پلی بارگیننگ کا شوشہ
پی ٹی آئی والے انتہائی مضطرب اور بے چینی کی حالت میں ایسے شوشے چھوڑتے جا رہے ہیں۔
حکومت اور حکومتی پارٹی کے اکابرین اور حمایتیوں کی جانب سے آجکل یہ شوشہ بڑی مستعدی اور شدومد کے ساتھ چھوڑا جا رہا ہے کہ اُنکی مخالف دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادت اندرون خانہ کسی ڈیل پر راضی ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے عدالتیں شریف برادران کو کچھ ریلیف دیتی دکھائی دے رہی ہیں، پی ٹی آئی والے انتہائی مضطرب اور بے چینی کی حالت میں ایسے شوشے چھوڑتے جا رہے ہیں۔ خود ہمارے وزیر اعظم جوکل تک یہ کہتے تھکتے نہیں تھے کہ کرپشن کرنیوالوں سے کوئی ڈیل یا ڈھیل نہیں ہوگی اب وہ خود پلی بارگیننگ کی باتیں کرنے لگے ہیں۔
انھیں خدشہ لاحق ہونے لگا ہے کہ ملکی ادارے شریف بردران کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرتے ہوئے انھیں عدالتوں کے ذریعے ریلیف دلوا رہے ہیں۔ وہ کھل کر اِن اداروں کے خلاف کچھ کہہ تو نہیں سکتے لیکن عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ پلی بارگیننگ کے تحت کیا جا رہا ہے۔ میاں صاحب اپنی رہائی کے لیے مبینہ طور پرلوٹا ہوا پیسہ واپس کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔
اب اگر عدالت صحت یا کسی اور بنیاد پراُنکی سزاؤں میں کچھ نرمی برتتی ہے اور انھیں مکمل طور پر رہا کر دیتی ہے تو وہ عوام کو یہ کہنے کے قابل ہوں کہ میاں صاحب نے پیسے دیکر رہائی حاصل کی ہے اگرچہ وہ ایک دفعہ سے زیادہ بلکہ بیسیوں بار بڑے دھڑلے سے یہ کہہ چکے ہیں کہ کوئی این آر او نہیں ہوگا۔ چوروں اور ڈاکوؤں سے کوئی ڈیل یا سمجھوتہ نہیں ہوگا مگر جیسے جیسے انھیں احساس ہونے لگا ہے کہ وہی عدالتیں جو کل تک میاں صاحب کو کسی نہ کسی طرح سزا دینے پر مصر دکھائی دیتی تھیں، آج حالات اور منظر نامہ بدل جانے پر انھیں کچھ ریلیف دینے لگی ہیں تو وہ بھی اپنے سخت مؤقف میں تبدیلی کرنے لگے ہیں۔
کوئی ڈیل نہ کرنے کے اپنے دعوے سے مکر کے اب پلی بارگیننگ کی باتیں کرنے لگے ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پلی بارگیننگ کا وقت گزر چکا ہے۔ میاں صاحب کو اگر پلی بارگیننگ کرنی ہوتی تووہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے کرجاتے۔ اب تو عدالتوں کے فیصلے بھی آ چکے ہیں اور وہ کئی ماہ سے اپنی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔ انھیں پلی بارگیننگ کرکے سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خود کو بیدخل کرنے سے بہتر آپشن اُنکے پاس لندن سے واپس نہ آنا تھا۔ وہ بھی اگر جنرل پرویز مشرف کی طرح خود ساختہ جلاوطنی اختیارکرتے ہوئے واپس نہ آتے تو شاید آج بہتر حالات میں ہوتے لندن میں اپنے بیٹوں کے ساتھ مزے میں رہ رہے ہوتے اور کوئی اُنکاکچھ بگاڑ نہیں پاتا۔ انھوں نے تو خود اپنے طور پر یہ گرفتاری قبول کی تھی۔
وہ عدالتوں کے فیصلوں کے تحت جیل گئے تھے اور اب عدالتوں ہی سے خود کو بیگناہ ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ اُنکی طبیعت اور مزاج کودیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل کہ وہ رہائی کے لیے کسی ڈیل پر راضی ہوجائینگے۔ یہی بات آصف علی زرداری کے لیے بھی کہی جا سکتی ہے۔ قطع نظر اِسکے کہ اُن پر کرپشن کے لاتعداد الزامات ہیں وہ ہمارے سیاسی میدان کے سب سے ہشیار اور ذہین شہسوار ہیں۔ وہ شہید ہو جانا پسندکر لیں گے لیکن یوں پلی بارگیننگ کرکے رہائی پا کر خود کو عوام کے سامنے رسوا نہیں ہونے دینگے۔
ماضی میں بھی وہ ایک سے زیادہ مرتبہ جیل میں ڈالے جا چکے ہیں ۔11 سال تک وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت چکے ہیں لیکن پلی بارگیننگ کرکے کبھی بھی خود کو بے آبرو ہونے نہیں دیا ۔گرفتار کرنیوالوں نے خود ہی انھیں جیل سے براہ راست ایوان صدر بلا کر وزارتوں کے نذرانے پیش کیے۔ وہ آج بھی مخالفوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ مجھے گرفتارکرو۔ وہ جیل کی زندگی سے گھبرانے والے نہیں ہیں بلکہ اُسے سیاستداں کے لیے ضروری اور اہم گردانتے ہیں ۔ ویسے پیار اور محبت میںآپ اُن سے جتنے چاہیں پیسے مانگ لیں وہ کبھی انکار نہیں کرینگے لیکن یوں زبردستی دھمکیوں سے وہ رعب میں آنیوالے نہیں۔ وہ حکمرانوں سمیت سب کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور مجبوریوں کو بھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ انھیں سب کی قیمت کا پتہ ہے ۔ انھیں معلوم ہے کہ کون کتنے میں بک سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نیب انھیں طلب ضرورکرتی ہے لیکن ایک روز کے لیے بھی انھیں جیل میں نہیں ڈال سکی۔ وہ اور اُنکی ہمشیرہ گزشتہ آٹھ ماہ سے مسلسل ضمانت پر ہیں ۔ طاقتور سے طاقتور ادارہ اُنکی یہ ضمانت ختم نہیں کرا سکا آخرکوئی وجہ تو ہوگی۔ خان صاحب کو یہ بات ابھی سمجھ میں نہیں آئیگی ، رفتہ رفتہ وہ سب کچھ سمجھ جائینگے۔ ملکی معاملات کے پیچ و خم اتنے آسان نہیں ہوتے۔ یہاں جذباتی تقریریں کرنے سے عوام کو بیو قوف تو بنایا جا سکتا ہے لیکن سیاسی معاملات کی گتھیاں جذبات سے نہیں سلجھائی جا سکتی ۔
اِس کے لیے ذہانت ، دانشمندی اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خان صاحب کو اب سمجھ لینا چاہیے اور ایسی باتوں سے اجتناب کرناچاہیے جن سے بعدازاں انھیں خفت اور پشیمانی کا سامنا ہوتا ہے اور جسے مٹانے کے لیے وہ یوٹرن یا دیگر بہانوں کا سہارا تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ ہماری عدالت عالیہ نے میاں نواز شریف کو چھ ہفتوں کے لیے جیل سے آزاد کیا ہے تاکہ وہ اپنا علاج جہاں چاہیں کرواسکیں۔دیکھا جائے تویہ کوئی اتنا بڑا ریلیف نہیں ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اور اُسکے چاہنے والوں نے انھی عدالتوں کے خلاف اِس معاملے کو لے کر اچانک زہراگلنا شروع کردیا ہے جنکی تعریفیں کرتے وہ کل تک تھکتے نہیں تھے۔ ریلوے کے وفاقی وزیر اور عمران خان کے بہت ہی عزیز دوست شیخ رشید تو اِس معاملے میں سب پرسبقت لے گئے ۔
میاں شہباز شریف کو بارگیننگ کا ماسٹر مائنڈ کہتے ہوئے وہ براہ راست توہین عدالت کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں ۔ اُنکے خیال میں بڑے میاں کی رہائی میں شہباز شریف نے کوئی کام کر دکھایا ہے ۔ گویا وہ اِس طرح عدالتوں کو الزام دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کو ریلیف دینے کے لیے عدالتوں نے اندرون خانہ کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے ۔یہی حال پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل کا بھی ہے۔ جن ججوں اورعدالتوں کو چند ماہ قبل تک وہ خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے آج صرف ایک فیصلے کے بعد انھیں اپنی سخت تنقید اورتنقیص کا نشانہ بنا رہے ہیں دوسری جانب اُنکی حکومت لوگوں میں یہ تاثر پھیلانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے جیسے یہ سب کچھ کسی ڈیل کے تحت ہو رہا ہے ۔
میاں صاحب اربوں روپے واپس کرنے پر راضی ہوچکے ہیں اور جسکے عوض وہ سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے دیار غیر میں اپنی زندگی کے آخری ایام آرام وسکون سے گذارینگے لیکن ہمارا خیال ہے کہ کوئی اہم اور بڑا سیاستداں ایسا کرکے خود اپنے اوپرکرپشن کی مہر تصدیق ثبت نہیں کرسکتا نہ میاں نواز شریف ایسا کرینگے اور نہ آصف علی زرداری یہ کر سکتے ہیں ۔
خان صاحب ایسا کہکر نہ صرف اپنے آپکو دھوکہ دے رہے ہیں بلکہ اپنے ووٹروں کو بھی بلاوجہ خوش گمانیوں کے فریب میں مبتلا کر رہے ہیں۔ اُنکا یہ کہنا کہ میاں صاحب اور زرداری کے پاس اِسکے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کہ لوٹا ہوا پیسہ واپس کریں اور رہائی پائیں خود اپنے اُس عہد اور دعوے کی نفی کرتا ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہونے جا رہا نہ کوئی ڈیل ہوگی اور نہ کوئی ڈھیل پھر ڈیل کی ایسی باتیں کر کے نجانے خان صاحب کسے مطمئن کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے عوام کو یا اپنے صرف آپ کو ۔
انھیں خدشہ لاحق ہونے لگا ہے کہ ملکی ادارے شریف بردران کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرتے ہوئے انھیں عدالتوں کے ذریعے ریلیف دلوا رہے ہیں۔ وہ کھل کر اِن اداروں کے خلاف کچھ کہہ تو نہیں سکتے لیکن عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ پلی بارگیننگ کے تحت کیا جا رہا ہے۔ میاں صاحب اپنی رہائی کے لیے مبینہ طور پرلوٹا ہوا پیسہ واپس کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔
اب اگر عدالت صحت یا کسی اور بنیاد پراُنکی سزاؤں میں کچھ نرمی برتتی ہے اور انھیں مکمل طور پر رہا کر دیتی ہے تو وہ عوام کو یہ کہنے کے قابل ہوں کہ میاں صاحب نے پیسے دیکر رہائی حاصل کی ہے اگرچہ وہ ایک دفعہ سے زیادہ بلکہ بیسیوں بار بڑے دھڑلے سے یہ کہہ چکے ہیں کہ کوئی این آر او نہیں ہوگا۔ چوروں اور ڈاکوؤں سے کوئی ڈیل یا سمجھوتہ نہیں ہوگا مگر جیسے جیسے انھیں احساس ہونے لگا ہے کہ وہی عدالتیں جو کل تک میاں صاحب کو کسی نہ کسی طرح سزا دینے پر مصر دکھائی دیتی تھیں، آج حالات اور منظر نامہ بدل جانے پر انھیں کچھ ریلیف دینے لگی ہیں تو وہ بھی اپنے سخت مؤقف میں تبدیلی کرنے لگے ہیں۔
کوئی ڈیل نہ کرنے کے اپنے دعوے سے مکر کے اب پلی بارگیننگ کی باتیں کرنے لگے ہیں حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پلی بارگیننگ کا وقت گزر چکا ہے۔ میاں صاحب کو اگر پلی بارگیننگ کرنی ہوتی تووہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے کرجاتے۔ اب تو عدالتوں کے فیصلے بھی آ چکے ہیں اور وہ کئی ماہ سے اپنی سزا بھی بھگت رہے ہیں۔ انھیں پلی بارگیننگ کرکے سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خود کو بیدخل کرنے سے بہتر آپشن اُنکے پاس لندن سے واپس نہ آنا تھا۔ وہ بھی اگر جنرل پرویز مشرف کی طرح خود ساختہ جلاوطنی اختیارکرتے ہوئے واپس نہ آتے تو شاید آج بہتر حالات میں ہوتے لندن میں اپنے بیٹوں کے ساتھ مزے میں رہ رہے ہوتے اور کوئی اُنکاکچھ بگاڑ نہیں پاتا۔ انھوں نے تو خود اپنے طور پر یہ گرفتاری قبول کی تھی۔
وہ عدالتوں کے فیصلوں کے تحت جیل گئے تھے اور اب عدالتوں ہی سے خود کو بیگناہ ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ اُنکی طبیعت اور مزاج کودیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل کہ وہ رہائی کے لیے کسی ڈیل پر راضی ہوجائینگے۔ یہی بات آصف علی زرداری کے لیے بھی کہی جا سکتی ہے۔ قطع نظر اِسکے کہ اُن پر کرپشن کے لاتعداد الزامات ہیں وہ ہمارے سیاسی میدان کے سب سے ہشیار اور ذہین شہسوار ہیں۔ وہ شہید ہو جانا پسندکر لیں گے لیکن یوں پلی بارگیننگ کرکے رہائی پا کر خود کو عوام کے سامنے رسوا نہیں ہونے دینگے۔
ماضی میں بھی وہ ایک سے زیادہ مرتبہ جیل میں ڈالے جا چکے ہیں ۔11 سال تک وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت چکے ہیں لیکن پلی بارگیننگ کرکے کبھی بھی خود کو بے آبرو ہونے نہیں دیا ۔گرفتار کرنیوالوں نے خود ہی انھیں جیل سے براہ راست ایوان صدر بلا کر وزارتوں کے نذرانے پیش کیے۔ وہ آج بھی مخالفوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ مجھے گرفتارکرو۔ وہ جیل کی زندگی سے گھبرانے والے نہیں ہیں بلکہ اُسے سیاستداں کے لیے ضروری اور اہم گردانتے ہیں ۔ ویسے پیار اور محبت میںآپ اُن سے جتنے چاہیں پیسے مانگ لیں وہ کبھی انکار نہیں کرینگے لیکن یوں زبردستی دھمکیوں سے وہ رعب میں آنیوالے نہیں۔ وہ حکمرانوں سمیت سب کی کمزوریوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور مجبوریوں کو بھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ انھیں سب کی قیمت کا پتہ ہے ۔ انھیں معلوم ہے کہ کون کتنے میں بک سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نیب انھیں طلب ضرورکرتی ہے لیکن ایک روز کے لیے بھی انھیں جیل میں نہیں ڈال سکی۔ وہ اور اُنکی ہمشیرہ گزشتہ آٹھ ماہ سے مسلسل ضمانت پر ہیں ۔ طاقتور سے طاقتور ادارہ اُنکی یہ ضمانت ختم نہیں کرا سکا آخرکوئی وجہ تو ہوگی۔ خان صاحب کو یہ بات ابھی سمجھ میں نہیں آئیگی ، رفتہ رفتہ وہ سب کچھ سمجھ جائینگے۔ ملکی معاملات کے پیچ و خم اتنے آسان نہیں ہوتے۔ یہاں جذباتی تقریریں کرنے سے عوام کو بیو قوف تو بنایا جا سکتا ہے لیکن سیاسی معاملات کی گتھیاں جذبات سے نہیں سلجھائی جا سکتی ۔
اِس کے لیے ذہانت ، دانشمندی اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خان صاحب کو اب سمجھ لینا چاہیے اور ایسی باتوں سے اجتناب کرناچاہیے جن سے بعدازاں انھیں خفت اور پشیمانی کا سامنا ہوتا ہے اور جسے مٹانے کے لیے وہ یوٹرن یا دیگر بہانوں کا سہارا تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ ہماری عدالت عالیہ نے میاں نواز شریف کو چھ ہفتوں کے لیے جیل سے آزاد کیا ہے تاکہ وہ اپنا علاج جہاں چاہیں کرواسکیں۔دیکھا جائے تویہ کوئی اتنا بڑا ریلیف نہیں ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اور اُسکے چاہنے والوں نے انھی عدالتوں کے خلاف اِس معاملے کو لے کر اچانک زہراگلنا شروع کردیا ہے جنکی تعریفیں کرتے وہ کل تک تھکتے نہیں تھے۔ ریلوے کے وفاقی وزیر اور عمران خان کے بہت ہی عزیز دوست شیخ رشید تو اِس معاملے میں سب پرسبقت لے گئے ۔
میاں شہباز شریف کو بارگیننگ کا ماسٹر مائنڈ کہتے ہوئے وہ براہ راست توہین عدالت کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں ۔ اُنکے خیال میں بڑے میاں کی رہائی میں شہباز شریف نے کوئی کام کر دکھایا ہے ۔ گویا وہ اِس طرح عدالتوں کو الزام دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کو ریلیف دینے کے لیے عدالتوں نے اندرون خانہ کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے ۔یہی حال پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل کا بھی ہے۔ جن ججوں اورعدالتوں کو چند ماہ قبل تک وہ خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے آج صرف ایک فیصلے کے بعد انھیں اپنی سخت تنقید اورتنقیص کا نشانہ بنا رہے ہیں دوسری جانب اُنکی حکومت لوگوں میں یہ تاثر پھیلانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے جیسے یہ سب کچھ کسی ڈیل کے تحت ہو رہا ہے ۔
میاں صاحب اربوں روپے واپس کرنے پر راضی ہوچکے ہیں اور جسکے عوض وہ سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیارکرتے ہوئے دیار غیر میں اپنی زندگی کے آخری ایام آرام وسکون سے گذارینگے لیکن ہمارا خیال ہے کہ کوئی اہم اور بڑا سیاستداں ایسا کرکے خود اپنے اوپرکرپشن کی مہر تصدیق ثبت نہیں کرسکتا نہ میاں نواز شریف ایسا کرینگے اور نہ آصف علی زرداری یہ کر سکتے ہیں ۔
خان صاحب ایسا کہکر نہ صرف اپنے آپکو دھوکہ دے رہے ہیں بلکہ اپنے ووٹروں کو بھی بلاوجہ خوش گمانیوں کے فریب میں مبتلا کر رہے ہیں۔ اُنکا یہ کہنا کہ میاں صاحب اور زرداری کے پاس اِسکے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کہ لوٹا ہوا پیسہ واپس کریں اور رہائی پائیں خود اپنے اُس عہد اور دعوے کی نفی کرتا ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہونے جا رہا نہ کوئی ڈیل ہوگی اور نہ کوئی ڈھیل پھر ڈیل کی ایسی باتیں کر کے نجانے خان صاحب کسے مطمئن کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے عوام کو یا اپنے صرف آپ کو ۔