لارے لپے اور جھوٹی تسلیاں کب تک
اِس حکومت کے پاس اب صرف دو ماہ رہ گئے ہیں۔اب خواہ اُس کے پاس حکومت کرنے کے لیے قانونی یا اخلاقی جوازباقی رہے یانہ رہے۔
جس یقین اور اعتماد سے ہمارے وزیر اعظم نے اپنے اِس دور اقتدار کے ابتدائی دنوں میںقوم کو حالات بدلنے جانے کے حسین خواب دکھلائے تھے اور سو دنوں کاخود اپنے طور پر ٹائم فریم بھی دیا تھا، اُسی یقین اور اعتماد سے وہ ماضی میں بھی ایسا بہت کچھ کہا کرتے تھے جن میں سے کسی ایک بات پر بھی وہ قائم نہیں رہے۔اُن کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ اپنے بیانوں سے منحرف ہوتے ہوئے کوئی ندامت بھی محسوس نہیں کرتے۔
میڈیا روز اُنہیں اُن کے اپوزیشن والے دنوں کی وڈیوز اور فوٹیج چلا چلاکر احساس دلاتا رہتا ہے مگر کیا مجال کہ وہ اس پر غور کرلیں اور اپنا طور طریقہ بدل ڈالیں ۔ اُلٹا وہ اپنے اِن یوٹرنزکوعظیم لیڈر کی قیادت کی قابلیت اور لیاقت گردانتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔
دوسرے ملکوں سے قرض اور امداد لینے سے لے کر ایمنسٹی اسکیم لانے تک صرف سات آٹھ ماہ میں اُنہوں نے ہر وہ کام کیا ہے جس کی ماضی میں وہ سخت مخالفت کیاکرتے تھے وہ اور اُن کے ذہین و فتین سارے کے سارے انمول وزیر اور اراکین اپنی اِس نا اہلی پر نادم اورشرمندہ ہونے کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے اُس کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں ، جن جن افراد کو وہ بڑا قابل اور ذہین سمجھ کر کسی اعلیٰ عہدے پر لگاتے ہیں اُس کی قابلیت اور لیاقت کا بھانڈا صرف چند دنوں میں ہی بیچ چوراہے پر پھوٹ جاتا ہے، وہ چاہے وسیم اکرم پلس ہوں یا ہمارے وفاقی وزیر خزانہ ہوں۔
کابینہ میں بیٹھے سارے وزراء میں سے کوئی بھی ایک وزیر ایسا نہیں ہے جس کی کارکردگی پر قوم دس میں سے پانچ نمبر بھی دے سکے، لیکن خان صاحب کے وژن اور ذہانت کو داد دینی پڑتی ہے کہ اتنی ناقص کارکردگی پر بھی وہ اپنی کابینہ کے تمام اراکین کو سو دن پورے ہونے پر زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امتیازی نمبروں سے پاس بھی کرتے ہیں اور اعلیٰ کارکردگی کی سند بھی عطا فرماتے ہیں ۔ وزراء کی کارکردگی کو جانچنے کا یہ سلسلہ محض ایک ہی میٹنگ کے بعد دم توڑگیا ختم ہوگیا۔
قرضے اور امداد لینے سے متعلق خان صاحب کے خیالات ماضی میں کیا تھے اور وہ اُن پر کتنے قائم اور ڈٹے رہے یہ تو ہم سب جانتے اچھی طرح جانتے ہیں ۔ امداد مانگنے پر شرم اور حیا محسوس کرنے اور خود کشی کرجانے کا دعویٰ کرنے والے کو ہم نے امیر سربراہ مملکتوں کی کار ڈرائیو کرتے بھی دیکھا ہے۔ اِن سے پہلے کے حکمراںبھی اگر چاہتے تو یہ کام وہ بھی کرسکتے تھے لیکن قومی وقارکی خاطر وہ ایساکرنے سے باز رہے، مگر خان صاحب نے یہ فریضہ شاید خود اُن کے بقول مہمان کی عزت و توقیرکی خاطر ادا کیا ۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ ایسے مہمانوں کے چناؤ میں صرف اُن کی مالی حیثیت کو سامنے رکھاجاتا ہے۔
کسی بھی انسان کوبھیک مانگتے ہوئے شرم صرف پہلی بار آیاکرتی ہے۔اِسکے بعد وہ اِس کاعادی ہوجاتا ہے۔ جن جن ملکوں سے وہ امداد لے سکتے تھے لے چکے ۔ اب جب کوئی راستہ باقی نہ رہا تو آئی ایم ایف کا دامن پکڑ لیا۔ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کے ذریعے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کی کوئی تجویز ہنوز اُنکی پرمغز کابینہ کے زیرغور نہیں ہے۔ساری کوشش اور توجہ صرف امداد اور قرض لینے پر مرکوز ہے۔جس ایمنسٹی اسکیم کی وہ اور اُنکی پارٹی ماضی قریب میں سخت مخالف رہی ہے وہ اسکیم آج اتنی جلد ایک بار پھر لائی جا رہی ہے۔
خان صاحب اور اُنکے رفقاء کیا اتنی چھوٹی سی بات بھی نہیں جانتے کہ ایسی اسکیمیں اتنی جلدی دوبارہ نہیں لائی جاتیں ۔ابھی پچھلی اسکیم کو آئے ہوئے ایک سال ہی گزرا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ بھی اتنی کامیاب نہیں ہو پائی تھی پھر نجانے اِس حکومت کو کس نے مشور ہ دے دیا ہے کہ وہ دوبارہ اِسے لانچ کرنے جارہے ہیں جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہماری اِس حکومت پر لوگوں کااعتبارابھی تک قائم نہیں ہو پایا ہے۔ بزنس مین اور سرمایہ دار طبقہ ابھی تک تذبذب اور ہچکچاہٹ کاشکار ہے۔ اُسے ڈر اور خوف لگا رہتا ہے کہ نجانے یہ حکومت کونسا قدم اگلا اُٹھا دے۔ معاشی اور اقتصادی پالیسیاں ابھی تک واضح نہیں ہیں ۔
بے یقینی اور بے اعتباری کی فضا سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔کوئی واضح سمت اور منزل مقرر نہیں ہے۔ روپے کی بے قدری نے اور بھی صورتحال ابترکردی ہے۔کوئی سرمایہ دار پیسہ لگانے کو تیار نہیں ۔ ڈیم فنڈ میں اب تک جمع ہونے والی رقم سے اِس حکومت کی کریڈبلیٹی کو جانچا جاسکتا ہے ۔ وزیر اعظم کا خیال تھا کہ ملکی اور غیر ملکی سارے پاکستانی اُن پر بھر پور اعتماد کرتے ہیں اور وہ اُنکے ایک اشارے پرکچھ نہیں توکم از کم ایک ایک ہزار ڈالر تو فوراً بھیج دینگے مگر دس ارب روپے کی اب تک کی جمع شدہ رقم نے اِس سارے طلسم کا پول کھول کر رکھ دیا ۔
خان صاحب جب تک وزیراعظم نہیں بنے تھے ، اُن کی طلسماتی شخصیت کا سحرکسی حد تک قائم تھا مگر اب اُنکی قابلیت اور لیاقت کو دیکھتے ہوئے سارے لوگ محتاط ہوگئے ہیں۔ کوئی اُنکی باتوں پر یقین نہیں کر رہا ۔ وزیر خزانہ لوگوں سے ڈالرز جمع نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے جب یہ کہتے ہیں کہ روپیہ مزید گرنے نہیں جا رہا تو اِس کا اُلٹا ری ایکشن سامنے آتا ہے اور ڈالر سمیت ہر غیر ملکی کرنسی مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے۔
ایسے گھمبیر حالات اورگھبراہٹ میں حکومت اور بھی غلطیاں کرتی جا رہی ہے ۔ قومی اسمبلی میں ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں ہو پائی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں محض ایک دوسرے پر الزام تراشی کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا۔ خود حکومتی اراکین جنھیں اِس وقت بڑے افہام وتفہیم کی ضرورت ہے بلاوجہ محاذآرائی میں الجھے ہوئے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کی اُنہیں در پردہ سر پرستی اور آشیر واد حاصل ہے تبھی وہ بڑے دھڑلے سے یہ کام کیے جا رہے ہیں ۔ خود خان صاحب کا لب ولہجہ ایک مفاہمت پسند اور صلح جو وزیراعظم کا نہیں ہے۔
وہ آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ڈی چوک والی تقریریں کر رہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ قوم کی نظروں میں معتبر اور مقبول ہو رہے ہیں ، جب کہ دوسری جانب عوام ریلیف نہ ملنے کی صورت میں اِس حکومت سے روزانہ بد دل ہوتے جارہے ہیں ،کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب غریب عوام پرمہنگائی کا کوئی نیا بم نہیں گرایا جاتا ۔ کبھی گیس اورکبھی بجلی مہنگی کرکے اورکبھی روپے کو مزید بے وقعت کرکے۔ حکومت کو احساس نہیں کہ اُس کی اِس کارکردگی سے ہمارے لوگ دن بدن کتنے بد حال اور بد ترہوتے جا رہے ہیں ۔ اُن کے صبرکا پیمانہ کسی وقت بھی لبریز ہوسکتا ہے، وہ اگر مشتعل اور بے قابو ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تو حکومت کو پھر اپنے بچاؤ کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا ۔
اِس حکومت کے پاس اب صرف دو ماہ رہ گئے ہیں۔ اب خواہ اُس کے پاس حکومت کرنے کے لیے قانونی یا اخلاقی جواز باقی رہے یا نہ رہے لیکن مالی وسائل یقینا نہیں رہیں گے۔ بیرونی قرضوں پر جتنا انحصارکیا جاسکتا تھا وہ گزشتہ آٹھ ماہ میں کرلیا گیا ۔اب اُس کے پاس مثبت کارکردگی دکھانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے ۔ اپوزیشن یا ماضی کی حکومتوں کو مزید الزام اب نہیں دیاجاسکتا ۔اُسے اگر اقتدار میں رہنا ہے تو عوام کو ریلیف دینا ہی پڑے گا ۔ ملک وقوم کی حالت مزید بگاڑنے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے بارے میں خود فیصلہ کر لے ۔ قوم کو لارے لپے اور جھوٹی تسلیاں دے کر مزید وقت گزارا نہیں جاسکتا۔
میڈیا روز اُنہیں اُن کے اپوزیشن والے دنوں کی وڈیوز اور فوٹیج چلا چلاکر احساس دلاتا رہتا ہے مگر کیا مجال کہ وہ اس پر غور کرلیں اور اپنا طور طریقہ بدل ڈالیں ۔ اُلٹا وہ اپنے اِن یوٹرنزکوعظیم لیڈر کی قیادت کی قابلیت اور لیاقت گردانتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔
دوسرے ملکوں سے قرض اور امداد لینے سے لے کر ایمنسٹی اسکیم لانے تک صرف سات آٹھ ماہ میں اُنہوں نے ہر وہ کام کیا ہے جس کی ماضی میں وہ سخت مخالفت کیاکرتے تھے وہ اور اُن کے ذہین و فتین سارے کے سارے انمول وزیر اور اراکین اپنی اِس نا اہلی پر نادم اورشرمندہ ہونے کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے اُس کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں ، جن جن افراد کو وہ بڑا قابل اور ذہین سمجھ کر کسی اعلیٰ عہدے پر لگاتے ہیں اُس کی قابلیت اور لیاقت کا بھانڈا صرف چند دنوں میں ہی بیچ چوراہے پر پھوٹ جاتا ہے، وہ چاہے وسیم اکرم پلس ہوں یا ہمارے وفاقی وزیر خزانہ ہوں۔
کابینہ میں بیٹھے سارے وزراء میں سے کوئی بھی ایک وزیر ایسا نہیں ہے جس کی کارکردگی پر قوم دس میں سے پانچ نمبر بھی دے سکے، لیکن خان صاحب کے وژن اور ذہانت کو داد دینی پڑتی ہے کہ اتنی ناقص کارکردگی پر بھی وہ اپنی کابینہ کے تمام اراکین کو سو دن پورے ہونے پر زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امتیازی نمبروں سے پاس بھی کرتے ہیں اور اعلیٰ کارکردگی کی سند بھی عطا فرماتے ہیں ۔ وزراء کی کارکردگی کو جانچنے کا یہ سلسلہ محض ایک ہی میٹنگ کے بعد دم توڑگیا ختم ہوگیا۔
قرضے اور امداد لینے سے متعلق خان صاحب کے خیالات ماضی میں کیا تھے اور وہ اُن پر کتنے قائم اور ڈٹے رہے یہ تو ہم سب جانتے اچھی طرح جانتے ہیں ۔ امداد مانگنے پر شرم اور حیا محسوس کرنے اور خود کشی کرجانے کا دعویٰ کرنے والے کو ہم نے امیر سربراہ مملکتوں کی کار ڈرائیو کرتے بھی دیکھا ہے۔ اِن سے پہلے کے حکمراںبھی اگر چاہتے تو یہ کام وہ بھی کرسکتے تھے لیکن قومی وقارکی خاطر وہ ایساکرنے سے باز رہے، مگر خان صاحب نے یہ فریضہ شاید خود اُن کے بقول مہمان کی عزت و توقیرکی خاطر ادا کیا ۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ ایسے مہمانوں کے چناؤ میں صرف اُن کی مالی حیثیت کو سامنے رکھاجاتا ہے۔
کسی بھی انسان کوبھیک مانگتے ہوئے شرم صرف پہلی بار آیاکرتی ہے۔اِسکے بعد وہ اِس کاعادی ہوجاتا ہے۔ جن جن ملکوں سے وہ امداد لے سکتے تھے لے چکے ۔ اب جب کوئی راستہ باقی نہ رہا تو آئی ایم ایف کا دامن پکڑ لیا۔ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کے ذریعے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کی کوئی تجویز ہنوز اُنکی پرمغز کابینہ کے زیرغور نہیں ہے۔ساری کوشش اور توجہ صرف امداد اور قرض لینے پر مرکوز ہے۔جس ایمنسٹی اسکیم کی وہ اور اُنکی پارٹی ماضی قریب میں سخت مخالف رہی ہے وہ اسکیم آج اتنی جلد ایک بار پھر لائی جا رہی ہے۔
خان صاحب اور اُنکے رفقاء کیا اتنی چھوٹی سی بات بھی نہیں جانتے کہ ایسی اسکیمیں اتنی جلدی دوبارہ نہیں لائی جاتیں ۔ابھی پچھلی اسکیم کو آئے ہوئے ایک سال ہی گزرا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ وہ بھی اتنی کامیاب نہیں ہو پائی تھی پھر نجانے اِس حکومت کو کس نے مشور ہ دے دیا ہے کہ وہ دوبارہ اِسے لانچ کرنے جارہے ہیں جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہماری اِس حکومت پر لوگوں کااعتبارابھی تک قائم نہیں ہو پایا ہے۔ بزنس مین اور سرمایہ دار طبقہ ابھی تک تذبذب اور ہچکچاہٹ کاشکار ہے۔ اُسے ڈر اور خوف لگا رہتا ہے کہ نجانے یہ حکومت کونسا قدم اگلا اُٹھا دے۔ معاشی اور اقتصادی پالیسیاں ابھی تک واضح نہیں ہیں ۔
بے یقینی اور بے اعتباری کی فضا سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔کوئی واضح سمت اور منزل مقرر نہیں ہے۔ روپے کی بے قدری نے اور بھی صورتحال ابترکردی ہے۔کوئی سرمایہ دار پیسہ لگانے کو تیار نہیں ۔ ڈیم فنڈ میں اب تک جمع ہونے والی رقم سے اِس حکومت کی کریڈبلیٹی کو جانچا جاسکتا ہے ۔ وزیر اعظم کا خیال تھا کہ ملکی اور غیر ملکی سارے پاکستانی اُن پر بھر پور اعتماد کرتے ہیں اور وہ اُنکے ایک اشارے پرکچھ نہیں توکم از کم ایک ایک ہزار ڈالر تو فوراً بھیج دینگے مگر دس ارب روپے کی اب تک کی جمع شدہ رقم نے اِس سارے طلسم کا پول کھول کر رکھ دیا ۔
خان صاحب جب تک وزیراعظم نہیں بنے تھے ، اُن کی طلسماتی شخصیت کا سحرکسی حد تک قائم تھا مگر اب اُنکی قابلیت اور لیاقت کو دیکھتے ہوئے سارے لوگ محتاط ہوگئے ہیں۔ کوئی اُنکی باتوں پر یقین نہیں کر رہا ۔ وزیر خزانہ لوگوں سے ڈالرز جمع نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے جب یہ کہتے ہیں کہ روپیہ مزید گرنے نہیں جا رہا تو اِس کا اُلٹا ری ایکشن سامنے آتا ہے اور ڈالر سمیت ہر غیر ملکی کرنسی مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے۔
ایسے گھمبیر حالات اورگھبراہٹ میں حکومت اور بھی غلطیاں کرتی جا رہی ہے ۔ قومی اسمبلی میں ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں ہو پائی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں محض ایک دوسرے پر الزام تراشی کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا۔ خود حکومتی اراکین جنھیں اِس وقت بڑے افہام وتفہیم کی ضرورت ہے بلاوجہ محاذآرائی میں الجھے ہوئے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کی اُنہیں در پردہ سر پرستی اور آشیر واد حاصل ہے تبھی وہ بڑے دھڑلے سے یہ کام کیے جا رہے ہیں ۔ خود خان صاحب کا لب ولہجہ ایک مفاہمت پسند اور صلح جو وزیراعظم کا نہیں ہے۔
وہ آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ڈی چوک والی تقریریں کر رہے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ قوم کی نظروں میں معتبر اور مقبول ہو رہے ہیں ، جب کہ دوسری جانب عوام ریلیف نہ ملنے کی صورت میں اِس حکومت سے روزانہ بد دل ہوتے جارہے ہیں ،کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب غریب عوام پرمہنگائی کا کوئی نیا بم نہیں گرایا جاتا ۔ کبھی گیس اورکبھی بجلی مہنگی کرکے اورکبھی روپے کو مزید بے وقعت کرکے۔ حکومت کو احساس نہیں کہ اُس کی اِس کارکردگی سے ہمارے لوگ دن بدن کتنے بد حال اور بد ترہوتے جا رہے ہیں ۔ اُن کے صبرکا پیمانہ کسی وقت بھی لبریز ہوسکتا ہے، وہ اگر مشتعل اور بے قابو ہوکر سڑکوں پر نکل آئے تو حکومت کو پھر اپنے بچاؤ کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا ۔
اِس حکومت کے پاس اب صرف دو ماہ رہ گئے ہیں۔ اب خواہ اُس کے پاس حکومت کرنے کے لیے قانونی یا اخلاقی جواز باقی رہے یا نہ رہے لیکن مالی وسائل یقینا نہیں رہیں گے۔ بیرونی قرضوں پر جتنا انحصارکیا جاسکتا تھا وہ گزشتہ آٹھ ماہ میں کرلیا گیا ۔اب اُس کے پاس مثبت کارکردگی دکھانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے ۔ اپوزیشن یا ماضی کی حکومتوں کو مزید الزام اب نہیں دیاجاسکتا ۔اُسے اگر اقتدار میں رہنا ہے تو عوام کو ریلیف دینا ہی پڑے گا ۔ ملک وقوم کی حالت مزید بگاڑنے سے بہتر ہے کہ وہ اپنے بارے میں خود فیصلہ کر لے ۔ قوم کو لارے لپے اور جھوٹی تسلیاں دے کر مزید وقت گزارا نہیں جاسکتا۔