معیشت کی بحالی کے لیے میثاق

اسٹیٹ بینک کی ملکی معیشت کے بارے میں حالیہ رپورٹ نے تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کو عیاں کردیا۔

tauceeph@gmail.com

ملک میں مہنگائی 7.5 فیصد رہے گی۔ مجموعی ملکی پیداوارکی شرح 4 فیصد تک محدود رہے گی۔ معاشی ابتری کے اثرات بڑے پیمانے پر صنعتی تنزلی کا سبب بنتے رہے ، درآمدات اور سرمایہ کاری میں کمی رہی ۔

شرح سود میں اضافہ ، ترقیاتی اخراجات میں کمی اور ریگولیٹری اقدامات سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات برآمد ہوئے۔ گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا۔ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے معیشت مزید تنزلی کا شکار ہوگی۔ اسٹیٹ بینک کی ملکی معیشت کے بارے میں حالیہ رپورٹ نے تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کو عیاں کردیا۔

اسٹیٹ بینک نے گزشتہ تین ماہ کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سرمایہ کاری میں کمی سے نجی قرض گیری کم رہی۔ خریف کی فصل کی پیداوار قلت نے معاشی سست روی کو بڑھا دیا۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی پی کے اگلے مرحلے میں صنعتوں کا قیام عمل میں آئے گا مگر ملک میں تکنیکی ماہرین کی کمی ہے جس کی بناء پر چینی ماہرین کی تعداد بڑھے گی۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے ساتھ یہ خبریں ذرایع ابلاغ کی سرخیوں میں ظاہر ہوئیں کہ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے والی ہیں۔

پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ چین سے 2 ارب 10 کروڑ ڈالر کی رقم حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی، یوں زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب ہوگئے مگر چین سے وصول ہونے والی رقم کی سود کے ساتھ ادائیگی کے لیے حکومت کو آیندہ سال پھر کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے قرضہ لینا پڑے گا۔ ایک طرف ملکی معیشت کی تاریک تصویر اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے ظاہر ہوئی تو دوسری طرف ملائیشیا کے صدر مہاتیر کے اسلام آباد میں اس بیان سے کہ ملائیشیا پاکستان اور بھارت کے درمیان جھگڑے میں غیر جانبدار رہے گا اور دہشت گردی کی مذمت کرے گا سے محسوس ہوتا کہ بین الاقوامی کنیوس پر پاکستان کئی دوست ممالک کو کھو رہا ہے۔

اس ملک کی عجیب روایت ہے کہ جب بھی کوئی حکومت برسر اقتدار آتی ہے تو اس کو خزانہ خالی ملتا ہے مگر نئی حکومت ابتدائی تین ماہ میں معیشت کو متحرک کرنے کے لیے پالیسی تیارکرتی ہے اور ایسے اقدامات تجویز کرتی ہے کہ سرمایہ کار فوری طور پر سرماریہ کاری کی طرف راغب ہوتے ہیں اور غیر ملکی مالیاتی ادارہ قرضے اورگرانٹ دینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ یوں پہلے تین ماہ کے خاتمے پر معیشت کی بحالی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔

جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی تو حکومتی نظام معطل تھا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی وکلاء کی تحریک طویل ہونے سے معیشت تنزلی کا شکار تھی مگر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے معیشت کی بحالی کے لیے دوست ممالک سے مدد حاصل کی۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو ریلیف پیکیج دینے پر آمادہ کیا گیا۔ ملک میں سرمایہ کاروں کو نئی ترغیبات دی گئیں، یوں معیشت دوبارہ متحرک ہونے لگی۔ اگرچہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ازخود نوٹس سے پید اہونے والی صورتحال سے نظام حکومت مفلوج ہوا مگر حالات ابتر نہ ہوئے۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے بجلی اور گیس کی قلت دور کرنے کے لیے قطر سے این ایل جی کی درآمد کے لیے معاہدہ کیا۔


یوں این ایل جی کی درآمد سے بجلی اور گیس کی قلت کم ہونا شروع ہوئی۔ میاں نواز شریف نے سرمایہ کاری کے نئے مواقعے تلاش کیے۔ چین سے معاہدے کے بعد سی پیک کے منصوبوں کا آغاز ہوا۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹیکس کلچر کے دائرے کو بڑھانے کے لیے ایک اچھی پالیسی تیار کی۔ ان کے دور کے خاتمے تک انرجی کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوا۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے کرپشن کے خاتمے کو بطور نعرہ کے استعمال کیا۔ انرجی سیکٹر کو متحرک کرنے کے لیے قطر سے ہونے والے معاہدہ پر شدید نکتہ چینی کی۔ نیب نے اپنا دائرہ بڑھالیا۔ یوں سرمایہ کار اور تاجر خوفزدہ ہوگئے۔

انھوں نے سرمایہ کاری کے منصوبوں کو بند کردیا۔کچھ سرمایہ کار اپنے منصوبے بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں لے گئے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھ گیا۔ عمران خان کی حکومت نے صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے مخالفین کو جیل بھیجنے کی دھمکیاں دینے شروع کیں جس کے نتیجے میں بیوروکریسی مفلوج ہوئی اور تاجروں اور صنعتکاروں نے اپنے سرمایہ کو چھپا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت کے بنیادی اہداف پورے نہ ہوسکے۔

عمران خان کی حکومت کے سامنے منی لانڈرنگ اور شدت پسند تنظیموں کے مالی ذرایع کی روک تھام کے لیے عالمی فنانشل ایکشن ٹاسک فور س (F.A.T.F) کی ہدایات پر عملدرآمد بھی ایک چیلنج بن گیا۔ اس رپورٹ پر عملدرآمد ہونے سے حکومت کو بینکوں اور منی چینجرز پر سخت پابندیاں عائد کرنی پڑیں مگر یہ فورس ایشیاء اور مشرق بعید کے ممالک میں دہشت گردی کے لیے مالیاتی پائپ لائن پر نظر رکھتی ہے، جس کا اثر براہ ِراست ملک کی معیشت پر پڑا۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے جامع پالیسی نہ بناسکی۔

یوں اب خطرہ ہے کہ یہ ٹاسک فورس پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج نہیں کرے گی کیونکہ ابھی تک ٹاسک فورس کی طے کردہ 70 فیصد شرائط پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف اے ٹی ایف اپنی 4سفارشات میں سے ابھی تک 38 پر عملدرآمد کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہے۔ گرے لسٹ سے بچنے کے لیے 35 سفارشات پر عملدرآمد ضروری ہے۔ اس ٹاسک فورس کے فیصلوں سے ملکی معیشت جو پہلے ہی کمزور ہے مزید متاثر ہوگی۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے ریلیف پیکیج کے لیے معاہدہ ہوا اور آئی ایم ایف کی ری اسٹرکچرنگ کی سفارشات پر عملدرآمد سے مہنگائی کا ایک نیا سیلاب آئے گا جو متوسط اور نچلے طبقے کے لیے شدید مشکلات کھڑی کردے گا۔

اس وقت پڑھے لکھے لوگوں میں بے روزگاری کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے ہر فرد اور خاندان کی بجٹ الٹ پلٹ ہوگیا ہے۔ مگر اس بگڑتی ہوئی صورتحال کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کسی بھی منصوبہ بندی کا نہیں سوچا۔ عمران خان کی حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے نئی وزارت بنانے، خواتین کے سیونگ اکاؤنٹ کھولنے اور دیہی خواتین کو دیسی مرغیاں اور بکریاں فراہم کرنے کے منصوبہ کا اعلان کیا ہے۔

ماہرین اقتصادیات اس بات پر متفق ہیں کہ محض دیسی مرغیوں کی افزائش نسل اور دیسی انڈوں کی پیداوار بڑھنے اور بکریوں کی افزائش نسل سے غربت کے خط کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح کم نہیں ہوگی۔ غربت کے خاتمے کے لیے صنعتی معاشرے کا قیام ضروری ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت ابھی تک معیشت کو بحران سے نکال نہیں پائی ہے۔

کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت وفاقی بجٹ کی ترجیحات میں تبدیلی نہیں لاسکتی۔ دوست ممالک اب ماضی کی طرح فیاضی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کا اظہار اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ میں ہورہا ہے۔ عمران خان محض خوبصورت نعروں سے نظام حکومت نہیں چلاسکتے۔ یہ وقت ہے کہ وفاقی حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر معیشت کی بحالی کے لیے میثاق تیار کریں۔ اس نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد سماجی جمہوریت پر ہو اور تمام جماعتیں اس میثاق پر دستخط کریں۔
Load Next Story