معاشی استحکام کیلئے لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرنا ہوگی

ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہار خیال

فوٹو : ظفر اسلم راجہ

''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ''ملک کو درپیش معاشی چیلنجز اور ان کا حل''کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں معاشی ماہرین اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

احمد حسن مغل
(صدراسلام آبادچیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز )

فارن ایکسچینج ریزرو میں کمی کے باعث ملک کی معاشی صورتحال خراب ہے جبکہ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگیاں بھی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہیں۔ معاشی صورتحال سے خائف لوگوں نے ڈالر کے بعد اب سونے کی خریداری بھی شروع کر دی ہے جس سے مارکیٹ میں ڈالر اور سونے کی قیمت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔حکومت برآمدات ختم کر کے فارن ایکسچینج کو بڑھانا چاہتی ہے ایسے میں حکومت کو اپنے اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

ملک پر قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے۔ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہیں جاتا تو ملکی معیشت کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے جس کا اظہار وزیر خزانہ اسد عمر بھی کرچکے ہیں۔ قرضوں ، غربت ودیگر مسائل سے مستقل چھٹکارا پانے کیلئے ضروری ہے کہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے اورخودانحصاری کی جانب سفر شروع کیا جائے جس کیلئے ترسیلات زر ،ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری، برآمدات کو بڑھانا ہوگا اور درآمدات کو کم کرنا ہوگا۔ درآمدی اشیاء کے بجائے ملکی تیار کردہ اشیاء کو فروغ دینا ہوگا۔ ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔

جس کیلئے ضروری ہے کہ تعلیمی نصاب کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ملکی معیشت و ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کیلئے تعلیمی نصاب میں خصوصی مضامین شامل کئے جائیں۔ وفاقی حکومت کو آئندہ بجٹ کے حوالے سے اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے اپنی تجاویز دے دی ہیں جس میں کاروبار میں آسانی اور کاروباری لاگت سمیت بجلی وگیس کی قیمتوں ، بزنس فنانسنگ اور انٹرسٹ ریٹ سے متعلق تجاویز رکھی گئی ہیں۔

جس سے صنعتی شعبہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔حکومت آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے تو اس سے معیشت سست روی کا شکار ہو گی کیونکہ ہمیں تو پہلے ہی قرض کی ادائیگیوں کے مزید قرض لینا پڑ رہا ہے۔ افسوس ہے کہ بیرون ملک میں تعینات کمرشل کونسلر زکی کارگردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ حکومت چیمبر آف کامرس کے سابق عہدیداروں کو کمرشل کونسلرز کے عہدوں پر تعینات کرے تاکہ پاکستانی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔ وفاقی حکومت پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے سنجیدہ اقدمات کر رہی ہے اور امید ہے پاکستان بلیک لسٹ میں نہیں جائے گا اور سخت شرائط کے باوجود ہم کلیئر ہو جائیںگے۔

اجمل بلوچ
(صدر مرکزی انجمن تاجران پاکستان و سینئررہنما پی ٹی آئی)

ماضی کی حکومتیں ڈنگ ٹپاؤ کام کرتی رہی ہیںاور کسی نے بھی ٹیکس پالیسی دینے کا نہیں سوچا۔ ملکی مسائل کے پیش نظر ملک میں مستقل و پائیدار پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے حکومت و اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو قومی معاشی پالیسی تشکیل دینا ہوگی جسے قانونی تحفظ حاصل ہو اور کوئی بھی حکومت اس میں ترمیم نہ کرسکے۔ میرے نزدیک معیشت کو سیاست سے پاک رکھا جائے۔ ایف بی آرٹیکس نیٹ بڑھانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے، اس ادارے میں بھی بے شمار مسائل ہیں۔

جنہیں حل کرنے سے ریونیو کا مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ ہم ماضی کی حکومتوں کو یہ تجویز دیتے رہے ہیں کہ یوٹیلٹی بلوں کی بنیاد پر ریٹرن فائلنگ کی جائے اور ان بلوں کو ہی ٹیکس ریٹرن قرار دے دیا جائے ، ایسا کرنے سے ٹیکس نیٹ میں بڑے پیمانے پر توسیع ہوگی کیونکہ بجلی کے بلوں پر کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبر اور ٹیکس کٹوتی کی رقوم شامل ہوتی ہیں۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں نے ملکی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ موجودہ حکومت بھی انہیں پالیسیوں پر گامزن ہے لہٰذا جب تک ڈار پالیسیاں ختم نہیں کی جائیں گی اس وقت تک معیشت کا قبلہ درست کرنا ممکن نہیں ہے۔

وزارت خارجہ اچھا کام کر رہی ہے۔ غیر ملکی سربراہان مملکت کی پاکستان آمد سے ہمارے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کو ہماری یہ تجویز ہے کہ 20اور 50ہزار روپے ٹیکس دینے والوں کے آڈٹ کی بجائے ان سے 20ہزار اضافی ٹیکس لے لیں، وہ دینے کو تیار ہیں۔ ایف بی آر کی تلوار لوگوں پر لٹک رہی ہے۔ ہمیں ایسا کمپیوٹر ائزڈ کیس کاونٹر سسٹم نہیں چاہیے جس سے فائلر ز پر سختی کی جائے جبکہ نافائلرز موج کریں۔ ملک میں کرپش کی سزا موت ہونی چاہیے کیونکہ نظا م کو ٹھیک کیے بغیر نیا پاکستان کیسے بنے گا۔میری تجویز ہے کہ حکومت فکس ٹیکس کی بجائے ٹرن آؤٹ ٹیکس لے آئے۔ بجلی کے 15لاکھ کمرشل صارفین ہیں، ان کے بجلی کے بلز کو ریٹرن بنا لیا جائے۔

افتخار انوار سیٹھی
( ماہر اقتصادیات و نائب صدر اسلام آبادچیمبر آف کامرس انڈسٹری )


وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم معاشی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تندہی سے کام کر رہی ہے لیکن اتنے بڑے گھڑوں کو بھرنے کیلئے مزید محنت درکار ہے۔ نئی صنعتوں کو مشینری کی درآمد کے ساتھ ساتھ قرض پر سود کی شرح میں کمی لائی جائے۔ قرض پر موجودہ شرح سود نئی صنعتوں کو سپورٹ نہیں کرتی، حکومت کو آٹومیشن کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ملکی صنعت کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔ اب کمپیوٹر کا دور ہے اور ای کامرس دنیا بھر میں بہت ایڈوانس اسٹیج پر ہے مگر ہمارے ہاں ابھی ای کامرس اس طرح سے نہیں ہے البتہ چند روز قبل ڈیجیٹل انسٹی ٹیوشن ریگولیشن متعارف کروائے گئے ہیں جو یقینی طور پر ایک بڑا اقدام ثابت ہونگے اور معاشی انقلاب برپا کرسکتے ہیں۔

اس سے ڈیجیٹل اکانومی کا سائز بڑھے گا اور بینکنگ کی سہولیات سے محروم لاکھوں افراد کو بینکنگ اور فنانسنگ کی سہولیات میسر آئیں گی جس سے ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں بھی مدد ملے گی۔جہاں تک اقتصادی ترقی کا تعلق ہے تو ملک میں ریونیو اور اخراجات میں فرق بہت زیادہ ہے۔

اگرچہ حکومت اس فرق کو کم کرنے میں بھرپور کوششیںجاری رکھے ہوئے ہے اور کفایت شعاری مہم کے تحت وزیراعظم نے خود سے اس کا آغاز کیا ہے اور 30 فیصد اخراجات میں کمی کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ترقیاتی اخراجات میں کٹ لگا کر ایک بڑی غلطی بھی کی گئی ہے۔ایسا کرنے سے ریونیو شارٹ فال ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم ہوا ہے اور درآمدات میں کمی ہوئی ہے مگر دوسری جانب نہ تو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری توقع کے مطابق بڑھ سکی اور نہ ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافہ ہو۔ اس کے باعث ہماری بیرونی ادائیگیوں پر دباؤ ہے۔ سعودی عرب،یو اے ای و چین سمیت دیگر دوست ممالک سے چھ ارب ڈالر ملنے کے باوجود ہمارے ذرمبادلہ کے ذخائر تسلی بخش نہیں ہیں کیونکہ متبادل نظام نہ ہونے کی وجہ سے دوست ممالک سے ملنے والی امداد بھی ان ادائیگیوں کے عدم توازن کے بلیک ہول کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی برآمدات بڑھائیں اور ملک میں صنعتکاری کو فروغ دیا جائے۔ اس کیلئے حکومت کو بجٹ میں انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔ مشینری کی درآمد کو ڈیوٹی و ٹیکسوں سے چھوٹ دی جائے اورنئی انڈسٹری لگانے کیلئے مراعات دی جائیں۔

فراز فضل
(سینئر نائب صدر ٹیکس بار ایسوسی ایشن )

ایف بی آر کی آڈٹ سلیکشن.3 2فیصد ہے۔ آڈٹ سلیکشن میں کمی کہ وجہ سے افرادی قوت میں کمی ہے۔ ایف بی آر کے چھاپے مسئلے کا حل نہیں، ہمیں لانگ ٹرم پالیسی کے طرف جانا چاہیے۔ ٹیکس اکھٹا کرنا حکومت کا کام ہے نہ کہ عوام کا، اب ہر آدمی ود ہولڈنگ ٹیکس دے رہا ہے، حکومت عوام کی بجائے ٹیکس دہندگان کو دیکھے۔ فائلرز اور نان فائلرز کے فرق میں کمی کے بجائے اسے مزید بڑھایا جائے۔ ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کے ماڈل کو پاکستان میں لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر میں کرپشن کو ختم کرنے کیلئے صوابدیدی اختیارات کو ختم کیا جائے۔ ایف بی آر افسران اور ٹیکس دہندگان کے تعلق کو کم کر کے جدید کمپیوٹر ائزڈ نظام متعارف کروایا جائے۔ حکومت کو ''ہر ٹیکس پیئر چور ہے'' کامائنڈ سیٹ ختم کرنا پڑے گا۔

ملک میں حقیقی ٹیکس دہندگان کی تعداد کو بڑھانا ہوگا ۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد 18 لاکھ ہے۔ اٹھارہ لاکھ ریٹرن فائلرز ہیں جن میں اگر تنخواہ دار ریٹرن فائلرز، صفر ٹیکس کے ساتھ ریٹرن فائل کرنے والے نکال دیئے جائیں تو باقی بچنے والے ٹیکس دہندگان 0.3 سے 0.5 فیصد ہیں۔ 22 کروڑ آبادی کے ملک میں سے صرف یہ لوگ ہیں جن کے ٹیکس پر پورا ملک چل رہا ہے۔ ملک کو خودانحصار بنانے کیلئے ٹیکس دہندگان و ریٹرن فائلرز کی تعداد پچاس لاکھ تک بڑھانا ہوگی۔ وزیر خزانہ کی جانب سے ایمنسٹی سکیم کے اعلان کی ٹائمنگ بہت غلط ہے۔اس سے ایف بی آر کا ریونیو متاثر ہوگا۔

خالد محمود چوہدری
(سیکرٹری ٹریڈرز ایکشن کمیٹی اسلام آباد )

منی بجٹ کے پائلٹ پراجیکٹ کے تحت فکس انکم ٹیکس کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں رکاوٹ آرہی ہے۔ اسلام آباد میں4ہز ار سے زائد ٹیکس فائلرز ہیں۔ ایف بی آر نے کمپیوٹر کے ذریعے آڈٹ کے لئے ہزاروں کیسز کا انتخاب کیا ہے لیکن ایف بی آر میں آڈٹ کرنے کی استطاعت ہی نہیں ہے۔ حکومت پہلے سے موجود ٹیکس گزاروں کو نچوڑنے کے بجائے انہیں ریلیف دے ا ور نان فائلر کو فائلر بنانے پر توجہ دی جائے۔ اسلام آبادمیں اس وقت پچاس ہزار سے زائد بجلی کے کمرشل کنکشن ہیں جو بل پر 10فیصد ایڈوانس ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اگر ایف بی آر ٹیکس لینا چاہتا ہے تو بجلی کے کنکشن والوں کو نوٹس دے اور ا ن کا آڈٹ کرے، اس طرح چار ہزار فائلرز کی تعداد 75 ہز ار تک پہنچ جائے گی۔

مہنگائی دس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت کو رمضان المبارک میں مہنگائی کے طوفان سے نمٹنے کیلئے پیشگی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ منڈیوں میں اجناس کی کمی سے مہنگائی میں مزید اضافہ نہ ہو سکے۔ اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری میں سروسز پر جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ بھی منصفانہ بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلام آباد میں سروسز پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کیلئے کوئی تھریش ہولڈ مقرر نہیں ہے۔ خواہ کوئی دو ہزار کما رہا ہے یادو لاکھ، سب کو سروسز پر جی ایس ٹی دینا پڑتا ہے۔ حکومت آئی سی ٹی میں سروسز پر جی ایس کے نفاذ کیلئے دس لاکھ روپے آمدنی کا تھریش ہولڈ مقرر کرے۔

نینہ ناصرہ علی
(نائب صدر ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز )

حکومت کو خواتین کو آگے لانے کیلئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہیں۔ اس کے لیے خواتین کو آسان شرائط پر چھوٹے قرضے اور بجٹ میں ریلیف دیا جائے جس میں گھریلو خواتین بھی شامل ہوں جبکہ ملک میں مجموعی طور پر کاروبار کو فروغ دینے کیلئے ایز آف ڈوئنگ بزنس کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں ترکی کی طرز پر ون ونڈو آپریشن کی سہولت دینی چاہیے۔ اسی طرح فائلنگ کا سسٹم آسان کیا جائے۔ خواتین انٹرپرینیورز کی حوصلہ افزائی کیلئے بنگلہ دیش کی طرز پر چھوٹے اور آسان قرضے دیئے جائیں انہیں جدید تربیت فراہم کی جائے اور کورسز بھی کروائے جائیں۔ اسی طرح کاٹیج انڈسٹری میں بھی خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ خواتین سے زیادہ ماہراکانومسٹ کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ جس خوش اسلوبی سے خواتین گھر کے بجٹ کو مینج کرتی ہیں، وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ویلیو ایڈیشن میں بھی خواتین بھرپور کردار ادا کرتی ہیں۔
Load Next Story