یوم آزادی بھری برسات کے بیچ

یوم آزادی کی بہار میں یہ بہار آن ملی ہے تو بہار دو آتشہ ہو جائے گی۔

rmvsyndlcate@gmail.com

اب کے برس عجب ہوا۔ عید کے مبارک دن ہمیں اندیشہ دہشت گردی ستاتا رہا۔ دو دن بعد یوم آزادی آیا تو اس خوشی میں برسات نے آ کر کھنڈت ڈال دی۔ یوم آزادی تو پھر بھی منایا گیا۔ یاروں نے سوچا تھا کہ کوئی مضائقہ نہیں برکھا بہار ہی تو ہے۔ یوم آزادی کی بہار میں یہ بہار آن ملی ہے تو بہار دو آتشہ ہو جائے گی۔ مگر برکھا بہار کچھ زیادہ ہی زور پکڑ گئی۔ بارش سی بارش' الٰہی توبہ۔ کچھ وہ نقشہ تھا جو نظیر اکبر آبادی نے ایک نظم میں پیش کیا ہے:

برسات کا جہان میں لشکر پھسل پڑا

بادل بھی ہر طرف سے ہوا پر پھسل پڑا

جھڑیوں کا مینہ بھی آ کے سراسر پھسل پڑا

چھتا کسی کا شور مچا کر پھسل پڑا

کوٹھا جھکا' اٹاری گری' در پھسل پڑا

اصل میں برسات بڑا بے اعتبارا موسم ہے۔ ہم اس سے لطف بھی بہت اٹھاتے ہیں مگر پھر وہ ہمیں خراب بھی بہت کرتا ہے۔ یہ یک رنگا موسم نہیں ہے۔ اس کی دو رنگی چال ہے۔ قیامت کی گرمی میں جھلستے ہوئے ہم اس کا کتنی شدت سے انتظار کرتے ہیں اور جب پہلی بوند گرتی ہے تو ہم کس طرح اس کا استقبال کرتے ہیں؎

چہرہ افروز ہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو

دل کی افسردگی کچھ کم تو ہوئی ہم نفسو شکر کرو

آج پھر دیر کی سوئی ہوئی ندی میں نئی لہر آئی

دیر کے بعد کوئی نائو چلی ہم نفسو شکر کرو


برسات کی اس پہلی نمود کو ہم برکھا بہار جانتے ہیں۔ اس خوشی میں باغوں پارکوں میں گھروں میں جھولے پڑتے ہیں اور ساون کے گیت گائے جاتے ہیں۔ ہماری لوک شاعری ساون کے گیتوں سے بھری پڑی ہے۔

رفتہ رفتہ برسات زور پکڑتی ہے اور جھڑی لگ جاتی ہے۔ خیر پہلی جھڑی تو بہت خوشگوار نظر آتی ہے۔ اس کا استقبال اس طرح کیا جاتا ہے کہ چولہوں پر کڑہائی چڑھتی ہے اور رنگ برنگے پکوان تلے جاتے ہیں۔

مگر جب جھڑی طول پکڑتی ہے اور تھمنے کا نام نہیں لیتی تو برکھا بہار کے رنگ میں بھنگ پڑتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ مسجدوں میں اذانیں دی جاتی ہیں اور بارش بند ہونے کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ ویسے اس بدلتے نقشہ کا بیان برکھا کے گیتوں میں کم بہت کم آتا ہے۔ لو ہمیں اس پر میرا بائی کا ایک بھجن یاد آ گیا جو اس بول سے شروع ہوتا ہے ع

میں بادل دیکھ ڈری

برسات کے بادل میں رجھاتے بھی بہت ہیں اور ڈراتے بھی بہت ہیں۔ امنڈتی کالی اودی گھٹائیں شروع میں ابر رحمت نظر آتی ہیں مگر جب ان گھٹائوں کا لشکر زور باندھتا ہے اور ندی نالے چڑھ جاتے ہیں تو پھر یہی لشکر تباہی بدوش نظر آنے لگتا ہے۔ شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ خوشی میں بھی اعتدال ہونا چاہیے۔ خوشی حد سے تجاوز کر جائے تو آدمی کو مہنگی پڑتی ہے۔

خیر موسموں کی بے اعتدالی پر تو ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ وہ زمینیں وہ ملک خوش نصیب ہیں جہاں موسم معتدل مزاج رکھتے ہیں۔ اپنی حدوں میں رہتے ہیں۔ مگر ہمارے علاقے کا وصف یہ ہے کہ نہ یہاں آدمی حد اعتدال میں رہتا ہے نہ یہاں کے موسم حد اعتدال میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہماری برسات ہے۔ کتنی جلدی آپے سے باہر ہو جاتی ہے۔ پھر چل سو چل۔ جب زور باندھتی ہے تو وہی نقشہ ہوتا ہے جو نظیر نے بیان کیا کہ لگتا ہے کہ ع

برسات کا جہان میں لشکر پھسل پڑا

خیر برسات کی تو اپنی ادا ہوئی مگر وہ ادارے جن کی سپردگی میں شہروں قصبوں دیہاتوں کا بندوبست ہے، وہ برسات کا کیا بندوبست کرتے ہیں۔ لاہور میں تو ہم نے یہی دیکھا ہے کہ برسات سے پہلے برسات کی روک تھام کے بہت بندوبست کیے جاتے ہیں۔ تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ اب کے برسات شہر کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ مگر موسم کی پہلی ہی بارش میں اس سارے بندوبست کی قلعی کھل جاتی ہے۔ نالوں نالیوں کی صفائی پتہ نہیں کس طرح ہوتی ہے کہ ایک زور دار بارش ہو جائے تو بس جا بجا گلیوں' سڑکوں شاہراہوں پر پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔

اور واپڈا کی اتنی عمر ہو گئی مگر اسے موسموں سے نبٹنا نہ آیا۔ ایک ٹھکانے کی بارش ہو جائے بس پھر چراغ گل بتی غائب۔

خیر کل کی بارش کے سلسلہ میں تو نکاسی آب کا بندوبست کرنے والے معافی کے مستحق ہیں۔ بارش نے یہ طے کر کے اپنی یورش شروع کی تھی کہ یوم آزادی کی خوشی میں اس شان سے برسنا ہے کہ کسی طور رکنا نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر ان نوجوانوں کے جشن آزادی میں کھنڈت پڑی جو اس دن اسکوٹر پر سوار ہو کر بگٹٹ گھوڑے بن جاتے ہیں۔ اسکوٹر ایک پہیے پر کھڑا ہے اور اپنے سوار کو لیے اڑا چلا جا رہا ہے۔ جشن آزادی کی خوشی میں شرکت کے لیے جو بچے بڑے نکلے ہوئے ہیں، وہ خود ہی ان کی جھپٹ میں آنے سے بچ سکتے ہیں تو بچ جائیں۔ ورنہ یا قسمت یا نصیب۔ ان کی خاطر اسکوٹر سواروں کی دوڑ میں کوئی کوتاہی نہیں آئے گی بیشک وہ خود اپنے زور میں آ کر اوندھے منہ گر پڑیں۔ مگر اب کے ہوا یہ کہ برسات اس طرح کُھل کھیلی کہ ان اسکوٹر سوار نوجوانوں کو کُھل کھیلنے کا موقعہ نہیں مل سکا۔ ایک طرف ٹریفک پولیس کی روک ٹوک۔ اس سے بڑھ کر سڑکوں پر بہتی ندیوں کا زور شور۔ ان کے شوق برق رفتاری پر دونوں طرف سے اوس پڑ گئی۔

باقی رہا بجلی کا معاملہ جیسے وہ بارش کا انتظار ہی کر رہی تھی۔ ادھر برستے بادلوں کی طرف سے اشارہ ہوا اور ادھر وہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ غائب ہوئی۔ پھر رات تک اس نے مشکل ہی سے اپنی صورت دکھائی۔ اور ہم تو اس مخلوق میں سے ہیں کہ یوم آزادی بخیر و خوبی گزر گیا۔ اگلا دن چڑھا اور ہم اس عالم میں ہیں کہ گھر گھر میں اجالا ہے مرے گھر میں اندھیرا۔

سو یوں ہوا کہ 14 اگست کے مبارک دن برسات کی بے اعتدالی اور شہری بندوبست کی کوتاہی نے جشن آزادی منانے والوں کو بہت خراب کیا۔ پھر بھی ان کی ہمت تھی کہ انھوں نے مقدور بھر اپنے خوشی کے پروگراموں کو نبھایا۔
Load Next Story