امام علی نازش
عوام پر مزید بوجھ لادنے کے لیے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض لیے جارہے ہیں۔
امام علی نازش امروہہ ، یو پی، ہندوستان میں پیدا ہوئے، جس طرح ایران کا شہر شیراز، ایتھینزآف ایشیا کہلاتا ہے، اسی طرح امروہہ کو ایتھینزآف یو پی کہنا غلط نہ ہوگا ۔ اس لیے کہ دانش وروں ، شاعروں ، ادیبوں اور محققوں کی یہ آماج گاہ ہے، ہر چندکہ یہ چھوٹاسا قصبہ ہے۔ بہرحال پاکستان بننے کے بعد وہ ہندوستان سے کراچی آگئے اور انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی کے جوائنٹ سیکریٹری بھی منتخب ہوئے، بعد ازاں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہوگئے اور اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے پارٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے پھر تادم مرگ پارٹی کے سیکریٹری جنرل رہے۔
انھیں سخی حسن قبرسان کراچی میں شہید نذیر عباسی کے پہلو میں دفنایا گیا، وہ ساری زندگی کمیونسٹ نظریات اور اس کی عملی جدوجہد میں ساتھ رہے ۔ ان کے دنیا بھرکی کمیونسٹ پارٹیوں سے قریبی تعلقات تھے۔ متعدد بار روس میں پارٹی کانفرنسوں میں شر کت کی ۔کئی سال روپوشی کے دوران افغانستان کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے مہمان رہے۔ وہ بحیثیت پارٹی سیکریٹری مختلف محاذوں کی رہنمائی کرتے رہے ۔ جن میں انجمن ترقی پسند مصنفین، پاکستان پیس کونسل، ڈی ایس ایف ، سندھ ہاری کمیٹی، سر حد کسان جرگہ ، پنجاب کسان کمیٹی، بلوچستان بزگرکمیٹی ، نیپ ، پاکستان ورکرز فیڈریشن ،کراچی نوجوان تحریک اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے مختلف تنظیموں کی رہنمائی کر تے رہے اور وہ ایک شاعر بھی تھے اورگلوکار بھی ۔
1971 میں جب جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کی توکمیو نسٹ پارٹی کے رہنما جام ساقی کے نام سے بنگالی عوام پر فوج کشی کے خلاف ایک پمفلٹ شایع کیا جو ملک بھرکے عوام میں بانٹا گیا ۔ حکومت نے بڑی چابک دستی اور خو نخواری سے جام ساقی کی تلاش شروع کی لیکن وہ ہاتھ نہ آئے ۔اس موقعے پر ملک بھرکی تقریبا سبھی قوم پرست جما عتیں اور رہنما خا موش رہے۔
صرف پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے والد ایم ڈی تاثیر، عاصمہ جہانگیرکے وا لد ملک غلام جیلانی جن کا نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق تھا اور طاہرہ مظہرعلی خان جن کا کمیونسٹ پارٹی سے تعلق تھا نے مذمتی بیانات دیے جب کہ کمیو نسٹ پارٹی آف پاکستان نے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کے خلاف کوئٹہ، پشاوراورکرا چی میں 27 مارچ 1971 کو مظاہرے کیے جس میں عوا می لیگی کارکنان بھی شریک ہوئے، مظاہرین میں ڈاکٹر اعزاز نذیر، نواز بٹ اور جاوید شکورکو کراچی،گرومندر سے گرفتارکرلیا گیا تھا۔سندھ کے تقریبا سبھی قوم پرست رہنماؤں بشمول جی ایم سید جن کے خیالات بنگالیوںکی ہمدردی میں سنبھالے نہیں سنبھلتے تھے وہ بھی دم بخود رہے ۔
جنرل ضیاالحق کے بدترین مارشل لا ء کے دور میں جہاں ہزاروں پیپلز پارٹی کے کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا،کو ڑے مار ے گئے اور پھانسی پہ لٹکایا گیا، وہیں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنماؤں ڈاکٹر تاج اور نذیر عباسی سمیت کارکنان کوکوڑے ما رے گئے، تشدد کیا گیا اور پھانسی دی گئی۔ 1978 یکم مئی کو میراں نا کہ کراچی میں جب ضیا مارشل لا ء کے دور میں مزدورطلبہ کسان عوامی رابطہ کمیٹی کا جلوس جاوید شکورکی قیادت میں نکالا گیا تو اس مظاہرے سے 11افراد کوگرفتارکرلیا گیا اور اسی روزکراچی جیل کے اندر ہی دس دس کوڑے اور ایک ایک سال کی سزا سنادی گئی۔
ادھر سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید، جنرل ضیا الحق سے اتنا متاثر تھے کہ جنرل ضیا ، جناح اسپتال کراچی میں ان کی عیادت کرنے آئے تھے جب کہ اسی آمریت میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نذیر عباسی اور ڈاکٹر تاج سمیت متعدد کارکنان کو شہید کیا گیا۔ امام علی نازش نے ہاری الاٹی تحریک اور ون یونٹ کے خلاف تحریک کی رہنمائی کی ۔آج بھی سندھ ہاری کمیٹی وڈیروں کے خلاف نبرد آزما ہے جب کہ بیشتر سندھی قوم پرست جماعتیں وڈیروں، ایجنسیوں اور سامراج کی آلہ کار ہیں۔ امام علی نازش مزدوروں ،کسانوں، محنت کشوں اور محکوم عوام کے حقوق کے لیے نہ صرف رہنمائی بلکہ عملی جدوجہد بھی کی۔
کامریڈ حیدر بخش جتوئی، سائیں عزیزاللہ ، سوبھوگیان چندانی، عزیز سلام بخاری، سید جمال الدین بخاری اورکامریڈ شانتا ان کا منہ بو لتا ثبوت ہیں۔ ایک موقع پر ایوب کھو ڑوکے لیے جی ایم سید نے کہا تھا کہ '' ہم نے ایوب کھوڑوکو معاف کیا۔ '' معروف تاریخ داں ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جی ایم سید کون ہوتے ہیں کہ ایوب کھوڑوکو معاف کریں۔ انھیں تو تاریخ کے معاف کرنے یا نہ کرنے پر انحصارکرنا چا ہیے۔
سندھ، پاکستان اور برصغیر دنیا کا حصہ ہے اور سامراجی قوتوں نے ان میں لکیریں ڈال رکھی ہیں ، ہر جگہ طبقاتی استحصال ہو رہا ہے مگر اس کی نوعیت الگ الگ ہے۔ اسپین کے صوبہ کیٹالونیہ میں عوام نے خودکار ریفرنڈم کروائے۔ 92 فیصد لوگوں نے اسپین سے علیحدگی کا فیصلہ دیا جب کہ میڈرڈ کی سپریم کورٹ اور اسپین کی مرکزی حکومت نے اس ریفرنڈم کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ واہ رے جمہوریت، جب کہ اسی اسپین کے حکمران وینزویلا کے اسمبلی اسپیکرکو صدر تسلیم کرنے کا غیر قانونی اعلان کیا ہے۔
اپنے ہاں بھی جمہوریت کی نفی اور وینزویلا میں بھی منتخب صدر نکولس ما دورو کے خلاف سازش کرنے کے مرتکب ہوئے۔ یہ ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت ۔اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ریاست کا کردار صرف دولت مندوں کی حفاظت ہے۔ ویتنام ہو، بنگلہ دیش ہو، وینزویلا ہو،کیوبا ہو یا کیٹالونیہ،کہیں بھی ریاست نے عوام کا ساتھ نہیں دیا اور نہ دے گی، جو کام فرانس،کیٹالونیہ، سوڈان اور الجزائر میں شروع ہوچکا ہے۔
فرانس ویسے بھی انقلابوں کی ماں ہے۔ پاکستان میں بھی ریاست ڈانوا ڈول ہے۔ کہیں ہندوستان کوکرش کرنے کی بات ہوتی ہے توکہیں سامراجی آقاؤں کے حکم پہ پیچھے ہٹنے کی بات ہو تی ہے۔کہیں دہشتگردی ہوتی ہے تو اس کی مذمت کی جاتی ہے جب کہ ایران اور چین میں دہشت گردی کی بہت ہی ہلکے انداز میں مذمت کی جا تی ہے۔ شاید اسی لیے چین نے پاکستان کی خواہشوں اور مغربی سامراجیوں کے دباؤکے باوجود سیکیورٹی کونسل میں مسعود اظہر کے مسئلے پر ویٹوکردیا۔ ادھر امریکا نے افغانستان سے اپنی تمام تر فوج واپس بلانے سے منع کردیا ہے۔ اسے ہرات، جلال آباد، کابل اور پکتیا میں اپنے فوجی اڈے ایران، وسطیٰ ایشیا، پاکستان اور چین پر نظر رکھنے کے لیے قائم رکھنا ہیں۔ اس سارے کھلواڑ سے عوام کا کوئی لینا دینا نہیں۔
ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ بیروزگاری، علاج معالجے، تعلیم وصحت کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔عوام پر مزید بوجھ لادنے کے لیے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض لیے جارہے ہیں۔اس صورتحال میں عوام تلملا اٹھیں گے پھر ردعمل اور بغاوت ہوگی اور بار بار بغٖاوتوں سے انقلاب برپا ہوتا ہے۔ہندوستان کے انتخابات کے بعد نئی تحریک شروع ہوسکتی ہے۔ہمارے ملک میں یہ تحریک پی پی پی یا مسلم لیگ شروع نہیںکرے گی بلکہ عوام خود رو طریقے سے شروع کریں گے، پی پی پی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ناراض کارکنان ہوں گے، جن کا کوئی رہنما ہوگا اور نہ کوئی جماعت ۔ اس لیے کمیونسٹوں، انار کسٹوں اور انقلابی سوشلسٹوں کو اس تحریک کا کارکن بننے کے لیے چوکنا اور تیار رہنا ہوگا۔
انھیں سخی حسن قبرسان کراچی میں شہید نذیر عباسی کے پہلو میں دفنایا گیا، وہ ساری زندگی کمیونسٹ نظریات اور اس کی عملی جدوجہد میں ساتھ رہے ۔ ان کے دنیا بھرکی کمیونسٹ پارٹیوں سے قریبی تعلقات تھے۔ متعدد بار روس میں پارٹی کانفرنسوں میں شر کت کی ۔کئی سال روپوشی کے دوران افغانستان کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے مہمان رہے۔ وہ بحیثیت پارٹی سیکریٹری مختلف محاذوں کی رہنمائی کرتے رہے ۔ جن میں انجمن ترقی پسند مصنفین، پاکستان پیس کونسل، ڈی ایس ایف ، سندھ ہاری کمیٹی، سر حد کسان جرگہ ، پنجاب کسان کمیٹی، بلوچستان بزگرکمیٹی ، نیپ ، پاکستان ورکرز فیڈریشن ،کراچی نوجوان تحریک اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے مختلف تنظیموں کی رہنمائی کر تے رہے اور وہ ایک شاعر بھی تھے اورگلوکار بھی ۔
1971 میں جب جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کی توکمیو نسٹ پارٹی کے رہنما جام ساقی کے نام سے بنگالی عوام پر فوج کشی کے خلاف ایک پمفلٹ شایع کیا جو ملک بھرکے عوام میں بانٹا گیا ۔ حکومت نے بڑی چابک دستی اور خو نخواری سے جام ساقی کی تلاش شروع کی لیکن وہ ہاتھ نہ آئے ۔اس موقعے پر ملک بھرکی تقریبا سبھی قوم پرست جما عتیں اور رہنما خا موش رہے۔
صرف پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے والد ایم ڈی تاثیر، عاصمہ جہانگیرکے وا لد ملک غلام جیلانی جن کا نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق تھا اور طاہرہ مظہرعلی خان جن کا کمیونسٹ پارٹی سے تعلق تھا نے مذمتی بیانات دیے جب کہ کمیو نسٹ پارٹی آف پاکستان نے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کے خلاف کوئٹہ، پشاوراورکرا چی میں 27 مارچ 1971 کو مظاہرے کیے جس میں عوا می لیگی کارکنان بھی شریک ہوئے، مظاہرین میں ڈاکٹر اعزاز نذیر، نواز بٹ اور جاوید شکورکو کراچی،گرومندر سے گرفتارکرلیا گیا تھا۔سندھ کے تقریبا سبھی قوم پرست رہنماؤں بشمول جی ایم سید جن کے خیالات بنگالیوںکی ہمدردی میں سنبھالے نہیں سنبھلتے تھے وہ بھی دم بخود رہے ۔
جنرل ضیاالحق کے بدترین مارشل لا ء کے دور میں جہاں ہزاروں پیپلز پارٹی کے کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا،کو ڑے مار ے گئے اور پھانسی پہ لٹکایا گیا، وہیں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنماؤں ڈاکٹر تاج اور نذیر عباسی سمیت کارکنان کوکوڑے ما رے گئے، تشدد کیا گیا اور پھانسی دی گئی۔ 1978 یکم مئی کو میراں نا کہ کراچی میں جب ضیا مارشل لا ء کے دور میں مزدورطلبہ کسان عوامی رابطہ کمیٹی کا جلوس جاوید شکورکی قیادت میں نکالا گیا تو اس مظاہرے سے 11افراد کوگرفتارکرلیا گیا اور اسی روزکراچی جیل کے اندر ہی دس دس کوڑے اور ایک ایک سال کی سزا سنادی گئی۔
ادھر سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید، جنرل ضیا الحق سے اتنا متاثر تھے کہ جنرل ضیا ، جناح اسپتال کراچی میں ان کی عیادت کرنے آئے تھے جب کہ اسی آمریت میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نذیر عباسی اور ڈاکٹر تاج سمیت متعدد کارکنان کو شہید کیا گیا۔ امام علی نازش نے ہاری الاٹی تحریک اور ون یونٹ کے خلاف تحریک کی رہنمائی کی ۔آج بھی سندھ ہاری کمیٹی وڈیروں کے خلاف نبرد آزما ہے جب کہ بیشتر سندھی قوم پرست جماعتیں وڈیروں، ایجنسیوں اور سامراج کی آلہ کار ہیں۔ امام علی نازش مزدوروں ،کسانوں، محنت کشوں اور محکوم عوام کے حقوق کے لیے نہ صرف رہنمائی بلکہ عملی جدوجہد بھی کی۔
کامریڈ حیدر بخش جتوئی، سائیں عزیزاللہ ، سوبھوگیان چندانی، عزیز سلام بخاری، سید جمال الدین بخاری اورکامریڈ شانتا ان کا منہ بو لتا ثبوت ہیں۔ ایک موقع پر ایوب کھو ڑوکے لیے جی ایم سید نے کہا تھا کہ '' ہم نے ایوب کھوڑوکو معاف کیا۔ '' معروف تاریخ داں ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جی ایم سید کون ہوتے ہیں کہ ایوب کھوڑوکو معاف کریں۔ انھیں تو تاریخ کے معاف کرنے یا نہ کرنے پر انحصارکرنا چا ہیے۔
سندھ، پاکستان اور برصغیر دنیا کا حصہ ہے اور سامراجی قوتوں نے ان میں لکیریں ڈال رکھی ہیں ، ہر جگہ طبقاتی استحصال ہو رہا ہے مگر اس کی نوعیت الگ الگ ہے۔ اسپین کے صوبہ کیٹالونیہ میں عوام نے خودکار ریفرنڈم کروائے۔ 92 فیصد لوگوں نے اسپین سے علیحدگی کا فیصلہ دیا جب کہ میڈرڈ کی سپریم کورٹ اور اسپین کی مرکزی حکومت نے اس ریفرنڈم کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ واہ رے جمہوریت، جب کہ اسی اسپین کے حکمران وینزویلا کے اسمبلی اسپیکرکو صدر تسلیم کرنے کا غیر قانونی اعلان کیا ہے۔
اپنے ہاں بھی جمہوریت کی نفی اور وینزویلا میں بھی منتخب صدر نکولس ما دورو کے خلاف سازش کرنے کے مرتکب ہوئے۔ یہ ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت ۔اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ریاست کا کردار صرف دولت مندوں کی حفاظت ہے۔ ویتنام ہو، بنگلہ دیش ہو، وینزویلا ہو،کیوبا ہو یا کیٹالونیہ،کہیں بھی ریاست نے عوام کا ساتھ نہیں دیا اور نہ دے گی، جو کام فرانس،کیٹالونیہ، سوڈان اور الجزائر میں شروع ہوچکا ہے۔
فرانس ویسے بھی انقلابوں کی ماں ہے۔ پاکستان میں بھی ریاست ڈانوا ڈول ہے۔ کہیں ہندوستان کوکرش کرنے کی بات ہوتی ہے توکہیں سامراجی آقاؤں کے حکم پہ پیچھے ہٹنے کی بات ہو تی ہے۔کہیں دہشتگردی ہوتی ہے تو اس کی مذمت کی جاتی ہے جب کہ ایران اور چین میں دہشت گردی کی بہت ہی ہلکے انداز میں مذمت کی جا تی ہے۔ شاید اسی لیے چین نے پاکستان کی خواہشوں اور مغربی سامراجیوں کے دباؤکے باوجود سیکیورٹی کونسل میں مسعود اظہر کے مسئلے پر ویٹوکردیا۔ ادھر امریکا نے افغانستان سے اپنی تمام تر فوج واپس بلانے سے منع کردیا ہے۔ اسے ہرات، جلال آباد، کابل اور پکتیا میں اپنے فوجی اڈے ایران، وسطیٰ ایشیا، پاکستان اور چین پر نظر رکھنے کے لیے قائم رکھنا ہیں۔ اس سارے کھلواڑ سے عوام کا کوئی لینا دینا نہیں۔
ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ بیروزگاری، علاج معالجے، تعلیم وصحت کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔عوام پر مزید بوجھ لادنے کے لیے آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض لیے جارہے ہیں۔اس صورتحال میں عوام تلملا اٹھیں گے پھر ردعمل اور بغاوت ہوگی اور بار بار بغٖاوتوں سے انقلاب برپا ہوتا ہے۔ہندوستان کے انتخابات کے بعد نئی تحریک شروع ہوسکتی ہے۔ہمارے ملک میں یہ تحریک پی پی پی یا مسلم لیگ شروع نہیںکرے گی بلکہ عوام خود رو طریقے سے شروع کریں گے، پی پی پی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ناراض کارکنان ہوں گے، جن کا کوئی رہنما ہوگا اور نہ کوئی جماعت ۔ اس لیے کمیونسٹوں، انار کسٹوں اور انقلابی سوشلسٹوں کو اس تحریک کا کارکن بننے کے لیے چوکنا اور تیار رہنا ہوگا۔