عبرت سرائے
میاں صاحب کی سیاسی تنہائی کو دور کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن ان سے ملاقات کر رہے ہیں۔
تاریخ کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے اور اس سفر کی داستان ہم خود لکھتے ہیں یعنی اچھی یا بری تاریخ ہم انسانوں کی ہی مرہون منت ہوتی ہے۔ ہم نے اگرچہ اپنی تاریخ کو بہت دکھ دیے ہیں اسے جی بھر کر ستایا ہے اور سے کبھی چین نہیں لینے دیا لیکن اس کے باوجود یہ اس کی مہربانی ہے کہ ہماری حماقتوں اور اپنے دکھ درد کو بھول کر اپنی تفریح طبع کے لیے ہی سہی وہ ہمارے ساتھ کبھی ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کی فرصت نکال لیتی ہے اور پھر ہمارا تماشہ دیکھتی ہے۔
ان دنوں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، کل پرسوں کے حکمران خاندان پہلے تو جیلوں کے ٹھنڈے فرشوں پر لوٹتے رہے اور آج کل ان میں سے کچھ تو نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں اور جو فی الحال ضمانتوں پر ہیں وہ بیماری کی وجہ سے اسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں اور اس تگ و دو میں ہیں کہ پاکستان میں ان کو ناقابل علاج قرار دے کر بیرون ملک منتقل کر دیا جائے۔
کل تک یہی سیاستدان ایک دوسرے کا نام سن کر آگ بگولا ہو جاتے تھے اور ان کے اندر نفرت کا بھرا ہوا زہر کھولنے لگ جاتا تھا لیکن آج قدرت نے انھیں محرومیوں کے جہنم میں ایک دوسرے کے لیے ان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کر دیا ہے چونکہ ان کے دکھ درد ساجھے ہو گئے ہیں چنانچہ کل کے سیاسی دشمن آج ایک دوسرے کے لیے دوستی کا پیغام عام کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔
ماضی میں بھی ایک فریق پر ایسی ہی کیفیت طاری ہو گئی تھی جب بھٹو صاحب نے پھانسی کی کوٹھڑی سے اپنے حریف نوابزادہ نصر اللہ خان کو آواز دی تھی اور صاف صاف کہا تھا کہ مجھے کسی کی سفارش نہیں ملک کی اسٹریٹ پاور ہی بچا سکتی ہے لیکن افسوس کہ میری پارٹی کے لیڈر میرا ساتھ نہیں دے رہے کہ عوام کو متحرک اور منظم کر کے میرے حق میں کوئی تحریک چلا سکیں اس لیے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ میرے لیے تحریک کی کوئی صورت پیدا کریں لیکن افسوس کہ نوبزادہ نصر اللہ خان اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ کل کی بھٹو مخالف تحریک کا یہ رہنما آج بھٹو کے حق میں کچھ کر سکتا ۔ وہ جو کر سکے صرف یہ کہ بھٹو کے وارثوں کو تعزیت کا پیغام بھجوا دیا جس پر صدر ضیاء الحق ناراض ہوئے تھے اور اسے اپنے ساتھ بے وفائی قرار دیا تھا۔ وہ اپنے ملاقاتیوں سے اس کی شکایت کرتے تھے۔
آج اگر دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کی پارٹی کے تمام کے تمام لیڈر بخیرو عافیت موجود ہیں اور اپنے اپنے ڈیروں، بنگلوں اور اسمبلیوں میں بیٹھے سیاست کر رہے ہیں جب کہ اس وقت بھٹو کے ساتھی روپوش ہو گئے تھے اور دوسرے صوبوں میں اپنے دوستوں کے ہاں پناہ گیر بن گئے تھے لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ بھٹو صاحب کی طرح میاں نواز شریف کی نمایندگی کے لیے بھی سوائے ان کے چند قریبی ساتھیوں کے کوئی بھی تیار نہیں ہے اور نہ ہی شاید میاں صاحب اپنے کسی لیڈر پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ اپنی پارٹی کی اسی قیادت کے ہاتھوں ڈسے جا چکے ہیں چنانچہ جس طرح بھٹو صاحب کی خواتین ورثاء نے ان کی سیاست سنبھال لی تھی بالکل اسی طرح میاں نواز شریف کی سیاست بھی ان کی بیٹی سنبھالنے کے لیے تیار ہیں بلکہ کسی حد تک سنبھال چکی ہیں ۔ کیا عجیب اتفاق ہے کہ ایسا سیاسی تماشہ بے رحم تاریخ ہی دکھا سکتی ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے بے شمار لوگوں کو فٹ پاتھوں سے اٹھا کر اسمبلیوں تک پہنچا دیا تھا اور سیاست کے ساتھ معمولی دلچسپی رکھنے والوں کو سکہ بند سیاسی کارکن اور لیڈر بنا دیا تھا میاں نواز شریف نے بھی بلا شبہ ایک بہت بڑی تعداد کو اسمبلیوں میں تو پہنچا دیا لیکن وہ کوئی ایک برائے نام سیاسی کارکن بھی پیدا نہ کرسکے کیونکہ وہ خود سیاست سے دور دور تھے لیکن افسوس کہ دونوں لیڈروں کے مشکل ترین وقت میں بھی ان کے پیرو کاروں نے وہ کچھ نہ کیا جس کی ان سے امید تھی۔ بھٹو صاحب کے لیے کسی نے کچھ کیا تو وہ عملی سیاست سے دور محروم عوام تھے جو آج تک آصف زرداری کی قیادت میں بھی ان کی پارٹی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
کل میاں نواز شریف کے لیے بھی اگر کسی نے کچھ کیا تو وہ ایسے عام لوگ ہوں گے جن کے لیے میاں صاحب نے اپنے اقتدار کی تینوں باریوں میں کچھ کیا تھا لیکن ان عام لوگوں کے دلوں کو بھی وہ بھٹو صاحب کی طرح کسی چنگاری سے آشنا نہ کر سکے اس لیے مجھے شبہ ہے کہ ان کے خاندان کے سوا شاید ہی کوئی اور ان کے کام آ سکے گا۔ ان دنوں میاں نواز شریف خاموش ہیں اور کسی حد تک سیاسی طور پر تنہا بھی ہیں ان کے دل کی دھڑکن بھی بے ترتیب ہے لیکن حکومت اس بے ترتیب دھڑکن کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحب جو نظریاتی سیاست کے قائل ہو چکے ہیں ان کو موجودہ حکومت اپنی نادانیوں کی وجہ سے ان کے سیاسی قد میں مزید اضافہ میں کامیاب ہو جائے گی۔
میاں صاحب کی سیاسی تنہائی کو دور کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن ان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ مولانا کئی دہائیوں کے بعد حکومت سے باہر ہوئے ہیں ان کی پارٹی کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں ہے، اس سے پہلے وہ کئی دہائیوں تک کسی نہ کسی حکومتی عہدے پر براجمان رہے ہیں اور اب وہ حکومت کو للکار رہے ہیں اور اس کے خاتمے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اپنے ارادوں کو عملی تعبیر دینے کے لیے وہ سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن مجھے نظر نہیں آ رہا کہ وہ حکومت گرانے کی اپنی معصوم خواہش کے لیے اپنے کسی سیاسی دوست کو مدد کے لیے آمادہ کر سکیں گے۔ اس وقت ان کے ماضی کے تمام کے تمام سیاسی حلیف اپنے آپ کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور وہ حکومت مخالف کسی بھی کارروائی کا حصہ بننے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔
میں عرض یہ کر رہا تھا کہ تاریخ کس طرح اپنے آپ کو دہراتی ہے اور بعض اوقات کتنی جلد ی میں، کل جو ماضی کے حکمرانوں کے مصائب تھے انھی میں آج میاں نواز شریف گھرے ہوئے ہیں اور کل کے سیاسی حریف ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ اپنے اپنے دور ابتلاء میں دونوں کو ایک جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا اور دونوں کو سیاسی حریفوں سے مدد مانگنی پڑی۔
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
ان دنوں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، کل پرسوں کے حکمران خاندان پہلے تو جیلوں کے ٹھنڈے فرشوں پر لوٹتے رہے اور آج کل ان میں سے کچھ تو نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں اور جو فی الحال ضمانتوں پر ہیں وہ بیماری کی وجہ سے اسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں اور اس تگ و دو میں ہیں کہ پاکستان میں ان کو ناقابل علاج قرار دے کر بیرون ملک منتقل کر دیا جائے۔
کل تک یہی سیاستدان ایک دوسرے کا نام سن کر آگ بگولا ہو جاتے تھے اور ان کے اندر نفرت کا بھرا ہوا زہر کھولنے لگ جاتا تھا لیکن آج قدرت نے انھیں محرومیوں کے جہنم میں ایک دوسرے کے لیے ان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کر دیا ہے چونکہ ان کے دکھ درد ساجھے ہو گئے ہیں چنانچہ کل کے سیاسی دشمن آج ایک دوسرے کے لیے دوستی کا پیغام عام کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔
ماضی میں بھی ایک فریق پر ایسی ہی کیفیت طاری ہو گئی تھی جب بھٹو صاحب نے پھانسی کی کوٹھڑی سے اپنے حریف نوابزادہ نصر اللہ خان کو آواز دی تھی اور صاف صاف کہا تھا کہ مجھے کسی کی سفارش نہیں ملک کی اسٹریٹ پاور ہی بچا سکتی ہے لیکن افسوس کہ میری پارٹی کے لیڈر میرا ساتھ نہیں دے رہے کہ عوام کو متحرک اور منظم کر کے میرے حق میں کوئی تحریک چلا سکیں اس لیے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ میرے لیے تحریک کی کوئی صورت پیدا کریں لیکن افسوس کہ نوبزادہ نصر اللہ خان اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ کل کی بھٹو مخالف تحریک کا یہ رہنما آج بھٹو کے حق میں کچھ کر سکتا ۔ وہ جو کر سکے صرف یہ کہ بھٹو کے وارثوں کو تعزیت کا پیغام بھجوا دیا جس پر صدر ضیاء الحق ناراض ہوئے تھے اور اسے اپنے ساتھ بے وفائی قرار دیا تھا۔ وہ اپنے ملاقاتیوں سے اس کی شکایت کرتے تھے۔
آج اگر دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کی پارٹی کے تمام کے تمام لیڈر بخیرو عافیت موجود ہیں اور اپنے اپنے ڈیروں، بنگلوں اور اسمبلیوں میں بیٹھے سیاست کر رہے ہیں جب کہ اس وقت بھٹو کے ساتھی روپوش ہو گئے تھے اور دوسرے صوبوں میں اپنے دوستوں کے ہاں پناہ گیر بن گئے تھے لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ بھٹو صاحب کی طرح میاں نواز شریف کی نمایندگی کے لیے بھی سوائے ان کے چند قریبی ساتھیوں کے کوئی بھی تیار نہیں ہے اور نہ ہی شاید میاں صاحب اپنے کسی لیڈر پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ اپنی پارٹی کی اسی قیادت کے ہاتھوں ڈسے جا چکے ہیں چنانچہ جس طرح بھٹو صاحب کی خواتین ورثاء نے ان کی سیاست سنبھال لی تھی بالکل اسی طرح میاں نواز شریف کی سیاست بھی ان کی بیٹی سنبھالنے کے لیے تیار ہیں بلکہ کسی حد تک سنبھال چکی ہیں ۔ کیا عجیب اتفاق ہے کہ ایسا سیاسی تماشہ بے رحم تاریخ ہی دکھا سکتی ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے بے شمار لوگوں کو فٹ پاتھوں سے اٹھا کر اسمبلیوں تک پہنچا دیا تھا اور سیاست کے ساتھ معمولی دلچسپی رکھنے والوں کو سکہ بند سیاسی کارکن اور لیڈر بنا دیا تھا میاں نواز شریف نے بھی بلا شبہ ایک بہت بڑی تعداد کو اسمبلیوں میں تو پہنچا دیا لیکن وہ کوئی ایک برائے نام سیاسی کارکن بھی پیدا نہ کرسکے کیونکہ وہ خود سیاست سے دور دور تھے لیکن افسوس کہ دونوں لیڈروں کے مشکل ترین وقت میں بھی ان کے پیرو کاروں نے وہ کچھ نہ کیا جس کی ان سے امید تھی۔ بھٹو صاحب کے لیے کسی نے کچھ کیا تو وہ عملی سیاست سے دور محروم عوام تھے جو آج تک آصف زرداری کی قیادت میں بھی ان کی پارٹی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
کل میاں نواز شریف کے لیے بھی اگر کسی نے کچھ کیا تو وہ ایسے عام لوگ ہوں گے جن کے لیے میاں صاحب نے اپنے اقتدار کی تینوں باریوں میں کچھ کیا تھا لیکن ان عام لوگوں کے دلوں کو بھی وہ بھٹو صاحب کی طرح کسی چنگاری سے آشنا نہ کر سکے اس لیے مجھے شبہ ہے کہ ان کے خاندان کے سوا شاید ہی کوئی اور ان کے کام آ سکے گا۔ ان دنوں میاں نواز شریف خاموش ہیں اور کسی حد تک سیاسی طور پر تنہا بھی ہیں ان کے دل کی دھڑکن بھی بے ترتیب ہے لیکن حکومت اس بے ترتیب دھڑکن کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحب جو نظریاتی سیاست کے قائل ہو چکے ہیں ان کو موجودہ حکومت اپنی نادانیوں کی وجہ سے ان کے سیاسی قد میں مزید اضافہ میں کامیاب ہو جائے گی۔
میاں صاحب کی سیاسی تنہائی کو دور کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن ان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ مولانا کئی دہائیوں کے بعد حکومت سے باہر ہوئے ہیں ان کی پارٹی کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں ہے، اس سے پہلے وہ کئی دہائیوں تک کسی نہ کسی حکومتی عہدے پر براجمان رہے ہیں اور اب وہ حکومت کو للکار رہے ہیں اور اس کے خاتمے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اپنے ارادوں کو عملی تعبیر دینے کے لیے وہ سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن مجھے نظر نہیں آ رہا کہ وہ حکومت گرانے کی اپنی معصوم خواہش کے لیے اپنے کسی سیاسی دوست کو مدد کے لیے آمادہ کر سکیں گے۔ اس وقت ان کے ماضی کے تمام کے تمام سیاسی حلیف اپنے آپ کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور وہ حکومت مخالف کسی بھی کارروائی کا حصہ بننے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔
میں عرض یہ کر رہا تھا کہ تاریخ کس طرح اپنے آپ کو دہراتی ہے اور بعض اوقات کتنی جلد ی میں، کل جو ماضی کے حکمرانوں کے مصائب تھے انھی میں آج میاں نواز شریف گھرے ہوئے ہیں اور کل کے سیاسی حریف ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ اپنے اپنے دور ابتلاء میں دونوں کو ایک جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا اور دونوں کو سیاسی حریفوں سے مدد مانگنی پڑی۔
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو