عالم اسلام میں مسلکی تناظر
تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت اور آزادی کے نام پر جب بھی کسی تحریک کا ڈول ڈالا گیا، وہ انسانی لہو سے لبریز ہوگیا۔
''لڑائو اور حکومت کرو '' کی پالیسی نئی نہیں۔ سامراج کا یہ پرانا ہتھکنڈہ ہے۔ آج یہ حربہ عالمِ اسلام خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں آزمایا جا رہا ہے۔ ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کا اتحاد پارہ پارہ کر دیا جائے۔ شام کا حال سب سے برا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وہاںایک لاکھ کے قریب افراد فرقہ وارانہ فسادات کا نشانہ بن چکے ہیں۔ 8 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ شام کے افراد سے جمہوریت اور آزادی کے نام پر جس جدوجہد کا آغاز کروایا گیا تھا وہ خانہ جنگی میں تبدیل ہوچکی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت اور آزادی کے نام پر جب بھی کسی تحریک کا ڈول ڈالا گیا، وہ انسانی لہو سے لبریز ہوگیا۔ اس نام کے تحت جتنے افراد قتل ہوئے ہیں کسی اور نام کے تحت نہیں ہوئے۔ برطانوی نژاد سماجیات کے پروفیسر مائیکل مین نے اپنی کتاب ''دی ڈارک سائیڈ آف ڈیموکریسی: ایکسپلیننگ ایتھنک کلینزنگ'' میں اس بارے میں اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ شام، عراق اور دیگر مملک میں نئے قسم کے فسادات کا آغاز ہوا ہے اور انھیں فرقہ ورانہ لڑائی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قدیم روم سے لے کر آج کے ''نیٹو'' تک حکمرانوں کا یہ پسندیدہ حربہ ہے۔ یوگو سلاویہ کی مثال سامنے کی ہے، جہاں بالکنز کو مطیع رکھنے کے لیے اس پر عمل درآمد کیا گیا۔ یاد کیجیے ایران عراق جنگ کے دوران ہنری کیسنجر نے کہا تھا کہ ''ہماری پالیسی ہے کہ یہ ایک دوسرے کو قتل کریں''۔
ابھی کچھ ہی دن قبل کی بات ہے، جب وائٹ ہائوس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما نے بتایا تھا کہ انھوں نے شام کی حزب اختلاف کو ہلکے اسلحے سے لیس کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ اوباما تو بیان دے کر مصروف ہو گئے، شام کے بے قصور عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔ بشارالاسد کے حکم پر ہزاروںافراد قتل کر دیے گئے۔ ہمس کے عام گلی محلوں پر توپ خانے سے چڑھائی کر دی گئی، اتنا خون بہایا گیا کہ گلیاں رنگین ہوگئیں۔ شام کی فوج نے اپنے ہی ملک کے شہریوں کو تہہ تیغ کر ڈالا۔ حکمران اندرون و بیرون ملک طاقت کے مظاہرے کے لیے بے دریغ معصوم شہریوں کو قتل کیے چلے جا رہے ہیں۔ ادھر واشنگٹن پوسٹ کے ڈیوڈ ایگنٹیس کا ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ امریکا نے باغیوں کو ایک گولی بھی فراہم نہیں کی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے ہزاروں افراد کو محض ایک بیان سے بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔ اور بیان دینا تو گولف کھیلنے جتنا آسان ہے۔عراق میں افراد کوکرد، سنی اور شیعہ میں تقسیم کردیا گیا، نتیجے میں اب تک وہاں ہلاک ہونے والے صرف شہریوں کی تعداد سوا لاکھ کے قریب ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں بھی ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ پیہم ایسی خبریں دے رہے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم اسلام میں فرقہ ورانہ مخالفت، منافرت میں بدل چکی ہے۔ نیز اب اس منافرت کے بطن سے تشدد اور نسل کشی پھوٹ پڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 14 سو برس سے باہم شیر و شکر رہنے والے آخر اب یک بہ یک تشدد پر آمادہ کیوں ہوجائیں گے؟ یہ صدیوں سے ملی جلی آبادیوں میں رہ رہے ہیں۔ ان کی آپس میں رشتے داریاں ہیں، پھر یہ کیوں لڑیں گے؟ رہی بات اختلافات کی تو اختلافات آج کے تو نہیں ہیں۔ نیز یہ کہ اختلافات کہاں نہیں ہوتے؟ حیاتیات کے اور جینیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انواع کے درمیان اتنا جینیاتی اختلاف نہیں پایا جاتا جتنا ایک ہی نوع میں نظر آتا ہے۔ کائنات کا حسن اختلاف سے ہے یا یکسانیت سے؟
تفتیش کے دوران سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ فائدہ کسے ہو رہا ہے؟ یہاں بھی دیکھنا یہ چاہیے کہ اس انتشار اور تشدد کا فائدہ کس کو ہوگا؟ مشرق وسطیٰ میں جو اسلحہ اب تک استعمال ہوا اور جو ہونے جا رہا ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں تیار نہیں ہوتا، باہر سے آتا ہے اور اسلحے کی تیاری اور فروخت آج بہت بڑا کاروبار ہے۔ کوئی بھی کسی کو اﷲ واسطے اسلحہ نہیں دیتا۔ نیز عالمِ اسلام میں مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کا فائدہ کسے ہو گا؟ ''سائیس۔ پکوٹ ایگریمنٹ'' کرنے والوں کو یا مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو؟ اس معاہدے کے تحت مشرقِ وسطیٰ کی تقسیم کون کر رہا تھا؟ قریباً سو برس پرانا یہ خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ آج کے سامراج کو سرمائے کی بڑھوتری اور اسرائیلی مفادات کے تحفظ و فروغ کے لیے کم زور اور منقسم عالم اسلام کی ضرورت ہے۔ آیت اﷲ خامنہ ای نے عیدالفطر کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے اسی بات پر زور دیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ بیرونی قوتیں مسلمانوں میں خانہ جنگی چاہتی ہیں، ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان بطور مجموعی امن پسند اور صلح جو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان کئی معرکۃ الآرا قسم کے اختلافات رہے ہیں۔ لیکن جان لیجیے کہ منافرت نہیں رہی۔ ان اختلافات کی نوعیت زیادہ تر فقہی ہوا کرتی ہے۔ یہ اختلافات اعلیٰ علمی سطح پر کیے جاتے ہیں نہ کہ عوامی سطح پر۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو بے شمار ایسی شخصیات نظر آئیں گی جنھیں ہر ہر طبقہ فکر میں یکساں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ائمہ، علماء اور صوفیا کی تو بات جانے ہی دیں، ابن سینا، جابر بن حیان، ابن الہیثم، الفارابی، فردوسی، نصیرالدین طوسی اور معروف شاعر حافظ شیرازی سب کی کبھی مسلمانوں کے دوسرے فرقوں نے قدر افزائی میں کوئی کمی نہیں کی؟ بعینہ امام الغزالی، الفارابی اور سعدی شیرازی بھی مسلمانوں کے تمام فرقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں؟ اس کے علی الرغم یورپ کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تو یورپی تاریخ کی سب سے طویل اور بدترین جنگ دو عیسائی فرقوں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹس کے درمیان لڑی گئی۔ یہ جنگ 30 برس طویل تھی۔ (1618-1648)۔ 'نارمن ڈیویز' کے مطابق اس 30 سالہ جنگ میں قریباً 80 لاکھ شہری ہلاک ہوئے، کئی ممالک کھنڈر بن گئے، امراض پھوٹ پڑے اور قحط پھیل گیا۔ جرمنی کی 25 سے 40 فیصد تک آبادی ختم ہوگئی۔ بوہیمیا، بیلجیئم، نیدر لینڈ اور اٹلی وغیرہ دیوالیہ ہوگئے۔ لڑنے والے فوجی اگرچہ دونوں جانب سے یسوع مسیح کے نام لیوا تھے لیکن وہ لوٹ مار کو اپنے لیے جائز سمجھتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے اس بات کا عملی ثبوت بہم پہنچایا کہ 'جنگ کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی'۔
مسلمانوں کے مختلف فرقے گزشتہ کئی صدیوں سے منافرت اور تشدد کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ موجودہ شورش مغربی اور اسرائیلی مفادات کے شاخسانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت اور آزادی کے نام پر جب بھی کسی تحریک کا ڈول ڈالا گیا، وہ انسانی لہو سے لبریز ہوگیا۔ اس نام کے تحت جتنے افراد قتل ہوئے ہیں کسی اور نام کے تحت نہیں ہوئے۔ برطانوی نژاد سماجیات کے پروفیسر مائیکل مین نے اپنی کتاب ''دی ڈارک سائیڈ آف ڈیموکریسی: ایکسپلیننگ ایتھنک کلینزنگ'' میں اس بارے میں اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ شام، عراق اور دیگر مملک میں نئے قسم کے فسادات کا آغاز ہوا ہے اور انھیں فرقہ ورانہ لڑائی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قدیم روم سے لے کر آج کے ''نیٹو'' تک حکمرانوں کا یہ پسندیدہ حربہ ہے۔ یوگو سلاویہ کی مثال سامنے کی ہے، جہاں بالکنز کو مطیع رکھنے کے لیے اس پر عمل درآمد کیا گیا۔ یاد کیجیے ایران عراق جنگ کے دوران ہنری کیسنجر نے کہا تھا کہ ''ہماری پالیسی ہے کہ یہ ایک دوسرے کو قتل کریں''۔
ابھی کچھ ہی دن قبل کی بات ہے، جب وائٹ ہائوس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما نے بتایا تھا کہ انھوں نے شام کی حزب اختلاف کو ہلکے اسلحے سے لیس کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ اوباما تو بیان دے کر مصروف ہو گئے، شام کے بے قصور عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔ بشارالاسد کے حکم پر ہزاروںافراد قتل کر دیے گئے۔ ہمس کے عام گلی محلوں پر توپ خانے سے چڑھائی کر دی گئی، اتنا خون بہایا گیا کہ گلیاں رنگین ہوگئیں۔ شام کی فوج نے اپنے ہی ملک کے شہریوں کو تہہ تیغ کر ڈالا۔ حکمران اندرون و بیرون ملک طاقت کے مظاہرے کے لیے بے دریغ معصوم شہریوں کو قتل کیے چلے جا رہے ہیں۔ ادھر واشنگٹن پوسٹ کے ڈیوڈ ایگنٹیس کا ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ امریکا نے باغیوں کو ایک گولی بھی فراہم نہیں کی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے ہزاروں افراد کو محض ایک بیان سے بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔ اور بیان دینا تو گولف کھیلنے جتنا آسان ہے۔عراق میں افراد کوکرد، سنی اور شیعہ میں تقسیم کردیا گیا، نتیجے میں اب تک وہاں ہلاک ہونے والے صرف شہریوں کی تعداد سوا لاکھ کے قریب ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں بھی ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ پیہم ایسی خبریں دے رہے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم اسلام میں فرقہ ورانہ مخالفت، منافرت میں بدل چکی ہے۔ نیز اب اس منافرت کے بطن سے تشدد اور نسل کشی پھوٹ پڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 14 سو برس سے باہم شیر و شکر رہنے والے آخر اب یک بہ یک تشدد پر آمادہ کیوں ہوجائیں گے؟ یہ صدیوں سے ملی جلی آبادیوں میں رہ رہے ہیں۔ ان کی آپس میں رشتے داریاں ہیں، پھر یہ کیوں لڑیں گے؟ رہی بات اختلافات کی تو اختلافات آج کے تو نہیں ہیں۔ نیز یہ کہ اختلافات کہاں نہیں ہوتے؟ حیاتیات کے اور جینیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انواع کے درمیان اتنا جینیاتی اختلاف نہیں پایا جاتا جتنا ایک ہی نوع میں نظر آتا ہے۔ کائنات کا حسن اختلاف سے ہے یا یکسانیت سے؟
تفتیش کے دوران سب سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ فائدہ کسے ہو رہا ہے؟ یہاں بھی دیکھنا یہ چاہیے کہ اس انتشار اور تشدد کا فائدہ کس کو ہوگا؟ مشرق وسطیٰ میں جو اسلحہ اب تک استعمال ہوا اور جو ہونے جا رہا ہے، وہ مشرق وسطیٰ میں تیار نہیں ہوتا، باہر سے آتا ہے اور اسلحے کی تیاری اور فروخت آج بہت بڑا کاروبار ہے۔ کوئی بھی کسی کو اﷲ واسطے اسلحہ نہیں دیتا۔ نیز عالمِ اسلام میں مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کا فائدہ کسے ہو گا؟ ''سائیس۔ پکوٹ ایگریمنٹ'' کرنے والوں کو یا مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو؟ اس معاہدے کے تحت مشرقِ وسطیٰ کی تقسیم کون کر رہا تھا؟ قریباً سو برس پرانا یہ خواب تاحال شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ آج کے سامراج کو سرمائے کی بڑھوتری اور اسرائیلی مفادات کے تحفظ و فروغ کے لیے کم زور اور منقسم عالم اسلام کی ضرورت ہے۔ آیت اﷲ خامنہ ای نے عیدالفطر کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے اسی بات پر زور دیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ بیرونی قوتیں مسلمانوں میں خانہ جنگی چاہتی ہیں، ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان بطور مجموعی امن پسند اور صلح جو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان کئی معرکۃ الآرا قسم کے اختلافات رہے ہیں۔ لیکن جان لیجیے کہ منافرت نہیں رہی۔ ان اختلافات کی نوعیت زیادہ تر فقہی ہوا کرتی ہے۔ یہ اختلافات اعلیٰ علمی سطح پر کیے جاتے ہیں نہ کہ عوامی سطح پر۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو بے شمار ایسی شخصیات نظر آئیں گی جنھیں ہر ہر طبقہ فکر میں یکساں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ائمہ، علماء اور صوفیا کی تو بات جانے ہی دیں، ابن سینا، جابر بن حیان، ابن الہیثم، الفارابی، فردوسی، نصیرالدین طوسی اور معروف شاعر حافظ شیرازی سب کی کبھی مسلمانوں کے دوسرے فرقوں نے قدر افزائی میں کوئی کمی نہیں کی؟ بعینہ امام الغزالی، الفارابی اور سعدی شیرازی بھی مسلمانوں کے تمام فرقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں؟ اس کے علی الرغم یورپ کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تو یورپی تاریخ کی سب سے طویل اور بدترین جنگ دو عیسائی فرقوں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹس کے درمیان لڑی گئی۔ یہ جنگ 30 برس طویل تھی۔ (1618-1648)۔ 'نارمن ڈیویز' کے مطابق اس 30 سالہ جنگ میں قریباً 80 لاکھ شہری ہلاک ہوئے، کئی ممالک کھنڈر بن گئے، امراض پھوٹ پڑے اور قحط پھیل گیا۔ جرمنی کی 25 سے 40 فیصد تک آبادی ختم ہوگئی۔ بوہیمیا، بیلجیئم، نیدر لینڈ اور اٹلی وغیرہ دیوالیہ ہوگئے۔ لڑنے والے فوجی اگرچہ دونوں جانب سے یسوع مسیح کے نام لیوا تھے لیکن وہ لوٹ مار کو اپنے لیے جائز سمجھتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے اس بات کا عملی ثبوت بہم پہنچایا کہ 'جنگ کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی'۔
مسلمانوں کے مختلف فرقے گزشتہ کئی صدیوں سے منافرت اور تشدد کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ موجودہ شورش مغربی اور اسرائیلی مفادات کے شاخسانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔