موسمی مرغے اور ان کی اذانیں
کچھ ’مرغا صفت‘ صاحبان الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر اسکالر بنے بیٹھے ہیں اور اسماء کے معاملے میں مغلظات بک رہے ہیں
میری اماں کو مرغیاں پالنے کا بڑا شوق تھا۔ ابا سرکاری ملازم بلکہ افسر تھے اور الحمدللہ وسیع رقبے پر واقع لان کے ساتھ کشادہ گھر بھی سرکاری کالونی میں ملا ہوا تھا۔ بس پھر خانساماں انکل تک امی کی خواہش پہنچائی گئی اور بہترین دیسی مرغیوں کےلیے گھر کی تعمیر کے بعد مرغیاں بھی پہنچ گئیں۔ اب ہمیں یعنی بچوں کو حیرت یہ ہوئی کہ سات مرغیاں اور ایک عدد بارعب مرغا۔
ہم سب نے بہت سوچا کہ مرغیاں تو انڈے دیتی ہیں مگر یہ مرغا کس چکر میں یہاں لایا گیا (یونیورسٹی کے دور کے باوجود انٹرنیٹ اتنا عام نہیں ہوا کرتا تھا، اور اماں ابا سے شرم و حیا کا بڑا لحاظ رکھا جاتا تھا)۔ کچھ دن گزرنے کے بعد احساس ہوا بلکہ تجربہ کہ مرغے صاحب بلاوجہ دوسروں پر حملہ کرنے کی عادت رکھتے ہیں۔ اماں جان ہمارے اس اعتراض پر ہمیں خونخوار آنکھیں دکھاتیں اور دوسری جانب ابا سے معنی خیز ہنسی میں کہتیں کہ بچے ہیں، ایسے ہی لگے ہوئے ہیں، سمجھا کریں آپ! اور ابا واقعی کچھ سمجھ جاتے اور ہمیں مکمل نظر انداز کردیا جاتا۔ خیر، انڈے تو ہم سب ہی شوق سے کھاتے تھے مگر ہاں لان میں جانا چھوڑ دیا کیونکہ مرغا فوراً اپنے تیز پنجے لے کر حملے کےلیے جھپٹتا تھا۔
ایک روز ابا کی چھٹی تھی اور ابا نے اسی لان میں بیٹھ کر چائے پینے کی خواہش کا اظہار کیا تو ہم سب بھی مکمل اعتماد کے ساتھ لان میں چلے گئے۔ اچانک مرغے نے چھوٹی بہن پر حملہ کیا اور کاندھوں پر سوار ہو کر گردن کو کھرچ ڈالا۔ بس چائے تو بعد میں بنی مگر ابا نے اس مرغے کا قورمہ پہلے کھلایا۔
واقعہ اس لیے یاد آیا کہ پچھلے کچھ ہفتوں سے کچھ ایسے ہی مرغا صفت صاحبان الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے دماغوں میں ہلچل مچائے ہوئے ہیں۔ اور فیس بک اور دوسرا سوشل میڈیا آنے سے تو بڑے بڑے لوگ اسکالر بن چکے ہیں۔ سزا و جزا کا فیصلہ بھی وہیں ہوجاتا ہے، نیکی اور پارسائی بھی انہی مباحثوں کے بعد طے پاجاتی ہے۔
اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان صاحبان کو گھر والے بھی منہ نہیں لگاتے تو یہ خود کو سوشل میڈیا پر معتبر بنانے کےلیے بے پر کی اُڑانا اپنا فرض سمجھ چکے ہیں۔ کیا! شوہر نے بیوی کے سر کے بال کاٹ دیئے؟ اوہ، بہت افسوس ہوا، لیکن کیوں کیا اس نے ایسا... اور بس اس ''کیوں'' نے اس خاتون کے کپڑے تک پھاڑ دیئے۔
ستم دیکھیے کہ عورت کے خلاف بول کون رہا ہے؟ وہ جس کے بطن میں جان اسی عورت کی وجہ سے آتی ہے۔ کسی صاحب نے اس عورت کو ایسے بیہودہ القاب سے نوازا کہ جنہیں سمجھنے کےلیے مجھے پنجابی مغلظات کی لغت کھنگالنا پڑی۔ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھیے اور بتائیے کہ جس عورت کو آپ جانتے تک نہیں، اس کےلیے ایسے القاب! مجھے فیصلہ کرنے میں ذرا دیر نہ لگی کہ یہ صاحب اپنی ماں سے عورت کی عزت کرنا نہیں سیکھ پائے شاید، اس لیے انہیں ٹھوکر مار دینا ہی بھلا۔
ایک لمحے کو مان لیا کہ اسماء کیوں اتنے عرصے خاموش رہی؟ کیوں سہتی رہی سب؟ اس نے بلاشبہ غلط کیا۔ انسان کی عزت نفس سے بڑھ کر تو کچھ ہونا بھی نہیں چاہیے۔
لیکن اگر آج اس نے آواز اُٹھائی تو اس مہذب معاشرے نے اُس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ چلیے ہم مغرب کی مثال لیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت آواز اُٹھائے تو فوراً الزام مغربی معاشرے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہمیں عادت نہیں رہی اپنے گریبان میں جھانکنے کی، گویا جنت کا سرٹیفکیٹ ساتھ ہی لائے ہیں۔
فرض کیجیے کہ اسماء لاہور کے بجائے لندن یا واشنگٹن میں ہوتی، اس کا شوہر ایک بار ہاتھ اُٹھاتا، وہ فوراً پولیس کو بلاتی اور وہ پکڑا جاتا۔ باقی جو قانونی کارروائی ضروری ہوتی ہے، وہ ضرور ہوتی، جرمانہ بھی ادا کرتا اور معذرت بھی۔ دوسری اہم بات، پھر اسماء طے کرتی کہ اسے اُس کے ساتھ رہنا بھی ہے یا نہیں۔ نہ رہنا چاہتی تو قانون کے مطابق شوہر کے پاس اُس وقت موجود جائیداد کا آدھا حصہ فوراً اسماء کو ملتا، نہ کہ وہ پلٹ کر ماں باپ، رشتے داروں کے پاس یا پھر کسی شیلٹر ہوم میں سر چھپانے اور مدد کی طلب گار ہوتی۔
کہیے! کہاں ہے یہ قانون سازی ہمارے ہاں؟ بدقسمتی سے برانڈڈ کپڑے پہن کر میک اپ زدہ چہروں کے ساتھ امیر گھرانوں کی خواتین میڈیا چینلز پر بیٹھ کر گھریلو تشدد پر بات کرتی ہیں؛ اور مجھے ہمیشہ تعجب ہوا کہ جس نے کبھی تذلیل سہی نہیں، وہ درد کیسے صحیح سے بیان کرسکتی ہے؟
مختاراں مائی بات کرے کہ ریپ کتنا اذیت ناک حادثہ ہوتا ہے ایک بچی کی زندگی میں، تو سمجھ میں آتا ہے۔ اُنہوں نے کرب سہا مگر پھر آواز اُٹھائی۔ اُن پر بھی آوازیں کسی گئیں، ڈرایا گیا مگر اُنہوں نے اپنے حصے کی جنگ لڑی۔
کسی کو بھی عورت کی تذلیل کرنے کی ہرگز کوئی اجازت نہیں! جن باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کی عزت اِن عورتوں سے ہے، انہیں اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان خواتین کی اپنی ذاتی بھی عزت ہوتی ہے۔
لڑکی پہلے کیا کرتی تھی؟ زندگی کی گاڑی کیسے چل رہی تھی؟ یہ سب اس کا ذاتی فعل ہے، مگر آپ اتنی آسانی سے کسی کو فاحشہ قرار نہیں دے سکتے۔ اپنے پنجے قابو ہی میں رکھیے۔
منٹو نے لکھا ہے، ''میرے نزدیک سب سے زیادہ حلال رزق ایک کوٹھے والی عورت کماتی ہے۔'' بات بہت کڑوی ہے مگر بات سچ ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہوس کے پجاری اپنی اپنی پٹاریاں لیے جگہ جگہ بین بجاتے ملتے ہیں۔ ایسے میں عورت کا ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور اس پر ڈٹے رہنا کسی محاذ سے کم نہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ اگر کوئی مظلوم، ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے جیسی اور بہت سی آوازوں کےلیے لڑ رہا ہوتا ہے۔
اپنا قبلہ درست کیجیے۔ عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو یہ حق اسے مذہب اور معاشرہ دونوں دیتے ہیں۔ اپنے خود ساختہ فقہ کی کتب اپنی بغل ہی میں دبائے رکھیے۔ معاشرے میں اپنی خاندانی عزت بنائے رکھنے کےلیے بیٹیوں کو قربانی کا بکرا بنانا چھوڑ دیجیے۔ معاشرے کو ذہنی مریض نہ دیجیے۔ یہ جن آوازوں کے خوف سے آپ ظالم کا ظلم سہتے ہیں، یہ آوازیں خالی ڈھول کے سوا کچھ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہم سب نے بہت سوچا کہ مرغیاں تو انڈے دیتی ہیں مگر یہ مرغا کس چکر میں یہاں لایا گیا (یونیورسٹی کے دور کے باوجود انٹرنیٹ اتنا عام نہیں ہوا کرتا تھا، اور اماں ابا سے شرم و حیا کا بڑا لحاظ رکھا جاتا تھا)۔ کچھ دن گزرنے کے بعد احساس ہوا بلکہ تجربہ کہ مرغے صاحب بلاوجہ دوسروں پر حملہ کرنے کی عادت رکھتے ہیں۔ اماں جان ہمارے اس اعتراض پر ہمیں خونخوار آنکھیں دکھاتیں اور دوسری جانب ابا سے معنی خیز ہنسی میں کہتیں کہ بچے ہیں، ایسے ہی لگے ہوئے ہیں، سمجھا کریں آپ! اور ابا واقعی کچھ سمجھ جاتے اور ہمیں مکمل نظر انداز کردیا جاتا۔ خیر، انڈے تو ہم سب ہی شوق سے کھاتے تھے مگر ہاں لان میں جانا چھوڑ دیا کیونکہ مرغا فوراً اپنے تیز پنجے لے کر حملے کےلیے جھپٹتا تھا۔
ایک روز ابا کی چھٹی تھی اور ابا نے اسی لان میں بیٹھ کر چائے پینے کی خواہش کا اظہار کیا تو ہم سب بھی مکمل اعتماد کے ساتھ لان میں چلے گئے۔ اچانک مرغے نے چھوٹی بہن پر حملہ کیا اور کاندھوں پر سوار ہو کر گردن کو کھرچ ڈالا۔ بس چائے تو بعد میں بنی مگر ابا نے اس مرغے کا قورمہ پہلے کھلایا۔
واقعہ اس لیے یاد آیا کہ پچھلے کچھ ہفتوں سے کچھ ایسے ہی مرغا صفت صاحبان الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے دماغوں میں ہلچل مچائے ہوئے ہیں۔ اور فیس بک اور دوسرا سوشل میڈیا آنے سے تو بڑے بڑے لوگ اسکالر بن چکے ہیں۔ سزا و جزا کا فیصلہ بھی وہیں ہوجاتا ہے، نیکی اور پارسائی بھی انہی مباحثوں کے بعد طے پاجاتی ہے۔
اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان صاحبان کو گھر والے بھی منہ نہیں لگاتے تو یہ خود کو سوشل میڈیا پر معتبر بنانے کےلیے بے پر کی اُڑانا اپنا فرض سمجھ چکے ہیں۔ کیا! شوہر نے بیوی کے سر کے بال کاٹ دیئے؟ اوہ، بہت افسوس ہوا، لیکن کیوں کیا اس نے ایسا... اور بس اس ''کیوں'' نے اس خاتون کے کپڑے تک پھاڑ دیئے۔
ستم دیکھیے کہ عورت کے خلاف بول کون رہا ہے؟ وہ جس کے بطن میں جان اسی عورت کی وجہ سے آتی ہے۔ کسی صاحب نے اس عورت کو ایسے بیہودہ القاب سے نوازا کہ جنہیں سمجھنے کےلیے مجھے پنجابی مغلظات کی لغت کھنگالنا پڑی۔ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھیے اور بتائیے کہ جس عورت کو آپ جانتے تک نہیں، اس کےلیے ایسے القاب! مجھے فیصلہ کرنے میں ذرا دیر نہ لگی کہ یہ صاحب اپنی ماں سے عورت کی عزت کرنا نہیں سیکھ پائے شاید، اس لیے انہیں ٹھوکر مار دینا ہی بھلا۔
ایک لمحے کو مان لیا کہ اسماء کیوں اتنے عرصے خاموش رہی؟ کیوں سہتی رہی سب؟ اس نے بلاشبہ غلط کیا۔ انسان کی عزت نفس سے بڑھ کر تو کچھ ہونا بھی نہیں چاہیے۔
لیکن اگر آج اس نے آواز اُٹھائی تو اس مہذب معاشرے نے اُس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ چلیے ہم مغرب کی مثال لیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت آواز اُٹھائے تو فوراً الزام مغربی معاشرے پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہمیں عادت نہیں رہی اپنے گریبان میں جھانکنے کی، گویا جنت کا سرٹیفکیٹ ساتھ ہی لائے ہیں۔
فرض کیجیے کہ اسماء لاہور کے بجائے لندن یا واشنگٹن میں ہوتی، اس کا شوہر ایک بار ہاتھ اُٹھاتا، وہ فوراً پولیس کو بلاتی اور وہ پکڑا جاتا۔ باقی جو قانونی کارروائی ضروری ہوتی ہے، وہ ضرور ہوتی، جرمانہ بھی ادا کرتا اور معذرت بھی۔ دوسری اہم بات، پھر اسماء طے کرتی کہ اسے اُس کے ساتھ رہنا بھی ہے یا نہیں۔ نہ رہنا چاہتی تو قانون کے مطابق شوہر کے پاس اُس وقت موجود جائیداد کا آدھا حصہ فوراً اسماء کو ملتا، نہ کہ وہ پلٹ کر ماں باپ، رشتے داروں کے پاس یا پھر کسی شیلٹر ہوم میں سر چھپانے اور مدد کی طلب گار ہوتی۔
کہیے! کہاں ہے یہ قانون سازی ہمارے ہاں؟ بدقسمتی سے برانڈڈ کپڑے پہن کر میک اپ زدہ چہروں کے ساتھ امیر گھرانوں کی خواتین میڈیا چینلز پر بیٹھ کر گھریلو تشدد پر بات کرتی ہیں؛ اور مجھے ہمیشہ تعجب ہوا کہ جس نے کبھی تذلیل سہی نہیں، وہ درد کیسے صحیح سے بیان کرسکتی ہے؟
مختاراں مائی بات کرے کہ ریپ کتنا اذیت ناک حادثہ ہوتا ہے ایک بچی کی زندگی میں، تو سمجھ میں آتا ہے۔ اُنہوں نے کرب سہا مگر پھر آواز اُٹھائی۔ اُن پر بھی آوازیں کسی گئیں، ڈرایا گیا مگر اُنہوں نے اپنے حصے کی جنگ لڑی۔
کسی کو بھی عورت کی تذلیل کرنے کی ہرگز کوئی اجازت نہیں! جن باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کی عزت اِن عورتوں سے ہے، انہیں اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان خواتین کی اپنی ذاتی بھی عزت ہوتی ہے۔
لڑکی پہلے کیا کرتی تھی؟ زندگی کی گاڑی کیسے چل رہی تھی؟ یہ سب اس کا ذاتی فعل ہے، مگر آپ اتنی آسانی سے کسی کو فاحشہ قرار نہیں دے سکتے۔ اپنے پنجے قابو ہی میں رکھیے۔
منٹو نے لکھا ہے، ''میرے نزدیک سب سے زیادہ حلال رزق ایک کوٹھے والی عورت کماتی ہے۔'' بات بہت کڑوی ہے مگر بات سچ ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہوس کے پجاری اپنی اپنی پٹاریاں لیے جگہ جگہ بین بجاتے ملتے ہیں۔ ایسے میں عورت کا ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور اس پر ڈٹے رہنا کسی محاذ سے کم نہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ اگر کوئی مظلوم، ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے جیسی اور بہت سی آوازوں کےلیے لڑ رہا ہوتا ہے۔
اپنا قبلہ درست کیجیے۔ عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو یہ حق اسے مذہب اور معاشرہ دونوں دیتے ہیں۔ اپنے خود ساختہ فقہ کی کتب اپنی بغل ہی میں دبائے رکھیے۔ معاشرے میں اپنی خاندانی عزت بنائے رکھنے کےلیے بیٹیوں کو قربانی کا بکرا بنانا چھوڑ دیجیے۔ معاشرے کو ذہنی مریض نہ دیجیے۔ یہ جن آوازوں کے خوف سے آپ ظالم کا ظلم سہتے ہیں، یہ آوازیں خالی ڈھول کے سوا کچھ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔