شعور و معرفت
قرآن مجید میں انسان کو عقل و شعور سے کام لینے کی ترغیب دی گئی ہے۔
ادیانِ عالم میں صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جس کا آغاز ہی پڑھنے کے حکم سے ہوا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب نزولِ وحی کی ابتدا ہوئی تو سب سے پہلے پڑھنے کا حکم دیا گیا، جس میں خالق کی معرفت، اس کی تخلیق میں غور و فکر کی ترغیب، قلم کی حرمت، علومِ کائنات کی طرف بلیغ اشارات اور عقلِ انسان کو انہیں اپنے اندر سمو لینے کا بے نظیر حوصلہ بیان کیا گیا۔
سورہ علق کی پہلی پانچ آیات اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں انسان کو عقل و شعور استعمال کرنے کی موقع بہ موقع ترغیب دی گئی ہے۔ کہیں تفکر و تدبر، تعقل و تذکر اور شعور و معرفت کے الفاظ اسم کی مختلف شکلوں میں استعمال ہوئے اور کہیں فعل کے مختلف صیغوں میں بدل بدل کر لائے گئے۔ قرآنِ مجید میں عقل و شعور کے استعمال کرنے کی ترغیب بار بار دی گئی۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام اور عقل و شعور کس قدر لازم و ملزوم ہیں، گویا جہالت و نادانی اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم و حکمت کو مومن کی گم شدہ میراث قرار دیا ہے، کہ وہ جہاں بھی اپنی میراث دیکھے اسے حاصل کرے۔ حصولِ علم اور عقل و شعور آپس میں اس طرح منسلک ہیں کہ ایک کا وجود دوسرے کے بغیر ناممکن ہے۔ ایسے میں مطالعہ کرنے کی اہمیت کا خود بہ خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں سنجیدہ مطالعے کی عادت بہت کم ہوگئی ہے۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہمارے ہاں پچیس سے تیس فی صد لوگ مطالعہ کرتے ہیں، باقی لوگوں کو مطالعے سے کوئی دل چسپی نہیں، اور جو مطالعہ بھی کرتے ہیں، ان میں ہر سو افراد میں سے پندرہ سے بیس افراد سنجیدہ کتب کا مطالعہ کرتے ہیں، وگرنہ باقی اخبارات و رسائل، ناول و ڈائجسٹ اور انٹرنیٹ وغیرہ سے استفادہ کرتے ہیں۔ ان کی بھی اپنی افادیت ہے لیکن یہ جملہ ذرائع مل کر بھی مطالعے کا نعم البدل نہیں ہو سکتے، شاید نہیں بل کہ یقینا امتِ مسلمہ کے زوال کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے سنجیدہ مطالعہ تقریبا ترک کر دیا ہے۔
مسلمان کبھی جاہل نہیں رہ سکتا، وہ کبھی مطالعہ کر کے، کبھی غور و فکر سے اور کبھی وہ مشاہدات و تجربات سے اپنے علم میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ کرتا رہتا ہے، اور ایسا کرنے سے ہی اس کے ایمان و عمل میں سنجیدگی اور پختگی آتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سنجیدہ مطالعے کو اپنی عادت بنائیں، جو لوگ مطالعے کے عادی نہیں، وہ روزانہ کچھ نہ کچھ ضرور پڑھیں تاکہ انہیں مطالعہ کی عادت ہو، اور پھر سنجیدہ کتب کی طرف دھیرے دھیرے بڑھتے چلے جائیں، کائنات میں غور و فکر کیا کریں، اہلِ علم کی مجالس میں شرکت کیا کریں، اور سوائے قرآن کے کسی بھی بات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کرنے کی روش ترک کر دیں، تاکہ ہمارا ایمان و عقیدہ پختہ ہو، اعمال میں استقامت اور پختگی آئے، ایسا کرنے سے ایک طرف مسلم معاشرے کا شعور مستحکم ہوگا، اور دوسرا ہم ایک دوسرے کے لیے منفی کے بہ جائے مثبت سوچ و فکر اپنائیں گے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اتحاد و یگانگت کے جذبات پروان چڑھیں گے، اور امتِ مسلمہ متحد ہو کر اپنی منزل کی جانب گام زن ہوجائے گی۔
سورہ علق کی پہلی پانچ آیات اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں انسان کو عقل و شعور استعمال کرنے کی موقع بہ موقع ترغیب دی گئی ہے۔ کہیں تفکر و تدبر، تعقل و تذکر اور شعور و معرفت کے الفاظ اسم کی مختلف شکلوں میں استعمال ہوئے اور کہیں فعل کے مختلف صیغوں میں بدل بدل کر لائے گئے۔ قرآنِ مجید میں عقل و شعور کے استعمال کرنے کی ترغیب بار بار دی گئی۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام اور عقل و شعور کس قدر لازم و ملزوم ہیں، گویا جہالت و نادانی اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم و حکمت کو مومن کی گم شدہ میراث قرار دیا ہے، کہ وہ جہاں بھی اپنی میراث دیکھے اسے حاصل کرے۔ حصولِ علم اور عقل و شعور آپس میں اس طرح منسلک ہیں کہ ایک کا وجود دوسرے کے بغیر ناممکن ہے۔ ایسے میں مطالعہ کرنے کی اہمیت کا خود بہ خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں سنجیدہ مطالعے کی عادت بہت کم ہوگئی ہے۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہمارے ہاں پچیس سے تیس فی صد لوگ مطالعہ کرتے ہیں، باقی لوگوں کو مطالعے سے کوئی دل چسپی نہیں، اور جو مطالعہ بھی کرتے ہیں، ان میں ہر سو افراد میں سے پندرہ سے بیس افراد سنجیدہ کتب کا مطالعہ کرتے ہیں، وگرنہ باقی اخبارات و رسائل، ناول و ڈائجسٹ اور انٹرنیٹ وغیرہ سے استفادہ کرتے ہیں۔ ان کی بھی اپنی افادیت ہے لیکن یہ جملہ ذرائع مل کر بھی مطالعے کا نعم البدل نہیں ہو سکتے، شاید نہیں بل کہ یقینا امتِ مسلمہ کے زوال کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے سنجیدہ مطالعہ تقریبا ترک کر دیا ہے۔
مسلمان کبھی جاہل نہیں رہ سکتا، وہ کبھی مطالعہ کر کے، کبھی غور و فکر سے اور کبھی وہ مشاہدات و تجربات سے اپنے علم میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ کرتا رہتا ہے، اور ایسا کرنے سے ہی اس کے ایمان و عمل میں سنجیدگی اور پختگی آتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سنجیدہ مطالعے کو اپنی عادت بنائیں، جو لوگ مطالعے کے عادی نہیں، وہ روزانہ کچھ نہ کچھ ضرور پڑھیں تاکہ انہیں مطالعہ کی عادت ہو، اور پھر سنجیدہ کتب کی طرف دھیرے دھیرے بڑھتے چلے جائیں، کائنات میں غور و فکر کیا کریں، اہلِ علم کی مجالس میں شرکت کیا کریں، اور سوائے قرآن کے کسی بھی بات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کرنے کی روش ترک کر دیں، تاکہ ہمارا ایمان و عقیدہ پختہ ہو، اعمال میں استقامت اور پختگی آئے، ایسا کرنے سے ایک طرف مسلم معاشرے کا شعور مستحکم ہوگا، اور دوسرا ہم ایک دوسرے کے لیے منفی کے بہ جائے مثبت سوچ و فکر اپنائیں گے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اتحاد و یگانگت کے جذبات پروان چڑھیں گے، اور امتِ مسلمہ متحد ہو کر اپنی منزل کی جانب گام زن ہوجائے گی۔