’’خفیہ ایجنسیوں میں باہمی ربط کا فقدان ہے‘‘
وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کا ’’ایکسپریس‘‘ فورم میں اظہار خیال
دور جدید میں دنیا عالمی گاؤں کا درجہ حاصل کرچکی ہے، جس میں دنیا کا ہر ملک کسی نہ کسی انداز میں دیگر ممالک سے جڑا ہوا ہے۔
اس صورتحال میں کسی بھی ملک کے لئے اس کا دفاع بہت اہمیت رکھتا ہے اور ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے اسے اپنے دفاع کیلئے کسی اور طرف نہ دیکھنا پڑے بلکہ وہ اپنی ضروریات کو پوری کرنے میں خود مختار ہو۔ پاکستان دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے لیکن گزشتہ چند سال سے اسے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے، اس لئے پاکستان کا اپنی دفاعی ضروریات میں خود مختار ہونا اتنی ہی اہمیت اختیار کرگیا ہے جتنا انسان کے لئے خوراک کا ہونا ضروری ہے۔ دوسری طرف کنٹرول لائن پر چند روز سے بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کے باعث پاکستان کی دفاعی حکمت عملی مزید اہمیت اختیار کرگئی ہے۔
اسی اہمیت کے پیش نظر یہ جاننے کیلئے کہ پاکستان دفاعی پیداوار میں کس مقام پر کھڑا ہے روز نامہ ایکسپریس نے وفاقی وزیر برائے وفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کے ساتھ ''ایکسپریس فورم '' میں ایک نشست کا اہتمام کیا۔ رانا تنویر حسین کا شمار پاکستان کے سینئر سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ 1985ء میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری بنائے گئے۔ ان کے والد چوہدری انور بھی 1970ء میں رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ رانا تنویر حسین 90ء، 97ء اور 2008ء میں بھی ایم این اے رہے۔ وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار سے ہونے والی گفتگو قارئین کے مطالعہ کیلئے یہاں پیش کی جارہی ہے۔
ملکی معیشت کی بحالی، انرجی بحران اور دہشت گردی کا خاتمہ نواز حکومت کی اولین ترجیحات ہیں۔ بدقسمتی سے آج تک ہماری قومی سکیورٹی پالیسی ہی نہیں بن سکی، جسے آل پارٹیزکانفرنس کے ذریعے حکومت بنانا چاہتی ہے، لیکن اس میں بھی مختلف پارٹیاں اپنی اپنی شرائط لگارہی ہیں۔ وزارت دفاعی پیداوار 2004ء میں وجود میں آئی جس کا مقصد دفاعی ضروریات کو مقامی سطح پر پورا کرنا ہے۔ اسی طرح ہائی ٹیک فوجی مشینری ودیگر دفاعی آلات جو یہاں ہم نہیں بناسکتے وہ باہر سے منگوانا ہے۔ ایف 16 طیارے ہم نے باہر سے منگوائے اور آج کل جے ایف17 ہم خود بنا رہے ہیں۔
اس وزارت کا مقصد اسلحہ وغیرہ دیگر ممالک میں مارکیٹ کرنا بھی ہے، اپنے ریجن میں ہم بنگلہ دیش، سری لنکا، گلف اور افریقی ممالک وغیرہ کو اسلحہ ایکسپورٹ کرتے ہیں، ہماری اشیاء نہایت معیاری ہیں اور ان کا فائدہ بھی بڑا ہے۔ جنگی صورتحال میں ہماری انڈسٹری بڑی مددگار ہوسکتی ہے، خصوصاً جب جنگ کے دوران دیگر ممالک سے اسلحہ وغیرہ منگوانے پر پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ اس انڈسٹری کا امریکہ، چین، فرانس، جرمنی وغیرہ کی اکانومی بہتر کرنے میں بھی بڑا کردار ہے۔ اگر ہم بھی وسیع پیمانے پر دفاعی سازوسامان دنیا میں مارکیٹ کریں تو خاطر خواہ آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔ مقامی سطح پر سامان تیارکرنے سے زرمبادلہ بھی بچتا ہے، دوسرا ایکسپورٹ کی مقدار بڑھانے سے ریزروز میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے روپے کی ویلیو دن بدن اس لئے کم ہورہی ہے کہ ریزروزکا بیک اپ نہیں ہوتا۔
اس وزارت کے ذریعے ہماری مقامی انجینئرنگ انڈسٹری میں بھی مہارت اور جدید ٹیکنالوجی پیدا ہوگی اور لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ وزارت دفاعی پیداوار کے تمام ادارے اس وقت بڑا اچھا کام کررہے ہیں، شپ یارڈ کی کارکردگی بھی بہترین ہے، اس کا حجم بڑھانے سے شائد وہ دس گنا زیادہ کارکردگی دکھا سکے۔ جغرافیائی لحاظ سے نزدیک ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں سے دیگر ممالک بھی کام کروانا چاہتے ہیں لیکن ہماری کپیسٹی (استعداد) کم ہونے کی وجہ سے انہیں باہر جانا پڑتا ہے، ورنہ پاکستان کئی ممالک کے لئے ہائی وے ہے۔ ہمارے پاس بڑا پوٹینشل ہے، کامرہ اور ٹیکسلا ہیوی انڈسٹری میں بڑا معیاری کام ہورہا ہے۔ وزارت کے تحت ریسرچ کا شعبہ بھی بہترین ریسرچ کرکے باہر سے دس گنا کم قیمت پر چیز تیار کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ہماری وزارت ملک کے اندر بھی تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں پیراملٹری فورسز، وزارت داخلہ ، پولیس، رینجرز کی ضروریات بھی کافی حد تک پوری کرتی ہے۔ انتخابات میں لوگوں کا موڈ دیکھ کرمیں نے اندازہ لگایا تھا کہ مسلم لیگ (ن) 120 سے زائد نشستیں حاصل کرلے گی اور اﷲ نے بڑا کرم کیا کہ میرا اندازہ صحیح ہوا جس کی مجھے بڑی خوشی ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے انتخابات کے دن سے لے کر آج تک دن رات ایک کررکھا ہے اور تمام ایشوز بشمول بجلی بحران کے حل، دہشت گردی کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کیلئے سر جوڑ رکھا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جب اقتدار میں آئی تو معیشت سمیت ہر ادارے کا برا حال تھا، پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں کسی بھی شعبے میں کام نہیں کیا بلکہ مسائل میں اضافہ کیا حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ مشرف دور میں شروع ہونے والے بجلی کے بحران کو کم کرنے کیلئے کام کرتی۔
ایک اچھی حکومت کے یہ فرائض ہیں کہ قوم کی بہتری کیلئے تمام فرائض احسن طریقے سے انجام دے۔ گزشتہ حکومت کی بری کارکردگی کے باعث تمام مسائل کو اب ہمیں حل کرنا پڑرہا ہے۔ لوڈشیڈنگ بیس گھنٹے تھی دہشت گردی عروج پر تھی اور میں کہتا ہوں کہ مسائل میں اضافے کی وجہ آبادی کا بڑھنا بھی ہے ہمیں اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک ملک کا مسئلہ نمبر ایک آبادی کا بڑھنا ہے اور مسئلہ نمبر دو انرجی کا بحران ہے۔ ایک فیکٹری کے لئے سڑک کے بغیر چلنا ممکن ہے لیکن انرجی کے بغیر فیکٹری نہیں چل سکتی، صحت اور تعلیم کے بھی مسائل ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ملکی سالمیت کے مسئلے پر پوری قوم کو قومی ایجنڈے کے تحت بغیر کسی سیاست کے اکٹھا ہونا چاہیے۔
میاں نوازشریف نے بھی سابق حکومت کے دور میں کہا تھا کہ ہمیں سیاست کرنے کے بجائے قومی ایجنڈے کے تحت ملکی سالمیت کیلئے اکٹھا ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں ہمیں فرینڈلی اپوزیشن ہونے کے طعنے بھی سننا پڑے۔ ابھی حکومت آئے چالیس دن بھی نہیں ہوئے اور لوگوں نے حکومتی کارکردگی بارے باتیں کرنا شروع کردی ہیں حالانکہ وزیراعظم سمیت دیگر لیگی رہنماؤں نے اس دن سے صحیح طرح آرام بھی نہیں کیا۔ بجلی چوری بھی انرجی بحران کی بڑی وجہ ہے لیکن اب پکڑے جانے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جارہی۔
لوگوں کو چاہیے کہ ہمیں سپورٹ کریں اور تھوڑا سا صبر کر لیں۔ دہشت گردی کی جنگ کے بارے میں امریکہ کیا کہتا ہے اور اسکے اتحادی کیا کہتے ہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے لیکن ہم پر تو یہ الزام بھی ہے کہ ہم نے امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ بنالیا ہے ، آج تک ہم فوجی جوانوں اور سویلینز کی چالیس ہزار شہادتیں پیش کرچکے ہیں جبکہ کھربوں روپے کا ہمارا نقصان ہوچکا ہے۔ فارن انویسٹرز بھی ہمارے ہاں انویسٹمنٹ نہیں کررہے حالانکہ پاکستان کے حالات انہی کی وجہ سے یہاں تک پہنچے ہیں، انہیں ہمیں سپورٹ کرنا چاہیے لیکن انہوں نے تو طے شدہ سپورٹ فنڈ بھی کبھی ہمیں فراہم نہیں کیا۔
دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہم اپنا کردار ادا کررہے ہیں جس کیلئے ہمارا اپنا سٹینڈ ہے۔ بدقسمتی سے ہماری قومی سکیورٹی پالیسی آج تک نہیں بن سکی جس کیلئے موجودہ حکومت آل پارٹیز بلانے جارہی ہے۔ عمران خان ملک سے باہر چلے گئے اور کہتے ہیں کہ صرف میں ، وزیراعظم اور آرمی چیف میٹنگ کریں، اس طرح تو دوسری جماعتوں کے رہنما بھی کہیں گے کہ دیگر پارٹیوں کے لوگ میٹنگ میں نہ آئیں لیکن ہم نے سب سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ میں حکومت ہے تو یہ بھی عوامی نمائندے ہیں، ان سمیت تمام پارٹیاں قومی سکیورٹی پالیسی کی اونرشپ لیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے ہاں خفیہ ایجنسیوں میں باہمی ربط کا فقدان ہے اور یہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے مقابلہ بازی کرتی ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ ایسا نہ کریں بلکہ آپس میں کوآرڈی نیشن کے ذریعے چلیں تاکہ ملک وقوم کا بھلا ہو۔ ایبٹ آباد کمشن رپورٹ کو عام کرنے کے بارے میں حکومت سوچ رہی ہے کہ اسے عوامی مفاد میں سامنے لایا جائے، اس پر جلد فیصلہ ہوجائے گا۔ طالبان سے مذاکرات بڑا مسئلہ اس لئے ہے کہ ہم بھی ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن طالبان کے نام پر دہشت گردوں کے بھی بڑے گروپ بن چکے ہیں جو خود کو طالبان قراردیتے ہیں، اب پانچ سے چھ گروپ علیحدہ علیحدہ کام کررہے ہیں ان میں سے کچھ پاکستان کے آئین اور نظریہ پاکستان کو ہی ماننے والے نہیں ، کچھ لوگ مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اور کچھ ہمارے لوگوں کو اغوا کرلیتے ہیں، ہم تو دوحہ میں طالبان سے مذاکرات میں ہر ممکن سہولیات فراہم کررہے تھے۔
سابق صدر جنرل(ر) پرویزمشرف کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہم اس لیے ان کے خلاف نہیں کہ انہوں نے ہماری حکومت گرائی بلکہ ہم آئین اورقانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں جس کیلئے ہم نے جیلیں کاٹیں اور جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ ہم کہتے ہیں کہ کورٹ آف لاء دیکھے کہ پرویزمشرف نے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی ہے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اب سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی ہم اس کے مطابق چلیں گے۔ ہم کہتے ہیں کسی بھی شخص کو قانون اور آئین سے بالا نہیں ہونا چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مشرف کے ساتھ ایمرجنسی لگانے میں ان کے اور ساتھی بھی ملوث تھے جن کے بارے میں حکومت نے کمیٹی بنائی ہے، جو انکوائری کررہی ہے، جو پرویزمشرف سے بھی پوچھ گچھ کرے گی، اگر وہ کہیں کہ میرے ساتھ فلاں فلاں بھی تھے تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
ان کے پروردہ کچھ سابق وزیر بھی اب کہہ رہے ہیں کہ 627 بندے ان کے ساتھ شامل تھے وہ گڑبڑ کرکے معاملے کو اصل میں الجھانا چاہتے ہیں، میں کہتا ہوں اگرچھ ہزار لوگ بھی شامل تھے تو ان سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ہمارے اداروں کے سربراہوں نے پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں کہا تھا کہ ہمارے پاس ڈرون طیارے گرانے کی مکمل صلاحیت اورٹیکنالوجی موجود ہے، اب شجاع پاشا کہتے ہیں کہ پرویزمشرف نے ڈرون گرانے کی اجازت دی تھی۔ ڈرون حملوں پر موجودہ حکومت نے امریکہ سے سخت احتجاج کیا ہے اور اسے باور کرایا ہے کہ یہ ہماری سالمیت کا مسئلہ ہے جبکہ ان میں بہت سے بے قصور عام افراد بھی مارے جاتے ہیں امریکہ ہم سے انٹیلی جنس شیئرنگ کرے تاکہ ہم خود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرسکیں۔
چیئرمین نیب کا معاملہ جلد اتفاق رائے سے حل ہو جائے گا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ایسا بندہ اتفاق رائے کے ساتھ لایا جائے جس پرساری قوم کو اعتماد ہو کیونکہ نیب کرپشن کے خاتمے کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک ایک جگہ پر کرپشن رچ بس گئی ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں جو کچھ بھی ہوا ہم سنتے ہیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سابقہ حکومت نے تو '' ہونجا '' ہی پھیر دیا۔ انہوں نے مزدوروں کے ادارے ای او بی آئی، این آئی ایل سی سمیت کسی ادارے کو نہیں بخشا، ہر ادارے میں اربوں ، کھربوں روپے کے فراڈ ہوئے۔ اور تو اور سرکاری افسروں کو پیسے لے کر گریڈ 22 دیا گیا اور میرٹ کے بالکل خلاف بھرتیاں کی گئیں۔
18ویں ترمیم کے بعد بہت سے اختیارات صوبوں کے پاس چلے گئے جس میں امن وامان کا مسئلہ صوبوں کے پاس چلاگیا ہے ، وفاقی وزارت داخلہ کا کردار اب اس میں اتنا نہیں رہا، ہم صرف صوبوں کو سہولیات فراہم کرسکتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو سندھ میں رینجرز، ایف سی بھی دے رکھی ہے لیکن اگر صوبہ امن وامان کے مسئلے کو حل نہ کر سکے تو یہ ہوسکتا ہے کہ سسٹم کولیپس کرنے کی صورت میں گورنر راج لگایا جاسکتا ہے۔ ماضی میں واجپائی بھی پاکستان آئے، اب بھی پس پردہ سفارت کاری شروع ہوچکی ہے۔
پڑوسی ملک کے ساتھ بڑے مسائل ہیں لیکن لڑائیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر ہونا چاہئے یہ بات بھارت بھی اب محسوس کررہا ہے۔ کالاباغ ڈیم پرانا مسئلہ ہے اس پر چاروں صوبوں کی مشاورت اور اتفاق رائے کے بغیر کام کرنا مشکل ہے۔ اس ڈیم کے ذریعے ہمیں سستی بجلی مل سکتی ہے یہ اگر ہوجائے تو بڑا اچھا ہے لیکن ملکی سالمیت کو دیکھنا پڑتا ہے اﷲ کرے اس پر ہمارا اتفاق رائے ہو جائے۔ چودھری سرور کے بارے میں وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ بڑے محنتی، اچھے انسان اور میرٹ کا خیال رکھنے والے ہیں اور وہ ایک بہت اچھے گورنر ثابت ہوں گے۔
اس صورتحال میں کسی بھی ملک کے لئے اس کا دفاع بہت اہمیت رکھتا ہے اور ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے اسے اپنے دفاع کیلئے کسی اور طرف نہ دیکھنا پڑے بلکہ وہ اپنی ضروریات کو پوری کرنے میں خود مختار ہو۔ پاکستان دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے لیکن گزشتہ چند سال سے اسے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے، اس لئے پاکستان کا اپنی دفاعی ضروریات میں خود مختار ہونا اتنی ہی اہمیت اختیار کرگیا ہے جتنا انسان کے لئے خوراک کا ہونا ضروری ہے۔ دوسری طرف کنٹرول لائن پر چند روز سے بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی کے باعث پاکستان کی دفاعی حکمت عملی مزید اہمیت اختیار کرگئی ہے۔
اسی اہمیت کے پیش نظر یہ جاننے کیلئے کہ پاکستان دفاعی پیداوار میں کس مقام پر کھڑا ہے روز نامہ ایکسپریس نے وفاقی وزیر برائے وفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کے ساتھ ''ایکسپریس فورم '' میں ایک نشست کا اہتمام کیا۔ رانا تنویر حسین کا شمار پاکستان کے سینئر سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ 1985ء میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری بنائے گئے۔ ان کے والد چوہدری انور بھی 1970ء میں رکن صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ رانا تنویر حسین 90ء، 97ء اور 2008ء میں بھی ایم این اے رہے۔ وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار سے ہونے والی گفتگو قارئین کے مطالعہ کیلئے یہاں پیش کی جارہی ہے۔
ملکی معیشت کی بحالی، انرجی بحران اور دہشت گردی کا خاتمہ نواز حکومت کی اولین ترجیحات ہیں۔ بدقسمتی سے آج تک ہماری قومی سکیورٹی پالیسی ہی نہیں بن سکی، جسے آل پارٹیزکانفرنس کے ذریعے حکومت بنانا چاہتی ہے، لیکن اس میں بھی مختلف پارٹیاں اپنی اپنی شرائط لگارہی ہیں۔ وزارت دفاعی پیداوار 2004ء میں وجود میں آئی جس کا مقصد دفاعی ضروریات کو مقامی سطح پر پورا کرنا ہے۔ اسی طرح ہائی ٹیک فوجی مشینری ودیگر دفاعی آلات جو یہاں ہم نہیں بناسکتے وہ باہر سے منگوانا ہے۔ ایف 16 طیارے ہم نے باہر سے منگوائے اور آج کل جے ایف17 ہم خود بنا رہے ہیں۔
اس وزارت کا مقصد اسلحہ وغیرہ دیگر ممالک میں مارکیٹ کرنا بھی ہے، اپنے ریجن میں ہم بنگلہ دیش، سری لنکا، گلف اور افریقی ممالک وغیرہ کو اسلحہ ایکسپورٹ کرتے ہیں، ہماری اشیاء نہایت معیاری ہیں اور ان کا فائدہ بھی بڑا ہے۔ جنگی صورتحال میں ہماری انڈسٹری بڑی مددگار ہوسکتی ہے، خصوصاً جب جنگ کے دوران دیگر ممالک سے اسلحہ وغیرہ منگوانے پر پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ اس انڈسٹری کا امریکہ، چین، فرانس، جرمنی وغیرہ کی اکانومی بہتر کرنے میں بھی بڑا کردار ہے۔ اگر ہم بھی وسیع پیمانے پر دفاعی سازوسامان دنیا میں مارکیٹ کریں تو خاطر خواہ آمدن حاصل کی جاسکتی ہے۔ مقامی سطح پر سامان تیارکرنے سے زرمبادلہ بھی بچتا ہے، دوسرا ایکسپورٹ کی مقدار بڑھانے سے ریزروز میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے روپے کی ویلیو دن بدن اس لئے کم ہورہی ہے کہ ریزروزکا بیک اپ نہیں ہوتا۔
اس وزارت کے ذریعے ہماری مقامی انجینئرنگ انڈسٹری میں بھی مہارت اور جدید ٹیکنالوجی پیدا ہوگی اور لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔ وزارت دفاعی پیداوار کے تمام ادارے اس وقت بڑا اچھا کام کررہے ہیں، شپ یارڈ کی کارکردگی بھی بہترین ہے، اس کا حجم بڑھانے سے شائد وہ دس گنا زیادہ کارکردگی دکھا سکے۔ جغرافیائی لحاظ سے نزدیک ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں سے دیگر ممالک بھی کام کروانا چاہتے ہیں لیکن ہماری کپیسٹی (استعداد) کم ہونے کی وجہ سے انہیں باہر جانا پڑتا ہے، ورنہ پاکستان کئی ممالک کے لئے ہائی وے ہے۔ ہمارے پاس بڑا پوٹینشل ہے، کامرہ اور ٹیکسلا ہیوی انڈسٹری میں بڑا معیاری کام ہورہا ہے۔ وزارت کے تحت ریسرچ کا شعبہ بھی بہترین ریسرچ کرکے باہر سے دس گنا کم قیمت پر چیز تیار کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ہماری وزارت ملک کے اندر بھی تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں پیراملٹری فورسز، وزارت داخلہ ، پولیس، رینجرز کی ضروریات بھی کافی حد تک پوری کرتی ہے۔ انتخابات میں لوگوں کا موڈ دیکھ کرمیں نے اندازہ لگایا تھا کہ مسلم لیگ (ن) 120 سے زائد نشستیں حاصل کرلے گی اور اﷲ نے بڑا کرم کیا کہ میرا اندازہ صحیح ہوا جس کی مجھے بڑی خوشی ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے انتخابات کے دن سے لے کر آج تک دن رات ایک کررکھا ہے اور تمام ایشوز بشمول بجلی بحران کے حل، دہشت گردی کے خاتمے اور معیشت کی بحالی کیلئے سر جوڑ رکھا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جب اقتدار میں آئی تو معیشت سمیت ہر ادارے کا برا حال تھا، پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں کسی بھی شعبے میں کام نہیں کیا بلکہ مسائل میں اضافہ کیا حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ مشرف دور میں شروع ہونے والے بجلی کے بحران کو کم کرنے کیلئے کام کرتی۔
ایک اچھی حکومت کے یہ فرائض ہیں کہ قوم کی بہتری کیلئے تمام فرائض احسن طریقے سے انجام دے۔ گزشتہ حکومت کی بری کارکردگی کے باعث تمام مسائل کو اب ہمیں حل کرنا پڑرہا ہے۔ لوڈشیڈنگ بیس گھنٹے تھی دہشت گردی عروج پر تھی اور میں کہتا ہوں کہ مسائل میں اضافے کی وجہ آبادی کا بڑھنا بھی ہے ہمیں اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک ملک کا مسئلہ نمبر ایک آبادی کا بڑھنا ہے اور مسئلہ نمبر دو انرجی کا بحران ہے۔ ایک فیکٹری کے لئے سڑک کے بغیر چلنا ممکن ہے لیکن انرجی کے بغیر فیکٹری نہیں چل سکتی، صحت اور تعلیم کے بھی مسائل ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ملکی سالمیت کے مسئلے پر پوری قوم کو قومی ایجنڈے کے تحت بغیر کسی سیاست کے اکٹھا ہونا چاہیے۔
میاں نوازشریف نے بھی سابق حکومت کے دور میں کہا تھا کہ ہمیں سیاست کرنے کے بجائے قومی ایجنڈے کے تحت ملکی سالمیت کیلئے اکٹھا ہونا چاہیے جس کے نتیجے میں ہمیں فرینڈلی اپوزیشن ہونے کے طعنے بھی سننا پڑے۔ ابھی حکومت آئے چالیس دن بھی نہیں ہوئے اور لوگوں نے حکومتی کارکردگی بارے باتیں کرنا شروع کردی ہیں حالانکہ وزیراعظم سمیت دیگر لیگی رہنماؤں نے اس دن سے صحیح طرح آرام بھی نہیں کیا۔ بجلی چوری بھی انرجی بحران کی بڑی وجہ ہے لیکن اب پکڑے جانے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جارہی۔
لوگوں کو چاہیے کہ ہمیں سپورٹ کریں اور تھوڑا سا صبر کر لیں۔ دہشت گردی کی جنگ کے بارے میں امریکہ کیا کہتا ہے اور اسکے اتحادی کیا کہتے ہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے لیکن ہم پر تو یہ الزام بھی ہے کہ ہم نے امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ بنالیا ہے ، آج تک ہم فوجی جوانوں اور سویلینز کی چالیس ہزار شہادتیں پیش کرچکے ہیں جبکہ کھربوں روپے کا ہمارا نقصان ہوچکا ہے۔ فارن انویسٹرز بھی ہمارے ہاں انویسٹمنٹ نہیں کررہے حالانکہ پاکستان کے حالات انہی کی وجہ سے یہاں تک پہنچے ہیں، انہیں ہمیں سپورٹ کرنا چاہیے لیکن انہوں نے تو طے شدہ سپورٹ فنڈ بھی کبھی ہمیں فراہم نہیں کیا۔
دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہم اپنا کردار ادا کررہے ہیں جس کیلئے ہمارا اپنا سٹینڈ ہے۔ بدقسمتی سے ہماری قومی سکیورٹی پالیسی آج تک نہیں بن سکی جس کیلئے موجودہ حکومت آل پارٹیز بلانے جارہی ہے۔ عمران خان ملک سے باہر چلے گئے اور کہتے ہیں کہ صرف میں ، وزیراعظم اور آرمی چیف میٹنگ کریں، اس طرح تو دوسری جماعتوں کے رہنما بھی کہیں گے کہ دیگر پارٹیوں کے لوگ میٹنگ میں نہ آئیں لیکن ہم نے سب سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ میں حکومت ہے تو یہ بھی عوامی نمائندے ہیں، ان سمیت تمام پارٹیاں قومی سکیورٹی پالیسی کی اونرشپ لیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارے ہاں خفیہ ایجنسیوں میں باہمی ربط کا فقدان ہے اور یہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے مقابلہ بازی کرتی ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ ایسا نہ کریں بلکہ آپس میں کوآرڈی نیشن کے ذریعے چلیں تاکہ ملک وقوم کا بھلا ہو۔ ایبٹ آباد کمشن رپورٹ کو عام کرنے کے بارے میں حکومت سوچ رہی ہے کہ اسے عوامی مفاد میں سامنے لایا جائے، اس پر جلد فیصلہ ہوجائے گا۔ طالبان سے مذاکرات بڑا مسئلہ اس لئے ہے کہ ہم بھی ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن طالبان کے نام پر دہشت گردوں کے بھی بڑے گروپ بن چکے ہیں جو خود کو طالبان قراردیتے ہیں، اب پانچ سے چھ گروپ علیحدہ علیحدہ کام کررہے ہیں ان میں سے کچھ پاکستان کے آئین اور نظریہ پاکستان کو ہی ماننے والے نہیں ، کچھ لوگ مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اور کچھ ہمارے لوگوں کو اغوا کرلیتے ہیں، ہم تو دوحہ میں طالبان سے مذاکرات میں ہر ممکن سہولیات فراہم کررہے تھے۔
سابق صدر جنرل(ر) پرویزمشرف کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہم اس لیے ان کے خلاف نہیں کہ انہوں نے ہماری حکومت گرائی بلکہ ہم آئین اورقانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں جس کیلئے ہم نے جیلیں کاٹیں اور جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ ہم کہتے ہیں کہ کورٹ آف لاء دیکھے کہ پرویزمشرف نے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی ہے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اب سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی ہم اس کے مطابق چلیں گے۔ ہم کہتے ہیں کسی بھی شخص کو قانون اور آئین سے بالا نہیں ہونا چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مشرف کے ساتھ ایمرجنسی لگانے میں ان کے اور ساتھی بھی ملوث تھے جن کے بارے میں حکومت نے کمیٹی بنائی ہے، جو انکوائری کررہی ہے، جو پرویزمشرف سے بھی پوچھ گچھ کرے گی، اگر وہ کہیں کہ میرے ساتھ فلاں فلاں بھی تھے تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
ان کے پروردہ کچھ سابق وزیر بھی اب کہہ رہے ہیں کہ 627 بندے ان کے ساتھ شامل تھے وہ گڑبڑ کرکے معاملے کو اصل میں الجھانا چاہتے ہیں، میں کہتا ہوں اگرچھ ہزار لوگ بھی شامل تھے تو ان سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ہمارے اداروں کے سربراہوں نے پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں کہا تھا کہ ہمارے پاس ڈرون طیارے گرانے کی مکمل صلاحیت اورٹیکنالوجی موجود ہے، اب شجاع پاشا کہتے ہیں کہ پرویزمشرف نے ڈرون گرانے کی اجازت دی تھی۔ ڈرون حملوں پر موجودہ حکومت نے امریکہ سے سخت احتجاج کیا ہے اور اسے باور کرایا ہے کہ یہ ہماری سالمیت کا مسئلہ ہے جبکہ ان میں بہت سے بے قصور عام افراد بھی مارے جاتے ہیں امریکہ ہم سے انٹیلی جنس شیئرنگ کرے تاکہ ہم خود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرسکیں۔
چیئرمین نیب کا معاملہ جلد اتفاق رائے سے حل ہو جائے گا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ایسا بندہ اتفاق رائے کے ساتھ لایا جائے جس پرساری قوم کو اعتماد ہو کیونکہ نیب کرپشن کے خاتمے کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک ایک جگہ پر کرپشن رچ بس گئی ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں جو کچھ بھی ہوا ہم سنتے ہیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سابقہ حکومت نے تو '' ہونجا '' ہی پھیر دیا۔ انہوں نے مزدوروں کے ادارے ای او بی آئی، این آئی ایل سی سمیت کسی ادارے کو نہیں بخشا، ہر ادارے میں اربوں ، کھربوں روپے کے فراڈ ہوئے۔ اور تو اور سرکاری افسروں کو پیسے لے کر گریڈ 22 دیا گیا اور میرٹ کے بالکل خلاف بھرتیاں کی گئیں۔
18ویں ترمیم کے بعد بہت سے اختیارات صوبوں کے پاس چلے گئے جس میں امن وامان کا مسئلہ صوبوں کے پاس چلاگیا ہے ، وفاقی وزارت داخلہ کا کردار اب اس میں اتنا نہیں رہا، ہم صرف صوبوں کو سہولیات فراہم کرسکتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو سندھ میں رینجرز، ایف سی بھی دے رکھی ہے لیکن اگر صوبہ امن وامان کے مسئلے کو حل نہ کر سکے تو یہ ہوسکتا ہے کہ سسٹم کولیپس کرنے کی صورت میں گورنر راج لگایا جاسکتا ہے۔ ماضی میں واجپائی بھی پاکستان آئے، اب بھی پس پردہ سفارت کاری شروع ہوچکی ہے۔
پڑوسی ملک کے ساتھ بڑے مسائل ہیں لیکن لڑائیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بہتر ہونا چاہئے یہ بات بھارت بھی اب محسوس کررہا ہے۔ کالاباغ ڈیم پرانا مسئلہ ہے اس پر چاروں صوبوں کی مشاورت اور اتفاق رائے کے بغیر کام کرنا مشکل ہے۔ اس ڈیم کے ذریعے ہمیں سستی بجلی مل سکتی ہے یہ اگر ہوجائے تو بڑا اچھا ہے لیکن ملکی سالمیت کو دیکھنا پڑتا ہے اﷲ کرے اس پر ہمارا اتفاق رائے ہو جائے۔ چودھری سرور کے بارے میں وفاقی وزیر نے کہا کہ وہ بڑے محنتی، اچھے انسان اور میرٹ کا خیال رکھنے والے ہیں اور وہ ایک بہت اچھے گورنر ثابت ہوں گے۔