصوصی طور پر مدنظر رکھیں کہ جب یہ انٹرویو دیا گیا اس وقت نہ تو 1946 کے انتخابات ہوئے تھے اور نہ ہی 3 جون کا منصوبہ آیا تھا۔ بقول مصنف وہ 18 دسمبر 1943 کو قائد اعظم سے ملے تھے۔
نکولس: آپ نے یہ تعریف نہیں کی کہ پاکستان کیسا ملک ہوگا؟اس بارے میں تفصیل دینے کی ضرورت ہے؟
جناح: اگر کوئی انگریز یہ سوال کرے تو میں اس سے پوچھوں گا کہ جب آئرلینڈ کو برطانیہ سے الگ کیا گیا تھا تو برطانیہ نے محض دس سطروں پر مشتمل تحریر لکھی تھی۔ وہ تو بہت قدیمی و گنجلدار مسئلہ تھا جبکہ یہاں سوال بڑا سادہ ہے۔ پاکستان کے حوالہ سے دس سطروں سے کہیں زیادہ تفاصیل دی جا چکی ہیں۔ اگر آپ کو برصغیر کی تاریخ کا علم ہو تو یہاں لمبی چوڑی تفاصیل نہیں دی جاتیں۔ دوسری گول میز کانفرنس میں جب برما کو انڈیا سے الگ کرنے کی بات ہوئی یا جب سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کی بات ہوئی (1932 میں) تو کون سی تفاصیل دی گئی تھیں؟ ایسی تفاصیل کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ اصل سوال تو قوموں کے حق خود مختاری کا ہے۔
نکولس: کیا مسلمان پاکستان بننے کے بعد امیر ہو جائیں گے؟ کہتے ہیں پاکستان معاشی طور پر قابل عمل نہیں ہے؟
جناح: میں آپ سے سوال کرتا ہوں ۔کیا آپ کوایسا امیر برطانیہ منظور ہو گا جس پر جرمنوں کاقبضہ ہو ؟یا آپ کو آزاد برطانیہ چاہیے چاہے وہ زیادہ مالدار نہ بھی ہو۔
نکولس: اس کا جواب تو آپ کو معلوم ہی ہے۔ ہم آزادی کو ترجیح دیتے ہیں۔
جناح: یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا منصوبہ معاشی طور پر قابل عمل نہیں؟ ورسیلز کے معاہدے کے بعد کم از کم ایک یورپی باشندہ تو یہ بات نہیں کر سکتا۔ (پہلی جنگ عظیم کے بعد) اعلیٰ یورپی اذہان نے خود اپنے (براعظم) یورپ کو کیسے حصوں بخروں میں بانٹاتھا؟ اس وقت کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ وہ (مذہبی، ثقافتی، قومیتی و لسانی تنوع کو مدنظر رکھے بغیر) جو نئے نئے ممالک بنا رہے ہیں وہ معاشی طور پر قابل عمل ہوں گے۔
نکولس: دفاع کے حوالہ سے آپ کیا سوچتے ہیں؟
جناح: افغانستان کی حفاظت افغانوں کے ذمہ ہے۔ ہم اپنی حفاظت خود کریں گے۔ ہم بہادر بھی ہیں اور کام کرنا بھی جانتے ہیں۔ ہم کسی بھی حوالے سے دوسروں سے کمتر نہیں،مثلا ایران ہی سے موازنہ کرلیں۔ ہاں مشکلات ضرور آئیں گی۔ ہم نہیں کہتے کہ برطانیہ یہاں سے فوراً نکل جائے۔ جو '' گند''انہوں نے ہمارے یہاں ڈالا ہے اسے صاف کرنے میں انگریزوں کو ہماری مدد کرنی چاہیے۔ مگر اس سے پہلے انہیں کچھ زیادہ گہرائی میں جا کر سوچنا ہوگا۔ میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔
نکولس: اس کے بعد جناح کمرے سے باہر چلے گئے۔ جب وہ واپس آئے تو وہ بھرپور انداز میں برطانوی پالیسی پر تنقید کر رہے تھے۔ میں اس کو یہاں دہرانا نہیں چاہتا مگر ان کی تنقید واضح بھی تھی اور مدلل بھی۔ اس میں نہ تو دیوانگی تھی نہ ہی غصہ، ردعمل یا نفرت۔ ان کی تنقید ایک عمومی انگریز مخالف سے قدرے مختلف تھی اور اس میں وہی فرق تھا جو ایک عطائی اور ماہر سرجن میں ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر دو ٹوک انداز میں تنبیہہ کرتے ہوئے کہا، ''برطانیہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آج اس ملک میں برطانیہ کا کوئی دوست نہیں۔'' انہوں نے دوبارہ زور دے کر کہا کہ برطانیہ کا یہاں کوئی دوست نہیں۔ جب وہ واپس کمرے میں آئے تھے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ یہ جان برائٹ کی کتاب تھی۔ جناح: کیا تم نے اس (جان برائٹ) کی کوئی تقریر پڑھی ہے؟
نکولس: کم از کم سکول چھوڑنے کے بعد تو کوئی نہیں پڑھی۔
جناح: تم اسے پڑھ لو۔ کتاب کا نام تھا ''جان برائٹ کی تقریریں'' (انگریزی)۔
نکولس: جو صفحہ میرے سامنے کھلا تھا اس پر 4 جون 1858 لکھا تھا۔ اس عظیم مقرر نے ایوان زیریں میں تقریر کرتے ہوئے کہا، ''برطانیہ کتنا عرصہ انڈیا پر حکومت کرے گا؟ کوئی بھی حتمی طور پر اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ 50 سال، 100 سال یا چلیں 500 سال۔ ہر وہ شخص جو تھوڑی سی بھی عقل سلیم رکھتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ خطہ جس میں 20 سے زیادہ قومیں اور 20 سے زیادہ زبانیں ہوں کیا اسے ایک قوم قرار دے کر یکجا رکھا جا سکتا ہے؟ میرا یقین ہے کہ یہ بات ناممکنات میں سے ہے۔'' بس یہ پڑھنے کے بعدمیں نے کتاب جناح صاحب کو لوٹا دی۔ جناح: جو کچھ برائٹ نے اس وقت کہا تھا آج وہ صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ برائٹ نے 20 قوموں اور 20 زبانوں کی بات کی تھی جبکہ یہاں معاملہ ہندو اور مسلم کا ہے۔ انگریزوں کی پالیسی کے تحت انڈیا کو ایک ملک بنایا گیا جو طاقت کے زور پر کی گئی زبردستی تھی۔
نکولس: آپ پر تنقید کرنے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان تو انگریز بنانا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' والی پالیسی کا ذکر تواتر سے کرتے ہیں۔
جناح: جو ایسا کہتا ہے اسے برطانوی سوچ کے بارے میں صحیح معلومات حاصل نہیں۔ انڈیا کو ایک ملک قرار دینا انگریزوں کی پالیسی تھی اور گاندھی اس پالیسی کے رکھوالے بنے۔
نکولس: اگر ایسا ہوا اور برطانیہ کو انڈیا کو منقسم کرنا پڑا تو یہ برطانیہ کے ووٹروں کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔
جناح: سچ دھچکا ہی ہوتا ہے۔
نکولس: برطانیہ کے عوام صرف کانگرس کے نقطہ نظر کے بارے میں ہی جانتے ہیں۔ مسلم لیگ کے نقطہ نظر کاانہیں کچھ معلوم نہیں۔
جناح: یہ مجھے معلوم ہے۔ کانگرس کو صنعت کاروں کا پیسہ، پریس (میڈیا) کی طاقت او رمہاسبھائیوں کی مدد حاصل ہے جبکہ مسلم لیگ کے ذرائع محدود ہیں۔
اس کے بعد نکولس لکھتا ہے ''جب میں کتاب تیار کر رہا تھا تو ایک دوست نے وہ باب پڑھا جس میں جناح کا انٹرویو شامل تھا۔ اس نے کہا جناح کا نقطہ نظر درست اور معقول معلوم ہوتا ہے مگر کیا مسلمان جناح کا ساتھ دیں گے؟ میر اجواب تھا کہ ان حالات میں پھر مسلمان کس کا ساتھ دیں گے؟ مسلم لیگ نہیں تو کون؟ جس طرح کانگرس ہاتھ دھو کر مسلم لیگ اور جناح کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور جس طرح دونوں کو پریس (میڈیا) میں ہدف تنقید بنایاہے اس کے نتیجہ میں مسلمان کس کا ساتھ دیں گے؟ کانگرس جناح کے ساتھ کوئی آبرومندانہ سمجھوتہ کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کر رہی بلکہ تکرار کو بڑھا رہی ہے۔ پچھلے سات سالوں میں ایک مثال کے علاوہ تمام مسلم نشستوں پرجتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں وہ مسلم لیگ نے جیتے ہیں۔ یہ بات کس طرح اشارہ کر رہی ہے؟
بیورلے نکولس کی کتاب "Verdict on India" میں صفحہ 188 سے 196 تک پھیلے اس انٹرویو کا عمومی ترجمہ آپ نے پڑھ لیا۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کسی بھی خطہ کے قومیتی، ثقافتی، لسانی و مذہبی تنوع کا احترام کرنا کس قدر ضروری امر ہے اور خود تحریک پاکستان کی اصل طاقت بھی یہی تھی۔
علامہ اقبال نے اپنے مشہور خطبہ الٰہ آباد میں قومیتی، مذہبی و ثقافتی تنوع کی بات کی اور مولانا عبیداللہ سندھی جیسے دانشوروں نے بھی کانگرس کو بروقت تنبیہہ کی کہ وہ ''ایک قومی نظریے'' کو تج دے۔
پاکستان کے پندرہویں یومِ آزادی پر مادر ملت کاپیغام
14 اگست کو ہمارے ملک کی تاریخ میں ایک یادگار دن کی حیثیت حاصل ہے۔
یہ وہ دن ہے جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور یہ آزاد وخود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پہ ابھرا۔ یہ بہت اہمیت کا حامل دن ہے جو ہمیں ہماری جدوجہد کی یاد دلاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ہمیں کامل آزادی حاصل ہوئی۔ اس روز وہ عظیم انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں ہماری دو سو سالہ جدوجہد کامیاب ہوئی اور ہم نے دو اجنبی طاقتوں کی بالادستی سے نجات حاصل کی' جس طرح دوسری اقوام کے قومی دن ہوتے ہیں اس طرح 14 اگست ہمارا قومی دن ہے۔ تاہم ہمارے لئے اس کی اہمیت محض دن سے کہیں زیادہ ہے۔ اس روز عوام نے نہ صرف مادی طور پر آزادی حاصل کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک تصور اور آدرش کی جیت بھی ہوئی۔
آج سے 15 برس قبل آج ہی کے دن قائداعظم نے جب کراچی میں پاکستان کا پرچم لہرایا تو پاکستانی عوام کو یہ پرمسرت شعور ملا کہ آخر کار ان کی غلامی کی زنجیریں کٹ گئی ہیں اور ان کی عزیز آرزوؤں کی تکمیل کی راہ کھل گئی ہے۔ جب ہم گذشتہ 14 برس کے عرصے پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے ذہن میں پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ ہماری وہ قومی آرزوئیں جن کی خاطر ہم نے اس قدر محنت اور جاں فشانی سے کام کیا' ہمیں ان کی تکمیل میں کہاں تک کامیابی حاصل ہو سکی ہے۔ کیا ہم اپنے مقاصد کے حصول کے کہیں قریب بھی پہنچ پائے ہیں؟
آپ نے قائداعظم کی زیر قیادت جدوجہدکی اور جنگ لڑی تاکہ ایک جمہوری ملک حاصل کر سکیں۔ ایک ایسا ملک جس میں عوام کی رائے کو سب سے برتر مقام حاصل ہو۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ اس تصور اور مقصد کے بارے میں کبھی کسی شک کا شکار نہیں ہوئے۔مگر مختلف عوامل اور طاقتوں کا ایک سلسلہ ہے جس نے جمہوری نظام کے فطری ارتقاء کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے اور ملک میں آئینی بحران پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے' لیکن ان کی یہ تمام کوششیں ناکام رہیں اور یہ بات عوام کی ہمت' حوصلے اور جرأت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران ملک کو زبردست سیاسی صدمات برداشت کرنا پڑے۔ جنہوں نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ گھٹیا اور حد درجہ پست ہتھکنڈے اختیار کئے گئے' لیکن مجھے خوشی ہے کہ عوام نے ان ہتھکنڈوں کو بری طرح مسترد کر دیا۔ تاہم ان واقعات کے نتیجے میں یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے آئی کہ جمہوری اداروں کو اب بھی نارمل طریقے سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ یوں ہماری آرزوؤں اور امیدوں کی اس سرزمین پہ بار بار ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو ہمیں ایک کے بعد دوسرا صدمہ پہنچا رہے ہیں۔ ان کی بدولت غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے اور ہمارا قومی افتخار پارہ پارہ ہو رہا ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کا جو جی چاہتا ہے وہ کرتے ہیں اور کوئی نہیں جو ان کے کاموں کے حولے سے ان سے پرسش کرے۔ آج ہر شے کا محور وہ خود بنے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کسی عمل پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ حکومتی معاملات کو چلانے کے غرض سے جو کچھ عوام کے نام پہ اور ان کی طرف سے کیا جا رہا ہے' وہ اس پہ محض خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے' نہ ہی انہیں ایسا بن کر رہنا چاہئے۔ حاکمیت اعلیٰ کے اصل' مالک عوام ہیں۔ انہیں اس بات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ مملکت کے امور ان کی رضا اور خواہش کے مطابق سرانجام پا رہے ہیں یا نہیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ جمہوری ادارے اور صحت مند رواج جو کسی بھی زندہ اور جاندار معاشرے کے لئے زندگی بخش خون کی حیثیت رکھتے ہیں' اندر ہی اندر ان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نمائندہ سیاسی جماعتیں جو ہماری اجتماعی منشاء کے اظہار کا واحد ذریعہ ہیں' انہیں کمزور کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ بغل بچہ جماعتیں تشکیل دی جا رہی ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جسے مزید جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
آپ کو چاہیئے کہ گہری سوچ بچار کے بعد اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کا انتخاب کریں اور پھر اس کے فرض شناس رکن کی حیثیت سے بہت ہوشیاری اور فعال طریقے سے اس کے لئے کام کریں۔ اگر آپ یہ فریضہ سرانجام نہیں دیں گے تو پاکستان میں جمہوریت کو ایسا شدید نقصان پہنچ جائے گا جس کا ازالہ ہونا بہت مشکل ہو گا۔ اس موقع پر فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ کی توجہ قومی زندگی کے ان معاملات کی طرف دلانا چاہتی ہوں اور بتانا چاہتی ہوں کہ اس مشکل وقت میں درست رویے' ہمت جرأت اتحاد' یقین محکم اور نظم و ضبط کی ضرورت ہے تاکہ قومی معاملات کو درست سمت میں چلایا جا سکے۔
یاد رکھیے۔ اصولوں پر کبھی کسی صورت میں سمجھوتہ نہ کیجئے۔ عظیم انسان قربانی دینے میں کبھی کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے اور جب کبھی ان کے سامنے اصولوں کی بات آتی ہے وہ ڈٹ جاتے ہیں۔ وہ اصولوں کی شکست پر جان دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کسی قسم کا کوئی لالچ انہیں ان کے راستے سے نہیں ہٹا سکتا۔ قائداعظم بھی ہمیشہ اسی اصول پر کام کرتے رہے۔ یہ بات اچھی طرح آپ کے علم میں ہے کہ انہوں نے پاکستان کے مسئلے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس لئے میں آپ سے درخواست کرتی ہوں اور آپ کو یاد دلاتی ہوں کہ آپ کے خدا' آپ کے ملک اور آپ کی قوم کی طرف سے آپ پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ ثابت قدمی سے اپنے اصولوں پہ قائم رہیں۔
14 کے ہندسہ کو ہماری تاریخ میں ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔
یہ ہندسہ 20ویں صدی کی تاریخ میں چار مرتبہ خاص مقام حاصل کر پایا ہے۔ 1913 سے 1921 تک امریکی صدر رہنے والے وڈرو ولسن نے پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پرجواپنی مشہور زمانہ تقریر میں 14 نکات پیش کیے تھے۔ ان میں ایک نکتہ جو محکوم قوموں کے رہنماؤں کو بھی بوجوہ پسند آیا ،قوموں کی خودمختاری سے متعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 30 نومبر 1919 کو بیرون موچی دروازہ میاں فضل حسین کی زیرصدارت جلسہ ہوا تو اس میں علامہ اقبال نے جو قرارداد پیش کی اس میں ولسن کے 14 نکات کے حوالہ سے قومی خودمختاری کا ذکر نمایاں تھا۔ 14 کے ہندسہ کوتاریخ میں دوسری بار اہمیت قائداعظم محمد علی جناح کے 14 نکات کے ذریعے ملی جو نہرو رپورٹ کے مقابلہ میں آئے تھے۔
14 کے ہندسہ کو تیسرا مقام اس وقت ملا جب امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ نے وزیراعظم برطانیہ ونسنٹ چرچل کو بلوایا اور 14 اگست 1941 کو مشہو رزمانہ ''اٹلانٹک چارٹر'' پر دستخط لیے۔ یہ دوسری جنگ عظیم سے برآمد ہونے والا وہ ''عہدنامہ'' تھا جس نے امریکا کو سب سے بڑی سیاسی قوت قرار دے دیا۔ اس عہدنامہ میں بھی اہم ترین بات یہ تھی کہ ہمیں قوموں کی آزادی کا احترام کرنا چاہیے۔ اس شق کے تناظر میں امریکا نے برطانیہ اور فرانس کو نوآبادیات خالی کروانے کا حکم دے ڈالا تو پھر ہماری سیاست بھی نئے دور میں داخل ہو گئی۔ 14 کے ہندسہ کاچوتھا مقام خاص تو آج کا دن یعنی 14 اگست ہے کہ جب 14 اگست1947 صبح 9 بجے ملکہ برطانیہ کے نمائندے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو قائداعظم محمد علی جناح کو پاکستان کا خودمختار سربراہ تسلیم کرنا پڑا۔
قوموں کی خودمختاری ایک ایسا سوال تھا جو بادشاہتوں کے ٹوٹنے کے بعد بننے والی قومی ریاستوں پر مشتمل دنیا خصوصاً 20ویں صدی کے پہلے نصف میں الجھن اختیار کرتا چلا گیا تھا۔ نوآبادیات کی موجودگی میں قوموں کی خودمختاری کا نعرہ مذاق لگتا تھا کہ یہی وہ بات تھی جسے پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد سے امریکی خارجہ پالیسی میں مقام خاص حاصل رہا۔ امریکیوں کے لیے اس امر کو سمجھنا اس لیے آسان تھا کیونکہ امریکا میں ریاستوں نے مل کر جدوجہد کرتے ہوئے وفاق بنایا تھا اور امریکی آئین میں وفاقی وحدتوں یعنی صوبوں کو مقام خاص حاصل تھا۔ تفاخر میں ڈوبی سلطنت برطانیہ اس فرق کو سمجھنے سے قاصر رہی مگر ایسے انگریز دانشوروں کی کمی نہیں تھی جنہوں نے اس بارے میں بروقت انتباہ کر دیا تھا۔ یوں 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشہ پر دو نئے ممالک پاکستان اور بھارت کا اضافہ ہی نہ ہوا تھا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی نوآبادی سے سلطنت برطانیہ کو دستبردار ہونا پڑا تھا۔
دنیا کی سب سے بڑی نوآبادیات کا خاتمہ یقینا ایک تاریخی واقعہ تھا مگر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتیں بوجوہ اس مشترکہ خوشی کو مل جل کرمنانے سے تاحال قاصر ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب انگریز انڈیا سے جا ہی رہے تھے تو انہوں نے اسے منقسم کرنا کیوں ضروری خیال کیا؟ کچھ لوگ اسے انگریزوں کی پالیسی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں اورکانگرسی ذہن کے دانشور توقیام پاکستان کو انگریزوں کا تحفہ کہہ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ تھی کہ 1849 کے بعد سے ''ایک قومی نظریہ'' انگریزی پالیسی کا طرہ امتیاز رہا تھا۔ نئے عدالتی و انتظامی بندوبست اور افسرشاہی کے ذریعے مختلف قوموں کو زبردستی ملا کر ''انڈیا'' بنا دیا گیا تھا۔ اس میں وہی خطے شامل تھے جہاں انگریز کی عملداری تھی جس میں برما بھی تھا اور سمندر پار عدن بھی۔
'' ایک قومی نظریہ'' انگریز پالیسی سازوں کو تو بوجوہ وارا کھاتا تھا مگر بعدازاں کانگرسی رہنماؤں نے بھی اسے قبول کیا۔ ''ایک قومی نظریہ'' کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ اس کی موجودگی میں برصغیر میں رہنے والے پنجابیوں، بنگالیوں، کشمیریوں، سندھیوں، تاملوں وغیرہ کی نفی ہوتی تھی۔ یوں ''ایک قومی نظریہ'' قومیتی، لسانی اور مذہبی تنوع کو تسلیم نہ کرنے کا استعارہ بنا تو اس ٹکراؤ کے بطن سے دو قومی نظریے کا ظہور ہوا۔ تاہم علاقہ اقبال جیسے عبقری نے تو 1930 کے خطبہ الٰہ آباد میں کہہ دیا تھا کہ یہ معرکہ مسلم اکثریتی صوبوں ہی میں لڑا اور جیتا جائے گا، یہ دعویٰ 17 سال بعد حقیقت بنا۔
بانیٔ پاکستان کی انگریز صحافی سے تصورِپاکستان کے بارے میں دوٹوک گفت گو
''ایک قومی نظریہ'' کی حقیقت کو جاننے کے لیے ہم یہاں قائداعظم محمد علی جناح کے ایک انٹرویو کا ترجمہ دے رہے ہیں جسے ایک انگریز مصنف، صحافی، ڈراما نویس اور ماہر موسیقی بیورولے نکولس نے لیا تھا۔ یہ انٹرویو 1943 کے تلاطم خیز سیاسی ماحول میں لیا گیا تھا اور اسے 1944 میں لندن سے چھپنے والی مشہور انگریزی کتاب "Verdict on India" میں چھاپا گیا۔
نکولس کی کتاب تو انٹرنیٹ پر بھی مفت ''ڈاؤن لوڈ'' کی جا سکتی ہے مگر مجھے اس کا پتہ ممتاز صحافی ظفراقبال مرزا (قلمی نام لہوری) کی زبانی معلوم ہوا تھا۔ آپ اس کو پڑھیں تو آپ کو بھی ''ایک قومی نظریہ'' کی حقیقت کے بارے میں آگاہی ہو گی۔ انٹرویو پڑھتے ہوئے یہ بات خصوصی طور پر مدنظر رکھیں کہ جب یہ انٹرویو دیا گیا اس وقت نہ تو 1946 کے انتخابات ہوئے تھے اور نہ ہی 3 جون کا منصوبہ آیا تھا۔ بقول مصنف وہ 18 دسمبر 1943 کو قائد اعظم سے ملے تھے۔
نکولس: آپ نے یہ تعریف نہیں کی کہ پاکستان کیسا ملک ہوگا؟اس بارے میں تفصیل دینے کی ضرورت ہے؟
جناح: اگر کوئی انگریز یہ سوال کرے تو میں اس سے پوچھوں گا کہ جب آئرلینڈ کو برطانیہ سے الگ کیا گیا تھا تو برطانیہ نے محض دس سطروں پر مشتمل تحریر لکھی تھی۔ وہ تو بہت قدیمی و گنجلدار مسئلہ تھا جبکہ یہاں سوال بڑا سادہ ہے۔ پاکستان کے حوالہ سے دس سطروں سے کہیں زیادہ تفاصیل دی جا چکی ہیں۔ اگر آپ کو برصغیر کی تاریخ کا علم ہو تو یہاں لمبی چوڑی تفاصیل نہیں دی جاتیں۔ دوسری گول میز کانفرنس میں جب برما کو انڈیا سے الگ کرنے کی بات ہوئی یا جب سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کی بات ہوئی (1932 میں) تو کون سی تفاصیل دی گئی تھیں؟ ایسی تفاصیل کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ اصل سوال تو قوموں کے حق خود مختاری کا ہے۔
نکولس: کیا مسلمان پاکستان بننے کے بعد امیر ہو جائیں گے؟ کہتے ہیں پاکستان معاشی طور پر قابل عمل نہیں ہے؟
جناح: میں آپ سے سوال کرتا ہوں ۔کیا آپ کوایسا امیر برطانیہ منظور ہو گا جس پر جرمنوں کاقبضہ ہو ؟یا آپ کو آزاد برطانیہ چاہیے چاہے وہ زیادہ مالدار نہ بھی ہو۔
نکولس: اس کا جواب تو آپ کو معلوم ہی ہے۔ ہم آزادی کو ترجیح دیتے ہیں۔
جناح: یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا منصوبہ معاشی طور پر قابل عمل نہیں؟ ورسیلز کے معاہدے کے بعد کم از کم ایک یورپی باشندہ تو یہ بات نہیں کر سکتا۔ (پہلی جنگ عظیم کے بعد) اعلیٰ یورپی اذہان نے خود اپنے (براعظم) یورپ کو کیسے حصوں بخروں میں بانٹاتھا؟ اس وقت کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ وہ (مذہبی، ثقافتی، قومیتی و لسانی تنوع کو مدنظر رکھے بغیر) جو نئے نئے ممالک بنا رہے ہیں وہ معاشی طور پر قابل عمل ہوں گے۔
نکولس: دفاع کے حوالہ سے آپ کیا سوچتے ہیں؟
جناح: افغانستان کی حفاظت افغانوں کے ذمہ ہے۔ ہم اپنی حفاظت خود کریں گے۔ ہم بہادر بھی ہیں اور کام کرنا بھی جانتے ہیں۔ ہم کسی بھی حوالے سے دوسروں سے کمتر نہیں،مثلا ایران ہی سے موازنہ کرلیں۔ ہاں مشکلات ضرور آئیں گی۔ ہم نہیں کہتے کہ برطانیہ یہاں سے فوراً نکل جائے۔ جو '' گند''انہوں نے ہمارے یہاں ڈالا ہے اسے صاف کرنے میں انگریزوں کو ہماری مدد کرنی چاہیے۔ مگر اس سے پہلے انہیں کچھ زیادہ گہرائی میں جا کر سوچنا ہوگا۔ میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔
نکولس: اس کے بعد جناح کمرے سے باہر چلے گئے۔ جب وہ واپس آئے تو وہ بھرپور انداز میں برطانوی پالیسی پر تنقید کر رہے تھے۔ میں اس کو یہاں دہرانا نہیں چاہتا مگر ان کی تنقید واضح بھی تھی اور مدلل بھی۔ اس میں نہ تو دیوانگی تھی نہ ہی غصہ، ردعمل یا نفرت۔ ان کی تنقید ایک عمومی انگریز مخالف سے قدرے مختلف تھی اور اس میں وہی فرق تھا جو ایک عطائی اور ماہر سرجن میں ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر دو ٹوک انداز میں تنبیہہ کرتے ہوئے کہا، ''برطانیہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ آج اس ملک میں برطانیہ کا کوئی دوست نہیں۔'' انہوں نے دوبارہ زور دے کر کہا کہ برطانیہ کا یہاں کوئی دوست نہیں۔ جب وہ واپس کمرے میں آئے تھے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ یہ جان برائٹ کی کتاب تھی۔ جناح: کیا تم نے اس (جان برائٹ) کی کوئی تقریر پڑھی ہے؟
نکولس: کم از کم سکول چھوڑنے کے بعد تو کوئی نہیں پڑھی۔
جناح: تم اسے پڑھ لو۔ کتاب کا نام تھا ''جان برائٹ کی تقریریں'' (انگریزی)۔
نکولس: جو صفحہ میرے سامنے کھلا تھا اس پر 4 جون 1858 لکھا تھا۔ اس عظیم مقرر نے ایوان زیریں میں تقریر کرتے ہوئے کہا، ''برطانیہ کتنا عرصہ انڈیا پر حکومت کرے گا؟ کوئی بھی حتمی طور پر اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ 50 سال، 100 سال یا چلیں 500 سال۔ ہر وہ شخص جو تھوڑی سی بھی عقل سلیم رکھتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ خطہ جس میں 20 سے زیادہ قومیں اور 20 سے زیادہ زبانیں ہوں کیا اسے ایک قوم قرار دے کر یکجا رکھا جا سکتا ہے؟ میرا یقین ہے کہ یہ بات ناممکنات میں سے ہے۔'' بس یہ پڑھنے کے بعدمیں نے کتاب جناح صاحب کو لوٹا دی۔ جناح: جو کچھ برائٹ نے اس وقت کہا تھا آج وہ صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ برائٹ نے 20 قوموں اور 20 زبانوں کی بات کی تھی جبکہ یہاں معاملہ ہندو اور مسلم کا ہے۔ انگریزوں کی پالیسی کے تحت انڈیا کو ایک ملک بنایا گیا جو طاقت کے زور پر کی گئی زبردستی تھی۔
نکولس: آپ پر تنقید کرنے والے بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان تو انگریز بنانا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ ''تقسیم کرو اور حکومت کرو'' والی پالیسی کا ذکر تواتر سے کرتے ہیں۔
جناح: جو ایسا کہتا ہے اسے برطانوی سوچ کے بارے میں صحیح معلومات حاصل نہیں۔ انڈیا کو ایک ملک قرار دینا انگریزوں کی پالیسی تھی اور گاندھی اس پالیسی کے رکھوالے بنے۔
نکولس: اگر ایسا ہوا اور برطانیہ کو انڈیا کو منقسم کرنا پڑا تو یہ برطانیہ کے ووٹروں کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔
جناح: سچ دھچکا ہی ہوتا ہے۔
نکولس: برطانیہ کے عوام صرف کانگرس کے نقطہ نظر کے بارے میں ہی جانتے ہیں۔ مسلم لیگ کے نقطہ نظر کاانہیں کچھ معلوم نہیں۔
جناح: یہ مجھے معلوم ہے۔ کانگرس کو صنعت کاروں کا پیسہ، پریس (میڈیا) کی طاقت او رمہاسبھائیوں کی مدد حاصل ہے جبکہ مسلم لیگ کے ذرائع محدود ہیں۔
اس کے بعد نکولس لکھتا ہے ''جب میں کتاب تیار کر رہا تھا تو ایک دوست نے وہ باب پڑھا جس میں جناح کا انٹرویو شامل تھا۔ اس نے کہا جناح کا نقطہ نظر درست اور معقول معلوم ہوتا ہے مگر کیا مسلمان جناح کا ساتھ دیں گے؟ میر اجواب تھا کہ ان حالات میں پھر مسلمان کس کا ساتھ دیں گے؟ مسلم لیگ نہیں تو کون؟ جس طرح کانگرس ہاتھ دھو کر مسلم لیگ اور جناح کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور جس طرح دونوں کو پریس (میڈیا) میں ہدف تنقید بنایاہے اس کے نتیجہ میں مسلمان کس کا ساتھ دیں گے؟ کانگرس جناح کے ساتھ کوئی آبرومندانہ سمجھوتہ کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کر رہی بلکہ تکرار کو بڑھا رہی ہے۔ پچھلے سات سالوں میں ایک مثال کے علاوہ تمام مسلم نشستوں پرجتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں وہ مسلم لیگ نے جیتے ہیں۔ یہ بات کس طرح اشارہ کر رہی ہے؟
بیورلے نکولس کی کتاب "Verdict on India" میں صفحہ 188 سے 196 تک پھیلے اس انٹرویو کا عمومی ترجمہ آپ نے پڑھ لیا۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کسی بھی خطہ کے قومیتی، ثقافتی، لسانی و مذہبی تنوع کا احترام کرنا کس قدر ضروری امر ہے اور خود تحریک پاکستان کی اصل طاقت بھی یہی تھی۔
علامہ اقبال نے اپنے مشہور خطبہ الٰہ آباد میں قومیتی، مذہبی و ثقافتی تنوع کی بات کی اور مولانا عبیداللہ سندھی جیسے دانشوروں نے بھی کانگرس کو بروقت تنبیہہ کی کہ وہ ''ایک قومی نظریے'' کو تج دے۔
پاکستان کے پندرہویں یومِ آزادی پر مادر ملت کاپیغام
14 اگست کو ہمارے ملک کی تاریخ میں ایک یادگار دن کی حیثیت حاصل ہے۔
یہ وہ دن ہے جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور یہ آزاد وخود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پہ ابھرا۔ یہ بہت اہمیت کا حامل دن ہے جو ہمیں ہماری جدوجہد کی یاد دلاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ہمیں کامل آزادی حاصل ہوئی۔ اس روز وہ عظیم انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں ہماری دو سو سالہ جدوجہد کامیاب ہوئی اور ہم نے دو اجنبی طاقتوں کی بالادستی سے نجات حاصل کی' جس طرح دوسری اقوام کے قومی دن ہوتے ہیں اس طرح 14 اگست ہمارا قومی دن ہے۔ تاہم ہمارے لئے اس کی اہمیت محض دن سے کہیں زیادہ ہے۔ اس روز عوام نے نہ صرف مادی طور پر آزادی حاصل کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک تصور اور آدرش کی جیت بھی ہوئی۔
آج سے 15 برس قبل آج ہی کے دن قائداعظم نے جب کراچی میں پاکستان کا پرچم لہرایا تو پاکستانی عوام کو یہ پرمسرت شعور ملا کہ آخر کار ان کی غلامی کی زنجیریں کٹ گئی ہیں اور ان کی عزیز آرزوؤں کی تکمیل کی راہ کھل گئی ہے۔ جب ہم گذشتہ 14 برس کے عرصے پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے ذہن میں پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ ہماری وہ قومی آرزوئیں جن کی خاطر ہم نے اس قدر محنت اور جاں فشانی سے کام کیا' ہمیں ان کی تکمیل میں کہاں تک کامیابی حاصل ہو سکی ہے۔ کیا ہم اپنے مقاصد کے حصول کے کہیں قریب بھی پہنچ پائے ہیں؟
آپ نے قائداعظم کی زیر قیادت جدوجہدکی اور جنگ لڑی تاکہ ایک جمہوری ملک حاصل کر سکیں۔ ایک ایسا ملک جس میں عوام کی رائے کو سب سے برتر مقام حاصل ہو۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ اس تصور اور مقصد کے بارے میں کبھی کسی شک کا شکار نہیں ہوئے۔مگر مختلف عوامل اور طاقتوں کا ایک سلسلہ ہے جس نے جمہوری نظام کے فطری ارتقاء کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے اور ملک میں آئینی بحران پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے' لیکن ان کی یہ تمام کوششیں ناکام رہیں اور یہ بات عوام کی ہمت' حوصلے اور جرأت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران ملک کو زبردست سیاسی صدمات برداشت کرنا پڑے۔ جنہوں نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ گھٹیا اور حد درجہ پست ہتھکنڈے اختیار کئے گئے' لیکن مجھے خوشی ہے کہ عوام نے ان ہتھکنڈوں کو بری طرح مسترد کر دیا۔ تاہم ان واقعات کے نتیجے میں یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے آئی کہ جمہوری اداروں کو اب بھی نارمل طریقے سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ یوں ہماری آرزوؤں اور امیدوں کی اس سرزمین پہ بار بار ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو ہمیں ایک کے بعد دوسرا صدمہ پہنچا رہے ہیں۔ ان کی بدولت غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے اور ہمارا قومی افتخار پارہ پارہ ہو رہا ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کا جو جی چاہتا ہے وہ کرتے ہیں اور کوئی نہیں جو ان کے کاموں کے حولے سے ان سے پرسش کرے۔ آج ہر شے کا محور وہ خود بنے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کسی عمل پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ حکومتی معاملات کو چلانے کے غرض سے جو کچھ عوام کے نام پہ اور ان کی طرف سے کیا جا رہا ہے' وہ اس پہ محض خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے' نہ ہی انہیں ایسا بن کر رہنا چاہئے۔ حاکمیت اعلیٰ کے اصل' مالک عوام ہیں۔ انہیں اس بات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ مملکت کے امور ان کی رضا اور خواہش کے مطابق سرانجام پا رہے ہیں یا نہیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ جمہوری ادارے اور صحت مند رواج جو کسی بھی زندہ اور جاندار معاشرے کے لئے زندگی بخش خون کی حیثیت رکھتے ہیں' اندر ہی اندر ان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نمائندہ سیاسی جماعتیں جو ہماری اجتماعی منشاء کے اظہار کا واحد ذریعہ ہیں' انہیں کمزور کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ بغل بچہ جماعتیں تشکیل دی جا رہی ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جسے مزید جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔
آپ کو چاہیئے کہ گہری سوچ بچار کے بعد اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کا انتخاب کریں اور پھر اس کے فرض شناس رکن کی حیثیت سے بہت ہوشیاری اور فعال طریقے سے اس کے لئے کام کریں۔ اگر آپ یہ فریضہ سرانجام نہیں دیں گے تو پاکستان میں جمہوریت کو ایسا شدید نقصان پہنچ جائے گا جس کا ازالہ ہونا بہت مشکل ہو گا۔ اس موقع پر فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ کی توجہ قومی زندگی کے ان معاملات کی طرف دلانا چاہتی ہوں اور بتانا چاہتی ہوں کہ اس مشکل وقت میں درست رویے' ہمت جرأت اتحاد' یقین محکم اور نظم و ضبط کی ضرورت ہے تاکہ قومی معاملات کو درست سمت میں چلایا جا سکے۔
یاد رکھیے۔ اصولوں پر کبھی کسی صورت میں سمجھوتہ نہ کیجئے۔ عظیم انسان قربانی دینے میں کبھی کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے اور جب کبھی ان کے سامنے اصولوں کی بات آتی ہے وہ ڈٹ جاتے ہیں۔ وہ اصولوں کی شکست پر جان دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کسی قسم کا کوئی لالچ انہیں ان کے راستے سے نہیں ہٹا سکتا۔ قائداعظم بھی ہمیشہ اسی اصول پر کام کرتے رہے۔ یہ بات اچھی طرح آپ کے علم میں ہے کہ انہوں نے پاکستان کے مسئلے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس لئے میں آپ سے درخواست کرتی ہوں اور آپ کو یاد دلاتی ہوں کہ آپ کے خدا' آپ کے ملک اور آپ کی قوم کی طرف سے آپ پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ ثابت قدمی سے اپنے اصولوں پہ قائم رہیں۔