مسائل یا چیلنجز…

نوازشریف کو قسمت کا دھنی کہنا غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے سیاست میں قدم رکھا اور مسلسل آگے بڑھتے گئے۔

KARACHI:
نوازشریف کو قسمت کا دھنی کہنا غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے سیاست میں قدم رکھا اور مسلسل آگے بڑھتے گئے۔ یوں لگتا ہے کہ جمہوریت ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ نواز شریف نے تیسری بار پاکستان کا وزیراعظم بن کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے آغاز میں جس عزم کا اظہار کیا وہی حاصل کیا اور ماضی میں بننے والی حکومتوں کے برعکس مکمل حکومت بنا ڈالی۔ انھوں نے عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوام ملک میں ایسی حکومت کی تشکیل کو یقینی بنائیں جس میں کوئی بھی ایک پارٹی اکثریت رکھتی ہو تاکہ وہ معاملہ فہمی میں وقت ضایع کیے بغیر مسائل کے حل کی طرف توجہ دے۔ قدرت نے ان کی سنی اور ملک میں ن لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ وکٹری خطاب میں انھوں نے کھلے دل سے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر ملک کی خوشحالی کی خاطر تمام سیاسی رہنمائوں سے تعاون مانگا۔ نوازشریف کو وزیراعظم بننے کے ساتھ ہی بے شمار بحرانوں کا سامنا ہے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی تمام مسائل اور چیلنجز میں نمایاں ہیں۔ ان کی حکومت نے طالبان سے امن مذاکرات کے لیے بہت کوششیں کیں لیکن امریکی سازش نے اس میں تعطل پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

میاں صاحب نے بطور وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد پاکستانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے واضح کہہ دیا کہ وہ مربوط قومی پالیسی وضع کرنے کے بعد ہی عوام کو ریلیف دینے کی مہم کا آغاز کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ وہ عوام کو اندھیروں میں نہیں رکھنا چاہتے اور نہ کوئی بلند بانگ دعوئوں سے انھیں گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ابتدائی حکمت عملی کے طور پر بلوچستان میں ن لیگ کی اکثریت کے باوجود نیشنل پارٹی کے عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ گورنر کے لیے پختونخوا میپ کو ترجیح دی تاکہ صوبے میں قائم انتشاری کیفیت میں کمی واقع ہو۔ دراصل میاں صاحب کو احساس ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بہتر بین الاقوامی تعلقات کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے، بالخصوص خطے میں اس کے قریبی دوستوں میں چین نمایاں مقام رکھتا ہے۔ چین اقتصادی طور پر مستحکم ہے اور اس نے ہر مشکل اور کٹھن وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی نو منتخب حکومتوں کی اولین ترجیح چین کا دورہ اور اس سے تعلقات بہتر بنانا ہوتی ہے۔ نوازشریف نے بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے چین کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انھوں نے ملک میں توانائی کے بحران کے خاتمے اور ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے چین کی حکومت اور دیگر نجی اداروں سے مختلف معاہدے کیے۔ چین کے دورے کے اختتام پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے سے زیادہ اہم تشدد پسندی اور دہشت گردی پر قابو پانا ہے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری کے لیے اداروں کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں انتشار کی وجہ سے معاشی ترقی کو پنپنے کا موقع نہیں مل رہا۔


میاں صاحب کی حکومت کے ابتدائی ایام میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ خیبر پختونخوا، کراچی اور بالخصوص بلوچستان میں حالات کی خرابی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تمام دعووں کو مٹی کے ڈھیرکی مانند گرا ڈالا۔ بلوچستان میں وومن یونیورسٹی اور بی ایم سی اسپتال پر حملوں نے وفاق کی دیواریں بھی ہلاڈالیں اور اس سے بڑھ کر قائداعظم ریذیڈنسی تہہ و بالا کرنا سیکیورٹی فورسز کے لیے سوالیہ نشان بن گیا۔ وفاقی وزیرداخلہ اس صورتحال پر برہم ہوئے لیکن بلوچستان کے سیکیورٹی چیف نے اس موقع پر مضحکہ خیز بیان دے ڈالا کہ ہمیں واقعے کی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ بیان کسی عام آدمی یا کسی معمولی اہلکار کا ہوتا تو خیر تھی لیکن ذمے دار کا غیر ذمے دارانہ بیان غمازی کرتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم نے دورہ بلوچستان کے موقع پر کہا کہ کوئٹہ کے بیس بازاروں اور بیس علاقوں کی حفاظت نہیں ہوسکتی ہے تو صوبے کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ ہزارہ ٹائون کے افراد خاص طور پر گزشتہ کافی عرصے سے متاثر دکھائی دیتے ہیں، بلوچ قبائل میں نفرتیں بڑھ چکی ہیں اور بیشتر ناراض بلوچ پہاڑوں پر چلے گئے ہیں۔ مالک بلوچ ان کو منانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور انھوں نے باضابطہ طور پر انھیں مذاکرات کی پیشکش بھی کی ہے تاکہ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جاسکے۔

بلوچ اقوام کے دیرینہ مسائل میں رائلٹی کی مد میں فنڈز کی عدم فراہمی اہم مسئلہ ہے۔ ان کا موقف ہے کہ خیبر پختونخوا کو تربیلا بجلی گھر سے رائلٹی مل رہی ہے اور 1973 کے آئین کے مطابق طے ہے کہ جو قدرتی وسائل جس صوبے میں پیدا ہوتے ہیں اس کی آمدنی اسی صوبے کو ملنی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ گیس کی رائلٹی بلوچستان کو، سندھ کے وسائل کے فنڈز سندھ کو اور بجلی گھر اور دیگر وسائل کی مد میں آمدنی خیبر پختونخوا کو دی جانی چاہیے لیکن دیگر صوبوں کے علاوہ بلوچستان کے عوام اور قبائل اس سے محروم ہیں۔ علاوہ ازیں کئی ادوار سے صوبے کی تعلیمی پسماندگی پر توجہ نہیں دی گئی اور بلوچستان میں کابینہ کی عدم تشکیل بھی اس کی راہ میں رکاوٹ سمجھی جارہی ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال بھی انتہاپسندی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں وفاق مخالف صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ یہ صورتحال بالکل اسی طرح ہے جس طرح ماضی کی پنجاب میں قائم شہباز شریف کی حکومت تھی جو وفاق سے مختلف سیاسی نظریات کی حامل تھی۔ اس کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں ن لیگ کے اقلیتی ونگ کے رہنما عمانوئل نے اپنے قائد کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ 20 روز لگائے رکھا اور رمضان المبارک میں مشروط طور پر ن لیگ کے رہنمائوں کے کہنے پر ختم کیا۔ عمانوئل کا کہنا ہے کہ پارٹی رہنمائوں نے انھیں یکسر نظر انداز کیا ہے جب کہ انھوں نے مشرف کے آمرانہ دور میں مشکلات کے باوجود پارٹی کا پرچم بلند کیے رکھا۔

شدت پسندی ، دہشت گردی اور امن وامان کی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ جیلوں اور پاکستان کے خفیہ اداروں پر حملوں کے علاوہ اب شاعر، ادیب اور پروفیسرز بھی اس کے زیر عتاب ہیں۔ پروفیسر عبدالرزاق لہڑی کی ہلاکت نے علم دوست طبقہ کو بھی خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اب وقت ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اجلاس یا میٹنگ کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔ وفاقی کابینہ بیانات سے کام لینے کے بجائے اداروں میں وقت دے اور موجودہ کرپشن و افسر شاہی کے خلاف کارروائیاں تیز کریں۔
Load Next Story