بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور خوشحال گھرانے
BISP میں بینظیر کا نام حذف کرنے کا مطالبہ غلط ہے، صرف پروگرام کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔
جب سے کسی نے وزیر ِ اعظم عمران خان کو ایک مفت مشورہ دے کر فساد کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے کہ جولائی 2008میں لانچ کیے گئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کر کے اس میں سے بینظیر کا نام حذف کر دیا جائے کیونکہ اس نام سے سیاسی طور پر پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو تا ہے۔
PPP کے کئی Stalwarts اس تجویز پر سخت سیخ پا ہیں اور جوابی حملوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پھر تو شوکت خانم اسپتال کا نام بھی تبدیل کر دینا چاہیے کیونکہ اگر اُدھر ایک پیپلز پارٹی کی سابق وزیر اعظم کا نام ہے تو دوسری طرف موجودہ وزیر ِ اعظم کی والدہ کا نام ہے، اس اعتراض میں البتہ کوئی وزن نہیں اور اگر شوکت خانم کے نام پر تنقید ہوئی تو اسے بیہودہ جوابی حملہ تصّور کیا جائے گا اور جن چند PPP لیڈروں نے یہ بات کی اور بیان دیئے ہیں انھیں شرم آنی چاہیے۔
گیارہ سال قبل لانچ کیے گئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کرنے والے مستحقین کی نشاندہی اور چنائو شروع میں پارلیمنٹیرینز کے ذریعے اور ان کی سفارش پر ہوتا تھا ، ہر پارلیمینٹیرین کو اپنے حلقہء انتخاب میں 8000 مستحقین کی نشاندہی کرنا ہوتی اور National Database & Registration Authority کو ان مستحقین کی تصدیق کرنا ہوتی جس کے بعد امدادی رقم دی جاتی لیکن عمل کو شفاف بنانے کے لیے پارلیمینٹیرین کا دخل ایک سال بعد نکال دیا گیا کیونکہ پارلیمینٹیرین کی اکثریت کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور اس پر تنقید ہونے لگی تھی۔ جب PPP کی حکومت کے بعد مسلم لیگ ن کی باری آئی تب بھی اس پروگرام کا نام نہیں بدلا گیا تھا اور اب جو اس BISP کا نام تبدیل کرنے کا شوشہ کسی نالائق نے چھوڑا ہے اسے یقینا PTI کے اندر بھی پزیرائی ملنے کا امکان نہیں۔ یہ بظاہر عمران کے کسی شیخی خورے کی حرکت لگتی ہے جس پر غالبؔ نے عرصہ قبل کہا تھا:۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
ہم مدت سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ اگر کسی حکمران کے ہاتھوں کسی نیک مفاد عامہ اور باعث ترقی پراجیکٹ یا کام کی ابتدا ہو جائے اور اس کی تکمیل سے پہلے ہی حکومت تبدیل ہو جائے تو آنے والا حکمران اس کی تکمیل کرنے کے بجائے پراجیکٹ کو نیا موڑ دے کر کیے کرائے پر پانی پھیر کر اس پر اپنے نام کی تختی لگانے کے لیے اس پراجیکٹ کا نام بدل کر ہو چکنے والے کام کی شکل تبدیل کر کے اس کی افتتاحی تقریب منعقد کر ڈالتا ہے۔
بات ہو رہی تھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جس کے مطابق مستحق افراد مُعاشرہ کی نشاندہی کر کے ان کی غربت و افلاس میں کیش رقم کے ذریعے کمی لانی تھی لیکن دیکھا یہ گیا کہ سیاسی پارٹیوں نے اپنے ورکر اور ووٹر تیار کرنے کے ساتھ اپنے سپورٹروں اور بھکاریوں کے جتھے تیار کرنے شروع کر دیئے، اس پروگرام کا ایک مقصد تھا چھوٹے قرضوں کے ذریعے مُعاشرے کی غریب و مستحق عورتوں کے لیے وسیلہ حق پیدا کرنا ، اس کا مقصد تھا ووکیشنل ٹریننگ کے ذریعے وسیلہ روزگار مہیا کرنا،اس پروگرام کا مقصد تھا لوگوں کو بیماریوں کی وجوہات سے معلومات حاصل کرنے کے بعد ان میں صحت سے متعلق بیماریوں سے آگاہی علم اور ان کا شعور پیدا کرنا۔ جو فیملیز PISP سے مالی مدد لیتی ہوں اس رقم کا ایک اہم استعمال اپنے 5 سے 12 سال کے درمیان عمر والے بچوں کو تعلیم دلوانا ہے۔
رپورٹ ہے کہ گزشتہ دو حکومتوں کے دور ہائے اقتدار میں جس جس علاقے میں ان کے منتخب اسمبلی ممبران کی تعدادزیادہ تھی وہاں کے Eligible Benficiaries کی تعداد ان کے مخالفین والے علاقوں کے مستحقین کی تعداد سے کئی گنا زیادہ پائی گئی،اس کی وجہ صاف ظاہر ہے اور ایسی شکایات بھی سمجھ میں آتی ہیں جس کی وجہ سیاستدانوں کی ناجائز دخل اندازی تھی۔ ممکن ہے شہید بینظیر کے نام پر رکھے گئے پروگرام کا نام بھی اسی وجہ سے ہدف ِ تنقید بنا۔ BISP میں بینظیر کا نام حذف کرنے کا مطالبہ غلط ہے، صرف پروگرام کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے، صحیح مستحقین کی صحیح شناخت ہونے پر اعتراض ختم ہو جائے گا۔
اس پروگرام کو اعتراضات سے پاک اور شفاف رکھنے کے لیے شرائط رکھی گئی ہیں کہ درخواست دہندہ خاتون کے پاس ID کارڈ ہو، اگر وہ بیوہ ہو تو اس کا کوئی فیملی ممبر بالغ مرد نہ ہو ، مستحق فیملی کا مطلب ہے کہ وہ جسمانی یا ذہنی طور پر معذور ہو، اسی طرح درخواست دہندہ اگر پنشنر،تین ایکڑ سے زیادہ اراضی کا مالک، پاسپورٹ ہولڈر یا بینک کا اکائونٹ ہولڈر ہو تو وہ بینظیر پروگرام سے امداد کے لیے نا اہل ہو گا۔
ایک اشتہار اکثر نظر سے گزرا کرتا تھا۔ ''بچے کم خوش حال گھرانہ'' اب اسی مقصد سے محکمہ بہبود آبادی کی طرف سے دیا گیا اشتہار کسی عالم دین کے حوالے سے نظر آتا ہے جس میں وہ حکم الٰہی کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں کہ مائیں دو سال تک لازمی اپنا دودھ پلائیں اور یہ کہ بچوں کی پیدائش میں تین سال کا وقفہ رکھیں کیونکہ ایسا کرنا ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے ضروری ہے ، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، جسمانی کمزوری ، بیماری ، غربت و افلاس ، معاشی بدحالی بیروزگاری، جہالت اور کم عمری میں اموات کا سبب بنتا ہے، غذائیت کی کمی کے لحاظ سے پاکستان چھٹا زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کے 44 فیصد بچے مختلف امراض میں مبتلا رہتے یا موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری رکھنے کی ضرورت ہے وہیں محکمہ بہبود آبادی کو اپنی خوشحال گھرانوں کی تعداد میں اضافے کی مہم کو تیز کرنا ہو گا۔
PPP کے کئی Stalwarts اس تجویز پر سخت سیخ پا ہیں اور جوابی حملوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پھر تو شوکت خانم اسپتال کا نام بھی تبدیل کر دینا چاہیے کیونکہ اگر اُدھر ایک پیپلز پارٹی کی سابق وزیر اعظم کا نام ہے تو دوسری طرف موجودہ وزیر ِ اعظم کی والدہ کا نام ہے، اس اعتراض میں البتہ کوئی وزن نہیں اور اگر شوکت خانم کے نام پر تنقید ہوئی تو اسے بیہودہ جوابی حملہ تصّور کیا جائے گا اور جن چند PPP لیڈروں نے یہ بات کی اور بیان دیئے ہیں انھیں شرم آنی چاہیے۔
گیارہ سال قبل لانچ کیے گئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کرنے والے مستحقین کی نشاندہی اور چنائو شروع میں پارلیمنٹیرینز کے ذریعے اور ان کی سفارش پر ہوتا تھا ، ہر پارلیمینٹیرین کو اپنے حلقہء انتخاب میں 8000 مستحقین کی نشاندہی کرنا ہوتی اور National Database & Registration Authority کو ان مستحقین کی تصدیق کرنا ہوتی جس کے بعد امدادی رقم دی جاتی لیکن عمل کو شفاف بنانے کے لیے پارلیمینٹیرین کا دخل ایک سال بعد نکال دیا گیا کیونکہ پارلیمینٹیرین کی اکثریت کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور اس پر تنقید ہونے لگی تھی۔ جب PPP کی حکومت کے بعد مسلم لیگ ن کی باری آئی تب بھی اس پروگرام کا نام نہیں بدلا گیا تھا اور اب جو اس BISP کا نام تبدیل کرنے کا شوشہ کسی نالائق نے چھوڑا ہے اسے یقینا PTI کے اندر بھی پزیرائی ملنے کا امکان نہیں۔ یہ بظاہر عمران کے کسی شیخی خورے کی حرکت لگتی ہے جس پر غالبؔ نے عرصہ قبل کہا تھا:۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
ہم مدت سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ اگر کسی حکمران کے ہاتھوں کسی نیک مفاد عامہ اور باعث ترقی پراجیکٹ یا کام کی ابتدا ہو جائے اور اس کی تکمیل سے پہلے ہی حکومت تبدیل ہو جائے تو آنے والا حکمران اس کی تکمیل کرنے کے بجائے پراجیکٹ کو نیا موڑ دے کر کیے کرائے پر پانی پھیر کر اس پر اپنے نام کی تختی لگانے کے لیے اس پراجیکٹ کا نام بدل کر ہو چکنے والے کام کی شکل تبدیل کر کے اس کی افتتاحی تقریب منعقد کر ڈالتا ہے۔
بات ہو رہی تھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جس کے مطابق مستحق افراد مُعاشرہ کی نشاندہی کر کے ان کی غربت و افلاس میں کیش رقم کے ذریعے کمی لانی تھی لیکن دیکھا یہ گیا کہ سیاسی پارٹیوں نے اپنے ورکر اور ووٹر تیار کرنے کے ساتھ اپنے سپورٹروں اور بھکاریوں کے جتھے تیار کرنے شروع کر دیئے، اس پروگرام کا ایک مقصد تھا چھوٹے قرضوں کے ذریعے مُعاشرے کی غریب و مستحق عورتوں کے لیے وسیلہ حق پیدا کرنا ، اس کا مقصد تھا ووکیشنل ٹریننگ کے ذریعے وسیلہ روزگار مہیا کرنا،اس پروگرام کا مقصد تھا لوگوں کو بیماریوں کی وجوہات سے معلومات حاصل کرنے کے بعد ان میں صحت سے متعلق بیماریوں سے آگاہی علم اور ان کا شعور پیدا کرنا۔ جو فیملیز PISP سے مالی مدد لیتی ہوں اس رقم کا ایک اہم استعمال اپنے 5 سے 12 سال کے درمیان عمر والے بچوں کو تعلیم دلوانا ہے۔
رپورٹ ہے کہ گزشتہ دو حکومتوں کے دور ہائے اقتدار میں جس جس علاقے میں ان کے منتخب اسمبلی ممبران کی تعدادزیادہ تھی وہاں کے Eligible Benficiaries کی تعداد ان کے مخالفین والے علاقوں کے مستحقین کی تعداد سے کئی گنا زیادہ پائی گئی،اس کی وجہ صاف ظاہر ہے اور ایسی شکایات بھی سمجھ میں آتی ہیں جس کی وجہ سیاستدانوں کی ناجائز دخل اندازی تھی۔ ممکن ہے شہید بینظیر کے نام پر رکھے گئے پروگرام کا نام بھی اسی وجہ سے ہدف ِ تنقید بنا۔ BISP میں بینظیر کا نام حذف کرنے کا مطالبہ غلط ہے، صرف پروگرام کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے، صحیح مستحقین کی صحیح شناخت ہونے پر اعتراض ختم ہو جائے گا۔
اس پروگرام کو اعتراضات سے پاک اور شفاف رکھنے کے لیے شرائط رکھی گئی ہیں کہ درخواست دہندہ خاتون کے پاس ID کارڈ ہو، اگر وہ بیوہ ہو تو اس کا کوئی فیملی ممبر بالغ مرد نہ ہو ، مستحق فیملی کا مطلب ہے کہ وہ جسمانی یا ذہنی طور پر معذور ہو، اسی طرح درخواست دہندہ اگر پنشنر،تین ایکڑ سے زیادہ اراضی کا مالک، پاسپورٹ ہولڈر یا بینک کا اکائونٹ ہولڈر ہو تو وہ بینظیر پروگرام سے امداد کے لیے نا اہل ہو گا۔
ایک اشتہار اکثر نظر سے گزرا کرتا تھا۔ ''بچے کم خوش حال گھرانہ'' اب اسی مقصد سے محکمہ بہبود آبادی کی طرف سے دیا گیا اشتہار کسی عالم دین کے حوالے سے نظر آتا ہے جس میں وہ حکم الٰہی کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں کہ مائیں دو سال تک لازمی اپنا دودھ پلائیں اور یہ کہ بچوں کی پیدائش میں تین سال کا وقفہ رکھیں کیونکہ ایسا کرنا ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے ضروری ہے ، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، جسمانی کمزوری ، بیماری ، غربت و افلاس ، معاشی بدحالی بیروزگاری، جہالت اور کم عمری میں اموات کا سبب بنتا ہے، غذائیت کی کمی کے لحاظ سے پاکستان چھٹا زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کے 44 فیصد بچے مختلف امراض میں مبتلا رہتے یا موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری رکھنے کی ضرورت ہے وہیں محکمہ بہبود آبادی کو اپنی خوشحال گھرانوں کی تعداد میں اضافے کی مہم کو تیز کرنا ہو گا۔