اسلام آباد واقعے کے بعد پولیس اور سیکیورٹی اداروں میں تبدیلیاں کی جائیں گی چوہدری نثارعلی
اس سارے ڈرامے کو طول دینے کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور بعد میں میڈیا پر عائد ہوتی ہے، چوہدری نثارعلی خان
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا ہے زمردخان کو سیکیورٹی حصار میں گھسنے کی اجازت دینے والے اہلکارو کو برطرف کردیا جائے گا اوراس سارے واقعے کی طوالت کی ذمہ داری مجھ پر اورمیڈیا پر عائد ہوتی ہے۔
لاہور میں میڈیا کو اسلام آباد میں جناح ایونیو پر فائرنگ کرنے والے مسلح شخص سکندر خان کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ جن سیکیورٹی اہلکاروں نے زمرد خان کو اندر آنے کی اجازت دی ان کو برطرف کر دیا جائے گا،میں نے پولیس سے سوال کیا کہ انہوں نے زمرد خان کو سیکیورٹی حصار کو کیوں توڑنے دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد آنے والی ہر گاڑی کو چیک کرنا ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی اس واقعے سے سیکیورٹی کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور پولیس اور اس کے بعد سیکیورٹی اداروں میں تبدیلیاں لائی جائیں گی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اس سارے ڈرامے کو طول دینے کی ذمہ داری پہلے مجھ پر اور بعد میں میڈیا پر عائد ہوتی ہے، اس کے بچوں کی موجودگی میں اس پر گولی چلانا ممکن نہیں تھا اور نشانہ لے کر بھی گولی چلانا مناسب نہیں تھا،سکندر حیات نے ریڈ زون کی خلاف ورزی نہیں کی وہ ریڈ زون سے 2 کلو میٹر دور تھا، تمام اسلحہ اس نے بچوں کے بیگس میں چھپایا ہوا تھا، ہم نے فوری اس کے بارے میں معلومات کر کے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے نہیں ہے اور جب اندھیرا بڑھ گیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ لائٹس بند کر کے اب کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی فلم کی شوٹنگ نہیں تھی اور ہم میڈیا کے سامنے کوئی کارروائی یا آپریشن نہیں کر سکتے تھے، آپریشن کرنے کے لئے ہمیں علاقے کو میڈیا اور عوام سے کلیئر کرانا تھا، میں نے پیمرا سے رابطہ کر کے کہا کہ ہمیں 15 منٹ کا وقت دیا جائے تاکہ ہم آپریشن مکمل کر سکیں۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ سکندر حیات 2 دن سے اسلام آباد میں تھا اور یہاں سیر کے مقصد سے آیا تھا، اس نے گاڑی کرائے پر لی اور 2 مقامات جانے کا عندیہ دیا تھا، اس کی گاڑی رینٹ اے کار کا ڈروائیور چلا رہا تھا جس نے اسپیڈ تیز کی تو پولیس نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن اس نے گاڑی نہ روکی، پولیس نے اگلی چیک پوسٹ پر اطلاع دی انہوں نے بھی اسے رکنے کا اشارہ کیا پھر 20 سے 25 پولیس اہلکاروں نے گاڑیوں میں اس کا تعاقب کیا اور جناح ایوینیو پر سڑک کو پولیس نے بلاک کر دیا۔
چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ سڑک بلاک ہونے کے بعد سکندر حیات نے ون وے پر یو ٹرن لیا اور اس دوران تعاقب میں لگی پولیس کی گاڑیوں نے اس کی گاڑی کو ٹکر ماری، اس سے قبل اس نے گن پوائنٹ پر ڈرائیور کو گاڑی سے باہر نکالا اور خود ڈارئیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پولیس نے اسی دوران مجھے اطلاع دی اور میں نے 3 ہدایات پولیس کو دیں کہ اگر کسی کی جان یا مال خطرے میں نہیں ہے تو پھر اس پر گولی نہ چلائی جائے، اس کے بیوی اور بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اور اگر اس نے کسی کو دھمکی نہیں دی تو پھر اسے زندہ گرفتار کیا جائے۔
پولیس پہلے تو سکندر حیات سے مذاکرات کرکے اسے اپنے مؤقف پر قائل کرنا چاہ رہی تھی، وہ پولیس کے حصار میں تھا اور کسی کے لئے خطرہ نہیں تھا، سکندر نے دبئی میں اپنے بیٹے کی رہائی کا مطالبہ بھی پولیس کے سامنے رکھا تھا، دنیا میں کہیں بھی ایسے واقعات کی براہ راست کوریج نہيں ہوتی لیکن یہاں ملزم ٹی وی پر حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو گالیاں دے رہا تھا، ملزمان کو میڈیا پر ہیرو بنا کر دکھایا جا رہا تھا تو اس کے حوصلے اور بلند ہوتے چلے گئے، میں میڈیا کے اس غیر زمہ دارانہ رویے پر پیمرا سے بات کروں گا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اس وقت سکندر حیات کا اسپتال میں علاج جاری ہے اور اس کی حالت تشویش ناک ہے، 9 گھنٹے تک اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا اور ابھی کچھ دیر قبل اس نے سانس لینا شروع کر دی ہے جو ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کی بیوی تعلیم یافتہ ہیں اور ذہنی طور پر ٹھیک ہیں، اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ سکندر حیات 2009 تک منشیات کا عادی تھا اور اس نے ڈی جی خان میں ایک اسپتال سے اپنا علاج کرایا اور مارچ 2013 میں اس کی حالت کافی بہتر ہو چکی تھی اور اب تک وہ کسی غلط روش یا عادات میں مبتلا نہیں تھا۔
لاہور میں میڈیا کو اسلام آباد میں جناح ایونیو پر فائرنگ کرنے والے مسلح شخص سکندر خان کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ جن سیکیورٹی اہلکاروں نے زمرد خان کو اندر آنے کی اجازت دی ان کو برطرف کر دیا جائے گا،میں نے پولیس سے سوال کیا کہ انہوں نے زمرد خان کو سیکیورٹی حصار کو کیوں توڑنے دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد آنے والی ہر گاڑی کو چیک کرنا ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی اس واقعے سے سیکیورٹی کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور پولیس اور اس کے بعد سیکیورٹی اداروں میں تبدیلیاں لائی جائیں گی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اس سارے ڈرامے کو طول دینے کی ذمہ داری پہلے مجھ پر اور بعد میں میڈیا پر عائد ہوتی ہے، اس کے بچوں کی موجودگی میں اس پر گولی چلانا ممکن نہیں تھا اور نشانہ لے کر بھی گولی چلانا مناسب نہیں تھا،سکندر حیات نے ریڈ زون کی خلاف ورزی نہیں کی وہ ریڈ زون سے 2 کلو میٹر دور تھا، تمام اسلحہ اس نے بچوں کے بیگس میں چھپایا ہوا تھا، ہم نے فوری اس کے بارے میں معلومات کر کے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے نہیں ہے اور جب اندھیرا بڑھ گیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ لائٹس بند کر کے اب کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی فلم کی شوٹنگ نہیں تھی اور ہم میڈیا کے سامنے کوئی کارروائی یا آپریشن نہیں کر سکتے تھے، آپریشن کرنے کے لئے ہمیں علاقے کو میڈیا اور عوام سے کلیئر کرانا تھا، میں نے پیمرا سے رابطہ کر کے کہا کہ ہمیں 15 منٹ کا وقت دیا جائے تاکہ ہم آپریشن مکمل کر سکیں۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ سکندر حیات 2 دن سے اسلام آباد میں تھا اور یہاں سیر کے مقصد سے آیا تھا، اس نے گاڑی کرائے پر لی اور 2 مقامات جانے کا عندیہ دیا تھا، اس کی گاڑی رینٹ اے کار کا ڈروائیور چلا رہا تھا جس نے اسپیڈ تیز کی تو پولیس نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا لیکن اس نے گاڑی نہ روکی، پولیس نے اگلی چیک پوسٹ پر اطلاع دی انہوں نے بھی اسے رکنے کا اشارہ کیا پھر 20 سے 25 پولیس اہلکاروں نے گاڑیوں میں اس کا تعاقب کیا اور جناح ایوینیو پر سڑک کو پولیس نے بلاک کر دیا۔
چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ سڑک بلاک ہونے کے بعد سکندر حیات نے ون وے پر یو ٹرن لیا اور اس دوران تعاقب میں لگی پولیس کی گاڑیوں نے اس کی گاڑی کو ٹکر ماری، اس سے قبل اس نے گن پوائنٹ پر ڈرائیور کو گاڑی سے باہر نکالا اور خود ڈارئیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پولیس نے اسی دوران مجھے اطلاع دی اور میں نے 3 ہدایات پولیس کو دیں کہ اگر کسی کی جان یا مال خطرے میں نہیں ہے تو پھر اس پر گولی نہ چلائی جائے، اس کے بیوی اور بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اور اگر اس نے کسی کو دھمکی نہیں دی تو پھر اسے زندہ گرفتار کیا جائے۔
پولیس پہلے تو سکندر حیات سے مذاکرات کرکے اسے اپنے مؤقف پر قائل کرنا چاہ رہی تھی، وہ پولیس کے حصار میں تھا اور کسی کے لئے خطرہ نہیں تھا، سکندر نے دبئی میں اپنے بیٹے کی رہائی کا مطالبہ بھی پولیس کے سامنے رکھا تھا، دنیا میں کہیں بھی ایسے واقعات کی براہ راست کوریج نہيں ہوتی لیکن یہاں ملزم ٹی وی پر حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو گالیاں دے رہا تھا، ملزمان کو میڈیا پر ہیرو بنا کر دکھایا جا رہا تھا تو اس کے حوصلے اور بلند ہوتے چلے گئے، میں میڈیا کے اس غیر زمہ دارانہ رویے پر پیمرا سے بات کروں گا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اس وقت سکندر حیات کا اسپتال میں علاج جاری ہے اور اس کی حالت تشویش ناک ہے، 9 گھنٹے تک اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا اور ابھی کچھ دیر قبل اس نے سانس لینا شروع کر دی ہے جو ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس کی بیوی تعلیم یافتہ ہیں اور ذہنی طور پر ٹھیک ہیں، اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ سکندر حیات 2009 تک منشیات کا عادی تھا اور اس نے ڈی جی خان میں ایک اسپتال سے اپنا علاج کرایا اور مارچ 2013 میں اس کی حالت کافی بہتر ہو چکی تھی اور اب تک وہ کسی غلط روش یا عادات میں مبتلا نہیں تھا۔