سکھا شاہی والا انتشار

لکھنے والوں کا ایک گروہ ہے جس کا اصرار ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک مکمل اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے

nusrat.javeed@gmail.com

جب بھی 14 اگست کا دن آتا ہے، ہمارے کچھ اپنے تئیں محقق بنے لکھاری اخبارات کے یومِ آزادی کی مناسبت سے بنائے خصوصی ایڈیشنوں کے لیے طویل مضامین لکھتے ہیں۔ مقاصد ان مضامین کا ہمیں یہ بتانا ہوتا ہے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ میں ایسے مضامین کو ہمیشہ بڑے شوق سے پڑھتا ہوں اور ہر بار یہ جان کر بہت مایوسی ہوتی ہے کہ لکھنے والے نے سوائے اپنے بار ہا دہرائے دلائل کو ایک بار پھر لکھ ڈالنے کے اور کچھ نہیں کیا۔کبھی کبھار اپنے مضامین کو تازہ دکھانے کی خاطر البتہ قائد اعظم کے کسی خط یا تقریر کو جیسے ''دریافت'' کرنے کے بعد اپنے دلائل کے حق میں استعمال کرنے کی کوشش ضرور نظر آتی ہے۔ 14 اگست کے دن خصوصی طور پر چھاپے مضامین کو برسوں سے بڑے غور سے پڑھنے کے باوجود میں آج بھی آپ کو اعتماد سے نہیں بتا سکتا کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔

لکھنے والوں کا ایک گروہ ہے جس کا اصرار ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک مکمل اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے جہاں انسانوں کے بنائے قوانین کے بجائے شریعت کا نفاذ ہو۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں ڈاکٹر صفدر محمود جیسے ''تاریخ دان'' تو اب کچھ ایسا تاثر بھی دینا شروع ہو گئے ہیں جیسے پاکستان کے قیام کے بعد قائداعظم نے مولانا اشرف تھانوی کے جانشینوں کی رہنمائی میں اسلام کو از سرِنو دریافت کرنا شروع کر دیا تھا۔ لکھاریوں کا دوسرا گروہ اپنی تحریروں کا سارا زور یہ ثابت کرنے میں صرف کر دیتا ہے کہ قائد اعظم دین کو ریاستی معاملات سے جدا رکھنا چاہتے تھے۔ 11 اگست کے روز ان کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر اس ضمن میں ان کے ہر بار کام آتی ہے۔ اس تقریر کے سوا کوئی اور حوالہ ڈھونڈنے کی کوشش مجھے بہت کم نظر آئی۔

تاریخ نویسی میری ناقص رائے میں ایک بہت صبر آزما شعبہ ہے جہاں تحقیق کی جستجو میں دن رات ایک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک خاص قسم کا انہماک جو میرے جیسے رپورٹر کے بس کی بات نہیں۔ مگر تاریخِ پاکستان سے متعلق بہت ساری کتابوں کے سرسری مطالعے کے بعد میں یہ بات بڑے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ قائد اعظم جغرافیائی حوالے سے جس پاکستان کا قیام عمل میں لانا چاہ رہے تھے، اس میں پنجاب اور بنگال کی ہندو مسلم بنیادوں پر تقسیم کا کوئی تصور نہ تھا۔ میرا نہیں خیال کہ متحدہ پنجاب کو ہندوئوں اور سکھوں کی اتنی بڑی تعداد سمیت پاکستان کے شہری بنا دینے کے بعد قائد اعظم جیسے جمہوری شخص ان پر شرعی نظام مسلط کرنا چاہ رہے تھے۔

پنجاب اور بنگال کی تقسیم نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران جو وحشت و درندگی مچائی اور اس کے نتیجے میں انسانی تاریخ کی جس پریشان کن انداز میں نقل مکانی ہوئی اس کی شدت کا قائد اعظم سمیت اس وقت کے برصغیر کے کسی رہنما کو پہلے سے کوئی اندازہ نہ تھا۔ بٹوارے کی وحشت پاکستان اور بھارت کے لیے انہونی کی طرح نازل ہوئی اور میرا نہیں خیال کہ ان دنوں کے زخم اور ناخوش گوار یادیں، دونوں ملکوں کے ایک دوسرے کے بارے میں جذبات کو آج بھی کسی نہ کسی صورت مشتعل نہیں کرتے۔ غم و غصہ نوجوان نسلوں کے دلوں میں بھی کہیں نہ کہیں دبا بیٹھا ہے۔ ذرا سا موقعہ ملے تو پوری شدت سے اُچھل کر باہر آ جاتا ہے۔


پاکستان اور بھارت کے شاعروں اور لکھاریوں نے بٹوارے کے دنوں سے دلوں میں پلتے اس غم و غصے کو سمجھنے اور ہمیں سمجھانے کی جرأت نہیں کی۔ بس ایک سعادت حسن منٹو تھا جو ان دنوں کی وحشت کو سمجھنے کی کوشش میں دیوانہ ہو کر تقریباً جوانی کی موت مر گیا۔ قرۃالعین حیدر ایک اور درد مند خاتون تھیں جنھوں نے ستیا ہرن اور ہائوسنگ سوسائٹی جیسے شاہکار لکھنے کے بعد اپنے آخری دنوں تک بٹوارے کے اثرات کو جدید زمانے میں بھی سمجھنے کی کوشش کی۔ میرا نہیں خیال کہ منٹو اور قرۃ العین حیدر کی ایسی تحریریں آج کی نوجوان نسل کو پڑھنے اور انھیں سمجھنے کے لیے معقول اساتذہ کی نگہبانی میں مجبور کیا جاتا ہے۔

معافی چاہتا ہوں تاریخ نویسی کے بارے میں اپنے عجز کے اظہار کے بعد میں اس میدان میں خود کو دانشور ثابت کرنے کی طرف بہک گیا۔ ذات کا رپورٹر ہوں۔ مجھے اپنی اوقات میں رہنا چاہیے اور صرف ایک رپورٹر ہوتے ہوئے آپ کو اطلاع یہ دینا ہے کہ ایک ڈاکٹر وسیم ہوتے ہیں۔ تاریخ اور سیاسیات ان کا موضوع ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں پڑھایا کرتے تھے۔ پھر اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے لندن چلے گئے۔ آج کل لاہور کی ایک مشہور یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ ڈاکٹر وسیم میرے بڑے بہت پرانے دوست ہیں۔ اگرچہ دو مختلف شہروں میں رہنے کی وجہ سے ہماری ملاقاتیں نہیں ہو پاتیں۔ مگر جب بھی ان سے ملاقات کا موقع ملے تو وہ میرے ساتھ سنجیدہ باتیں کرنا پسند نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ میں ایک ''مخولیا'' ہوں۔ جو پڑھے لکھے لوگوں کی محفلوں میں صرف جگت بازی کر سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب اس میدان میں ہم ایک دوسرے کے دوبدو ہوں تو فقرہ ان کا ہمیشہ زیادہ چست اور کاری ثابت ہوا۔ میں ایک ادنیٰ طالب علم کی طرح ان کی تحریریں مگر بڑے غور سے پڑھتا اور ان کی تقریریں بڑی توجہ سے سنتا ہوں۔

منگل کے روز سیفما نے لاہور کے ایک ہوٹل میں پاک بھارت امن کی خواہش میں جو تقریب برپا کی وہاں ڈاکٹر صاحب نے بھی ایک مختصر تقریر فرمائی۔ تقریب کی طوالت کے خوف سے انھوں نے اپنے دلائل کو بس سرسری انداز میں پیش کیا۔ مجھے جس نکتے نے ہلا ڈالا وہ یہ تھا 2013ء میں کم از کم پاکستان میں وہ ریاستی نظام مکمل طور پر ٹوٹا ہوا دِکھ رہا ہے جو برطانوی سامراج نے اس خطے پر اپنا کنٹرول جمانے اور اسے تسلسل دینے کے لیے متعارف کرایا تھا۔ ''سامراجی نظام'' کی یہ تباہی آزادی پسندوں کا خواب تھی۔ ہمیں تو برطانوی استعمار کے متعارف کردہ ریاستی ڈھانچے کی تباہی پر شاداں ہونا چاہیے تھا۔ مگر ہم اداس اور پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لیے کہ مکمل Decolonizationکے بعد جو ابتری اور انتشار ہمارے ہر طرف دِکھ رہا ہے وہ رنجیت سنگھ کے بعد والی ''سکھاشاہی''جیسا ہے۔

ہماری مملکتِ خداداد کا ''دلّی''یعنی اسلام آباد اور اس کے قلعہ معلیٰ میں بیٹھے لوگ بھی آج کل بہادر شاہ ظفر کی طرح نظر آ رہے ہیں جو کسی دل کو سرور نہیں دیتے اور نہ کسی آنکھ کے نور بننے کے قابل۔ دُکھ تو یہ بھی ہے کہ وہ خدا سے ''میرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا'' والی التجائیں کرتے بھی نظر نہیں آتے۔ پچاس ہزار کے قریب عام اور بے گناہ انسان، پاکستان کی حفاظت کے لیے لڑتے سپاہی اور میرے اور آپ کے تحفظ پر مامور اداروں کے لوگ اپنے جان و مال سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہمارے بہادر شاہ ظفر ابھی تک نہیں سمجھ پا رہے کہ یہ جنگ کس کی ہے۔ ہماری یا کسی غیر کی مسلط کردہ۔ ہم نے انھیں ووٹ دے کر اپنا مالک و مختار بنایا ہے۔ وہ ریاستی رٹ کی بحالی کے لیے ابھی تک Consensus کے متلاشی ہیں۔ ڈریں اس وقت سے جب ٹریفک کنٹرول کرنے والے سرخ بتیاں توڑ کر آگے بڑھ جانے والوں کے خلاف کوئی حرکت کرنے سے انکار کر دیں۔ آپ سے تقاضہ کریں کہ سرخ بتیوں پر نہ رکنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے پہلے Consensus پیدا کیا جائے۔
Load Next Story