کشمیر قرارداد کے بعد
ہندوستان کا اصرار تھا کہ رائے شماری سے قبل ’’آزادکشمیر فورسز‘‘کو ختم کرنا ایک لازمی شرط ہے۔
پچھلے کالم میں ذکر ہوا تھا کہ سلامتی کونسل کی 21اپریل 1948کو منظور ہونے والی قرارداد نمبر 47کے تحت ایک کمیشن کے قیام کا کہا گیا 'جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر میں جنگ بندی اور رائے شماری کے معاملات کی نگرانی کرے گا'دونوں ملکوں نے اس کمیشن کے ساتھ تعاون کا وعدہ کیا تھا۔
یہ کمیشن پانچ ممبران پر مشتمل تھا'جس میں چیکوسلواکیہ کے جوزف کوربل 'ارجنٹائن کے ریکارڈو سری'بلجیم کے ایگبرٹ گرافی'کولمبیا کے الفریدو لوزانو اور امریکا کے جیرومی کراہل ہڈل شامل تھے۔ ناروے کے برطانیہ میں سفیر ایرک کولبن سیکٹریٹ کے انچارج اور برطانیہ کے رچرڈ سیمنڈکولبن کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔ ذرایع کا کہنا تھا کہ جولائی 1948کو برصغیر پہنچنے پر کمیشن کے لیے فضاء زیادہ سازگار نہ تھی۔
13اگست 1948کو دونوں حکومتوں کے ساتھ بحث مباحثے کے بعد کمیشن نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی۔اس کے تین حصے تھے اور اس طرح قرارداد نمبر 47 میںترمیم کرکے اس کو زیادہ بہتر اور واضح بنایا گیا ۔
٭۔پہلے حصے میں دونوں فریقوں سے فوری طور پر مکمل جنگ بندی کرنے کو کہا گیا۔٭۔دوسرے حصے میںجنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں کہا گیا تھا ۔مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر پاکستان اپنی فورسزکشمیر سے نکال د ے 'اس طرح جو علاقہ خالی ہوگا 'وہ کمیشن کی زیر نگرانی مقامی انتظامیہ چلائے گی' پاکستانی انخلاء کے بعد 'ہندوستان سے توقع ہے کہ وہ اپنی زیادہ تر فوج کشمیر سے نکال کر 'صرف اتنی فوج رکھے گا جو امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو۔ ٭۔تیسرے حصے میں کہا گیا کہ جنگ بندی معاہدے کی منظوری کے بعد 'دونوں ملک کمیشن کے ساتھ مشورہ کریں گے تاکہ عوام کی مرضی کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔
اس قرارداد کے الفاظ ہندوستان کے لیے بہت اہمیت کے حامل تھے ' ریاست کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے مشوروں سے قبل جنگ بندی معاہدے کو لازمی قرار دیا تھا ۔اس قرارداد میں عوام کی رائے جاننے کے لیے دیگر طریقوں کا ذکر تھا 'جیسا کہ ایک آئین ساز اسمبلی کا انتخاب کرانا'ہندوستان کو ڈر تھا کہ رائے شماری کے دوران مذہبی جذبات بھڑک کر ہنگاموں میں بدل سکتے ہیں۔ہندوستان نے کمیشن کے قرارداد کو منظور کرلیا' پاکستان نے اس قرارداد کے ساتھ اتنے تحفظات اور شرائط لگائے کہ کمیشن کے ارکان کی رائے میں یہ قرارداد کو مسترد کرنے کے مترادف تھا۔
کمیشن کے خیال میں پاکستان کی خواہش تھی کہ جنگ بندی کے فوری بعد آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کرائی جائے 'اس لیے کمیشن نے اگست کی قرارداد میں اضافہ کیا اور رائے شماری کرانے لیے تجاویز مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ۔اس میں رائے شماری ایڈمنسٹریٹر کے فرائض کا تعین کیا 'جس میں دیگر امور کے علاوہ آزاد کشمیر اور انڈیا کے فوجوں کی اختیارات بھی دیے گئے تھے۔ انڈیا نے اعتراض کیا کہ اس کو مزید رعایتیں دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے جب کہ پاکستان نے ابھی جنگ بندی کے معاہدے کو تسلیم نہیں کیا 'وہ مزید کئی ضمانتیں چاہتا تھا 'اس نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اگر پاکستان اگست قرارداد کی پہلی دو شرائط پر عمل درآمد نہیں کرتا تو پھر وہ رائے شماری کے نتائج تسلیم کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔
اس نے یہ یقین دہانی بھی مانگی کہ رائے شماری سے قبل آزاد فورس کو ختم کردیا جائے گا۔تحفظات 'سوالات اور اختلافات کے باوجود دونوں حکومتوں نے آخرکار تجاویز منظور کرلیں'اس طرح یکم جنوری 1949کو جنگ بندی عمل میں آئی۔کمیشن نے اضافی تجاویز کو ایک اور قرارداد میں شامل کرکے 5جنوری 1949کو منظور کردیا' جنگ بندی پر عمل درآمد 'اس کے معاہدے کی تفصیلات طے کرنے اور رائے شماری کی تیاری کے لیے کمیشن فروری 1949کو برصغیر واپس آیا 'کوربل کا کہنا تھا کہ کمیشن کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ہندوستان کا اصرار تھا کہ رائے شماری سے قبل ''آزادکشمیر فورسز''کو ختم کرنا ایک لازمی شرط ہے 'کوربل کے مطابق یہ شرط کمیشن کے لیے ایک جھٹکا ثابت ہوئی 'یہ شرط پچھلی دفعہ طے ہوگئی تھی لیکن ہندوستان نے اس کو دوبارہ تازہ کیا۔ جنگ بندی کے مذاکرات کے دوران' پاکستان کا اصرار تھا کہ آزاد فورس اور ریاست کی فورس میں برابری ہونی چائیے 'اس نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اجازت ہونی چائیے کہ پاکستان اس فورس کو تربیت دے اور پاکستان کی فوج جو جگہ خالی کرے' یہ فورس اس کی جگہ سنبھالے۔ہندوستان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ جیسے ہی ہندوستان اپنی فوج میں کمی کرے تو وہ دوبارہ جنگ شروع کر سکے۔
اسی لیے اس نے یہ مطالبہ دہرایا کہ جنگ بندی کے دوران ہی آزاد فورس کو ختم کیا جائے۔ پاکستان نے اس مطالبے کو رد کردیا اور آزاد فورس اور ریاستی فورس کے درمیان برابرتعداد پر زور دیا 'پاکستان نے ہندوستان کے انخلاء کے مکمل پروگرام سے باخبر رہنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ ہندوستانی فوج کا انخلاء بھی پاکستانی فوج کے انخلاء کے ساتھ ہونا چائیے۔جب دونوں ممالک کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنانے پر تیار نہیں ہوئے تو کمیشن نے ثالثی کی تجویز پیش کی۔
پاکستان نے یہ تجویز مان لی لیکن ہندوستان نے مسئلے کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ثالثی کی 'کمیشن نے بھی یہ تسلیم کیا کہ ہندوستانی فوج کا انخلاء اب مشکل ہو گیا ہے جیسے کہ ابتدائی اسکیم کا حصہ تھا'ایک اور مشکل مسئلہ شمالی علاقہ جات یعنی گلگت بلتستان کا بھی تھا۔کمیشن نے تجویز پیش کی کہ یہ علاقے کمیشن کے زیر نگرانی مقامی انتظامیہ کی تحویل میں دیے جائیں اور ہندوستانی فوج کو اس وقت بلایا جائے جب اقوام متحدہ کے آبزور ایسا کرنے کو کہیں' یہ تجویز ہندوستان اور پاکستان دونوں نے رد کردی۔
کمیشن نے اپنی ناکامی کا اعتراف کردیا اور 9دسمبر 1949کو سلامتی کونسل کو اپنی آخری رپورٹ پیش کردی 'یہ تجویز بھی دی کہ کمیشن کے بجائے ایک رکنی ثالث مقرر کیا جائے 'جس کو ریاست سے فوجی انخلاء اور دوسرے معاملات میں ثالثی کا اختیار بھی ہو۔چیکوسلواکیہ کے نمایندے نے اقلیتی رپورٹ داخل کی جس میں اس نے کمیشن کی ناکامی کو قبل از وقت قراردیا اور کہا کہ آزاد فورسز اور شمالی علاقہ جات کے مسئلے کو مناسب توجہ نہیں دی گئی ۔
سلامتی کونسل نے کینیڈا کے نمایندے جنرل A.G.L McNaughton۔سے کہا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان سے 'ریاست کو غیر فوجی علاقہ بنانے کا مشورہ کرے۔22دسمبر 1949کو میکناٹن نے تجویز دی کہ ہندوستان اور پاکستان کی فوجوں کی تعداد کم از کم حد تک کم کی جائے' اس کے بعد آزاد فورسز اور ریاست کی سرکاری فورسز کو ختم کیا جائے 'ہندوستان نے یہ تجاویز مسترد کر دی۔ ہندوستان کے اختلاف کے باوجود سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 80کے ذریعے میکناٹن کی تجاویز منظور کرلیں اور ایک ثالث کو مقرر کردیا'یہ ثالثی بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔بعد کے واقعات۔
1971 کی ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں نے شملہ معاہدے پر دستخط کیے 'جس میںیہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ملک اپنے تنازعات کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریںگے 'امریکا'برطانیہ اور زیادہ تر یورپی ممالک اس تجویزاور طریقہ کار کی حمایت کرتے ہیں۔ 2001میںاقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی حنان نے ہندوستان اور پاکستان کا دورہ کیا اور یہاں انھوں نے کہا کہ کشمیر کے متعلق قراردادو ں کی حیثیت صرف تجاویز اورسفارشات کی تھی۔
2003میں پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ پاکستان کشمیر قراردادوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے دیگر ذرایع استعمال کرنا چاہتا ہے۔ایک دلچسپ خبر 1941کی مردم شماری کے مطابق کشمیر کی آبادی '77فی صد مسلمان'20فی صد ہندو اور 3فیصد بدھ مذہب پر مشتمل تھی۔ان حالات میں کشمیر کے مسئلے کا حل کیا ہو'اس پر آیندہ۔
یہ کمیشن پانچ ممبران پر مشتمل تھا'جس میں چیکوسلواکیہ کے جوزف کوربل 'ارجنٹائن کے ریکارڈو سری'بلجیم کے ایگبرٹ گرافی'کولمبیا کے الفریدو لوزانو اور امریکا کے جیرومی کراہل ہڈل شامل تھے۔ ناروے کے برطانیہ میں سفیر ایرک کولبن سیکٹریٹ کے انچارج اور برطانیہ کے رچرڈ سیمنڈکولبن کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔ ذرایع کا کہنا تھا کہ جولائی 1948کو برصغیر پہنچنے پر کمیشن کے لیے فضاء زیادہ سازگار نہ تھی۔
13اگست 1948کو دونوں حکومتوں کے ساتھ بحث مباحثے کے بعد کمیشن نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی۔اس کے تین حصے تھے اور اس طرح قرارداد نمبر 47 میںترمیم کرکے اس کو زیادہ بہتر اور واضح بنایا گیا ۔
٭۔پہلے حصے میں دونوں فریقوں سے فوری طور پر مکمل جنگ بندی کرنے کو کہا گیا۔٭۔دوسرے حصے میںجنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں کہا گیا تھا ۔مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر پاکستان اپنی فورسزکشمیر سے نکال د ے 'اس طرح جو علاقہ خالی ہوگا 'وہ کمیشن کی زیر نگرانی مقامی انتظامیہ چلائے گی' پاکستانی انخلاء کے بعد 'ہندوستان سے توقع ہے کہ وہ اپنی زیادہ تر فوج کشمیر سے نکال کر 'صرف اتنی فوج رکھے گا جو امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو۔ ٭۔تیسرے حصے میں کہا گیا کہ جنگ بندی معاہدے کی منظوری کے بعد 'دونوں ملک کمیشن کے ساتھ مشورہ کریں گے تاکہ عوام کی مرضی کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔
اس قرارداد کے الفاظ ہندوستان کے لیے بہت اہمیت کے حامل تھے ' ریاست کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے مشوروں سے قبل جنگ بندی معاہدے کو لازمی قرار دیا تھا ۔اس قرارداد میں عوام کی رائے جاننے کے لیے دیگر طریقوں کا ذکر تھا 'جیسا کہ ایک آئین ساز اسمبلی کا انتخاب کرانا'ہندوستان کو ڈر تھا کہ رائے شماری کے دوران مذہبی جذبات بھڑک کر ہنگاموں میں بدل سکتے ہیں۔ہندوستان نے کمیشن کے قرارداد کو منظور کرلیا' پاکستان نے اس قرارداد کے ساتھ اتنے تحفظات اور شرائط لگائے کہ کمیشن کے ارکان کی رائے میں یہ قرارداد کو مسترد کرنے کے مترادف تھا۔
کمیشن کے خیال میں پاکستان کی خواہش تھی کہ جنگ بندی کے فوری بعد آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کرائی جائے 'اس لیے کمیشن نے اگست کی قرارداد میں اضافہ کیا اور رائے شماری کرانے لیے تجاویز مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ۔اس میں رائے شماری ایڈمنسٹریٹر کے فرائض کا تعین کیا 'جس میں دیگر امور کے علاوہ آزاد کشمیر اور انڈیا کے فوجوں کی اختیارات بھی دیے گئے تھے۔ انڈیا نے اعتراض کیا کہ اس کو مزید رعایتیں دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے جب کہ پاکستان نے ابھی جنگ بندی کے معاہدے کو تسلیم نہیں کیا 'وہ مزید کئی ضمانتیں چاہتا تھا 'اس نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اگر پاکستان اگست قرارداد کی پہلی دو شرائط پر عمل درآمد نہیں کرتا تو پھر وہ رائے شماری کے نتائج تسلیم کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔
اس نے یہ یقین دہانی بھی مانگی کہ رائے شماری سے قبل آزاد فورس کو ختم کردیا جائے گا۔تحفظات 'سوالات اور اختلافات کے باوجود دونوں حکومتوں نے آخرکار تجاویز منظور کرلیں'اس طرح یکم جنوری 1949کو جنگ بندی عمل میں آئی۔کمیشن نے اضافی تجاویز کو ایک اور قرارداد میں شامل کرکے 5جنوری 1949کو منظور کردیا' جنگ بندی پر عمل درآمد 'اس کے معاہدے کی تفصیلات طے کرنے اور رائے شماری کی تیاری کے لیے کمیشن فروری 1949کو برصغیر واپس آیا 'کوربل کا کہنا تھا کہ کمیشن کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ہندوستان کا اصرار تھا کہ رائے شماری سے قبل ''آزادکشمیر فورسز''کو ختم کرنا ایک لازمی شرط ہے 'کوربل کے مطابق یہ شرط کمیشن کے لیے ایک جھٹکا ثابت ہوئی 'یہ شرط پچھلی دفعہ طے ہوگئی تھی لیکن ہندوستان نے اس کو دوبارہ تازہ کیا۔ جنگ بندی کے مذاکرات کے دوران' پاکستان کا اصرار تھا کہ آزاد فورس اور ریاست کی فورس میں برابری ہونی چائیے 'اس نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اجازت ہونی چائیے کہ پاکستان اس فورس کو تربیت دے اور پاکستان کی فوج جو جگہ خالی کرے' یہ فورس اس کی جگہ سنبھالے۔ہندوستان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ جیسے ہی ہندوستان اپنی فوج میں کمی کرے تو وہ دوبارہ جنگ شروع کر سکے۔
اسی لیے اس نے یہ مطالبہ دہرایا کہ جنگ بندی کے دوران ہی آزاد فورس کو ختم کیا جائے۔ پاکستان نے اس مطالبے کو رد کردیا اور آزاد فورس اور ریاستی فورس کے درمیان برابرتعداد پر زور دیا 'پاکستان نے ہندوستان کے انخلاء کے مکمل پروگرام سے باخبر رہنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ ہندوستانی فوج کا انخلاء بھی پاکستانی فوج کے انخلاء کے ساتھ ہونا چائیے۔جب دونوں ممالک کشمیر کو غیر فوجی علاقہ بنانے پر تیار نہیں ہوئے تو کمیشن نے ثالثی کی تجویز پیش کی۔
پاکستان نے یہ تجویز مان لی لیکن ہندوستان نے مسئلے کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ثالثی کی 'کمیشن نے بھی یہ تسلیم کیا کہ ہندوستانی فوج کا انخلاء اب مشکل ہو گیا ہے جیسے کہ ابتدائی اسکیم کا حصہ تھا'ایک اور مشکل مسئلہ شمالی علاقہ جات یعنی گلگت بلتستان کا بھی تھا۔کمیشن نے تجویز پیش کی کہ یہ علاقے کمیشن کے زیر نگرانی مقامی انتظامیہ کی تحویل میں دیے جائیں اور ہندوستانی فوج کو اس وقت بلایا جائے جب اقوام متحدہ کے آبزور ایسا کرنے کو کہیں' یہ تجویز ہندوستان اور پاکستان دونوں نے رد کردی۔
کمیشن نے اپنی ناکامی کا اعتراف کردیا اور 9دسمبر 1949کو سلامتی کونسل کو اپنی آخری رپورٹ پیش کردی 'یہ تجویز بھی دی کہ کمیشن کے بجائے ایک رکنی ثالث مقرر کیا جائے 'جس کو ریاست سے فوجی انخلاء اور دوسرے معاملات میں ثالثی کا اختیار بھی ہو۔چیکوسلواکیہ کے نمایندے نے اقلیتی رپورٹ داخل کی جس میں اس نے کمیشن کی ناکامی کو قبل از وقت قراردیا اور کہا کہ آزاد فورسز اور شمالی علاقہ جات کے مسئلے کو مناسب توجہ نہیں دی گئی ۔
سلامتی کونسل نے کینیڈا کے نمایندے جنرل A.G.L McNaughton۔سے کہا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان سے 'ریاست کو غیر فوجی علاقہ بنانے کا مشورہ کرے۔22دسمبر 1949کو میکناٹن نے تجویز دی کہ ہندوستان اور پاکستان کی فوجوں کی تعداد کم از کم حد تک کم کی جائے' اس کے بعد آزاد فورسز اور ریاست کی سرکاری فورسز کو ختم کیا جائے 'ہندوستان نے یہ تجاویز مسترد کر دی۔ ہندوستان کے اختلاف کے باوجود سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 80کے ذریعے میکناٹن کی تجاویز منظور کرلیں اور ایک ثالث کو مقرر کردیا'یہ ثالثی بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔بعد کے واقعات۔
1971 کی ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے بعد دونوں ملکوں نے شملہ معاہدے پر دستخط کیے 'جس میںیہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ملک اپنے تنازعات کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریںگے 'امریکا'برطانیہ اور زیادہ تر یورپی ممالک اس تجویزاور طریقہ کار کی حمایت کرتے ہیں۔ 2001میںاقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی حنان نے ہندوستان اور پاکستان کا دورہ کیا اور یہاں انھوں نے کہا کہ کشمیر کے متعلق قراردادو ں کی حیثیت صرف تجاویز اورسفارشات کی تھی۔
2003میں پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ پاکستان کشمیر قراردادوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے دیگر ذرایع استعمال کرنا چاہتا ہے۔ایک دلچسپ خبر 1941کی مردم شماری کے مطابق کشمیر کی آبادی '77فی صد مسلمان'20فی صد ہندو اور 3فیصد بدھ مذہب پر مشتمل تھی۔ان حالات میں کشمیر کے مسئلے کا حل کیا ہو'اس پر آیندہ۔