کوٹہ سسٹم سے چھٹکارا پائیں
دنیا میں میرٹ کو فروغ دیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں صوبائی اور علاقائی کوٹے بڑھائے جارہے ہیں۔
وفاقی کابینہ نے آئین کے آرٹیکل (1) 27 کی پہلی شق میں آئینی ترمیم کی منظوری دی۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ قومی سالمیت اور ہم آہنگی کے مفاد میں کسی طبقے یا علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے پاکستان کی ملازمت میں مناسب نمائندگی اسی صورت میں ممکن ہے جب اس میعاد کو مزید توسیع دے دی جائے۔ یہ شق وفاقی حکومت میں اسامیوں پر براہ راست بھرتی کے لیے میرٹ، علاقائی کوٹے کی حامل ہے۔ موجودہ شق کو 14 اگست 2013 سے مزید 20 سال کے عرصے کے لیے توسیع دی جائے گی۔ یاد رہے کہ پہلے ہی 10 فیصد میرٹ کے کوٹے کو ساڑھے 7 فیصد کردیا گیا تھا۔ موجودہ صوبائی کوٹے کی میعاد 31 اگست کو ختم ہورہی ہے، اس حوالے سے وفاقی کابینہکی جانب سے اس کوٹے کو جو گزشتہ 40 سال سے چلا آرہا ہے، میں اب مزید 20 سال توسیع کی جارہی ہے۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد تمام سیاسی جماعتوں سے حکومت بات چیت کرے گی اور یہ معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں لایاجائے گا۔ جب کہ جنوبی پنجاب کے کچھ حلقے سندھ کی طرح اب پنجاب میں بھی الگ سے جنوبی پنجاب کا کوٹہ مانگ رہے ہیں۔
دنیا میں میرٹ کو فروغ دیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں صوبائی اور علاقائی کوٹے بڑھائے جارہے ہیں۔ ایسا کیوں؟ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر کا کہنا ہے کہ کوٹہ سسٹم کی مدت میں اضافہ ہونا چاہیے، کیونکہ جب تک صوبے بھر بالخصوص کراچی میں معیار تعلیم بہتر نہیں ہوتا اس سسٹم کو ختم کرنا غلط فیصلہ ہوگا۔ کوٹہ سسٹم کی مدت میں اضافے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں سے پیپلزپارٹی رابطے کرے گی۔
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن امین الحق کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے کوٹہ سسٹم کے معاملے پر غور کے لیے اعلیٰ سطح کی مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی کی سفارشات پر غور کے بعد ایم کیو ایم اپنے موقف کا اعلان کرے گی۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی کا کہنا تھا کہ مشاورت جاری ہے اور جلد اس معاملے پر اپنا موقف جاری کریں گے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور ایم پی اے سید حفیظ الدین نے کہاکہ ہم میرٹ پر یقین رکھتے ہیں تاہم کوٹہ سسٹم پر پارٹی میں مشاورت جاری ہے، جلد اپنا موقف جاری کریں گے۔ ن لیگ سندھ کے سیکریٹری سلیم ضیاء کا کہنا تھا کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم پر پارٹی کی صوبائی قیادت سسٹم کے معاملے پر سیاسی ومذہبی جماعتوں کا موقف واضح نہیں ہے، جب کہ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ سسٹم میرٹ کے خلاف ہے۔ تعلیم بچائو ایکشن کمیٹی کے کنوینر انیس الرحمن اور جنرل سیکریٹری عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ کوٹہ سسٹم دراصل میرٹ کا قتل ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، یہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے متصادم ہے۔
کراچی میں بدامنی کی بڑی وجہ کوٹہ سسٹم ہے جہاں نوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں داخلے ملتے ہیں اور نہ ہی نوکریاں ملتی ہیں، چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں از خود نوٹس لیں اور کراچی بد امنی کیس میں کوٹہ سسٹم کو بھی سنیں، ماضی میں کوٹہ سسٹم 10برس کے لیے بنایا گیا تھا، کیونکہ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات کا فقدان تھا۔ اندرون سندھ کے وڈیروں کے بچے کراچی میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور ڈومیسائل دیہی علاقوں کا بنواکر پروفیشنل کالجوں میں داخلے اور بعد ازاں نوکریاں بھی لیتے رہے جس کی وجہ سے سندھ کا تعلیمی نظام پست ہوگیا، جب کہ بلوچستان بھی ہم سے آگے نکل چکا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 40 سال سے کوٹہ سسٹم نافذ ہے جس کی بنیاد پر داخلے اور نوکریاں صرف دیہی علاقوں کے لوگ حاصل کرتے ہیں لیکن صوبے کی آدھی آبادی کا شہر کراچی اس سے محروم رہتا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ ہے جہاں 100 فیصد ملازمین کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے، حتیٰ کہ بورڈ آف گورنرز کے 8 ڈائریکٹرز کا تعلق بھی دیہی سندھ سے ہے۔
جب ہم ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 1951 میں مردم شماری کے بعد پالیسی سازوں نے مرکزی ملازمتوں میں پس ماندہ علاقوں کے لیے ملازمتوں کو متعارف کرایا جو صوبوں کے درمیان سرد جنگ کا نقطہ آغاز کہلایا۔ دفاعی ملازمتوں کو چھوڑکرجو فارمولا اس وقت تخلیق کیاگیا تھا وہ مندرجہ ذیل ہے۔
میرٹ 20 فیصد، سابقہ مشرقی پاکستان 40 فیصد، پنجاب 23 فیصد، سندھ بلوچستان 9 فیصد، صوبہ سرحد 6 فیصد، کراچی 2 فیصد۔ یہ طریقہ کار آبادی کے تناسب سے مناسبت نہیں رکھتا تھا۔ مثال کے طورپر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی آبادی 56 فیصد تھی مگر کوٹہ 40 فیصد تھا۔ 1956 میں ون یونٹ کے قیام نے چھوٹے صوبوں خاص طور پر سندھ میں احساس محرومی کو جنم دیا۔ وفاقی حکومت نے 1985 میں کراچی میں لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے اس وقت کے وفاقی سیکریٹری داخلہ مسعود الزماں کی سربراہی میں کراچی انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے مارچ 1986 میں 120 سے زائد صفحوں پر مشتمل رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں کراچی کے مسائل کے حل کے لیے سفارشات پیش کی تھی۔ یہ رپورٹ اب شاید صرف سرکاری لائبریری میں ہی دستیاب ہو۔ اس رپورٹ میں کی گئی سفارشات میں سے ایک تجویز کوٹہ سسٹم کے متعلق بھی تھی۔
جس میں کہا گیا تھا کہ ''(1) 28 مارچ 1974 کو سندھ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن نمبر 2/1-73 (SSGAD) SOIX-REG میں اندراج ہدایات پر، جو بی پی ایس 3 تا 5 کی اسامیوں کو پر کرنے سے متعلق ہیں اور اسی علاقے کے لوگوں کو بھرتی کرنے سے متعلق ہے۔ کراچی کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو حرف بہ حرف عمل درآمد کی بذات خود نگرانی کرنا چاہیے۔ وفاقی حکومت کے دفاتر کے لیے بھی ایسی ہی ہدایات پر موثر انداز میں عمل در آمد ہونا چاہیے اور ان کی نگرانی کی جانی چاہیے۔ یہ ذمے داری بنیادی اور لازمی طورپر متعلقہ محکموں، اداروں اور متعلقہ انتظامی وزارتوں پر عائد ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن خود کو ان ہدایات پر عمل درآمد سے کلی طورپر با خبر رکھے۔ (2) اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہئیں کہ کراچی کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ نہایت تفصیلی چھان بین، تحقیقات اور درخواست کنندہ کے باپ دادا کی درست تصدیق و توثیق کے بعد ہی جاری ہوں''۔
جب کہ ہمارے یہاں سرکاری دستاویزات نادرا شناختی کارڈ، ڈومیسائل، پی آرسی، کریکٹر سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ وغیرہ کا حصول ان لوگوں کے لیے مشکل ہے جو جائز طریقے سے کام لیتے ہیں، اس کے برعکس رشوت کے عوض غیر ملکی بھی پاکستانی شہریت حاصل کرلینے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں، جس کے بعد وہ پاکستان کے وسائل کے حق دار ٹھہرتے ہیں اور جو اصل پاکستانی شہری ہیں وہ وطن میں رہ کر بھی بے وطن سے لگتے ہیں۔ ملک کے دیہی علاقوں کے رہائشی اس لیے شہر کراچی کا رخ کرتے ہیں کہ یہاں روزگار کے مواقع زیادہ ہیں اگر دیہی علاقوں میں زراعت پر مبنی صنعتوں کو ترقی دیکر ملازمت کے مواقع میں اضافہ کیا جائے تو وہاں کے لوگ روزگار کے تلاش میں شہروں کو نقل مکانی یا ہجرت پر مجبور نہ ہوں گے۔
اب چونکہ سرکاری ملازمت کا دور تقریباً ختم ہوچکا ہے، جو سرکاری ادارے باقی ہیں وہ بھی برائے فروخت کے اشتہار ہیں، ایسے زمینی حقائق کی روشنی میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں صنعتی زون قائم کیے جائیں تاکہ روزگار کے ذرائع پیدا ہوں۔ اس طرح ایک طرف شہروں پر آبادی کا دبائو کم ہوگا تو دوسری طرف ملکی معیشت مضبوط ہوگی۔ پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ اس کام کے لیے بجلی کی ضرورت ہوگی جو ہمارے ملک میں کمیاب ہے جس کے لیے نواز شریف حکومت کوشاں ہے، ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ بہتری کے لیے کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ آخر میں بے روزگار نوجوانوں کو بتاتا چلوں کہ پاکستان میں تقریباً 40 لاکھ کے قریب مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز قائم ہیں، جن کی بڑی تعداد صوبہ سندھ اور پنجاب میں ہے، نوجوان روزگار کی تلاش کے بجائے سیلف ایمپلائمنٹ کو ترجیح دیں تو کسی حد تک ملک سے بے روزگاری کم ہوسکتی ہے اور کوٹہ سٹم جیسے جھگڑوں سے چھٹکارا بھی مل سکتا ہے۔
دنیا میں میرٹ کو فروغ دیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں صوبائی اور علاقائی کوٹے بڑھائے جارہے ہیں۔ ایسا کیوں؟ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر کا کہنا ہے کہ کوٹہ سسٹم کی مدت میں اضافہ ہونا چاہیے، کیونکہ جب تک صوبے بھر بالخصوص کراچی میں معیار تعلیم بہتر نہیں ہوتا اس سسٹم کو ختم کرنا غلط فیصلہ ہوگا۔ کوٹہ سسٹم کی مدت میں اضافے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں سے پیپلزپارٹی رابطے کرے گی۔
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن امین الحق کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے کوٹہ سسٹم کے معاملے پر غور کے لیے اعلیٰ سطح کی مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی کی سفارشات پر غور کے بعد ایم کیو ایم اپنے موقف کا اعلان کرے گی۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی کا کہنا تھا کہ مشاورت جاری ہے اور جلد اس معاملے پر اپنا موقف جاری کریں گے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور ایم پی اے سید حفیظ الدین نے کہاکہ ہم میرٹ پر یقین رکھتے ہیں تاہم کوٹہ سسٹم پر پارٹی میں مشاورت جاری ہے، جلد اپنا موقف جاری کریں گے۔ ن لیگ سندھ کے سیکریٹری سلیم ضیاء کا کہنا تھا کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم پر پارٹی کی صوبائی قیادت سسٹم کے معاملے پر سیاسی ومذہبی جماعتوں کا موقف واضح نہیں ہے، جب کہ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ سسٹم میرٹ کے خلاف ہے۔ تعلیم بچائو ایکشن کمیٹی کے کنوینر انیس الرحمن اور جنرل سیکریٹری عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ کوٹہ سسٹم دراصل میرٹ کا قتل ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، یہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے متصادم ہے۔
کراچی میں بدامنی کی بڑی وجہ کوٹہ سسٹم ہے جہاں نوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں داخلے ملتے ہیں اور نہ ہی نوکریاں ملتی ہیں، چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں از خود نوٹس لیں اور کراچی بد امنی کیس میں کوٹہ سسٹم کو بھی سنیں، ماضی میں کوٹہ سسٹم 10برس کے لیے بنایا گیا تھا، کیونکہ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات کا فقدان تھا۔ اندرون سندھ کے وڈیروں کے بچے کراچی میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور ڈومیسائل دیہی علاقوں کا بنواکر پروفیشنل کالجوں میں داخلے اور بعد ازاں نوکریاں بھی لیتے رہے جس کی وجہ سے سندھ کا تعلیمی نظام پست ہوگیا، جب کہ بلوچستان بھی ہم سے آگے نکل چکا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 40 سال سے کوٹہ سسٹم نافذ ہے جس کی بنیاد پر داخلے اور نوکریاں صرف دیہی علاقوں کے لوگ حاصل کرتے ہیں لیکن صوبے کی آدھی آبادی کا شہر کراچی اس سے محروم رہتا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ ہے جہاں 100 فیصد ملازمین کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے، حتیٰ کہ بورڈ آف گورنرز کے 8 ڈائریکٹرز کا تعلق بھی دیہی سندھ سے ہے۔
جب ہم ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 1951 میں مردم شماری کے بعد پالیسی سازوں نے مرکزی ملازمتوں میں پس ماندہ علاقوں کے لیے ملازمتوں کو متعارف کرایا جو صوبوں کے درمیان سرد جنگ کا نقطہ آغاز کہلایا۔ دفاعی ملازمتوں کو چھوڑکرجو فارمولا اس وقت تخلیق کیاگیا تھا وہ مندرجہ ذیل ہے۔
میرٹ 20 فیصد، سابقہ مشرقی پاکستان 40 فیصد، پنجاب 23 فیصد، سندھ بلوچستان 9 فیصد، صوبہ سرحد 6 فیصد، کراچی 2 فیصد۔ یہ طریقہ کار آبادی کے تناسب سے مناسبت نہیں رکھتا تھا۔ مثال کے طورپر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی آبادی 56 فیصد تھی مگر کوٹہ 40 فیصد تھا۔ 1956 میں ون یونٹ کے قیام نے چھوٹے صوبوں خاص طور پر سندھ میں احساس محرومی کو جنم دیا۔ وفاقی حکومت نے 1985 میں کراچی میں لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے اس وقت کے وفاقی سیکریٹری داخلہ مسعود الزماں کی سربراہی میں کراچی انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے مارچ 1986 میں 120 سے زائد صفحوں پر مشتمل رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں کراچی کے مسائل کے حل کے لیے سفارشات پیش کی تھی۔ یہ رپورٹ اب شاید صرف سرکاری لائبریری میں ہی دستیاب ہو۔ اس رپورٹ میں کی گئی سفارشات میں سے ایک تجویز کوٹہ سسٹم کے متعلق بھی تھی۔
جس میں کہا گیا تھا کہ ''(1) 28 مارچ 1974 کو سندھ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن نمبر 2/1-73 (SSGAD) SOIX-REG میں اندراج ہدایات پر، جو بی پی ایس 3 تا 5 کی اسامیوں کو پر کرنے سے متعلق ہیں اور اسی علاقے کے لوگوں کو بھرتی کرنے سے متعلق ہے۔ کراچی کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو حرف بہ حرف عمل درآمد کی بذات خود نگرانی کرنا چاہیے۔ وفاقی حکومت کے دفاتر کے لیے بھی ایسی ہی ہدایات پر موثر انداز میں عمل در آمد ہونا چاہیے اور ان کی نگرانی کی جانی چاہیے۔ یہ ذمے داری بنیادی اور لازمی طورپر متعلقہ محکموں، اداروں اور متعلقہ انتظامی وزارتوں پر عائد ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن خود کو ان ہدایات پر عمل درآمد سے کلی طورپر با خبر رکھے۔ (2) اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہئیں کہ کراچی کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ نہایت تفصیلی چھان بین، تحقیقات اور درخواست کنندہ کے باپ دادا کی درست تصدیق و توثیق کے بعد ہی جاری ہوں''۔
جب کہ ہمارے یہاں سرکاری دستاویزات نادرا شناختی کارڈ، ڈومیسائل، پی آرسی، کریکٹر سرٹیفکیٹ، پاسپورٹ وغیرہ کا حصول ان لوگوں کے لیے مشکل ہے جو جائز طریقے سے کام لیتے ہیں، اس کے برعکس رشوت کے عوض غیر ملکی بھی پاکستانی شہریت حاصل کرلینے میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں، جس کے بعد وہ پاکستان کے وسائل کے حق دار ٹھہرتے ہیں اور جو اصل پاکستانی شہری ہیں وہ وطن میں رہ کر بھی بے وطن سے لگتے ہیں۔ ملک کے دیہی علاقوں کے رہائشی اس لیے شہر کراچی کا رخ کرتے ہیں کہ یہاں روزگار کے مواقع زیادہ ہیں اگر دیہی علاقوں میں زراعت پر مبنی صنعتوں کو ترقی دیکر ملازمت کے مواقع میں اضافہ کیا جائے تو وہاں کے لوگ روزگار کے تلاش میں شہروں کو نقل مکانی یا ہجرت پر مجبور نہ ہوں گے۔
اب چونکہ سرکاری ملازمت کا دور تقریباً ختم ہوچکا ہے، جو سرکاری ادارے باقی ہیں وہ بھی برائے فروخت کے اشتہار ہیں، ایسے زمینی حقائق کی روشنی میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں صنعتی زون قائم کیے جائیں تاکہ روزگار کے ذرائع پیدا ہوں۔ اس طرح ایک طرف شہروں پر آبادی کا دبائو کم ہوگا تو دوسری طرف ملکی معیشت مضبوط ہوگی۔ پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ اس کام کے لیے بجلی کی ضرورت ہوگی جو ہمارے ملک میں کمیاب ہے جس کے لیے نواز شریف حکومت کوشاں ہے، ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ بہتری کے لیے کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ آخر میں بے روزگار نوجوانوں کو بتاتا چلوں کہ پاکستان میں تقریباً 40 لاکھ کے قریب مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز قائم ہیں، جن کی بڑی تعداد صوبہ سندھ اور پنجاب میں ہے، نوجوان روزگار کی تلاش کے بجائے سیلف ایمپلائمنٹ کو ترجیح دیں تو کسی حد تک ملک سے بے روزگاری کم ہوسکتی ہے اور کوٹہ سٹم جیسے جھگڑوں سے چھٹکارا بھی مل سکتا ہے۔