ورلڈکپ کے لیے متوازن اسکواڈ کا انتخاب ایک چیلنج

کمزور مہم کو جاندار بنانے کی کوشش۔

کمزور مہم کو جاندار بنانے کی کوشش۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی کے ساتھ ہی کھیلوں کی تنظیموں میں اکھاڑ پچھاڑ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے، ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد نوشتہ دیوار تھا کہ چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کی رخصتی ہوگی، بالآخر انہیں جانا ہی پڑا اور بورڈ کی کمان آئی سی سی کے سابق صدر احسان مانی کے سپرد ہوئی۔

کرکٹ کے امور چلانے کا وسیع تجربہ رکھنے والے چیئرمین بورڈ سے بلند توقعات وابستہ کی گئیں لیکن ابھی تک دیکھا گیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ انتظامی معاملات میں بہتری لانے پر مرکوز رہی ہے،انہوں نے نعرہ تو تبدیلی کا لگا لیکن پی سی بی اور ڈومیسٹک کرکٹ میں تبدیلی کا مشن مکمل کرنے کیلئے وہ زیادہ تر پرانے چہروں پرہی انحصار کررہے ہیں، اسی لئے بات زبانی جمع خرچ اور فائل ورک سے آگے نہیں بڑھ رہی۔

کسی معاملے میں انوکھے فیصلوں پر چیئرمین سے کچھ پوچھا جائے تو جواب ہوتا ہے کہ میں فلاں شعبے کے کام میں مداخلت نہیں کرتا، ہیڈ کوچ مکی آرتھر اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کی جانب سے کپتان سرفرازاحمد سمیت اہم کرکٹرز کو پی ایس ایل کے بجائے آسٹریلیا کے خلاف انٹرنیشنل سیریز میں آرام دینے کا فیصلہ ہو یا پاکستان ون ڈے کپ میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے قبل ہی ممکنہ کھلاڑیوں کی فہرست جاری کرنے کا اعلان ہو، احسان مانی اس میں مداخلت کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔

''کرکٹ پاکستان'' کو ایک انٹرویو میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ کرکٹرز کی کارکردگی سلیکٹرز دیکھتے ہیں، میں صرف سلیکٹرز کی کارکردگی دیکھتا ہوں، یہ منطق کسی کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے،کروڑوں شائقین پی سی بی کی انتظامی قلابازیاں نہیں، قومی ٹیم اور کھلاڑیوں کی پرفارمنس دیکھتے ہیں،کسی بھی ادارے کی ساکھ اندازہ اس کی پراڈکٹ سے ہی لگایا جاتا ہے۔

دوسری جانب قومی ٹیم کی صورتحال یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کی پسندیدہ کنڈیشنز میں بھی ایشیا کپ میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں ناکامیوں نے ورلڈ کپ کی تیاریوں پر سوالیہ نشان لگایا، دنیا کی بیشتر ٹیمیں ورلڈ کپ کیلیے اپنے حتمی سکواڈ منتخب کر چکیں، آسٹریلوی ٹیم بھرپور قوت کے ساتھ بھارتی میدانوں پر اتری اور گھر کے شیروں کا شکار کیا، اس کے بعد پاکستان کو یو اے ای میں 0-5 سے کلین سویپ کرتے ہوئے اپنا اعتماد بلندیوں پر پہنچا دیا، اپنے کھلاڑیوں کو باری باری مواقع دینے کیلئے ہر میچ میں ایک، دو تبدیلیاں کینگروز بھی کرتے رہے لیکن ٹاپ کھلاڑیوں کو مسلسل کھلانے اور بے وقت آرام دینے جیسے انوکھے فیصلے پی سی بی نے کئے۔

چیف سلیکٹر انضمام الحق نے پہلے کہا کہ پی ایس ایل کے ٹاپ پرفارمرز کو آسٹریلیا کیخلاف سیریز میں آزمائیں گے، پھر ایونٹ ختم ہونے سے قبل ہی سکواڈ کا اعلان کر دیا، پاکستان ون ڈے کپ سے قبل ان کا ایک اور روایتی بیان سامنے آیا کہ ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والوں کو ورلڈکپ کیلئے زیر غور لائے گے، ابھی ایونٹ کو شروع ہوئے دو دن ہی ہوئے تھے کہ فٹنس ٹیسٹ کیلئے 23 ممکنہ کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان بھی کر دیا گیا، ورلڈ کپ کیلئے سکواڈ کے حوالے سے بیشتر فیصلے اگر پہلے ہی کر لئے گئے ہیں تو حتمی 15کے اعلان کا معاملہ لٹکانے کی ضرورت کیا تھی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی سی بی کے منیجنگ ڈائریکٹر وسیم خان نے بھی پاکستان ون ڈے کپ کے پرفارمرز کو ورلڈ کپ کیلئے زیر غور لانے کا شوشہ چھوڑ دیا، دوسری جانب یہ پلان بھی دیدیا کہ دورہ انگلینڈ پر 18 کھلاڑی بھیجیں گے تاکہ فٹنس مسائل یا انجری کی صورت میں متبادل تلاش کرنے میں مشکل پیش نہ آئے،آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں تجربات سے لے کر 23 کھلاڑیوں کے اعلان، فٹنس ٹیسٹ اور حتمی سکواڈ کے اعلان کے بعد گویا انگلینڈ میں بھی ورلڈ کپ کھیلنے کئی امیدوار غیر یقینی کیفیت کا شکار رہ سکتے ہیں، بہتر یہی تھا کہ پی ایس ایل کے دوران قومی کرکٹرز کو مناسب وقفے سے روٹیشن پالیسی کے تحت آرام دیا جاتا۔

آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں ٹیم بھرپور قوت کے ساتھ میدان میں اترتی، اس دوران ہر میچ میں ایک، دو میں کھلاڑیوں کی آزمائش بھی کر لی جاتی، کپتان سرفراز احمد کو بھی اندازہ ہوتا کہ کونسا بولر یا بیٹسمین کس رول میں زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتا ہے،اس سے قبل دورہ جنوبی افریقہ سے قبل بی سی بی سرفراز احمد کو ورلڈکپ تک کپتان مقرر کرنے سے گریز کرتا رہا،احسان مانی وکٹ کیپر بیٹسمین کی قائدانہ صلاحیتوں کی تعریفیں کرنے کے بعد باقاعدہ اعلان کرنے کا سوال ٹال جاتے رہے، دورہ جنوبی افریقہ میں سرفراز احمد اینڈل فیلکوایو کیخلاف نسلی تعصب پر مبنی جملے ادا کرنے کے الزام میں 4میچز کی پابندی کے سزاوار ٹھہرے میں مزید غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔


بالآخر سرفراز احمد کو کپتان برقرار رکھنے کا باقاعدہ اعلان کرنا ہی پڑا، غیر اہم معاملات کو مسائل بنالینے کی وجہ سے قومی کرکٹ ٹیم کو جدید کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر توجہ مرکوز نہیں کی جاسکی،سسٹم میں سدھار لانے کی خواہش غلط نہیں لیکن چیئرمین پی سی بی اور ان کی ٹیم کے طویل مدت منصوبوں کافی الحال قومی ٹیم کی کارکردگی پر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔

احسان مانی کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیم کو مسائل سسٹم سے ورثے میں ملے ہیں،ملک میں کرکٹ کی حالت سدھرے گی تو گرین شرٹس کی کارکردگی بھی بہتر ہوگی،چیئرمین کے اس منصوبے پر بھی کئی سوالیہ نشان موجود ہیں،وزیر اعظم اور پی سی بی کے پیٹرن انچیف عمران خان ڈیپارٹمنٹس کو ختم کرکے آسٹریلوی سٹیٹس سسٹم کی طرز پر پاکستان میں بھی چاروں صوبوں سمیت صرف 6ٹیمیں لانے پر اصرار کررہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈیپارٹمنٹل کرکٹ قابل بھروسہ نہیں تو ماضی میں اداروں کی نمائندگی کرنے والے کرکٹرز کی بڑی تعداد قومی ٹیموں میں شامل ہوکر پاکستان کا نام روشن کرنے کی قابل کس طرح ہوتی رہی،عمران خان کی قیادت میں ورلڈکپ 1992 جیتنے والی ٹیم میں ڈیپارٹمنٹس سے تعلق رکھنے والا کتنے کرکٹرز تھے،سسٹم میں اکھاڑ پچھاڑ کرنے کے بجائے اس کو میرٹ پر استوار کرنے کیلئے محنت کی جاتی تو بہتر ہوتا،ماضی میں کئی چیئرمینوں کے ''ویڑن'' کے مطابق ''فائل ورک'' مکمل کرنے کا طویل ریکارڈ رکھنے والے ہارون رشید ہی ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ کے طور پر عمران خان اور احسان مانی کی توقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیا سٹرکچر تیار کررہے ہیں۔

اس صورتحال میں کرکٹرز کی بڑی تعداد پر بے روزگاری کی تلوار بھی لٹک رہی ہے،وسائل رکھنے والوں کے بچے ہی باپ دادا کی کمائی خرچ کرتے ہوئے کرکٹ کھیلیں گے لوئر کلاس سے تعلق رکھنے والوں کیلئے معاشی تحفظ کی کشش بھی ختم ہوجائے گی،ابھی تک پی سی بی کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر دونوں دعوے کررہے ہیں کہ بے روزگار ہونے والے کرکٹرز کو کوالیفائیڈ کوچز، کیوریٹر اور گرا?نڈ مین بنائیں گے،دیکھتے ہیں آگے چل کر ان باتوں میں کتنی صداقت نظر آتی ہے۔

ورلڈکپ کیلیے قومی ٹیم کی مہم کمزور نظر آرہی ہے، ایک، دو کو چھوڑ کر پاکستان ٹیم کے بیشتر سینئر اور جونیئر کھلاڑی غیر مستقل مزاجی سے پیچھا چھڑانے میں ناکام رہے ہیں، آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں اگر کسی نے بہتر کارکردگی دکھائی بھی تو آخر میں اس طرح کی غفلت کا مظاہرہ کیا کہ مہمان ٹیم کیلئے جیت کا راستہ بن گیا۔

''پاور ہٹر'' اور ''میچ فنشر'' کی اصطلاح بار بار استعمال کرنے والے مکی آرتھر کو کمی کا احساس تو بہت ہوتا ہے لیکن اس مسئلے کا حل چیف سلیکٹر انضمام الحق تلاش کر پائے اور نہ ہی ہیڈ کوچ کا بے پناہ تجربہ کسی کام آیا، محمد حفیظ خوش قسمتی سے کسی ایک میچ میں فتح دلادیں تو اگلے 10 میں مایوس کر جاتے ہیں، شعیب ملک اور فہیم اشرف بھی کبھی کبھار ہی صلاحیتوں کے جوہر دکھاپاتے ہیں، آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں عمر اکم کو آزمانے کا تجربہ بھی ناکام رہا۔

ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے ممکنہ پاور ہٹرز کی فہرست میں عماد وسیم، شاداب خان اور حسن علی کو بھی شامل کر رکھا ہے، ان میں سے کسی کھلاڑی کی کارکردگی میں بھی اتنا تسلسل نہیں کہ زیادہ توقعات وابستہ کی جائیں،ممکنہ پلیئرز کی فہرست میں آصف علی کا نام بھی شامل ہے،جارح مزاج بیٹسمین بڑے سٹروکس کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، پی ایس ایل میں چند اچھی اننگز کھیلے لیکن ون ڈے فارمیٹ میں اننگز آگے بڑھانے کا ہنر انہیں سیکھنا ہوگا، ایشیا کپ میں توقعات کے مطابق کارکردگی پیش نہ کرپانے پر انہیں ڈراپ کرنے کے بجائے ذہنی طور پر تیار کرتے ہوئے اگلے میچز میں موقع دیا جاتا تو شاید ابھی تک ایک پر اعتماد فنشر بن چکے ہوتے۔

بہرحال اب بھی انہیں مواقع دیتے ہوئے انگلینڈ کی کنڈیشنز میں بہتر کارکردگی کیلیے تیار کیا جاسکتا ہے، پاکستان کیلئے پیس بیٹری کا انتخاب بھی درد سر ہے، حسن علی اور شاہین شاہ آفریدی تو سکواڈ میں شامل ہوں گے،محمد عامر کی کارکردگی مایوس کن ہے، عثمان شنواری کبھی بہترین تو کبھی بدترین بولنگ کرنے کے عادی ہیں، محمد عباس کا محدود اوورز کی کرکٹ میں زیادہ تجربہ نہیں، محمد حسنین کی فٹنس عالمی معیار کی نہ ہونے کی بات مکی آرتھر خود بھی کرچکے، وہاب ریاض اچھی فارم میں مکمل طور پر فٹ نظر آرہے ہیں، ان کو ممکنہ کھلاڑیوں میں ہی شامل نہیں کیا گیا،سلیکشن کے حوالے سے کئی سوالات مینجمنٹ کو اگلے چند روز میں تلاش کرنا ہیں۔
Load Next Story