پانی کی صورتحال پر ایک مکالمہ
محسن لغاری کا خیال ہے کہ پانی کے حوالے سے مقبول نہیں درست فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔
پاکستان میں پانی کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن ہمیں اس کا احساس نہیں ہے۔ ہم نے گزشتہ پچاس سال میں پانی کو بہت بے دردی سے ضایع کیا ہے۔ اس لیے آج ہمیں پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ عالمی ادارے بھی پاکستان میں پانی کی کمی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بالخصوس پنجاب میں پانی کی صورتحال کے حوالے سے پنجاب کے وزیر آبپاشی محسن لغاری سے ایک طویل نشست ہوئی جس میں پانی کی صورتحال اور پانی کے مستقبل پر بات ہوئی۔
محسن لغاری کا خیال ہے کہ پانی کے حوالے سے مقبول نہیں درست فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔مقبول فیصلے وقتی طورپر سیاسی فائدہ تو دے سکتے ہیں لیکن ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔ ہمیں ملکی مفاد میں سخت فیصلہ کرنا ہوں گے ورنہ پاکستان کی آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ پاکستان کے پاس لامحدود پانی نہیں ہے ۔ زرعی اور شہروں میں پانی کے لیے لگائے جانیو الے ٹیوب ویل سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
محسن لغاری کا موقف ہے کہ ملک میں ٹیوب ویل لگانے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ایک کھلی آزادی ہے۔ جو جہاں چاہے جب چاہے ٹیوب ویل لگا لیتا ہے۔ ٹیوب ویل کے پانی کو بے دریغ استعمال کیا جا تا ہے۔ اس لیے پاکستان میں ٹیوب ویل لگانے کی ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے۔ زمین کے نیچے سے پانی نکالنے پر چیک اینڈ بیلنس بنانا ہوگا۔ زمین کے نیچے پانی ایک قومی ذخیرہ ہے،اس کو قومی ذخیرہ سمجھنا ہوگا۔
میں نے محسن لغاری سے سوال کیا کہ آپ کے ذہن میں کیا ہے۔ کیا آپ ٹیوب ویل کی تنصیب کے لیے لائسنس کی شرط عائد کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا اگر لائسنس نہیں تو رجسٹریشن تو لازمی ہونی چاہیے۔ کم از کم ہمیں پتہ تو ہونا چاہیے کہ کہاں کہاں ٹیوب ویل نصب ہے۔ وہاں سے کتنا پانی نکالا جا رہا ہے۔ کتنا استعمال ہورہا ہے۔ کتنا ضایع ہو رہا ہے۔ آخر کوئی حساب تو ہونا چاہیے۔کسی کو اندازہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور کھارا پانی میٹھے پانی میں مکس ہو رہا ہے۔ جس سے میٹھا پانی ضایع ہو رہا ہے۔
پاکستان میں پانی کے ضایع ہونے والے ا عداد و شمار حیران کن ہیں۔ محسن لغاری کے مطابق پاکستان میں 145ملین ایکڑ فٹ پانی میسر ہے۔اس میں سے دس ملین ایکڑ فٹ پانی دریاوں میں ضایع ہوجاتا ہے۔ 30ملین ایکڑ فٹ پانی ہم سمندر میں پھینک کر ضایع کر دیتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں زرعی نظام ا ٓبپاشی کے لیے صرف 105ملین ایکڑ فٹ میسر ہوتا ہے۔ اس 105ملین ایکڑ فٹ میں سے صرف 50ملین ایکڑ فٹ پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ ناقص آبپاشی سسٹم اور دیگر وجوہات کی بنا پر 55ملین ایکڑ فٹ پانی پھر ضایع ہوجاتا ہے۔ اس طرح زرعی نظام میں پانی کے ڈسٹری بیوشن لاسز بہت زیادہ ہیں۔ ہم پانی استعمال کم اور ضایع زیادہ کر رہے ہیں۔
محسن لغاری نے کہا اس ساری صورتحال کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ بھی ہے۔ پاکستان میں ہم ایک کیوبک میٹر فٹ پانی سے 130گرام زرعی فصل حاصل کرتے ہیں جب کہ بھارت اتنے ہی پانی سے 390گرام۔ چین 850 گرام۔ اور امریکا اتنے ہی پانی سے 1.7کلوگرام فصل حاصل کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے زرعی اور پانی کے ماہرین مل کر بیٹھیں اور اس صورتحال پر غور کریں۔
پاکستان کی ڈیموں کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ لیکن بات سمجھنے کی ہے کہ ڈیم صرف بجلی بنانے کے لیے ضروری نہیں ۔ پانی کی اسٹوریج کے لیے بھی ڈیم ناگزیر ہیں۔ دنیا اپنے دریاؤں کا چالیس فیصد ذخیرہ کرتی ہے۔ جب کہ ہم اپنے دریاؤں کے پانی کا صرف دس فیصد ذخیرہ کرتے ہیں۔ اس لیے پانی ذخیرہ کرنے والے چھوٹے بڑے ڈیم بھی بنانے ہوںگے۔ صرف بڑے ڈیم کافی نہیں ۔ پانی پٹرول سے بھی قیمتی ہے۔
میں نے پوچھا کہ حل کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے آبپاشی نظام کی قیمت 25بلین ڈالر ہے۔ یہ ایک قیمتی نظام ہے۔ اس لیے اس کی دیکھ بھال پر کم از کم اس کی قیمت کا دو فیصد سالانہ خرچ ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں ہمیں اپنے آبپاشی نظام کی حفاظت کے لیے کم از کم سالانہ ستر ارب روپے خرچ کرنے چاہیے۔ جب کہ ہم صرف سات ارب خرچ کرتے ہیں۔ اسی لیے نظام خراب ہو رہا ہے۔ اس کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بھی پانی ضایع ہوتا ہے۔
میں نے سوال کیا کہ آبپاشی کے اس نظام سے ہماری آمدن کیا ہے۔ محسن لغاری بولے کہ صرف ایک ارب روپے۔ پانی کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔ حکومت ایک ایکڑ زمین کو پانی فراہم کرنے کا سالانہ صرف 135روپے وصول کرتی ہے۔ اس میں خریف کی فصل کے 85روپے ہوتے ہیں اور ربیع کی فصل کے 50روپے چارج ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ بہت کم قیمت ہے دوسرا اس نظام کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنا 92فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ا س لیے جب تک زرعی پانی میں اصلاحات نہیں کی جائیں گی تب تک پانی کا بحران حل نہیں ہوگا۔ ایک ایکڑ کو کتنا پانی چاہیے۔ کونسی فصل کو کتنا پانی چاہیے۔ بس ایک فلیٹ ریٹ ہے۔ پانی مقدار میں نہیں وقت کے مطابق ملتا ہے۔ اتنی دیر کے لیے پانی ملے گا۔ یہ فرسودہ نظام ہوگیاہے۔ آج کوئی ملک ایسے نہیں کر رہا۔ فصلوں کی واٹر مینجمنٹ کرنا ہوگی۔ جس فصل کو جتنا پانی درکار ہے اتنا ہی دینا ہوگا۔ یہ گھنٹوں اور دنوں کے حساب سے پانی نہیں دیا جا سکتا۔ آپ دیکھیں جب کوئی زمیندار ٹیوب ویل سے پانی لیتا ہے تو اسے ماہانی دس پندرہ ہزار بل تو آتا ہے۔ لیکن نہر کا پانی مفت ہے۔ نہر کا پانی اب مفت نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ غیر مقبول فیصلہ تو ہو سکتا ہے۔ لیکن درست فیصلہ ہوگا۔
محسن لغاری پنجاب کا پہلا واٹر ایکٹ بنا رہے ہیں۔ اس سے پہلے پنجاب میں پانی کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہے۔ پانی کو ایک فری کموڈ ٹی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے1960میں پاکستان میں 5600 کیوسک پانی فی کس موجود تھا جو اب کم ہو کر 800کیوسک فی کس رہ گیا ہے۔ یہ مزید کم ہو جائے گا۔
اس لیے پنجاب کو ایک واٹر ایکٹ کی ضرورت ہے۔ جہاں ایک ایک بوند پانی کا حساب رکھا جا سکے۔ زرعی استعمال کے پانی کی قیمت کا از سر نو قیمت مقرر کی جا سکے۔ زرعی فصلوں کے لیے پانی کی مقدار طے کی جا سکے۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کی حکمت عملی بنائی جا سکے۔
زرعی مقاصد کے پانی کے لین دین کے نظام کو بھی قانونی اور معاشی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ ابھی کسان آپس میں پانی کا لین دین غیر رسمی طریقے سے کرتے ہیں۔لیکن اس کو قانونی شکل دینی ہوگی تا کہ سرکار کو معلوم ہو کس نے کس سے کتنا پانی لے کر استعمال کیا۔ اس لین دین کا مالی نظام بھی ہونا چاہیے۔ محسن لغاری کو یقین نہیں کہ انھیں واٹر ایکٹ اور پانی کے حوالے سے اصلاحات پر سیاسی اور رائے عامہ کی حمایت حاصل ہو گی کہ نہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ محسن لغاری کے کیس میں وزن ہے ۔ انھیں اپنا کیس عوام کی عدالت میں پیش کرنا چاہیے۔
محسن لغاری کا خیال ہے کہ پانی کے حوالے سے مقبول نہیں درست فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔مقبول فیصلے وقتی طورپر سیاسی فائدہ تو دے سکتے ہیں لیکن ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔ ہمیں ملکی مفاد میں سخت فیصلہ کرنا ہوں گے ورنہ پاکستان کی آیندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ پاکستان کے پاس لامحدود پانی نہیں ہے ۔ زرعی اور شہروں میں پانی کے لیے لگائے جانیو الے ٹیوب ویل سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
محسن لغاری کا موقف ہے کہ ملک میں ٹیوب ویل لگانے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ایک کھلی آزادی ہے۔ جو جہاں چاہے جب چاہے ٹیوب ویل لگا لیتا ہے۔ ٹیوب ویل کے پانی کو بے دریغ استعمال کیا جا تا ہے۔ اس لیے پاکستان میں ٹیوب ویل لگانے کی ایک مربوط پالیسی کی ضرورت ہے۔ زمین کے نیچے سے پانی نکالنے پر چیک اینڈ بیلنس بنانا ہوگا۔ زمین کے نیچے پانی ایک قومی ذخیرہ ہے،اس کو قومی ذخیرہ سمجھنا ہوگا۔
میں نے محسن لغاری سے سوال کیا کہ آپ کے ذہن میں کیا ہے۔ کیا آپ ٹیوب ویل کی تنصیب کے لیے لائسنس کی شرط عائد کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا اگر لائسنس نہیں تو رجسٹریشن تو لازمی ہونی چاہیے۔ کم از کم ہمیں پتہ تو ہونا چاہیے کہ کہاں کہاں ٹیوب ویل نصب ہے۔ وہاں سے کتنا پانی نکالا جا رہا ہے۔ کتنا استعمال ہورہا ہے۔ کتنا ضایع ہو رہا ہے۔ آخر کوئی حساب تو ہونا چاہیے۔کسی کو اندازہ ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور کھارا پانی میٹھے پانی میں مکس ہو رہا ہے۔ جس سے میٹھا پانی ضایع ہو رہا ہے۔
پاکستان میں پانی کے ضایع ہونے والے ا عداد و شمار حیران کن ہیں۔ محسن لغاری کے مطابق پاکستان میں 145ملین ایکڑ فٹ پانی میسر ہے۔اس میں سے دس ملین ایکڑ فٹ پانی دریاوں میں ضایع ہوجاتا ہے۔ 30ملین ایکڑ فٹ پانی ہم سمندر میں پھینک کر ضایع کر دیتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں زرعی نظام ا ٓبپاشی کے لیے صرف 105ملین ایکڑ فٹ میسر ہوتا ہے۔ اس 105ملین ایکڑ فٹ میں سے صرف 50ملین ایکڑ فٹ پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ ناقص آبپاشی سسٹم اور دیگر وجوہات کی بنا پر 55ملین ایکڑ فٹ پانی پھر ضایع ہوجاتا ہے۔ اس طرح زرعی نظام میں پانی کے ڈسٹری بیوشن لاسز بہت زیادہ ہیں۔ ہم پانی استعمال کم اور ضایع زیادہ کر رہے ہیں۔
محسن لغاری نے کہا اس ساری صورتحال کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ بھی ہے۔ پاکستان میں ہم ایک کیوبک میٹر فٹ پانی سے 130گرام زرعی فصل حاصل کرتے ہیں جب کہ بھارت اتنے ہی پانی سے 390گرام۔ چین 850 گرام۔ اور امریکا اتنے ہی پانی سے 1.7کلوگرام فصل حاصل کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے زرعی اور پانی کے ماہرین مل کر بیٹھیں اور اس صورتحال پر غور کریں۔
پاکستان کی ڈیموں کی ضرورت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ لیکن بات سمجھنے کی ہے کہ ڈیم صرف بجلی بنانے کے لیے ضروری نہیں ۔ پانی کی اسٹوریج کے لیے بھی ڈیم ناگزیر ہیں۔ دنیا اپنے دریاؤں کا چالیس فیصد ذخیرہ کرتی ہے۔ جب کہ ہم اپنے دریاؤں کے پانی کا صرف دس فیصد ذخیرہ کرتے ہیں۔ اس لیے پانی ذخیرہ کرنے والے چھوٹے بڑے ڈیم بھی بنانے ہوںگے۔ صرف بڑے ڈیم کافی نہیں ۔ پانی پٹرول سے بھی قیمتی ہے۔
میں نے پوچھا کہ حل کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے آبپاشی نظام کی قیمت 25بلین ڈالر ہے۔ یہ ایک قیمتی نظام ہے۔ اس لیے اس کی دیکھ بھال پر کم از کم اس کی قیمت کا دو فیصد سالانہ خرچ ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں ہمیں اپنے آبپاشی نظام کی حفاظت کے لیے کم از کم سالانہ ستر ارب روپے خرچ کرنے چاہیے۔ جب کہ ہم صرف سات ارب خرچ کرتے ہیں۔ اسی لیے نظام خراب ہو رہا ہے۔ اس کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بھی پانی ضایع ہوتا ہے۔
میں نے سوال کیا کہ آبپاشی کے اس نظام سے ہماری آمدن کیا ہے۔ محسن لغاری بولے کہ صرف ایک ارب روپے۔ پانی کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔ حکومت ایک ایکڑ زمین کو پانی فراہم کرنے کا سالانہ صرف 135روپے وصول کرتی ہے۔ اس میں خریف کی فصل کے 85روپے ہوتے ہیں اور ربیع کی فصل کے 50روپے چارج ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ بہت کم قیمت ہے دوسرا اس نظام کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنا 92فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ا س لیے جب تک زرعی پانی میں اصلاحات نہیں کی جائیں گی تب تک پانی کا بحران حل نہیں ہوگا۔ ایک ایکڑ کو کتنا پانی چاہیے۔ کونسی فصل کو کتنا پانی چاہیے۔ بس ایک فلیٹ ریٹ ہے۔ پانی مقدار میں نہیں وقت کے مطابق ملتا ہے۔ اتنی دیر کے لیے پانی ملے گا۔ یہ فرسودہ نظام ہوگیاہے۔ آج کوئی ملک ایسے نہیں کر رہا۔ فصلوں کی واٹر مینجمنٹ کرنا ہوگی۔ جس فصل کو جتنا پانی درکار ہے اتنا ہی دینا ہوگا۔ یہ گھنٹوں اور دنوں کے حساب سے پانی نہیں دیا جا سکتا۔ آپ دیکھیں جب کوئی زمیندار ٹیوب ویل سے پانی لیتا ہے تو اسے ماہانی دس پندرہ ہزار بل تو آتا ہے۔ لیکن نہر کا پانی مفت ہے۔ نہر کا پانی اب مفت نہیں دیا جا سکتا ۔ یہ غیر مقبول فیصلہ تو ہو سکتا ہے۔ لیکن درست فیصلہ ہوگا۔
محسن لغاری پنجاب کا پہلا واٹر ایکٹ بنا رہے ہیں۔ اس سے پہلے پنجاب میں پانی کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہے۔ پانی کو ایک فری کموڈ ٹی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے1960میں پاکستان میں 5600 کیوسک پانی فی کس موجود تھا جو اب کم ہو کر 800کیوسک فی کس رہ گیا ہے۔ یہ مزید کم ہو جائے گا۔
اس لیے پنجاب کو ایک واٹر ایکٹ کی ضرورت ہے۔ جہاں ایک ایک بوند پانی کا حساب رکھا جا سکے۔ زرعی استعمال کے پانی کی قیمت کا از سر نو قیمت مقرر کی جا سکے۔ زرعی فصلوں کے لیے پانی کی مقدار طے کی جا سکے۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کی حکمت عملی بنائی جا سکے۔
زرعی مقاصد کے پانی کے لین دین کے نظام کو بھی قانونی اور معاشی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ ابھی کسان آپس میں پانی کا لین دین غیر رسمی طریقے سے کرتے ہیں۔لیکن اس کو قانونی شکل دینی ہوگی تا کہ سرکار کو معلوم ہو کس نے کس سے کتنا پانی لے کر استعمال کیا۔ اس لین دین کا مالی نظام بھی ہونا چاہیے۔ محسن لغاری کو یقین نہیں کہ انھیں واٹر ایکٹ اور پانی کے حوالے سے اصلاحات پر سیاسی اور رائے عامہ کی حمایت حاصل ہو گی کہ نہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ محسن لغاری کے کیس میں وزن ہے ۔ انھیں اپنا کیس عوام کی عدالت میں پیش کرنا چاہیے۔