یادوں کے کنول

قوم کو معلوم ہے یورپ ہو یا امریکا مسلمانوں کے خلاف تھے اور رہیں گے۔

اس قوم کی بڑی بدقسمتی ہے کہ سات دہائیوں میں بھی اپنے لیے اچھا حکمران، لیڈر پیدا نہ کرسکی، سب نے دیکھا جو آیا اس نے ملک لوٹا، قوم کا زر اپنی جیبوں میں ڈالا۔ سائیکل کا پنکچر بناتے آئے، دنیا بھر میں جائیدادیں بنائیں اور بڑے بڑے بینکوں میں زر رکھا۔ قوم ان کے جھوٹے، بلند و بانگ دعوؤں پر ہر بار بیوقوف بنتی رہی۔

ملک لٹتا رہا، معیشت بدحال ہوتی رہی، قرض پہ قرض چڑھاتے رہے لیکن اپنی دولت مال و زر کو بڑھاتے رہے۔ کہا جاتا تھا غریب کے لیے قانون اور... امرا، رؤسا، بڑے لوگوں کے لیے قانون اور ہے۔ جو لوگ یہ کہتے تھے صحیح کہا جاتا تھا ثابت ہوگیا۔ غریب کے لیے قانون کوئی اور ہے۔ تقریباً ساڑھے چھ ہزار غریب قیدی جنھوں نے معمولی جرم کیے وہ ملک کی عدالتوں میں پڑے ہیں ہزاروں شدید بیمار، کسی کو گردے کا عارضہ، کوئی دل کی تکلیف میں، کوئی معدے کے کینسر میں مبتلا ہے تو کوئی خون کے کینسر میں اور کوئی تو ایسے عارضے میں پڑا چلنے سے بھی محتاج ہوگیا۔

ان کے لیے کوئی رعایت نہیں، کیا وہ اس ملک کے لوگ نہیں؟ کیا وہ انسان نہیں؟ کیا وہ اپنے والدین کی اولاد نہیں؟ کیا وہ ان بڑے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہیں؟ کیا وہ ان بڑے صحافیوں کو نظر نہیں آرہے؟ کوئی ایسا انسان اس ملک میں نہیں جو ان بیکس بے یار و مددگار کے بارے میں بولے۔ وہ صحافی کہاں ہیں جو بڑے لوگوں کی معمولی سی بیماری کو بڑا سمجھ کر شور آہ و فغاں کرتے ہیں اگر چھینک آجائے تو ان کے لیے بڑی بیماری ہے جس کا علاج ملک میں نہیں بیرون ملک ہوگا۔

کیا اس ملک میں کوئی اسپتال نہیں جو علاج کرسکے۔ ہمارے ملک کے ڈاکٹر یورپ و دیگر ممالک میں جاتے ہیں اور یہ وہاں کے ڈاکٹرز سے زیادہ محنتی، ذہین، علاج معالجے میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہاں ہم ان کی قدر نہیں کرتے۔ بات یہ نہیں بلکہ ہم اس ملک میں رہنا نہیں چاہتے، نوٹ کمانے، بڑے عہدے حاصل کرنے، بڑی جائیدادیں بنانے کے لیے یہ ملک ہے، چوری، ڈاکہ کرکے ساری آمدن بیرونی ممالک میں بھیجنے میں تاخیر نہیں۔

کف افسوس کے علاوہ کچھ نہیں۔اس قدر لمبے عرصے بعد اس ملک میں ایک ایماندار، دیانتدار انسان آیا ہے جو وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہے۔ پہلی بات تو یہ اس کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا، دوسری بات یہ کہ اس کے اپنے بھی بالکل ایسے ہیں جیسے دوسرے موجود ہیں۔ چند ایک اچھے لوگ ضرور ہیں لیکن وہ بھی ملک کو ترقی دینے، عوام کے مسائل دور کرنے، تعلیم، صحت ان سب میں پیچھے ہیں۔ ابھی تک کسی بھی کام کو مکمل نہیں کیا جاسکتا کہ غربت دور کرنے، یا غریب کو روزگار مہیا کرنے کے لیے کوئی کارہائے نمایاں انجام دیے ہوں۔

مہنگائی کے طوفان کی آمد آمد ہے یہ سمندر کی لہریں غربا، مساکین، بیوہ، لاچار، بیکس لوگوں کو ڈبونا چاہتی ہیں۔ درد کی بانہیں، شب غم، تصور میں چراغ، فصل کی جھانجھر چھلک رہی ہے غریب کا دل ویران ہے ترک الفت کہوں یا پھول آرزو کے۔ یہی وہ غریب ہے جسکے دل میں الفت کا نشان باقی ہے۔ لہو کے چراغ اور غم زندگی پر مجبور بیکس یہ جان چکا ہے ہر شمع کے نصیب میں ہے درد کا دھواں اور ہر پھول کی خوشبو میں چھپا ہے غم خزاں۔


کیا کہوں کیسے کہوں نہ ہے امیدوں کا چمن بلکہ بہاروں پر خزاں چھائی، کبھی ڈگمگائی کشتی کبھی کھو گیا کنارہ، چشم فلک ہو یا ماضی کے جھرونکے افق حیات پر حوادث کی گھٹا چھائی ہوئی۔کسی کے لیے چاہت کا حسین تاج محل، مہکی ہوئی یادوں کے کنول لیکن اس غریب کو ابھی بھی امید کی کرن کہیں دور نظر آرہی ہے کہہ رہا ہے حنا کی خوشبو مہک رہی ہے۔سنا کرتے تھے اگر سربراہ ایماندار، دیانتدار، مخلص، سخی ہو تو اس کے ماتحت اپنی برائی چھوڑ کر اپنے سربراہ کی اچھائیاں اپناتے اور پورا ساتھ دیتے ہیں لیکن یہاں مسئلہ الٹا ہے حکمران تو ایماندار ہے وہی بات دہرائوں گا چند ایک کے علاوہ سارے اسی سانچے سے نکلے ہیں جس سے دوسرے تھے۔

ایماندار، ایماندار کا ساتھ نہیں دیتا البتہ چور، ڈاکو، لوٹ مار کرنیوالے اپنے پیٹی بند کا ساتھ دیتا ہے خواہ وہ کسی بھی پارٹی میں ہو وہ برائیاں اس کو ایک کردیتی ہیں۔ ایماندار یہ سب کچھ دیکھتا رہ جاتا ہے مشکل یہ ہے وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا، ایسے بدکرداروں کو ہٹا دے، چھوڑ دے، ایماندار لوگوں کو لے آئے، افسوس تو اسی بات پر ہے وہ ایسا بھی نہیں کرسکتا۔ ہنستے ہیں ارماں دل روتا ہے، چشم زدن، دل بسمل نکلا آرزوؤں کا جنازہ سرمحفل نکلا رت آئیگی جب بہاروں کی پھولوں کی مالا پروئیں گے۔ وہ لوگ جو لوٹ مار کرنے کے خواہشمند ہیں وہ ہر ناجائز طریقے سے کمانا چاہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ، شاید کوئی نظر عنایت جیون کا رخ موڑ دے۔

قوم کو معلوم ہے یورپ ہو یا امریکا مسلمانوں کے خلاف تھے اور رہیں گے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے لوگ ان کے آلہ کار بنے رہے اب بھی بنے ہوئے ہیں۔ عیاں ہے جو ان طاقتوں کے آلہ کار ہیں انکو تمام مراعات دی جاتی ہیں بڑی بات یہ ہے کہ مجرم کو آزادی نصیب ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے یہ نظام ایسا ہے تو کیا یہ نظام ہمیشہ ایسا ہی رہے گا غریب چکی میں پستا رہے گا امیر خواہ کسی بھی جرم میں ہو وہ عیش کرتا رہے گا۔ جو قوم نظام نہ بدل سکے تو وہ ان چوروں، لٹیروں کو کیسے بدلے گی۔

ان طاقتور ممالک کو ایماندار سے کوئی فائدہ نہیں فائدہ بداعمال لوگوں سے ہے انکو ، جیسا کہا جائے گا وہ لوگ ایسا ہی کرینگے جو سامنے ہے۔ ایسے لوگوں کو ملک کا خیال ہے نہ ملت کے بارے میں بہتری، ترقی، خوشحالی کا سوچتے ہیں۔ بداعمال لوگ ہمیشہ سے خوش حال ہیں جرم سنا لیکن ایسے بڑے مجرم کو سزا پاتے نہ سنا نہ دیکھا۔ مجھ جیسے بے شمار لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں جب معلوم ہے یہ غلط لوگ ہیں تو ان کے ساتھ ہزارہا مراعات کیونکر کیا انھوں نے اس ملک میں جرم نہیں کیا؟ کیا انھوں نے خزانہ نہیں لوٹا؟ کیا انھوں نے منی لانڈرنگ نہیں کی؟ کیا انھوں نے بیرون ممالک اپنے عہدوں کے دوران ملکیتیں نہیں بنائیں؟ کیا انھوں نے اپنی آمدن سے زیادہ اثاثے نہیں بنائے؟ کیا انھوں نے بیرونی بینکوں میں چوری کا زر نہیں رکھا؟ سوال تو بہت ہیں لیکن ان چند سوالات ہی پر لوگ ناراض ہو جائیں گے ایسے بھی لوگ ہیں کچھ کہتے ہوئے خوف کھاتے ہیں اور ایسے بھی ہیں کوئی سچ بیان کرے تو اس کے خلاف بولتے ہیں۔

یہاں پہچان ہے کوئی ایماندار انسان بدکردار، بداعمال کی حمایت نہیں کریگا۔ یہ کہہ دینا سیاست میں چلتا ہے، ملک کو چلانا ہے۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو پھر قوم سے ایمانداری، چوروں کو سزا دینے، احتساب کا عمل تیز کرنے، ملک کو برائی سے پاک کرنے کا وعدہ کیوں کیا تھا؟لومڑی گزرتے ہوئے انسان سے بولی سیلاب آگیا ہے، آدمی بولا سیلاب نہیں آیا بلکہ تم ڈوب رہی ہو۔ جو لوگ یا جو طاقتیں ہم غریبوں کو ڈبو رہی ہیں انشا اللہ ایک وقت آئیگا جب یہ ڈوب رہے ہونگے انکو بھی لومڑی کی طرح سیلاب معلوم دیگا۔ اس شخص کی کوئی قدر و قیمت نہیں جو ملک کا غدار ہو قوم کو بدحالی کی طرف لے جائے ایسے لوگوں سے نفرت کرنی چاہیے قطعی عزت کے لائق نہیں۔

اگر کوئی ان لوگوں کو عزت و عظمت، قدر و منزلت دے رہا ہے وہ بھی ان ہی میں سے ہوگا یقینا اس نے بھی ڈوبنا ہے ابھی سے تیرنا سیکھ لیں تو شاید ساحل پر پہنچ جائیں، ڈوبنا تو لازمی ہے اللہ کا قانون اپنی جگہ جب بھی پکڑ میں آئینگے بچ نہ پائینگے۔ یاد رکھیں ایک چراغ کیا جلا سو چراغ جل گئے، درخشاں ہے حیات یاد رکھیں محبت کی راہوں میں منزل نہیں ملتی، خزاں آتی رہی ہوا خشک پتوں کو اڑاتی رہی، ہم پختہ کار ہیں ہم بنائینگے ایک دن ہر طوفان کو کنارہ، سنان نگر انجان ڈگر یہ ملک کے دشمنوں، غداروں، ڈکیتوں کو سمجھ لینا چاہیے امیدوں کے کھلے ہوئے گلشن کو جھلسانا نہیں اچھا الفت کا صلہ یہاں نہیں تو وہاں ضرور ملتا ہے۔
Load Next Story