نومسلم بہنیں تحفظ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کا انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا حکم
نیوزی لینڈ سے سیکھیں اقلیتوں کا تحفظ کیسے ہوتا ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
ہائی کورٹ نے نومسلم بہنوں کی تحفظ کے لئے دائر درخواست کی سماعت کے دوران انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے سندھ سے تعلق رکھنے والی 2 نو مسلم بہنوں کی درخواست پرسماعت کی۔ اسلام آباد انتظامیہ نے آسیہ اورنادیہ کوعدالت کے روبرو پیش نہیں کیا تاہم دونوں بہنوں کے شوہر صفدرعلی اوربرکت علی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ سیکرٹری داخلہ اورچیف سیکریٹری سندھ کہاں ہیں، سندھ کے مخصوص ضلع میں ایسا کیوں ہورہا ہے، اسلام اقلیتوں کے تحفظ کا درس دیتا ہے، ریاست کا رویہ بہت مایوس کن ہے، ریاست اس مسئلے کو غیر سنجیدہ کیوں لے رہی ہے، دنیا میں ہمارا تاثراچھا نہیں جارہا، سمجھ نہیں آرہی حکومت اس مسئلہ کو کیوں حل نہیں کرناچاہتی۔
سماعت کے دوران وزارت داخلہ کے نمائندے کی جانب سے کہا گیا کہ مجھے کل سماعت کا حکم نامہ ملا جس پرچیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اتنی بے حسی، نیوزی لینڈ سے سیکھیں اقلیتوں کا تحفظ کیسے ہوتا ہے، شفاف طریقے سے اس معاملے کی انکوائری کی ضرورت ہے، انکوائری حکومت کا کام ہے یہ عدالت نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ کہیں زبردستی مذہب تبدیل نہ ہوا ہو، یہ بھی دیکھنا ہے کہ لڑکیاں نابالغ نہ ہوں، وہ رپورٹ آجائے تو عدالت اس کودیکھ لے گی۔ عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ نے 5 ممبران پرمشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دیتے ہوئے کراچی سے مفتی تقی عثمانی کو بھی کمیشن میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔
نو مسلم بہنوں کا کیس کیا ہے؟
گزشتہ ماہ گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو شہری ہری لال کی احتجاج کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ کہتا ہے کہ اس کی 2 بیٹیاں اغوا کرلی گئی ہیں، بعد ازاں دونوں بہنوں کی قبول اسلام اور نکاح کی وڈیو منظر عام پر آئی تھی، وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیا تھا جس کے بعد ہونے والی گرفتاریوں پر دونوں بہنوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھیں، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ انہوں نے زبردستی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا، انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔عدالت عالیہ کے حکم پر لڑکیوں روینا اور رینا کو شہید بینظیر بھٹو کرائسز سینٹر منتقل کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے سندھ سے تعلق رکھنے والی 2 نو مسلم بہنوں کی درخواست پرسماعت کی۔ اسلام آباد انتظامیہ نے آسیہ اورنادیہ کوعدالت کے روبرو پیش نہیں کیا تاہم دونوں بہنوں کے شوہر صفدرعلی اوربرکت علی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ سیکرٹری داخلہ اورچیف سیکریٹری سندھ کہاں ہیں، سندھ کے مخصوص ضلع میں ایسا کیوں ہورہا ہے، اسلام اقلیتوں کے تحفظ کا درس دیتا ہے، ریاست کا رویہ بہت مایوس کن ہے، ریاست اس مسئلے کو غیر سنجیدہ کیوں لے رہی ہے، دنیا میں ہمارا تاثراچھا نہیں جارہا، سمجھ نہیں آرہی حکومت اس مسئلہ کو کیوں حل نہیں کرناچاہتی۔
سماعت کے دوران وزارت داخلہ کے نمائندے کی جانب سے کہا گیا کہ مجھے کل سماعت کا حکم نامہ ملا جس پرچیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اتنی بے حسی، نیوزی لینڈ سے سیکھیں اقلیتوں کا تحفظ کیسے ہوتا ہے، شفاف طریقے سے اس معاملے کی انکوائری کی ضرورت ہے، انکوائری حکومت کا کام ہے یہ عدالت نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ کہیں زبردستی مذہب تبدیل نہ ہوا ہو، یہ بھی دیکھنا ہے کہ لڑکیاں نابالغ نہ ہوں، وہ رپورٹ آجائے تو عدالت اس کودیکھ لے گی۔ عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ نے 5 ممبران پرمشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دیتے ہوئے کراچی سے مفتی تقی عثمانی کو بھی کمیشن میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔
نو مسلم بہنوں کا کیس کیا ہے؟
گزشتہ ماہ گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو شہری ہری لال کی احتجاج کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ کہتا ہے کہ اس کی 2 بیٹیاں اغوا کرلی گئی ہیں، بعد ازاں دونوں بہنوں کی قبول اسلام اور نکاح کی وڈیو منظر عام پر آئی تھی، وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیا تھا جس کے بعد ہونے والی گرفتاریوں پر دونوں بہنوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھیں، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ انہوں نے زبردستی نہیں بلکہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا، انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔عدالت عالیہ کے حکم پر لڑکیوں روینا اور رینا کو شہید بینظیر بھٹو کرائسز سینٹر منتقل کیا گیا تھا۔