تاریخ کی دیوی ظالم ہے
دنیا کے کو نے کو نے میں عوامی تحریکیں اپنے حقوق اور عظمت کے لیے جنگ میں مصروف ہیں.
کیمپ بیل کہتا ہے آئندہ واقعات کے سائے پہلے نمودار ہو جاتے ہیں جب کہ ایمر سن کا کہنا ہے یہ تکبر ہی ہے جس نے فرشتوں کو بھی تباہ و برباد کر ڈالا۔ ماضی کبھی نہیں مرتا وہ خاک میں ملتے ملتے بھی اپنے فکر و فن اور علم کا ہنر کا خزانہ حال کے حوالے کر جاتا ہے حال جو مستقبل کا پہلا قدم ہے قافلہ حیات کا یہ سفر صدیوں سے یونہی جاری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ زمینی خدائوں کا انجام ہمیشہ وحشت ناک ہوا ہے۔ ایچ ایم ایس ملایا ترکی کے معزول سلطان محمد ششم کو لے کر مالٹا پہنچا، جہاں وہ 1922-23ء کے موسم سر ما میں مقیم رہا۔ پھر1923ء کے موسم بہار میں اس نے شاہ حسین کی دعو ت قبول کر لی اور حج پر روانہ ہو گیا۔ حج پر جانے والا وہ عثمانی خاندان کا پہلا فرد تھا۔ و ہ خلیفہ بننا چاہتا تھا، مگر جب کچھ نہیں بن پا یا تو اس نے اپنی کوششیں ترک کر دیں۔ پھر وہ مصر میں آباد ہو نے کے ارادے سے اسکندریہ چلا گیا تاہم برطانوی نہیں چاہتے تھے کہ عثمانی سلطنت کا حصہ رہنے والے کسی ملک میں کوئی سابق سلطان مقیم ہو لہذا اسے وہاں سے جانے پر مجبور کر دیا گیا۔
کنگ وکٹر ایما نو ئیل نے اسے اٹلی میں رہنے کی دعوت دی۔ اس نے سان ریمو میں ایک ولا کرائے پر لے لیا۔ پھر اس نے اپنے حاجب کو استنبول بھیجا تا کہ وہ وہیں رہ جانے والی اس کی ہاسیکی نژاد اور دیگر دو بیویوں کو اٹلی لے آئے۔ محمد ششم نے اپنی زندگی کے باقی تین سال سان ریمو میں گزارے جہاں وہ 15 مئی 1926ء کو حرکت قلب بند ہو جانے سے مر گیا۔ اس وقت وہ اپنی عمر کے چھیاسٹھو یں برس میں تھا۔ اس نے زندگی کے آخری برس ادھار لے لے کر گزار ے تھے۔ اس کی تدفین میں تاخیر ہو گئی کیونکہ قرض واپس مانگنے والوں کا ہجوم اس کے قلاش خاندان سے اپنی رقوم مانگ رہا تھا۔ ترک حکام نے اسے ترکی میں دفنا نے کی اجازت نہیں دی تاہم فرانس نے اسے دمشق میں مسجد سلطان سلیم اول میں دفنا نے کی اجازت دے دی۔ محمد ششم کی وفات کے بعد اس کی بیویاں استنبول واپس آ گئیں۔ یہاں ہاسیکی نوزاد نے بحریہ کے اس کپتان سے شادی کر لی، جس سے حرم میں شامل کیے جانے سے پہلے اس کی منگنی ہوئی تھی۔ اس کا با قی خاندان مختلف ملکوں میں بکھر گیا۔ اس کا اکلو تا بیٹا ارطغر ل مصر چلا گیا، جہاں وہ 1944ء میں فوت ہو گیا۔
پہلے والے سلطا نوں کے خاندانوں کو بھی جلا وطن کر دیا گیا۔ سلطان عبدالحمید ثانی کی بیٹی عائشہ نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے۔ ''ہم وہ لوگ ہیں جن کا کوئی وطن نہیں، کوئی گھر نہیں، کوئی سر چھپانے کا ٹھکا نہ نہیں، جلا وطنی میں ہمارے خاندان کی تاریخ سوائے المناک اموات کے اور کچھ نہیں ہے۔'' اس کا بھائی محمد عبدالقادر صو فیہ کے ایک آرکسٹرا میں سازندہ تھا اور جب وہ 1944ء میں فوت ہوا تو اسے خاموشی سے ایک بے نام قبر میں دفن کر دیا گیا۔ اس کی بہن ذکیہ نے اپنے آخری ایام جنوبی فرانس کے ایک ہو ٹل میں خیرات پر گزارے وہ 1950ء میں فوت ہوئی۔ اس کے ایک بھائی عبدالرحیم خاوری نے 1952ء میں پیرس میں خود کشی کر لی اور اس نے اتنی کم رقم چھوڑی کہ بمشکل اس کی تدفین عمل میں آ سکی۔ ادھر آخری خلیفہ عبدالمجید پہلے کچھ عرصہ سوئٹرز لینڈ میں رہا اور پھر نیس چلا گیا، جہاں وہ دوسری عالمی جنگ تک رہا۔ بعد میں وہ پیر س چلا گیا، جہاں 23 اگست 1944ء کو حرکت قلب بند ہونے سے وفات پا گیا۔ عین اسی زمانے میں پیرس جرمنوں کے قبضے سے آزاد ہوا تھا۔ آزادی کی خوشی میں عبدالمجید کی موت کی خبر دب گئی اور اس کی موت پر اتنی توجہ بھی نہیں دی گئی، دی ٹائمز لندن نے تعزیت نامہ بھی شائع نہیں کیا۔
اتحادیوں نے مدینہ منورہ میں اس کی تدفین کی اجازت دے دی جہاں اسے آخری عثمانی خلیفہ کے طور پر احترام دیا جاتا تھا۔ ایک قریب المرگ خطاب جو اس کی وفات کے ساتھ ہی مر گیا۔ عبدالمجید کی وفات کے بعد عثمانی خاندان کے سر براہ کا خطاب سلطان مراد پنجم کے پوتے احمد نہاد (1954۔ 1884ء) کو ملا۔ جب وہ فوت ہوا تو یہ خطاب باری باری مراد پنجم کے ایک اور پوتے عثمان فو اد (1973 ۔1895ء ) سلطان عبدالعزیز کے ایک پوتے محمد عبدالعزیز (1901-77ء) سلطان مراد پنجم کے پڑ پوتے علی واسب (1903-84ء) سلطان عبدالحمید ثانی کے پوتے محمد اورہان (1909-94ء) اور عبدالمجید ثانی کے ایک اور پوتے عثمان ارطغرل (1912ء ) کو ملا جو کہ اب نیو یارک سٹی میں رہتا ہے محمد اور ہان شاہی جلا وطنوں میں سب سے رنگین شخصیت تھا اور اس کی داستان حیات کو کسی دلچسپ ناول کی طرح پڑھا جاتا ہے۔ وہ 17بر س کی عمر میں نیس سے بیونس آئرس چلا گیا اور ایک قلی اور ٹرام وے کنڈیکٹر کی حیثیت سے کام کرتا رہا ۔ بیونس آئرس میں اس نے جہاز اڑانا سیکھا اور ایک حیرت انگیز کرتب دکھانے والا پائلٹ بن گیا پھر اسے البانیہ کے کنگ زوگ کا حاجب بنا دیا گیا۔
وہ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے پر پیرس واپس آ گیا۔ جب اتحادی فو جیں نارمنڈی پہنچیں تو وہ امریکی فوج میں بھرتی ہو گیا اور جنگ ختم ہونے تک خدمات انجام دیتا رہا جس کے بعد امریکی حکومت اسے تین سو ڈالر ماہانہ پنشن دینے لگی۔ بعد ازاں اس نے پیرس میں امریکی قبرستان کے گائیڈ کے طور پر کام کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کیا۔ اس نے 3شادیاں کیں اور اپنی تینوں بیو یوں کو طلا ق دے دی۔ اس کا ایک بیٹا او ر ایک بیٹی تھی۔ صدر ترگت اوزال نے 1992ء میں اسے ترکی واپس آنے کی دعوت دی اور اس وقت شاہی خاندان کی ترکی واپسی پر پابندی کا قانون ختم کر دیا گیا۔ 1924ء کی سرد ہوائوں والی رات جب شہزادی مصباح اور دوسرے لوگ سر کیجی اسٹیشن پر شاہی خاندان کو الوادع کہنے آئے تھے، اس وقت محمد اور ہان کی عمر پندرہ سال تھی۔ ترکی واپس کے وقت وہ ایک بوڑھا آدمی تھا۔ جس کی عمر کے صرف دو سال باتی رہ گئے تھے۔ اس کے بھتیجے نے 1994ء میں اس کی موت کے بعد ترکی سے کچھ مٹی منگوائی اور جب ہان کو دفنا یا گیا تو اس نے اور چند دیگر سو گواروں نے اس مٹی کی مٹھیاں بھر کر اس پر ڈالیں ۔
گوئٹے اور اس کے بعد نٹشے نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تاریخ کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ و ہ محض ہماری معلومات میں اضافہ کرے اور ہمیں ماضی کے بارے میں بتا ئے بلکہ اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ یہ زندگی کا مقصد پورا کرے انسان اس سے کچھ حاصل کرے اور اپنی زندگی میں اس سے کچھ سبق سیکھے۔ انسانی معاشروں میں طبقاتی تقسیم نے عوام کی اکثریت کو کچل کر اور دبا کر رکھا تھا بادشاہوں، امراء، سلاطین اور جاگیرداروں کا معاشروں پر غلبہ تھا۔ عوام کی اکثریت اپنی عزت اور عظمت سے محروم جہالت کے اندھیروں میں گم تھی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عوام غلامی کی یہ زنجیریں آہستہ آہستہ توڑ رہے ہیں دنیا کے ہر معاشرے میں عوام میں شعور، آگہی اور واقفیت پیدا ہو رہی ہے۔ مراعات یافتہ طبقے اپنا اثر و رسو خ و طاقت آہستہ آہستہ کھو رہے ہیں۔
دنیا کے کو نے کو نے میں عوامی تحریکیں اپنے حقوق اور عظمت کے لیے جنگ میں مصروف ہیں۔ انسان برابر آزاد ہو رہا ہے۔ یہ آزادی صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ سماجی و معاشی پابندیاں بھی ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی ہیں۔ بادشاہتیں، آمرانہ نظام حکومتیں، ظالمانہ اور استحصالی نظام ایک ایک کر کے ختم ہو رہے ہیں لیکن اس کے لیے عوام بے پنا ہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ جبھی تو اینگلز نے کہا تھا تاریخ کی دیوی سب سے زیادہ ظالم ہے اس کا فاتحانہ جلو س لاشوں کے ڈھیر پر سے گذرتا ہے۔ صرف جنگ کے موقع پر ہی نہیں بلکہ اس پر امن معاشی ترقی میں بھی۔ پاکستان کے عوام بھی آہستہ آہستہ آزاد ہو رہے ہیں وہ ایک ایک کر کے اپنی زنجیریں توڑ رہے ہیں۔ اپنے حقوق اور عظمت کے لیے دن رات جنگ میں مصروف ہیں ابھی انھیں ابتدائی کامیابی نصیب ہوئی ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب جمہور کی اصل حاکمیت و حکمرانی پاکستان پر قائم ہو جائے گی۔
کنگ وکٹر ایما نو ئیل نے اسے اٹلی میں رہنے کی دعوت دی۔ اس نے سان ریمو میں ایک ولا کرائے پر لے لیا۔ پھر اس نے اپنے حاجب کو استنبول بھیجا تا کہ وہ وہیں رہ جانے والی اس کی ہاسیکی نژاد اور دیگر دو بیویوں کو اٹلی لے آئے۔ محمد ششم نے اپنی زندگی کے باقی تین سال سان ریمو میں گزارے جہاں وہ 15 مئی 1926ء کو حرکت قلب بند ہو جانے سے مر گیا۔ اس وقت وہ اپنی عمر کے چھیاسٹھو یں برس میں تھا۔ اس نے زندگی کے آخری برس ادھار لے لے کر گزار ے تھے۔ اس کی تدفین میں تاخیر ہو گئی کیونکہ قرض واپس مانگنے والوں کا ہجوم اس کے قلاش خاندان سے اپنی رقوم مانگ رہا تھا۔ ترک حکام نے اسے ترکی میں دفنا نے کی اجازت نہیں دی تاہم فرانس نے اسے دمشق میں مسجد سلطان سلیم اول میں دفنا نے کی اجازت دے دی۔ محمد ششم کی وفات کے بعد اس کی بیویاں استنبول واپس آ گئیں۔ یہاں ہاسیکی نوزاد نے بحریہ کے اس کپتان سے شادی کر لی، جس سے حرم میں شامل کیے جانے سے پہلے اس کی منگنی ہوئی تھی۔ اس کا با قی خاندان مختلف ملکوں میں بکھر گیا۔ اس کا اکلو تا بیٹا ارطغر ل مصر چلا گیا، جہاں وہ 1944ء میں فوت ہو گیا۔
پہلے والے سلطا نوں کے خاندانوں کو بھی جلا وطن کر دیا گیا۔ سلطان عبدالحمید ثانی کی بیٹی عائشہ نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے۔ ''ہم وہ لوگ ہیں جن کا کوئی وطن نہیں، کوئی گھر نہیں، کوئی سر چھپانے کا ٹھکا نہ نہیں، جلا وطنی میں ہمارے خاندان کی تاریخ سوائے المناک اموات کے اور کچھ نہیں ہے۔'' اس کا بھائی محمد عبدالقادر صو فیہ کے ایک آرکسٹرا میں سازندہ تھا اور جب وہ 1944ء میں فوت ہوا تو اسے خاموشی سے ایک بے نام قبر میں دفن کر دیا گیا۔ اس کی بہن ذکیہ نے اپنے آخری ایام جنوبی فرانس کے ایک ہو ٹل میں خیرات پر گزارے وہ 1950ء میں فوت ہوئی۔ اس کے ایک بھائی عبدالرحیم خاوری نے 1952ء میں پیرس میں خود کشی کر لی اور اس نے اتنی کم رقم چھوڑی کہ بمشکل اس کی تدفین عمل میں آ سکی۔ ادھر آخری خلیفہ عبدالمجید پہلے کچھ عرصہ سوئٹرز لینڈ میں رہا اور پھر نیس چلا گیا، جہاں وہ دوسری عالمی جنگ تک رہا۔ بعد میں وہ پیر س چلا گیا، جہاں 23 اگست 1944ء کو حرکت قلب بند ہونے سے وفات پا گیا۔ عین اسی زمانے میں پیرس جرمنوں کے قبضے سے آزاد ہوا تھا۔ آزادی کی خوشی میں عبدالمجید کی موت کی خبر دب گئی اور اس کی موت پر اتنی توجہ بھی نہیں دی گئی، دی ٹائمز لندن نے تعزیت نامہ بھی شائع نہیں کیا۔
اتحادیوں نے مدینہ منورہ میں اس کی تدفین کی اجازت دے دی جہاں اسے آخری عثمانی خلیفہ کے طور پر احترام دیا جاتا تھا۔ ایک قریب المرگ خطاب جو اس کی وفات کے ساتھ ہی مر گیا۔ عبدالمجید کی وفات کے بعد عثمانی خاندان کے سر براہ کا خطاب سلطان مراد پنجم کے پوتے احمد نہاد (1954۔ 1884ء) کو ملا۔ جب وہ فوت ہوا تو یہ خطاب باری باری مراد پنجم کے ایک اور پوتے عثمان فو اد (1973 ۔1895ء ) سلطان عبدالعزیز کے ایک پوتے محمد عبدالعزیز (1901-77ء) سلطان مراد پنجم کے پڑ پوتے علی واسب (1903-84ء) سلطان عبدالحمید ثانی کے پوتے محمد اورہان (1909-94ء) اور عبدالمجید ثانی کے ایک اور پوتے عثمان ارطغرل (1912ء ) کو ملا جو کہ اب نیو یارک سٹی میں رہتا ہے محمد اور ہان شاہی جلا وطنوں میں سب سے رنگین شخصیت تھا اور اس کی داستان حیات کو کسی دلچسپ ناول کی طرح پڑھا جاتا ہے۔ وہ 17بر س کی عمر میں نیس سے بیونس آئرس چلا گیا اور ایک قلی اور ٹرام وے کنڈیکٹر کی حیثیت سے کام کرتا رہا ۔ بیونس آئرس میں اس نے جہاز اڑانا سیکھا اور ایک حیرت انگیز کرتب دکھانے والا پائلٹ بن گیا پھر اسے البانیہ کے کنگ زوگ کا حاجب بنا دیا گیا۔
وہ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے پر پیرس واپس آ گیا۔ جب اتحادی فو جیں نارمنڈی پہنچیں تو وہ امریکی فوج میں بھرتی ہو گیا اور جنگ ختم ہونے تک خدمات انجام دیتا رہا جس کے بعد امریکی حکومت اسے تین سو ڈالر ماہانہ پنشن دینے لگی۔ بعد ازاں اس نے پیرس میں امریکی قبرستان کے گائیڈ کے طور پر کام کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کیا۔ اس نے 3شادیاں کیں اور اپنی تینوں بیو یوں کو طلا ق دے دی۔ اس کا ایک بیٹا او ر ایک بیٹی تھی۔ صدر ترگت اوزال نے 1992ء میں اسے ترکی واپس آنے کی دعوت دی اور اس وقت شاہی خاندان کی ترکی واپسی پر پابندی کا قانون ختم کر دیا گیا۔ 1924ء کی سرد ہوائوں والی رات جب شہزادی مصباح اور دوسرے لوگ سر کیجی اسٹیشن پر شاہی خاندان کو الوادع کہنے آئے تھے، اس وقت محمد اور ہان کی عمر پندرہ سال تھی۔ ترکی واپس کے وقت وہ ایک بوڑھا آدمی تھا۔ جس کی عمر کے صرف دو سال باتی رہ گئے تھے۔ اس کے بھتیجے نے 1994ء میں اس کی موت کے بعد ترکی سے کچھ مٹی منگوائی اور جب ہان کو دفنا یا گیا تو اس نے اور چند دیگر سو گواروں نے اس مٹی کی مٹھیاں بھر کر اس پر ڈالیں ۔
گوئٹے اور اس کے بعد نٹشے نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تاریخ کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ و ہ محض ہماری معلومات میں اضافہ کرے اور ہمیں ماضی کے بارے میں بتا ئے بلکہ اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ یہ زندگی کا مقصد پورا کرے انسان اس سے کچھ حاصل کرے اور اپنی زندگی میں اس سے کچھ سبق سیکھے۔ انسانی معاشروں میں طبقاتی تقسیم نے عوام کی اکثریت کو کچل کر اور دبا کر رکھا تھا بادشاہوں، امراء، سلاطین اور جاگیرداروں کا معاشروں پر غلبہ تھا۔ عوام کی اکثریت اپنی عزت اور عظمت سے محروم جہالت کے اندھیروں میں گم تھی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عوام غلامی کی یہ زنجیریں آہستہ آہستہ توڑ رہے ہیں دنیا کے ہر معاشرے میں عوام میں شعور، آگہی اور واقفیت پیدا ہو رہی ہے۔ مراعات یافتہ طبقے اپنا اثر و رسو خ و طاقت آہستہ آہستہ کھو رہے ہیں۔
دنیا کے کو نے کو نے میں عوامی تحریکیں اپنے حقوق اور عظمت کے لیے جنگ میں مصروف ہیں۔ انسان برابر آزاد ہو رہا ہے۔ یہ آزادی صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ سماجی و معاشی پابندیاں بھی ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی ہیں۔ بادشاہتیں، آمرانہ نظام حکومتیں، ظالمانہ اور استحصالی نظام ایک ایک کر کے ختم ہو رہے ہیں لیکن اس کے لیے عوام بے پنا ہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ جبھی تو اینگلز نے کہا تھا تاریخ کی دیوی سب سے زیادہ ظالم ہے اس کا فاتحانہ جلو س لاشوں کے ڈھیر پر سے گذرتا ہے۔ صرف جنگ کے موقع پر ہی نہیں بلکہ اس پر امن معاشی ترقی میں بھی۔ پاکستان کے عوام بھی آہستہ آہستہ آزاد ہو رہے ہیں وہ ایک ایک کر کے اپنی زنجیریں توڑ رہے ہیں۔ اپنے حقوق اور عظمت کے لیے دن رات جنگ میں مصروف ہیں ابھی انھیں ابتدائی کامیابی نصیب ہوئی ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب جمہور کی اصل حاکمیت و حکمرانی پاکستان پر قائم ہو جائے گی۔