نقل مافیا

وزیرِ موصوف امتحان میں نقل کی صورتحال خود دیکھ کر شاید شرمندہ ہوگئے اورکچھ افسران معطل ہوئے۔

tauceeph@gmail.com

ملک بھر میں میٹرک کے امتحانا ت شروع ہوئے، سندھ میں حسبِ روایات بد نظمی اور نقل کے کلچرکی بازگشت ذرایع ابلاغ کے ذریعے اخبارات کے صفحات اور ٹی وی اسکرین کی زینت بنی۔ وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ نے امتحانی مراکز کے دورے کیے، سندھ کے اسکولوں کے انتظام کی وزارت کے سیکریٹری بھی دوڑ پڑے، وزیرِ موصوف امتحان میں نقل کی صورتحال خود دیکھ کر شاید شرمندہ ہوگئے اورکچھ افسران معطل ہوئے۔

صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے محسوس کیا کہ ماہ اپریل کی شدیدگرمی میں طلباء شامیانوں میں امتحان دینے پر مجبور ہیں، امتحانی مراکز میں طالبات کے لیے پینے کے پانی کی سہولت نہیں ہے، بعض مراکز میں ٹوٹی پھوٹی میزیں اورکرسیاں طلباء کے لیے ہیں، لوڈشیڈنگ یا کسی اور وجہ سے بجلی کی مسلسل فراہمی طلباء کو نہیں ملتی ہے۔

امتحانی فرائض انجام دینے والے اساتذہ کہتے ہیں کہ سندھ کی وزارت تعلیم، تعلیمی بورڈز، سیاسی جماعتیں، پولیس، سرکاری افسران، اساتذہ اور والدین نقل کے رجحان کو تقویت دینے کے ذمے دار ہیں، ہر سال وزیر تعلیم کی صدارت میں تعلیمی کلینڈر طے ہوتا ہے۔ اس کلینڈر میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کی تاریخوں کا تعین ہوتا ہے، یوں بورڈ کے افسران کے لیے امتحانات کو بہتر انداز میں مرتب کرنے کے لیے خاصا وقت ہوتا ہے۔ امتحانات کے آغاز تک تعلیمی مراکز کے بننے اور طالبِ علموں کے ایڈمٹ کارڈکے اجرا ء کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بورڈ کا عملہ آخری وقت تک امتحانی مراکز تبدیل کرتا رہتا ہے۔

تعلیمی بورڈ کی رپورٹنگ کرنے والے رپورٹرزکا کہنا ہے کہ امتحانی مراکز کے فیصلے میں مقتدر قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں اور پسندیدہ امیدواروں کے لیے پسندیدہ مراکز بنانے کے لیے خاصی ریاضت کی جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں لاکھوں روپے کی رقم اہم کردار ادا کرتی ہے۔

کراچی ضلع ساؤتھ کے سرکاری اسکول میں فرائض انجام دینے والی ایک سینئر استاد نے بتایا کہ امتحان کے دن سے ایک دن قبل انھیں بورڈ حکام کی ہدایات ملی کہ دوپہرکی شفٹ میں ایک نیا امتحانی مرکز قائم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ مختصر عرصے میں اساتذہ کی امتحانی کام کے لیے دستیابی خاصی مشکل مرحلہ ہوتا ہے پھر کئی اساتذہ اپنی مجبوریوں کی بنا پر دوسری شفٹ میں امتحان لینے کو تیار نہیں ہوتے اور طالبِ علموں کو امتحانی مراکز میں تبدیلیوں کی اطلاع نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلباء امتحان شروع ہونے کے بعد پہنچے اور اساتذہ کی خاصی تعداد فوری طور پر امتحان لینے کے لیے دستیاب نہیں تھی۔یہ سلسلہ ایک امتحانی مرکزکا نہیں بلکہ اس میں بہت سے مراکز آخری وقت میں تبدیل ہوتے ہیں۔

ایک غیر سرکاری اسکول کی انتظامیہ کی نا اہلی کی بنا پر امتحان دینے والے طلباء کے امتحانی فارم بورڈ کو نہیں بھیجے گئے، ان طلباء کو سندھ ہائی کورٹ میں عرض داشت داخل کرنی پڑی۔ سندھ ہائی کورٹ کے لائق جج جسٹس مظہرعلی سید نے اس معاملے کی نزاکت کو محسوس کیا، یوں ان طلب علموں کا صرف ایک دن کا نقصان ہوا ۔کراچی میٹرک بورڈ نے ایک سرکلرجاری کیا کہ امتحانی مراکزکی نگرانی کرنے والے سپرنٹنڈنٹ کے معاون کی اسامی ختم کردی گئی ہے، ایک کمرہ امتحان میں ایک استاد 30 طلباء کی نگرانی کرے گا۔ ایک استاد کے لیے مسلسل 3گھنٹے 30 طلباء کی نگرانی خاصا مشکل کام ہے۔


اساتذہ کا کہنا ہے کہ امتحانی مرکزکے سپرنٹنڈنٹ کا فریضہ امتحانی پرچے سے متعلق دستاویزات کی تیاری اور ہرکمرے میں طلباء کی تعداد کا تعین اور نگراں اساتذہ کے تقررکا ہوتا ہے سپرنٹنڈنٹ کو اساتذہ طلباء کی حاضری فہرستوں پر دستخط کرنے کے علاوہ ہر کلاس میں جا کے معائنہ کرنا ہوتا ہے وہ امتحانی مرکز میں امن وآمان کا بھی ذمے دار ہوتا ہے یہ کام اپنے معاون کی مدد سے سر انجام دیتا ہے۔ بورڈ نے محض بچت کے لیے معاون کی اسامی ختم کردی، اب سپرنٹنڈنٹ کے لیے3 گھنٹے میں یہ سارے فرائض انجام دینا مشکل ہوگیا ۔ ایک کمرے میں 30 اساتذہ کے لیے تقررکا فیصلہ بھی خاصامشکل ہے۔ نگرانی کے فرائض انجام دینے والے استاد طلباء کے ایڈمٹ کارڈ کو چیک کرتا ہے ان کی حاضری لیتا ہے اور ہر امتحانی کاپی پر دستخط کرتا ہے پھر اس کو صرف 200 روپے معاوضہ ملتا ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں طلباء اسمارٹ فون چھپا کرکمرہ امتحان میں لے آتے ہیں ۔ ایک نگراں امتحان کا اس ساری صورتحال میں مؤثرکردار ادا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ بورڈ کو 15 طلباء پر مشتمل امتحانی کمرے کا اصول اپنانا چاہیے یوں ایک نگراںاستاد آسانی سے اپنے فرائض انجام دیتا ہے اور آج کے دور میں استاد کے لیے 200 روپے کا معاوضہ ہے یہ ہر صورت میں 1ہزار روپے سے کم نہیں ہونا چاہیے پھر امتحانی مراکزکے سپرنٹنڈنٹ اور اساتذہ کی اسی طرح معاوضے میں اضافہ ہونا چاہیے۔ اساتذہ یہ شکایت کرتے ہیں کہ نقل کرانے میں جرائم پیشہ افراد امتحانی مراکز پر دھاوا بولتے ہیں۔

اسکول کی انتظامیہ متعلقہ تھانے کو اس صورت حال سے آگاہ کرتی ہے مگر پولیس والے فوری طور پر توجہ نہیں دیتے، اساتذہ کو بعض اوقات دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ برس میں بعض اساتذہ تشدد کا شکار ہوئے مگر انتظامیہ نے کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی ۔ایک غیر سرکاری اسکول کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے اسکول میں قائم ہونے والے امتحانی مرکز کے دو کمروں کو مافیا کے حوالے کرنے کے عوض روزانہ 2 لاکھ روپے کی پیشکش ہوئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ نقل کرانے والی مافیا میں بورڈ کے اہلکار اور پرائیوٹ اسکولوں کی مافیا شامل ہیں۔

پرائیوٹ اسکول والے تین چار اسکولوں کے نام پر رجسٹریشن حاصل کرتے ہیں اور بورڈ کے عملے کی مدد سے اپنے ہی کسی اسکول میں اپنے طلبہ کا امتحانی مرکز بنا لیتے ہیں، یوں روزانہ لاکھوں روپے کا کاروبار ہوتاہے۔ ایک استاد اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علاقے کے کونسلر، تھانے کے ایس ایچ او نے انھیں اس دفعہ تحریری طور پر آگاہ کیا کہ ان کی بیٹیاں امتحان دے رہی ہیں اس طرح والدین بھی بچوں کو غیر قانونی سہولتوں کی فراہمی کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ایک سینئر استاد پروفیسر سعید عثمانی نقل کلچر کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں پاکستان میں طلباء کو نقل کروانا کوئی برا فعل نہیں سمجھا جاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی کو اداروں پر اعتماد نہیں ۔

والدین کا یہ موقف ہے کہ تعلیمی بورڈ میں امتحان کی پوزیشن نیلام ہوتی ہیں اس بنا پر ان کا اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کرنے کا حق حاصل ہے ۔میاں شہباز شریف کا کارنامہ یہ ہے کہ جب انھوں نے 2008ء میں وزیراعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو بوٹی مافیا کے خیلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ کے اعلان کے ساتھ ہی سارے وزراء، اعلیٰ پولیس افسران اور سول افسران متحرک ہوئے وزراء نے امتحانی مراکز پر چھاپے مارنے شروع کیے۔

مسلم لیگ ن کا ایک رکن قومی اسمبلی راولپنڈی میں نقل کے معاملے میں ملوث ہوا تو اس کو مستعفیٰ ہونا پڑا۔خیبر پختونخوا میں 1986سے برسرِ اقتدار آنے والی آنے والی حکومتوں نے نقل کے خاتمے کے لیے ان کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں سے سی ایس ایس کے امتحان دینے والے امیدواروں کی تعداد بڑھ گئی ۔

سندھ میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کے وزیر اعلیٰ نے تعلیم کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا، یوں ہر سال امتحانات کے موقعے پر نمائشیِ اعلانات کے علاوہ کچھ نہیں ہوا ۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اگر سندھ کے معیار تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں تو انھیں تمام اسٹیک ہولڈرز کی کانفرنس طلب کرنی چاہیے اور ہر اس کانفرنس کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کرنی چاہیے۔
Load Next Story