ریاستی ادارے پسندیدہ اورغیرپسندیدہ غیرریاستی عناصرمیں منقسم ہیں مولانافضل الرحمان

بلوچ عسکریت پسندوں کے حوالے سے بھی سیاسی اور عسکری سوچ میں فرق پایاجاتاہے، مولانا فضل الرحمان

مجوزہ پالیسی میں بامعنی مذاکرات کو مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ہی مغربی ممالک کے جاسوسی نیٹ ورکس کو بھی غیرپسندیدہ ماننا چاہیے، مولانا فضل الرحمان۔ فوٹو: فائل

جمعیت علمائےاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے مختلف اسٹیک ہولڈرزکے درمیان اتفاق رائے اور پسندیدہ اورغیرپسندیدہ غیرریاستی عناصر کی سوچ ختم کرنا ہوگی۔

جے یو آئی (ف) کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف حکومت کی مجوزہ پالیسی مثبت پیش رفت ہے سیکیورٹی پالیسی میں انتظامات لازمی امر ہے تاہم پھر بھی اسے کافی قرار نہیں دیا جاسکتا، پالیسی کی کامیابی کے لئے کئی دیگر امور کو بھی زیر غور لایا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے یانہ کرنے کے حوالے سے دو نظرئیے موجود ہیں جن کے درمیان خلیج کم ہونی چاپئے، اس کے علاوہ ریاست اور اس سے جڑے ادارے اب بھی پسندیدہ اورغیرپسندیدہ غیرریاستی عناصرکے حوالے سے منقسم ہیں، بلوچ عسکریت پسندوں کے حوالے سے بھی سیاسی اور عسکری سوچ میں فرق پایاجاتاہے۔



مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سابق صدر پرویزمشرف کی منفی خارجہ پالیسی کے براہ راست اثرات کو ختم کرنے کے لئے جہاں ایک جانب حکومت کو مذاکرات اورمفاہمت کاراستہ اختیار کرناہوگا وہیں دہشت گردی کے نام پرجاری جنگ سے الگ ہوناپڑے گا، اس کے علاوہ مجوزہ پالیسی میں بامعنی مذاکرات کو مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ہی مغربی ممالک کے جاسوسی نیٹ ورکس کو بھی غیرپسندیدہ ماننا چاہیے۔

جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات مقامی روایت کے مطابق کئے جانے چاہئیں، اس مقصد کے لئے قومی جرگہ موجود ہے جسے تمام سیاسی قیادت کی حمایت حاصل ہے اس لئے کوئی بھی لمحہ ضائع کئے بغیر بات چیت کا یہ عمل شروع کردیناچاہیئے۔
Load Next Story