لیبیا کے حالات پر اقوام متحدہ کو تشویش
امریکا اور مغربی ممالک اس ملک میں امن قائم کرنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔
کرنل معمر قذافی کے دور میں لیبیا کا شمار براعظم افریقہ کے خوش حال ممالک میں ہوتا تھا۔ کرنل قذافی نے اپنے ملک کے شہریوں کو بے پناہ مراعات دی تھیں۔ ملکی حالات اتنے اچھے تھے کہ بہت سے تارکین وطن بھی لیبیا کا رخ کرنے لگے اور انھیں اچھا روزگار مل جاتا تھا۔ لیبیا کی اس ترقی اور خوشحالی نے اس ملک کے کئی دشمن بھی پیدا کیے، لیبیا کے اپنے عرب ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بھی خوشگوار نہیں تھے، ادھر امریکا اورمغربی ممالک کے ساتھ بھی اختلافات موجود تھے۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد عالمی صف بندیوں میں انقلابی تبدیلیاں آئیں، امریکا اور مغرب کے نظام کے مخالف ممالک مشکلات میں گھر گئے۔ لیبیا بھی ان میں شامل تھا۔ لیبیا کے امریکا کے ساتھ اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے چلے گئے۔ امریکی بمبار طیارے نے کرنل قذافی کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں ان کی ایک صاحبزادی جاں بحق ہوئی۔ پھر ایک یورپی مسافر طیارے کی تباہی کا مجرم بھی لیبیا کو قرار دیا گیا جس کے جرمانے کے طور پر لیبیاکو بھاری ہرجانہ یورپ کو دینا پڑا۔ تباہ شدہ طیارے کے ہر مسافر کے عوض لاکھوں ڈالر کا ہرجانہ دیا گیا لیکن اس کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادیوں نے لیبیا پر حملہ کیا، باغیوں کو اسحلہ فراہم کیا۔
کرنل قذافی باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے، لیکن پورے ملک کا تارپود بکھر گیا اور ملک طویل خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ اب لیبیا کی تازہ ترین صورتحال کی عکاسی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریز نے لیبیا کے بن غازی ایئرپورٹ پر پر گفتگو کرتے ہوئے کی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ انھیں جمعہ کے روز مشرقی کمانڈر سے ملاقات کے موقع پر بے حد تشویش لاحق ہو گئی کیونکہ انھوں نے اپنی فوجوں کو طرابلس کی طرف مارچ کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ خانہ جنگی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ سیکریٹری جنرل نے یہ بھی کہا کہ طرابلس میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت قائم ہے۔
مشرقی کمانڈر خلیفہ ہفتار کی کمان میں جو فوج ہے اسے لیبئن نیشنل آرمی (ایل این بی) کہا جاتا ہے جس نے مشرقی علاقے میں متوازی حکومت قائم کر لی ہے۔ کرنل معمر قذافی کو 2011 میں معزول کر کے قتل کیا گیا تھا جس کے بعد سے ملک مسلسل خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریز نے کہا میں بہت دکھی دل کے ساتھ لیبیا سے واپس جا رہا ہوں لیکن میری دعا ہے کہ خانہ جنگی ختم ہو جائے اور بے گناہ لوگوں کا خوامخواہ خون بہنا بند ہو جائے۔
سیکریٹری جنرل نے کہا کہ اقوام متحدہ اس ملک کے مسائل کا سیاسی حل چاہتا ہے۔ دوسری طرف جنگجو عناصر کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ حالات کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ لیبیا میں آنے والے کئی برس تک خون خرابہ جاری رہے گا، امریکا اور مغربی ممالک اس ملک میں امن قائم کرنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہے، اب یہ ملک قبائلی دشمنیوں کی لپیٹ میں آ گیا ہے اور خانہ جنگی کا سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہے۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد عالمی صف بندیوں میں انقلابی تبدیلیاں آئیں، امریکا اور مغرب کے نظام کے مخالف ممالک مشکلات میں گھر گئے۔ لیبیا بھی ان میں شامل تھا۔ لیبیا کے امریکا کے ساتھ اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے چلے گئے۔ امریکی بمبار طیارے نے کرنل قذافی کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں ان کی ایک صاحبزادی جاں بحق ہوئی۔ پھر ایک یورپی مسافر طیارے کی تباہی کا مجرم بھی لیبیا کو قرار دیا گیا جس کے جرمانے کے طور پر لیبیاکو بھاری ہرجانہ یورپ کو دینا پڑا۔ تباہ شدہ طیارے کے ہر مسافر کے عوض لاکھوں ڈالر کا ہرجانہ دیا گیا لیکن اس کے باوجود امریکا اور اس کے اتحادیوں نے لیبیا پر حملہ کیا، باغیوں کو اسحلہ فراہم کیا۔
کرنل قذافی باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے، لیکن پورے ملک کا تارپود بکھر گیا اور ملک طویل خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ اب لیبیا کی تازہ ترین صورتحال کی عکاسی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریز نے لیبیا کے بن غازی ایئرپورٹ پر پر گفتگو کرتے ہوئے کی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ انھیں جمعہ کے روز مشرقی کمانڈر سے ملاقات کے موقع پر بے حد تشویش لاحق ہو گئی کیونکہ انھوں نے اپنی فوجوں کو طرابلس کی طرف مارچ کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ خانہ جنگی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ سیکریٹری جنرل نے یہ بھی کہا کہ طرابلس میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت قائم ہے۔
مشرقی کمانڈر خلیفہ ہفتار کی کمان میں جو فوج ہے اسے لیبئن نیشنل آرمی (ایل این بی) کہا جاتا ہے جس نے مشرقی علاقے میں متوازی حکومت قائم کر لی ہے۔ کرنل معمر قذافی کو 2011 میں معزول کر کے قتل کیا گیا تھا جس کے بعد سے ملک مسلسل خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریز نے کہا میں بہت دکھی دل کے ساتھ لیبیا سے واپس جا رہا ہوں لیکن میری دعا ہے کہ خانہ جنگی ختم ہو جائے اور بے گناہ لوگوں کا خوامخواہ خون بہنا بند ہو جائے۔
سیکریٹری جنرل نے کہا کہ اقوام متحدہ اس ملک کے مسائل کا سیاسی حل چاہتا ہے۔ دوسری طرف جنگجو عناصر کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ حالات کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ لیبیا میں آنے والے کئی برس تک خون خرابہ جاری رہے گا، امریکا اور مغربی ممالک اس ملک میں امن قائم کرنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہے، اب یہ ملک قبائلی دشمنیوں کی لپیٹ میں آ گیا ہے اور خانہ جنگی کا سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہے۔