یہ جھٹکا ہے بجلی کا

ملک کے بڑے صوبوں میں بلوں کی ادائیگی کا نظام تو پھر بھی کسی نہ کسی طرح جاری ہے

سرکار کی جانب سے بجلی اور گیس چوری کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا خطرے کا الارم بجا اور چوری کرنے اور کروانے والے دونوں کے کان کھڑے ہوگئے کہ اب معاملہ واقعی گڑ بڑ ہے۔ پنجاب میں گیس چوری کرنے کے کیس عام ہیں تو سندھ میں بجلی چوروں کی بہتات ہے۔ لیکن اگر واقعی یہ معاملہ سلجھ جائے تو عوام کا بھلا ہوجائے۔ ہمارے ملک میں کرپشن کی ایک بری لعنت میں گیس اور بجلی جیسے ضروری استعمال کی چوری بھی شامل ہے جو ایک بہت بڑے جن کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس برائی کو سرے سے ختم کرنے کے لیے ایک وقت درکار ہے لیکن فی الوقت اس کی روک تھام بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔

ملک کے بڑے صوبوں میں بلوں کی ادائیگی کا نظام تو پھر بھی کسی نہ کسی طرح جاری ہے لیکن بہت سے گائوں اور دیہاتوں میں بجلی تو ہے لیکن بل دینے کا رواج نہیں ہے۔ اس بات کا علم ہمیں ہرگز نہ تھا لیکن کسی جاننے والے نے جو رہنے والے تو سندھ کے کسی گائوں کے ہیں لیکن نوکری کے سلسلے میں کراچی میں قیام پذیر ہیں، ان کے مطابق یہاں کراچی میں بجلی کا بل بہت آتا ہے جب کہ ان کا استعمال اتنا تو نہیں ہوتا، یہ الگ بات ہے کہ ان کے استعمال میں جو بجلی کے آلات شامل تھے وہ عام گھروں میں نہیں ہوتے، بھلا جھٹ پٹ میں بجلی خرچ ہوتی ہے، جب کہ ان کے گائوں میں کتنی بھی بجلی خرچ کرلو بل کا مسئلہ ہی نہیں۔ سب جلائو اور ادائیگی کہاں کی۔ یہاں تک کہ بھائی لوگ ٹیوب ویلز میں بھی کنڈے کام میں لے آتے ہیں، شاید اسی لیے شہر کی بہت سی آبادیاں روشن تو رہتی ہیں لیکن یہ روشنیاں کہاں سے آتی ہیں، کون جانے۔

نہ میٹر کا جھنجھٹ نہ بل کی ادائیگی کے لیے قطاروں میں لگنا، جو جی چاہے کھل کے خرچ کرو، بس کہیں پانچ سو تو کہیں ہزار ادا کرو ماہانہ... یہ وہ بلز ہیں جو سرکاری اداروں کی نظروں اور حساب کتاب سے اوجھل رہتے ہیں، البتہ ادارے کے انتہائی متحرک اور تیر کی نگاہ رکھنے والے حضرات کرپشن کے تیر سے ادارے کو چیرتے رہتے ہیں۔ نیوز چینلز پر بجلی اور گیس چوری کرنے والوں کی خبریں تو چلتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی کچھ اثر نہیں ہوتا اور چوری کرنے والے مستعدی سے لگے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے علاقوں میں جہاں میٹر نصب ہیں بجلی گھنٹوں غائب رہتی ہیں لیکن ادارے کی مہربانی جو خفیہ دریچوں سے حاضر رہتی ہیں ان گھروں پر عنایت ہوتی ہے جہاں میٹر ہی نہیں ہوتے اور چھپ چھپاکر کام چلایا جارہا ہے، اب چاہے وہ گلستان جوہر ہو یا لانڈھی، نارتھ کراچی ہو یا گلشن اقبال سب ایسے ترتیب سے ہیں کہ نہ پوچھیے، اس کی فراہمی میں تعطل نہیں آتا جب کہ قانونی طور پر کنکشن حاصل کرنے والے ہاتھوں کے پنکھے ہی جھلتے رہتے ہیں۔

حال ہی میں گلشن اقبال کراچی کے ایک رہائشی منصوبے میں ایک کروڑ سے زائد کی ماہانہ بجلی کی چوری پکڑی گئی ہے اور یہ اب تک کی پکڑی جانے والی چوری کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔ تین سو اسی فلیٹس پر مشتمل اس بجلی چوری کا ذمے دار کون ہے، یہ چور دروازہ سب سے پہلے کس نے کھولا؟ دراصل ہم نے اپنی ضروریات سے زیادہ پیر پھیلانے شروع کردیے ہیں اور کچھ بجلی کے ادارے نے بلوں میں ظالمانہ اضافے بھی زیادہ شروع کردیے، مکین جو گھر چھوڑ کر جا چکے ہیں ان کا بھی اوسط دو یا تین ہزار روپے کا ماہانہ بل جاری کیا جاتا ہے۔ہر پانچ چھ مہینے یا نئے بجٹ کے ساتھ بجلی کے نئے بڑھے ہوئے نرخ سامنے آجاتے ہیں جس سے سب سے زیادہ صارف متاثر ہوتے ہیں جو ہر مہینے باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں اور چوبیس گھنٹوں میں سے دس بارہ گھنٹے بجلی کی سہولت سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ رمضان المبارک کے دنوں میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے اوقات میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اب سردی اور گرمی کے بلوں میں بھی زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ اس مستقل مزاجی کے بیچ کون کون سے عناصر ہیں، کیا باقاعدگی سے ماہانہ بل ادا کرنے والے صارفین کے ساتھ ان لوگوں کے بلز بھی زبردستی وصول کیے جاتے ہیں جو ادارے کے اپنے چند کرپٹ افسران کی سرپرستی میں باقاعدگی سے بغیر بلوں کے وصول تو کیے جاتے ہیں لیکن ان کی ادائیگی ادارے کے کھاتوں میں کہیں اندراج نہیں ہوتی۔ اس بلیک منی کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے اور نقصان کس کو بھگتنا پڑ رہا ہے؟ اگر بغیر میٹر، بنا بلز کے ہی اس ملک میں قانون رائج ہوچکے ہیں تو پھر آبادی کا ایک بڑا حصہ اس سے مستفید کیوں نہ ہو۔


علاقے کے کسی ایک ٹرانسفارمر سے کتنے گھر مستفید ہوسکتے ہیں، اس بات کا اندازہ یوں لگایئے کہ کراچی کے ایک علاقے کے ٹرانسفارمر سے تین سو میٹر یعنی تین سو گھر بجلی حاصل کرتے ہیں لیکن اس تین سو میٹر والے ٹرانسفارمر سے چھ سو کنڈے آکاس بیل کی طرح ایسے چمٹے ہیں کہ تین سو گھر بجلی کی آنکھ مچولی کے علاوہ بلوں کی مد میں بھی خوب ادائیگی کرتے ہیں جب کہ چھ سو گھر بغیر میٹر کے چند سو روپے کی ادائیگی سے اپنے گھر چکا چوند کرتے ہیں۔ اس بے انصافی کا ذمے دار کون ہے؟

دنیا بھر میں توانائی کی بچت کے حوالے سے شعور اجاگر ہوچکا ہے لیکن ہمارے ملک میں ابھی تک یہ شعور صرف بلوں کے گھٹنے اور بڑھنے کی حد تک محدود ہے، اگر بل بہت زیادہ آگیا تو زیادہ پیسے خرچ ہونے کا خیال پریشان کرتا ہے لیکن توانائی کے ضیاع کا ذرا ہوش نہیں رہتا کہ فالتو اخراجات کس طرح ملک کو توانائی کے بحران میں مبتلا کر رہا ہے۔ اب بھی شہر کے متوسط سے لے کر پوش علاقوں تک کے بجلی کے میٹرز میں وہ شیطانی آلات چھپے ہیں جو بجلی کے زیادہ خرچے کو کم ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ کام ادارے کے ملازمین چند سو سے لے کر چند ہزار تک میں باآسانی انجام دے دیتے ہیں اور یوں میٹر کی دوڑتی رفتار کو سست کردیا جاتا ہے۔

کچھ برسوں پہلے کی بات ہے جب بجلی کے برسوں پرانے میٹر ہی نصب تھے تو اتنی ہی ریڈنگ ظاہر کرتے تھے کہ جتنی خرچ ہوتی تھی کہ اچانک سننے کو ملا کہ اب ملک بھر میں بجلی کے پرانے میٹرز کی جگہ نئے میٹرز نصب ہوں گے جن کی رفتار ایسی ہے کہ وہ گھوڑا میٹر کہلاتے ہیں، یعنی وہ تیز رفتاری سے ریڈنگ بناتا ہے۔ ملک کے بہت سے شہروں میں ان گھوڑا میٹرز پر اعتراض اٹھا، بہت سے مقامات سے یہ پلٹ کر آگئے لیکن عروس البلاد کراچی پر یہ عذاب بن کر ایسے نازل ہوئے کہ خالی گھروں کے بل بھی ہزاروں میں بنتے ہیں۔ یوں حکومت کے گھوڑے میٹرز کی رفتار کی سواریاں سن سن کر لوگوں کے دل ہول گئے اور پھر کرپشن کا ایک نیا باب اور کھل گیا، یہ بھی صارفین سے کھلادھوکہ ہے۔ جگا ٹیکس کے مترادف ہے۔ یعنی ایک جانب سے زیادہ بجلی کے بلوں کی مد میں جو رقم حکومت وصول کرنا چاہتی تھی اس سے کہیں زیادہ کرپشن شروع ہوگئی اور آج ہم سب بجلی اور گیس چوری کرنے والوں کے خلاف پڑھتے اور دیکھتے رہتے ہیں لیکن یہ مقدمات اگر پوری سچائی اور جانفشانی سے کیے جائیں تو ہر گلی، ہر محلے سے نجانے کتنے توانائی کے چور ابھریںگے۔ چور چوری بھی کرے اور پھر آنکھیں بھی دکھائے، ابھی کچھ عرصہ قبل ایک گائوں کے چوہدری صاحب کی بجلی چوری پکڑنے والے لائن مین کی چوہدری صاحب کے حواریوں نے ایسی درگت بنائی کہ بے چارے کو اسپتال لے جانا پڑا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکا اور اپنی ڈیوٹی کو ذمے داری سے نبھانے کے جرم میں اپنے گھر والوں کو روتا چھوڑگیا۔ پنجاب کے گائوں کا یہ واقعہ انسانی ذہنوں کو جھنجھوڑتا ہے۔ چوری کرنا اگر جرم ہے تو پھر اس کی سزا کس نے بھگتی؟

ہمارا قومی وطیرہ بن چکا ہے کہ کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہل پستی سے کرتے ہیں اگر شروعات اوپر کے لیول سے کی جائے تو عوام بھی سبق حاصل کرے کہ اب ایسی گرفت ہے جو کیا بڑا اور کیا چھوٹا کسی کو نہیں چھوڑتی لیکن سرکاری شکنجہ بڑی مچھلی کی گردن میں آکر پھسل جاتا ہے اور جو آتا ہے اپنی ذمے داری نبھانے تو اس غریب لائن مین کی طرح جان سے جاتاہے... ذرا بچ کے کہ یہ جھٹکا ہے بجلی کا...!
Load Next Story