جگر کی بیماریاں احتیاط اور علاج
پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، انتقال خون کے لیے مناسب ٹیسٹوں کے فقدان کی وجہ سے مرض میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مریض کمزور حالت میں کمرے میں داخل ہوا۔ چلنا پھرنا دوبھر ہو رہا تھا، چہرے پہ پیلاہٹ نمایاں تھی، آنکھیں پیلی زرد تھیں۔ پوچھنے پہ بتایا کہ کئی دنوں سے یہ حالت ہے۔ بھوک بالکل نہیں لگتی۔ اکثر قے آ جاتی ہے اور کچھ کھانے کو دل نہیں کرتا۔ ایسا یرقان یا ہیپاٹائٹس میں ہوتا ہے۔
''یرقان'' یا ہیپاٹائٹس میں جلد، آنکھوں کے سفید حصے اور جسم میں موجود مختلف جھلیوں وغیرہ کا رنگ پیلا زرد ہو جاتا ہے۔ مریض کو ایک نظر دیکھنے سے زبردست پیلاہٹ کا تاثر ملتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خون میں ایک کیمیائی مادہ بلی روبین Bilirubin کی زیادتی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے یرقان کو پیلیا کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
یرقان کی مختلف اقسام اے، بی، سی، ڈی اور ای ہیں۔ یہ بیماری ایک وائرس کی مختلف قسموں سے ہوتی ہے جنہیں وائرس D,C,B,A اور E کے نام دئیے گئے ہیں۔ وائرس کی بی اور سی اقسام سے ہونے والی بیماری زیادہ خطرناک اور عام ہے۔ وائرس A، D اور E زیادہ خطرناک نہیں۔ مریض چند دنوں میں خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔
وجوہات اور پھیلاؤ:
حفظان صحت کے اصولوں سے لاعلمی، پانی اور سیوریج کے ناقص انتظام، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، انتقال خون کے لیے مناسب ٹیسٹوں کے فقدان کی وجہ سے جگر کی بیماری ہوتی اور پھیلتی ہے۔ بیماری کا جراثیم مریض کے فضلہ کے راستے خارج ہو کر پانی میں شامل ہو کر صحت مند لوگوں میں بیماری پھیلا سکتا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی انسان کے خون سے صحت مند لوگوں تک پہنچتا ہے۔ اگر وائرس سے متاثر کسی شخص کا خون صحت مند آدمی کو لگا دیا جائے تو اس کو یہ بیماری لگنے کا امکان ہوتا ہے۔ متاثرہ آدمی کا خون لگنے یا کوئی بھی ایسا ذریعہ جس سے معمولی یا بہت تھوڑی مقدار میں خون میڈیکل آلات، مثلاً قینچی، سرنج وغیرہ کے ذریعے بھی بیماری کا وائرس خون میں شامل ہو سکتا ہے۔
مریض کی جسمانی رطوبت سے بھی بیماری پھیل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مریض کے زیر استعمال اشیاء استعمال کرنے سے بھی بیماری لگ سکتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کا وائرس قربت کے تعلقات اور جنسی اختلاط میں بھی ایک ساتھی سے دوسرے کو لگ سکتا ہے۔
علامات:
ہیپاٹائٹس یا یرقان کی بیماری کی تمام اقسام کی علامات تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ابتدائی طور پر ہلکا بخار، منہ کا ذائقہ تبدیل ہونا، بھوک نہ لگنا اور پیٹ میں ہلکا درد ہونا ہے۔ تین چار دن بعد بخار کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ آنکھوں کا رنگ پیلا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پیشاب گہرا پیلا اور زرد ہو جاتا ہے۔ بھوک بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ بار بار متلی اور قے ہوتی ہے۔ جگر اور تلی دونوں بڑھ جاتے ہیں اور بعض مریضوں کے گلے کے غدود بھی بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد یہ علامات ختم ہونا شروع ہو تی ہیں مگر پیلاہٹ ہفتہ سے دس دنوں تک برقرار رہتی ہے۔ اس دوران مریض بہت کمزوری محسوس کرتا ہے۔ اس وجہ سے مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
تشخیص:
اگر کسی میں اوپر دی گئی علامات ظاہر ہو ں تو ضروری ہے کہ فوراً ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے۔ بیماری کی تشخیص خون کا ٹیسٹ کروا کے کی جاتی ہے جس میں جگر کے افعال اور خون میں بلوروبین وغیرہ کی مقدار کو چیک کیا جاتا ہے۔
علاج اور احتیاط:
یرقان ایک متعدی اور خطرناک مرض ہے جو وائرس سے ہوتا ہے۔ اس کے علاج میں سب سے اہم بات مکمل احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا ہے تاکہ ایک تو بیماری زیادہ خطرناک صورت حال اختیار نہ کرے، دوسرے یہ صحت مند لوگوں تک نہ پہنچ جائے۔ یرقان کے علاج میں مندرجہ ذیل اہم امور کو یاد رکھیں۔
-1 آرام:
ہیپاٹائٹس یا یرقان کی بیماری میں آرام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مریض کو کھلے ہوا دار کمرے میں رکھا جائے۔ زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کا موقع دیا جائے۔ طبیعت اجازت دے تو تھوڑا بہت چلا بھی جا سکتا ہے لیکن زیادہ چلنے پھرنے سے مریض بہت جلد تھکن کا شکار ہو سکتا ہے جس سے بیمار جگر پر مزید بوجھ پڑ سکتا ہے۔
-2 غذا:
یرقان کی بیماری میں مریض کو بھوک کم لگتی ہے۔ اس دوران زیادہ ثقیل اور مرغن غذائیں تو ویسے بھی کھانے کو بالکل دل نہیں کرتا۔ یرقان کی بیماری میں پروٹین غذا سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے۔ مریض کو سبزیاں ابال کر بغیر گھی کے کھانی چاہئیں کیونکہ زیادہ گھی کا استعمال بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس حالت میں پینے والی اشیاء مثلاً فریش جوس، کچی لسی، گلیکسوز ڈی وغیرہ زیادہ استعمال کریں۔ سبزیاں ابال کرلیں۔ سبز پتوں والی اور تازہ سبزیاں اور پھل بکثرت لیں۔
-3 دواؤں کا استعمال:
یرقان کی بیماری میں دواؤں کے استعمال سے مناسب حد تک پرہیز کرنا چاہیے۔ مختلف دوائیں معدے سے جگر تک پہنچتی ہیں اور جگر ہی انہیں قابل استعمال بناتا ہے۔ اس لیے اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ یرقان میں دوائیں کھانے سے جگر پر غیر ضروری بوجھ پڑے گا کیونکہ وہ تو پہلے ہی زخمی (بیمار) ہوتا ہے۔ اگر ضروری ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے دوا لیں۔
احتیاطی تدابیر:
-1ہیپاٹائٹس بی کا تدارک اس کے حفاظتی ٹیکوں (ویکسین) کے کورس سے ممکن ہے۔ جو لوگ ہسپتال، کسی لیبارٹری، بلڈ بینک وغیرہ میں کام کرتے ہوں، انہیں چاہیے کہ یہ ویکسین ضرور لگوا لیں۔
-2جب کسی کو یرقان کی بیماری ہو جائے تو اسے علیحدہ کمرے میں رکھیں۔ صحت مند لوگ اس کی زیر استعمال اشیاء استعمال نہ کریں۔ مریض کی جملہ رطوبتیں جن میں پیشاب، پاخانہ، لعاب دہن وغیرہ شامل ہیں کو صحیح طور پر ٹھکانے لگایا جائے۔ مریض کی زیر استعمال چیزوں کو چھونے سے پہلے اور اس کے بعد ہاتھ اچھی طرح صابن سے صاف کریں اور ان کو استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔
-3یرقان کے مریض کو قربت کے تعلقات مثلاً جسمانی اختلاط سے پرہیز کرنا چاہیے۔
-4اگر گھر میں کسی کو مرض ہو جائے تو تمام صحت مند لوگوں کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو سکتے تو ہیپاٹائٹس کی ویکسین لگوا لیں جس سے بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
-5گھر اور اردگرد کی صفائی کے حالات اور سیوریج کے انتظام کو بہتر بنایا جائے۔
-6بیماری کی وبا کی صورت میں پانی ابال کر استعمال کریں۔
-7اگر کبھی کسی مریض کو خون لگوانا ہو تو اس بات کی تسلی کر لیں کہ اس خون کا ہیپاٹائٹس بی یا دوسری بیماریوں کے جراثیم کی موجودگی کے لیے ٹیسٹ کیا گیا ہے کہ نہیں۔
-8کھانے پینے کی اشیاء کو ڈھانک کر رکھیں۔ حجام کی دکانوں پر کم سے کم جائیں کیونکہ حجام کے استرے، قینچیوں وغیرہ سے کٹ لگنے سے بھی بیمار آدمی سے بیماری کے جراثیم صحت مند لوگوں میں پہنچ سکتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس ''سی'' کی بیماری علاج اور احتیاط:
اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہیپاٹائٹس سی ایک خطرناک مرض ہے لیکن بیمار ہونے کی صورت میں پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ اس بیماری سے متاثر ہیں۔ ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ لوگ نارمل زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر لوگوں میں ہیپاٹائٹس سی کا وائرس کوئی زیادہ مسئلہ نہیں کرتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ بیماری کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے اور ہمت سے اس سے نبرد آزما ہونا ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بیماری کا وائرس ہوتے ہی نام نہاد حکیموں اور ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں پہلے تو خوب ڈراتے ہیں اور اس کے بعد علاج کے نام پر نت نئے ڈرامے کرتے ہیں۔ کوئی سفوف دیتا ہے اور کوئی جعلی قسم کے ٹیکے اور اکیسراعظم۔ جو رہی سہی کسر چھوڑ کر ''بیمار جگر'' کو اور بھی بیمار کرنے کا سبب بنتے ہیں اور یوں بیماری اپنی پوری تباہ کاریوں کے ساتھ بندہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور مریض کی تکالیف میں کئی گناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ان تمام شعبدہ بازیوں سے بچا جائے۔ مستند ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور غلط لوگوں کے ہتھے نہ چڑھیں۔ ہیپاٹائٹس سی کے تمام مریضوں کی رہنمائی کے لیے مندرجہ ذیل گائیڈ لائن دی جا رہی ہیں جس پر عمل کر کے وہ اپنی زندگی نارمل طریقے سے گزار سکتے ہیں۔
ژاللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بیماری ہونے کی صورت میں کسی قسم کی پریشانی یا گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں۔ اس کو صرف ایک عام بیماری سمجھیں۔
ژبیماری کے ساتھ لڑنے کا عزم صمیم کر لیں اور زندگی کے معمولات میں کسی قسم کی کمی نہ کریں۔
ژہیپاٹائٹس سی کے ٹیسٹ یعنی پی سی آر جینو ٹائپنگ اور جگر کے ٹیسٹ، الٹرا ساؤنڈ وغیرہ کسی مستند لیب سے کروائیں۔
ژیاد رہے کہ ہیپاٹائٹس سی متعدی مرض نہیں۔ اس لیے آپس میں میل جو، اکٹھے کھانا کھانے اور ایک ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔
ژہیپاٹائٹس سی پھیلنے کا بڑا ذریعہ انتقال خون ہے۔ متاثرہ سرنج سے بھی پھیل سکتا ہے۔ اس لیے انجکشن ہمیشہ نئی سرنج سے لگوایا جائے۔ اس کے علاوہ متاثرہ شخص سے اپنا شیونگ کا سامان، ٹوتھ برش، پیسٹ وغیرہ علیحدہ رکھنا رکھنا چاہیے کیونکہ کسی قسم کی خراش یا زخم سے بھی وائرس صحت مند آدمی کو لگ سکتا ہے۔
ژمریض کو ہر ماہ جگر کے افعال کے ٹیسٹ (خصوصاً ALT) کروانا چاہیے۔
ژانٹر فیرون کے انجکشن لگوانے سے بیماری دور ہونے کے 70 فیصد سے زیادہ امکان ہیں۔ ان ٹیکوں کے تھوڑے بہت مضر اثرات ہوتے ہیں۔ جن سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن ٹیکوں کے انتخاب میں ضروری ہے کہ کم قیمت کے مقامی ٹیکے استعمال کی جائیں۔ آج کل کئی برانڈ موجود ہیں اور 5-4 ہزار روپے ماہانہ خرچ میں ٹیکے اور کیپسول مل جاتے ہیں۔
ژاس کے علاوہ ہیپاٹائٹس سی کی بیماری کو کنٹرول کرنے اور جگر کے افعال کو بہتر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل گھریلو نسخے بھی کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔
ژتازہ مولی پتوں سمیت یا اس کا رس نکال کر روزانہ استعمال کریں۔
ژصبح ناشتے میں ملٹھی اور سونف کا باقاعدہ استعمال کریں۔
ژمولی، ملٹھی، سونف، دار چینی اور گلوکوز کا محلول بنا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یمنٰی طبی فلاحی مرکز پر کئی مریضوں میں محلول استعمال کیا گیا۔ اس سے نہ صرف ان کے جگر کے افعال درست ہوئے بلکہ کچھ میں ہیپاٹائٹس سی کے مرض کا خاتمہ بھی ہوا۔
ژ ہیپاکول سیرپ، گولیاں اور شربت پپیتہ کا استعمال ضروری ہے۔ ہیپاکول سے جگر کے نہ صرف افعال درست ہوتے ہیں۔ جسم میں قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ وائرس کمزور ہو کر مزید نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔ شربت پپیتہ کے باقاعدہ استعمال سے خون میں پلیٹلٹس کی تعداد جو ہیپاٹائٹس سی میں کم ہو جاتی ہے، نارمل ہو جاتی ہے۔
''یرقان'' یا ہیپاٹائٹس میں جلد، آنکھوں کے سفید حصے اور جسم میں موجود مختلف جھلیوں وغیرہ کا رنگ پیلا زرد ہو جاتا ہے۔ مریض کو ایک نظر دیکھنے سے زبردست پیلاہٹ کا تاثر ملتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خون میں ایک کیمیائی مادہ بلی روبین Bilirubin کی زیادتی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے یرقان کو پیلیا کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
یرقان کی مختلف اقسام اے، بی، سی، ڈی اور ای ہیں۔ یہ بیماری ایک وائرس کی مختلف قسموں سے ہوتی ہے جنہیں وائرس D,C,B,A اور E کے نام دئیے گئے ہیں۔ وائرس کی بی اور سی اقسام سے ہونے والی بیماری زیادہ خطرناک اور عام ہے۔ وائرس A، D اور E زیادہ خطرناک نہیں۔ مریض چند دنوں میں خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔
وجوہات اور پھیلاؤ:
حفظان صحت کے اصولوں سے لاعلمی، پانی اور سیوریج کے ناقص انتظام، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، انتقال خون کے لیے مناسب ٹیسٹوں کے فقدان کی وجہ سے جگر کی بیماری ہوتی اور پھیلتی ہے۔ بیماری کا جراثیم مریض کے فضلہ کے راستے خارج ہو کر پانی میں شامل ہو کر صحت مند لوگوں میں بیماری پھیلا سکتا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی انسان کے خون سے صحت مند لوگوں تک پہنچتا ہے۔ اگر وائرس سے متاثر کسی شخص کا خون صحت مند آدمی کو لگا دیا جائے تو اس کو یہ بیماری لگنے کا امکان ہوتا ہے۔ متاثرہ آدمی کا خون لگنے یا کوئی بھی ایسا ذریعہ جس سے معمولی یا بہت تھوڑی مقدار میں خون میڈیکل آلات، مثلاً قینچی، سرنج وغیرہ کے ذریعے بھی بیماری کا وائرس خون میں شامل ہو سکتا ہے۔
مریض کی جسمانی رطوبت سے بھی بیماری پھیل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مریض کے زیر استعمال اشیاء استعمال کرنے سے بھی بیماری لگ سکتی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کا وائرس قربت کے تعلقات اور جنسی اختلاط میں بھی ایک ساتھی سے دوسرے کو لگ سکتا ہے۔
علامات:
ہیپاٹائٹس یا یرقان کی بیماری کی تمام اقسام کی علامات تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ابتدائی طور پر ہلکا بخار، منہ کا ذائقہ تبدیل ہونا، بھوک نہ لگنا اور پیٹ میں ہلکا درد ہونا ہے۔ تین چار دن بعد بخار کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ آنکھوں کا رنگ پیلا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پیشاب گہرا پیلا اور زرد ہو جاتا ہے۔ بھوک بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ بار بار متلی اور قے ہوتی ہے۔ جگر اور تلی دونوں بڑھ جاتے ہیں اور بعض مریضوں کے گلے کے غدود بھی بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد یہ علامات ختم ہونا شروع ہو تی ہیں مگر پیلاہٹ ہفتہ سے دس دنوں تک برقرار رہتی ہے۔ اس دوران مریض بہت کمزوری محسوس کرتا ہے۔ اس وجہ سے مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
تشخیص:
اگر کسی میں اوپر دی گئی علامات ظاہر ہو ں تو ضروری ہے کہ فوراً ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے۔ بیماری کی تشخیص خون کا ٹیسٹ کروا کے کی جاتی ہے جس میں جگر کے افعال اور خون میں بلوروبین وغیرہ کی مقدار کو چیک کیا جاتا ہے۔
علاج اور احتیاط:
یرقان ایک متعدی اور خطرناک مرض ہے جو وائرس سے ہوتا ہے۔ اس کے علاج میں سب سے اہم بات مکمل احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا ہے تاکہ ایک تو بیماری زیادہ خطرناک صورت حال اختیار نہ کرے، دوسرے یہ صحت مند لوگوں تک نہ پہنچ جائے۔ یرقان کے علاج میں مندرجہ ذیل اہم امور کو یاد رکھیں۔
-1 آرام:
ہیپاٹائٹس یا یرقان کی بیماری میں آرام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مریض کو کھلے ہوا دار کمرے میں رکھا جائے۔ زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کا موقع دیا جائے۔ طبیعت اجازت دے تو تھوڑا بہت چلا بھی جا سکتا ہے لیکن زیادہ چلنے پھرنے سے مریض بہت جلد تھکن کا شکار ہو سکتا ہے جس سے بیمار جگر پر مزید بوجھ پڑ سکتا ہے۔
-2 غذا:
یرقان کی بیماری میں مریض کو بھوک کم لگتی ہے۔ اس دوران زیادہ ثقیل اور مرغن غذائیں تو ویسے بھی کھانے کو بالکل دل نہیں کرتا۔ یرقان کی بیماری میں پروٹین غذا سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے۔ مریض کو سبزیاں ابال کر بغیر گھی کے کھانی چاہئیں کیونکہ زیادہ گھی کا استعمال بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس حالت میں پینے والی اشیاء مثلاً فریش جوس، کچی لسی، گلیکسوز ڈی وغیرہ زیادہ استعمال کریں۔ سبزیاں ابال کرلیں۔ سبز پتوں والی اور تازہ سبزیاں اور پھل بکثرت لیں۔
-3 دواؤں کا استعمال:
یرقان کی بیماری میں دواؤں کے استعمال سے مناسب حد تک پرہیز کرنا چاہیے۔ مختلف دوائیں معدے سے جگر تک پہنچتی ہیں اور جگر ہی انہیں قابل استعمال بناتا ہے۔ اس لیے اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ یرقان میں دوائیں کھانے سے جگر پر غیر ضروری بوجھ پڑے گا کیونکہ وہ تو پہلے ہی زخمی (بیمار) ہوتا ہے۔ اگر ضروری ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے دوا لیں۔
احتیاطی تدابیر:
-1ہیپاٹائٹس بی کا تدارک اس کے حفاظتی ٹیکوں (ویکسین) کے کورس سے ممکن ہے۔ جو لوگ ہسپتال، کسی لیبارٹری، بلڈ بینک وغیرہ میں کام کرتے ہوں، انہیں چاہیے کہ یہ ویکسین ضرور لگوا لیں۔
-2جب کسی کو یرقان کی بیماری ہو جائے تو اسے علیحدہ کمرے میں رکھیں۔ صحت مند لوگ اس کی زیر استعمال اشیاء استعمال نہ کریں۔ مریض کی جملہ رطوبتیں جن میں پیشاب، پاخانہ، لعاب دہن وغیرہ شامل ہیں کو صحیح طور پر ٹھکانے لگایا جائے۔ مریض کی زیر استعمال چیزوں کو چھونے سے پہلے اور اس کے بعد ہاتھ اچھی طرح صابن سے صاف کریں اور ان کو استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔
-3یرقان کے مریض کو قربت کے تعلقات مثلاً جسمانی اختلاط سے پرہیز کرنا چاہیے۔
-4اگر گھر میں کسی کو مرض ہو جائے تو تمام صحت مند لوگوں کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو سکتے تو ہیپاٹائٹس کی ویکسین لگوا لیں جس سے بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
-5گھر اور اردگرد کی صفائی کے حالات اور سیوریج کے انتظام کو بہتر بنایا جائے۔
-6بیماری کی وبا کی صورت میں پانی ابال کر استعمال کریں۔
-7اگر کبھی کسی مریض کو خون لگوانا ہو تو اس بات کی تسلی کر لیں کہ اس خون کا ہیپاٹائٹس بی یا دوسری بیماریوں کے جراثیم کی موجودگی کے لیے ٹیسٹ کیا گیا ہے کہ نہیں۔
-8کھانے پینے کی اشیاء کو ڈھانک کر رکھیں۔ حجام کی دکانوں پر کم سے کم جائیں کیونکہ حجام کے استرے، قینچیوں وغیرہ سے کٹ لگنے سے بھی بیمار آدمی سے بیماری کے جراثیم صحت مند لوگوں میں پہنچ سکتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس ''سی'' کی بیماری علاج اور احتیاط:
اس میں کوئی کلام نہیں کہ ہیپاٹائٹس سی ایک خطرناک مرض ہے لیکن بیمار ہونے کی صورت میں پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ اس بیماری سے متاثر ہیں۔ ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ لوگ نارمل زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ زیادہ تر لوگوں میں ہیپاٹائٹس سی کا وائرس کوئی زیادہ مسئلہ نہیں کرتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ بیماری کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے اور ہمت سے اس سے نبرد آزما ہونا ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بیماری کا وائرس ہوتے ہی نام نہاد حکیموں اور ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں پہلے تو خوب ڈراتے ہیں اور اس کے بعد علاج کے نام پر نت نئے ڈرامے کرتے ہیں۔ کوئی سفوف دیتا ہے اور کوئی جعلی قسم کے ٹیکے اور اکیسراعظم۔ جو رہی سہی کسر چھوڑ کر ''بیمار جگر'' کو اور بھی بیمار کرنے کا سبب بنتے ہیں اور یوں بیماری اپنی پوری تباہ کاریوں کے ساتھ بندہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور مریض کی تکالیف میں کئی گناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ان تمام شعبدہ بازیوں سے بچا جائے۔ مستند ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور غلط لوگوں کے ہتھے نہ چڑھیں۔ ہیپاٹائٹس سی کے تمام مریضوں کی رہنمائی کے لیے مندرجہ ذیل گائیڈ لائن دی جا رہی ہیں جس پر عمل کر کے وہ اپنی زندگی نارمل طریقے سے گزار سکتے ہیں۔
ژاللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بیماری ہونے کی صورت میں کسی قسم کی پریشانی یا گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں۔ اس کو صرف ایک عام بیماری سمجھیں۔
ژبیماری کے ساتھ لڑنے کا عزم صمیم کر لیں اور زندگی کے معمولات میں کسی قسم کی کمی نہ کریں۔
ژہیپاٹائٹس سی کے ٹیسٹ یعنی پی سی آر جینو ٹائپنگ اور جگر کے ٹیسٹ، الٹرا ساؤنڈ وغیرہ کسی مستند لیب سے کروائیں۔
ژیاد رہے کہ ہیپاٹائٹس سی متعدی مرض نہیں۔ اس لیے آپس میں میل جو، اکٹھے کھانا کھانے اور ایک ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔
ژہیپاٹائٹس سی پھیلنے کا بڑا ذریعہ انتقال خون ہے۔ متاثرہ سرنج سے بھی پھیل سکتا ہے۔ اس لیے انجکشن ہمیشہ نئی سرنج سے لگوایا جائے۔ اس کے علاوہ متاثرہ شخص سے اپنا شیونگ کا سامان، ٹوتھ برش، پیسٹ وغیرہ علیحدہ رکھنا رکھنا چاہیے کیونکہ کسی قسم کی خراش یا زخم سے بھی وائرس صحت مند آدمی کو لگ سکتا ہے۔
ژمریض کو ہر ماہ جگر کے افعال کے ٹیسٹ (خصوصاً ALT) کروانا چاہیے۔
ژانٹر فیرون کے انجکشن لگوانے سے بیماری دور ہونے کے 70 فیصد سے زیادہ امکان ہیں۔ ان ٹیکوں کے تھوڑے بہت مضر اثرات ہوتے ہیں۔ جن سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں لیکن ٹیکوں کے انتخاب میں ضروری ہے کہ کم قیمت کے مقامی ٹیکے استعمال کی جائیں۔ آج کل کئی برانڈ موجود ہیں اور 5-4 ہزار روپے ماہانہ خرچ میں ٹیکے اور کیپسول مل جاتے ہیں۔
ژاس کے علاوہ ہیپاٹائٹس سی کی بیماری کو کنٹرول کرنے اور جگر کے افعال کو بہتر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل گھریلو نسخے بھی کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔
ژتازہ مولی پتوں سمیت یا اس کا رس نکال کر روزانہ استعمال کریں۔
ژصبح ناشتے میں ملٹھی اور سونف کا باقاعدہ استعمال کریں۔
ژمولی، ملٹھی، سونف، دار چینی اور گلوکوز کا محلول بنا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یمنٰی طبی فلاحی مرکز پر کئی مریضوں میں محلول استعمال کیا گیا۔ اس سے نہ صرف ان کے جگر کے افعال درست ہوئے بلکہ کچھ میں ہیپاٹائٹس سی کے مرض کا خاتمہ بھی ہوا۔
ژ ہیپاکول سیرپ، گولیاں اور شربت پپیتہ کا استعمال ضروری ہے۔ ہیپاکول سے جگر کے نہ صرف افعال درست ہوتے ہیں۔ جسم میں قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ وائرس کمزور ہو کر مزید نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔ شربت پپیتہ کے باقاعدہ استعمال سے خون میں پلیٹلٹس کی تعداد جو ہیپاٹائٹس سی میں کم ہو جاتی ہے، نارمل ہو جاتی ہے۔