سندھ میں بایو گیس پلانٹس لگانے کا منصوبہ مکمل نہ ہوسکا

حکومتی سرپرستی حاصل نہ ہونے کے باعث متبادل توانائی مہیا کرنے والی یہ ٹیکنالوجی ابھی تک عام نہیں ہوسکی

ڈبلیو ڈبلیو ایف نے بھی صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ اور سانگھڑ میں بایو گئس کے پلانٹس لگائے ہیں . فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
بایو گیس کی شکل میں موجود توانائی کا متبادل ذریعہ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باعث عام نہ ہوسکا۔

حکومت سندھ کے محکمہ توانائی نے صوبے کے ان علاقوں میں متبادل توانائی کو فروغ دینے کے لیے بایو گیس پلانٹس لگانے کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے جن علاقوں میں قدرتی گیس دستیاب نہیں ہے اور مقامی لوگ کھانا پکانے اور توانائی کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے لیے درختوں کی کٹائی کرکے لکڑی جلاتے ہیں۔

ابتدائی طور پر یہ منصوبہ صوبے کے تین اضلاع میں شروع کرنے کا پروگرام تشکیل دیا گیا ہے جن میں شکارپور، لاڑکانہ اور کراچی کے بعض گاﺅں شامل ہیں، یہ گاﺅں کراچی کے ضلع ملیر، شرقی اور غربی میں واقع ہیں۔

محکمہ توانائی کے منصوبے کے مطابق تجرباتی طور پر ان اضلاع میں150 بایو گیس پلانٹس لگائے جائیں گے جس کے بعد اس منصوبے کو صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی متعارف کیا جائے گا۔

بایو گیس پلانٹس مال مویشیوں کے گوبر کے ذریعے گیس پیدا کرتے ہیں، ویسے تو یہ ٹیکنالوجی ملک میں پہلی مرتبہ 1974 میں متعارف کرائی گئی تھی لیکن حکومتی سرپرستی حاصل نہ ہونے کے باعث یہ متبادل توانائی مہیا کرنے والی یہ ٹیکنالوجی ابھی تک عام نہیں ہوسکی ہے جس کے باعث ملک کے اکثر دیہات میں جہاں قدرتی گئس کی سہولت میسر نہیں ہے مقامی لوگ درختوں کی کٹائی کرکے کھانا پکانے اور دیگر گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے لکڑی جلاتے ہیں۔


لکڑی کے بے جا استعمال سے ایک طرف درختوں کی کٹائی میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب اس کے ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، ماحولیاتی آلودگی کے خلاف کام کرنے والی معروف تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف سمیت کئی سماجی تنظیموں نے ماحول کو بچانے کے لیے اپنے طور پر ملک میں متبادل توانائی کے منصوبوں پر کام کیا ہے لیکن ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک حکومتی سطح پر ایسے منصوبوں میں بھرپور شرکت نہیں ہوگی تب تک متبادل توانائی کے ذرائع عام نہیں ہوسکیں گے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف نے بھی صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ اور سانگھڑ میں بایو گئس کے پلانٹس لگائے ہیں، اس سلسلے میں جب ڈبلیو ڈبلیو ایف کے صوبہ سندھ میں تعینات منیجر کنزرویشن الطاف شیخ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان کے لگائے گئے بایو گئس پلانٹس کامیابی سے کام کر رہے ہیں لیکن متبادل توانائی کی اس اہم ٹیکنالاجی کو عام کرنے کے لیے حکومتی سرپرستی ضروری ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ترجمان آصف سندیلو کے مطابق اس ٹیکنالوجی کو عام کرنے کے لیے حکومت کو بایو پلانٹس لگانے پر سبسڈی دینی چاہیئے، انہوں نے کہا کہ دیہات میں لوگ اپنے گھروں یا علاقوں میں بایو گئس پلانٹس کے ذریعے متبادل توانائی حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت کے پاس پلانٹس لگانے کے لیے پیسے دستیاب نہیں ہیں۔

آصف سندیلو کا کہنا ہے کہ بایو گئس پلانٹس کے لگنے سے نہ صرف درختوں کی کٹائی میں کمی آئے گی لیکن دیہات میں لکڑی جلاکر کھانا پکانے والی عورتیں ان کی صحت پر دہویں کے باعث ہونے والے مضر اثرات سے بھی محفوظ ہوسکیں گی۔

(رپورٹ: عبدالرزاق ابڑو)
Load Next Story